وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
@اشماریہ بھائی واقعی آپ نے صحیح کہا ہے- اس لیے میں یہاں تھریڈ لگا رہا ہوں جو کہ اسلامک بیلیف والوں کی ویب سائٹ سے لیا ہے - اب اگر ان کی باتوں کی تحقیق نہیں ہو گی تو جو بھی اس کو پڑھے گا وہ یہی سمجھے گا کہ یہ سچ ہے - اسی وجہ سے میں ان لوگوں کی عبارت کو یہاں کوٹ کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں تا کہ باطل کا بے نقاب کیا جا سکے اور اس مضمون پر ایک علمی بحث ہو سکے. اب ہم لوگوں نے یہی سنا ہے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر پوری امت کا اجماع ہے - لیکن یہاں تو کچھ اور ہی لکھا ہے - اب اس پر ایک علمی گفتاگو کی ضرورت ہے - میں نے یہ پوری عبارت پوری کی پوری جیسا کہ وہاں لکھی گئی اسی طرح کوٹ کی ہے -
صحیح مسلم پر کیا اعتراضات ہوئے ہیں؟
جواب
امام مسلم نے صحیح میں ایک مقام پر کہا ہے
قَالَ لَيْسَ کُلُّ شَيْئٍ عِنْدِي صَحِيحٍ وَضَعْتُهُ هَا هُنَا إِنَّمَا وَضَعْتُ هَا هُنَا مَا أَجْمَعُوا عَلَيْهِ
میں نے اس کتاب میں ہر اس حدیث کو نقل کیا جو میرے نزدیک صحیح ہو بلکہ اس میں نے ان احادیث کو بھی نقل کیا ہے جس کی صحت پر سب کا اجماع ہو۔
یعنی بعض احادیث امام مسلم کی اپنی شرط پر نہیں بلکہ دوسروں کے صحیح سمجھنے کی بنا پر لکھی ہیں
البلقيني کہتے ہیں ( محاسن الاصطلاح (ص:91)میں) اس میں ائمہ سے مراد يحيى بن معين، وأحمد بن حنبل، وعثمان بن أبي شيبة، وسعيد بن منصور ہیں
الميانجي کہتے ہیں (ما لا يسع المحدث جهله (ص:27)) اس سے مراد ہیں مالك، والثوري، وشعبة، وأحمد بن حنبل، وغيرهم ہیں
کتاب صيانة صحيح مسلم میں ابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) کہتے ہیں امام مسلم نے جو یہ کہہ دیا ہے
قد اشْتَمَل كِتَابه على أَحَادِيث اخْتلفُوا فِي إسنادها أَو متنها عَن هَذَا الشَّرْط لصحتها عِنْده وَفِي ذَلِك ذُهُول مِنْهُ رحمنا الله
کہ امام مسلم نے اپنی کتاب میں احادیث شامل کیں جن کی اسناد میں اختلاف تھا یا متن میں ان کی اپنی شرط کے مطابق جو صحت تک جاتیں تو یہ امام مسلم کا ذھول (بد احتیاطی) ہے الله رحم کرے
ابن الصلاح اسی کتاب میں اس کو ایک بہت مشکل بات کہتے ہیں
وَهَذَا مُشكل جدا فَإِنَّهُ قد وضع فِيهِ أَحَادِيث قد اخْتلفُوا فِي صِحَّتهَا لكَونهَا من حَدِيث من ذَكرْنَاهُ وَمن لم تذكره مِمَّن اخْتلفُوا فِي صِحَة حَدِيثه وَلم يجمعوا عَلَيْهِ
یعنی امام مسلم خود اس کتاب کو صحیح کہتے ہیں لیکن اپنی شرط پر نہیں دوسرووں کی شرط پر جن کا نام بھی انہوں نے نہیں لیا
امام ابی حاتم امام مسلم کو ثقہ کی بجائے صدوق کہا کرتے
أبا حاتم قال: مسلم بن الحجاج صدوق
الجرح والتعديل از ابن ابی حاتم
ابن ابی حاتم کہتے ہیں
وإذا قيل له إنه صدوق أو محله الصدق أو لا بأس به: فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه
اگر کسی کو صدوق یا محلہ صدق کہا جائے یا اس میں برائی نہیں تو یہ وہ ہے جس کی حدیث لکھ لی جائے اور دیکھی جائے
امام مسلم صحیح کے مقدمہ میں اپنا منہج لکھتے ہیں
