• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صدر باراک اوباما سے صدر جنرل ایوب خان تک

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
صدر باراک اوباما سے صدر جنرل ایوب خان تک

کالم: منو بھائی
بدھ 30 ربیع الاول 1436هـ - 21 جنوری 2015م


اکیسویں صدی کی واحد یا اکلوتی رہ جانے والی عالمی سپر پاور اور انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ طاقت ور اور تباہ کن جنگی طاقت ہونے کے باوجود سب سے زیادہ عالمی خطروں میں گھری ہوئی عالمی سرمایہ داری نظام کی جنت ارضی امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر مملکت باراک اوباما اپنی حکومت کے آخری دو سالوں میں بھی مالیاتی لحاظ سے مڈل کلاس کی گراف کو روکنے اور زوال سے بچانے کا بلند بانگ دعویٰ پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور 2009ء سے اب تک ’’وائٹ ہاؤس‘‘ پر قابض گھرانے کی چمڑی کا رنگ تبدیل ہونے کے علاوہ کچھ نہیں بدلا۔ اقوام عالم پر سرمایہ داری نظام کی دو صدیوں کی گرفت ضرور ڈھلی ہوئی ہے۔

نسلوں کے بدترین مالیاتی بحران کے دوران صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد باراک اوباما کی ’’سٹیٹ آف یونین‘‘ تقریر کا غالب حصہ مڈل کلاس کو تباہی سے بچانے کے ارادے کا تھا مگر اس دوران سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافے سے باوصف روزگار کے وسائل میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا۔

سرمایہ داروں کو مزید سرمایہ دار بنانے کے سرمایہ داری نظام کے تحت نفع خوری میں اضافے کے لئے بیشتر شعبوں میں انسانی محنت کشوں سے زیادہ مشینی (روبوٹس) کو بروئے کار لانے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ مشینی کارندے انسانی محنت کشوں کے مقابلے میں سستے پڑتے ہیں اور بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے سرمایہ داری نظام ترقی کی راہوں پر ’’غلام داری نظام‘‘ کی طرف ’’یو ٹرن‘‘ لینے پر مجبور ہو رہا ہے۔

امریکی معیشت نے صدر اوباما کے دور حکومت میں کچھ ہوش ضرور سنبھالا ہے مگر امریکی مڈل کلاس ابھی تک مالیاتی بحران کے بدترین چنگل میں ہے۔ ’’امریکی فیڈرل ریزرو‘‘ کے مطابق وسطی طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے اور فیملیز کی آمدنی میں اس دوران نمایاں کمی دکھائی دی ہے اور ان کے اثاثوں کی مالیت بھی کمزور ہوئی ہے۔ باراک اوباما کے عہد صدارت میں 2009ء سے 2013ء تک کے چھ سالوں میں بہت اوپر کی کلاس اور بہت نیچے کی سطح پر روزگار کے وسائل میں اضافہ ہوا ہے مگر جیسے زراعت کے شعبوں میں آلات کے استعمال میں اضافے سے محنت کشوں کی بے روزگاریوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ویسے ہی کمپیوٹرز سے لے کر ’’روبوٹس‘‘ تک کے استعمال نے عالمی سرمایہ داری نظام کی گرفت میں آئے ہوئے علاقوں میں بے روزگاروں کی تعداد خوفناک حد تک بڑھا دی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں اگر انسانیت کو غرق کرنے والا سیلاب ٹھنڈ تنور سے برآمد ہوا تھا تو آنے والے انقلابات محنت کشوں کے ٹھنڈے چولہوں سے جنم لے سکتے ہیں۔ زیادہ سرمایہ کاری کے باوجود روزگار کے وسائل میں بہت کم اضافے کی ایک مثال یہ دی گئی ہے کہ ایک صنعت کے ہنر مند کارکنوں کی تعداد ’’پری ری سیشن‘‘ کے عرصے میں 28 ہزار تھی اور اب صرف پانچ ہزار رہ گئی ہے۔ 23 ہزار ملازمتیں مشینیں کھا گئی ہیں اور گزشتہ پانچ چھ سالوں کے عرصے میں امریکہ کے ڈالروں میں ارب پتی لوگوں کی تعداد پہلے سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہو گئی ہے اور بے روزگار حد نگاہ تک پھیل گئے ہیں اور پہلے سے کمتر تنخواہوں اور اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔

صدر باراک اوباما کے عہد صدارت میں معاشی شعبے کی مڈل کلاس کا جو نقشہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق 2013ء تک پہنچنے والے چھ سالوں میں مڈل کلاس کی پانچویں اوسط کی کمائی 53 ہزار آٹھ ڈالروں سے گھٹ کر 47 ہزار دو سو 43 ڈالرز رہ گئی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ پاکستان میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے دنوں میں زرعی اصلاحات کے ماہرین نے حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ پاکستان میں بکریاں پالنے پر پابندی عائد کر دی جائے کیونکہ بکری جب کسی پودے کو کھاتی ہے تو اسے جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے۔ یار لوگوں نے اس تجویز کے زیر اثر اشتہارات بھی تیار کرنے شروع کر دیئے۔ ایک اشتہار میں شاعر نے لکھا کہ؎

کہی کیا بات ایوب جری نے
کہ پاکستان کی دشمن ہے بکری

ایک تجویز میں کہا گیا تھا کاشت کاروں کی مرغیاں کھیتوں کی زرعی پیداوار کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ کھیتوں میں جو فصلوں کا بیج ڈالا جاتا ہے اس کا ایک نمایاں حصہ مرغیاں اور چوزے کھا جاتے ہیں چنانچہ دیہات میں مرغیاں پالنے پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ اس سلسلے میں تحقیقات کے لئے گھر سے روانہ ہونے والی ایک ٹیم ایک گائوں پہنچی اور وہاں کے میراثی سے پوچھا گیا کہ تمہاری کتنی مرغیاں ہیں اس نے بتایا کہ پانچ ہیں۔ پوچھا گیا کہ یہ مرغیاں کھاتی کیا ہیں؟ میراثی نے جواب دیا کہ معلوم نہیں کیا کھاتی ہیں صبح ڈربے سے نکالتے ہی ہر مرغی کو آٹھ آٹھ آنے دیتا ہوں اس میں جتنا کچھ اور جو کچھ بھی آ جائے کھا لیتی ہوں گی۔

ح
 
Top