فَأَمَّا الْقِسْمُ الْأَوَّلُ، فَإِنَّا نَتَوَخَّى أَنْ نُقَدِّمَ الْأَخْبَارَ الَّتِي هِيَ أَسْلَمُ مِنَ الْعُيُوبِ مِنْ غَيْرِهَا، وَأَنْقَى مِنْ أَنْ يَكُونَ نَاقِلُوهَا أَهْلَ اسْتِقَامَةٍ فِي الْحَدِيثِ، وَإِتْقَانٍ لِمَا نَقَلُوا، لَمْ يُوجَدْ فِي رِوَايَتِهِمْ اخْتِلَافٌ شَدِيدٌ، وَلَا تَخْلِيطٌ فَاحِشٌ، كَمَا قَدْ عُثِرَ فِيهِ عَلَى كَثِيرٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ، وَبَانَ ذَلِكَ فِي حَدِيثِهِمْ فَإِذَا نَحْنُ تَقَصَّيْنَا أَخْبَارَ هَذَا الصِّنْفِ مِنَ النَّاسِ، أَتْبَعْنَاهَا أَخْبَارًا يَقَعُ فِي أَسَانِيدِهَا بَعْضُ مَنْ لَيْسَ بِالْمَوْصُوفِ بِالْحِفْظِ وَالْإِتْقَانِ، كَالصِّنْفِ الْمُقَدَّمِ قَبْلَهُمْ، عَلَى أَنَّهُمْ وَإِنْ كَانُوا فِيمَا وَصَفْنَا دُونَهُمْ، فَإِنَّ اسْمَ السَّتْرِ، وَالصِّدْقِ، وَتَعَاطِي الْعِلْمِ يَشْمَلُهُمْ
قسم اول میں ہم ان احادیث مبارکہ کو بیان کریں گے جن کی اسانید دوسری احادیث کی اسانید اور عیوب ونقائص سے محفوظ ہوں گی اور ان کے راوی زیادہ معتبر اور قوی وثقہ ہوں گے حدیث میں کیونکہ نہ تو ان کی روایت میں سخت اختلاف ہے اور نہ فاحش اختلاط جیسا کہ کثیر محدیثن کی کیفیت معلوم ہوگئی ہے اور یہ بات ان احادیث کی روایت سے پائے ثبوت تک پہنچ چکی ہے پھر ہم اس قسم کے لوگوں کی مرویات کا ذکر کرنے کے بعد ایسی احادیث لائیں گے جن کی اسانید میں وہ لوگ ہوں جو اس درجہ اتقان اور حفظ سے موصوف نہ ہوں جو اوپر ذکر ہوا لیکن تقوی پرہیزگاری اور صداقت وامانت میں ان کا مرتبہ ان سے کم نہ ہوگا کیونکہ ان کا عیب ڈھکا ہوا ہے اور ان کی روایت بھی محدیثن کے ہاں مقبول ہے
امام مسلم صاف لکھ رہے ہیں کہ ان کے صحیح کا معیار یہ ہے کہ اس راوی سے بھی لکھیں گے جو حافظہ میں بہت اچھے نہیں ہیں
امام ابو زرعہ بڑے پائے کے محدث ہیں امام بخاری و مسلم کے استاد ہیں یہاں ان کا تبصرہ صحیح مسلم پر پیش خدمت ہے
قال البرذعي في سؤالاته ( أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية ترجمہ ٦٧٤ ج ٢ ص 674): ((شهدتُ أبا زرعة ذكر كتاب الصحيح الذي ألفه مسلم بن الحجاج، ثم الفضل الصائغ على مثاله، فقال لي أبو زرعة: “هؤلاء قومٌ أرادوا التقدم قبل أوانه، فعملوا شيئاً يتشوفون به. ألفوا كتاباً لم يُسبقوا إليه، ليقيموا لأنفسهم رياسةً قبل وقتها”. وأتاه ذات يومٍ – وأنا شاهدٌ – رجلٌ بكتاب الصحيح مِن رواية مسلم، فجعل ينظر فيه. فإذا حديثٌ عن إسباط بن نصر، فقال لي أبو زرعة: “ما أبعد هذا من الصحيح! يُدخل في كتابه أسباط بن نصر!” ثم رأى في الكتاب قطن بن نسير، فقال لي: “وهذا أطمُّ مِن الأول! قطن بن نسير وصل أحاديث عن ثابت جعلها عن أنس”. ثم نظر فقال: “يروي عن أحمد بن عيسى المصري في كتابه الصحيح”. قال لي أبو زرعة: “ما رأيت أهل مصرٍ يَشُكُّون في أنَّ أحمد بن عيسى” وأشار أبو زرعة بيده إلى لسانه كأنه يقول: الكذب. ثم قال لي: “يُحدِّث عن أمثال هؤلاء، ويترك عن محمد بن عجلان ونظرائه! ويُطرِّق لأهل البدع علينا، فيجدون السبيل بأن يقولوا لحديثٍ إذا احتُجَّ عليهم به: ليس هذا في كتاب الصحيح”. ورأيته يذمُّ وَضْعَ هذا الكتاب ويؤنِّبه. فلما رجعتُ إلى نيسابور في المرة الثانية، ذكرت لمسلم بن الحجاج إنكار أبي زرعة عليه روايته في هذا الكتاب عن أسباط بن نصر وقطن بن نسير وأحمد بن عيسى. فقال لي مسلم: “إنما قلتُ: صحيح، وإنما أدخلتُ مِن حديث أسبط وقطن وأحمد ما قد رواه الثقات عن شيوخهم. إلا أنه ربما وقع إليَّ عنهم بارتفاعٍ، ويكون عندي مِن رواية مَن هو أوثق منهم بنزولٍ، فأقتصر على أولئك. وأصل الحديث معروفٌ مِن رواية الثقات)). اهـ
البرذعي کہتے ہیں میں نے ابو زرعہ کو دیکھا اور ان سے الصحیح کا ذکر کیا جس کی تالیف مسلم بن حجاج نے کی … پس ابو زرعہ نے کہا یہ محدثین کی ایک قوم ہے جو وقت سے پہلے پہلے کام کرنا چاھتے ہیں … لہذا انہوں نے کتابیں تالیف کیں جس کو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تاکہ اپنے تئیں دوسروں پر سردار بنیں وقت سے پہلے اور آج یہ دن ا ہی گیا جسے میں دیکھ رہا ہوں یہ آدمی جس کی کتاب صحیح مسلم ہے اس کی کتاب پر نظر ڈالی تو اس میں اسباط سے روایت کرتا ہے پس ابو زرعہ نے کہا یہ کتاب تو صحیح سے بہت دور ہے اپنی کتاب میں اسباط بن نصر سے روایت کر ڈالی ! پھر انہوں نے دیکھا کتاب میں قطن بن نسیر بھی ہے پس انہوں نے کہا یہ تو اس سے بھی خراب ہے قطن نے ثابت سے اور پھر انس سے روایت ملا دی ہیں پھر ابو زرعہ نے دیکھا احمد بن عیسیٰ المصری پس انہوں نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ اہل مصر اس کے بارے میں شکایت کرتے ہوں سوائے اس کے ، پھر انہوں نے زبان کی طرف اشارہ کیا، کہ یہ جھوٹا ہے پھر کہا اس قسم کے لوگوں سے روایت لے لی ہے اور محمد بن عجلان اور ان کے جیسوں کو چھوڑ دیا ہے اور اہل بدعت کو ہمارے لئے ایک رستہ بنا کر دے دیا ہے پس وہ اس پر ہم سے سبیل پائیں گے اس روایت سے دلیل لی گئی ہے کیا یہ صحیح میں نہیں ؟ اور ان کو دیکھا وہ اس کتاب کو بنانے پر مذمت کرتے پس جب دوسری دفعہ نیشا پور لوٹے پھر امام مسلم کا ذکر ہوا تو ابو زرعہ نے ان کا انکار کیا اور ان کی اسباط بن نصر سے اور قطن سے اور احمد بن عیسیٰ سے روایت کا پس امام مسلم نے مجھ سے کہا میں ان روایات کو صحیح کہا کیونکہ ان راویوں سے شیوخ نے روایت کیا ہے بلاشہ کبھی کبھی میرا (ایمان) ان سے اٹھ جاتا ہے اور میرے پاس ان سے زیادہ ثقہ کی روایت ہوتی ہے تو میں اس کو چھوٹا کر دیتا ہوں اور اصل حدیث تو معروف ہوتی ہے ثقات کی روایت سے
یعنی امام ابو زرعہ کے مطابق امام مسلم نے جلدی جلدی صحیح پر کتب لکھ دیں قبل اس کے ان کا علم ان پر پختہ ہوتا
لوگوں نے امام ابو زرعہ کی رائے کو تعصب یا کم نظری کہا ہے لیکن یہ ان کا منہج ہے اس کی اپنی اہمیت ہے اور ان کا نکتہ نظر نہ صرف ایک استاد کا ہے بلکہ دیکھا جائے تو صحیح بھی ہے
بلاگ میں جو تفصیل اپ نے طلب کی ہے اس کو سمٹنا ممکن نہیں یہ تو ایک ایک باب کی بحث ہے
اس کے لئے اپ کو پہلے علم حدیث میں کافی کچھ سمجھنا ہو گا پھر ہی جا کر اپ کو سمجھ آئے گا کہ یہ اختلاف کیا ہے اور کتنا عمیق ہے
امام ابو زرعہ اور ابن ابی حاتم کے مطابق صحیح مسلم کی یہ روایات معلول ہیں
1- حديث المسح على الخفين والخمار (275
2- حديث كان يذكر الله على كل أحيانه (373
3- حديث ويلٌ للأعقاب مِن النار (240
4- حديث مَن نفَّس عن مؤمنٍ كربةً مِن كرب الدنيا (2699
اس کے علاوہ اوپر تین راویوں کے نام ہیں جن کو ابو زرعہ ضعیف کہتے ہیں اور ایک کو کذاب کہتے ہیں اور امام مسلم روایت کرتے ہیں
————
نوٹ
اس اقتباس میں ایک چیز ہے کہ امام مسلم نے روایت کا متن کم کیا کیونکہ وہ روایات مطول مشھور تھیں
اس کی مثال صحيح مسلم بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَيِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَيْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ مين ہے قرع النعال والی روایت جس کو مختصرا بیان کیا
إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا