عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
صلاۃ الضحی: فضائل و احکام
تحریر: عمر اثری سنابلی
قرآن و حدیث میں نوافل کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے۔ یہ فرض نمازوں کے نقص کو پورا کرتی ہیں۔ (ابو داؤد: 864، ابن ماجہ: 1425۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے) ان کے ذریعہ درجات بلند ہوتے ہیں اور گناہ مٹا دئے جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم: 488) ان کے ذریعہ جنت میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رفاقت حاصل ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم: 489) یہ گھر میں خیر و برکت کے نزول کا سبب (صحیح مسلم: 778) اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہیں۔ (صحیح بخاری: 6502) انہیں نوافل میں سے ایک اہم نفل نماز ”صلاۃ الضحی“ ہے۔ اس مقالہ میں صلاۃ الضحی کے فضائل و احکام کو بیان کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
صلاۃ الضحی کا حکم:
اس تعلق سے چھ موقف ذکر کئے گئے ہیں:
① یہ نماز مستحب ہے۔
② بغیر کسی سبب کے یہ مشروع نہیں۔
③ گھر میں دائمی طور پر پڑھنا مستحب ہے۔
④ اصلا مستحب نہیں۔
⑤ کبھی پڑھنا اور کبھی نہ پڑھنا مستحب ہے۔
⑥ یہ بدعت ہے۔
راجح: صلاۃ الضحی مستحب ہے۔ اسکی دلیل:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّى أَمُوتَ: صَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَصَلَاةِ الضُّحَى، وَنَوْمٍ عَلَى وِتْرٍ
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے میرے جانی دوست (نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ میں ان کو نہ چھوڑوں حتی کہ مجھے موت آ جائے: ہر مہینہ میں تین دن روزے، صلاۃ الضحی اور وتر پڑھ کر سونا۔
(صحیح بخاری: 1178، صحیح مسلم: 721)
صلاۃ الضحی کے فضائل:
➊ یہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وصیت ہے۔ اسکی دلیل حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ہے جو ابھی اوپر گزری ہے۔
نیز ابو درداء رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس کو صحیح مسلم میں ذکر کیا ہے:
أَوْصَانِي حَبِيبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ، لَنْ أَدَعَهُنَّ مَا عِشْتُ: بِصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَصَلَاةِ الضُّحَى، وَبِأَنْ لَا أَنَامَ حَتَّى أُوتِرَ
ترجمہ: میرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی تلقین فرمائی ہے، جب تک میں زندہ رہوں گا ان کو کبھی ترک نہیں کروں گا: ہر ماہ تین دنوں کے روزے، چاشت کی نماز اور یہ کہ جب تک وتر نہ پڑھ لوں نہ سوؤں۔
(صحیح مسلم: 722)
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وصية النبي صلي الله عليه وسلم لأبي الدرداء وأبي هريرة رضي الله عنهما تدل: على فضيلة الضحى، وكثرة ثوابه، وتأكده، ولذلك حافظا عليه ولم يتركاه
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ابو درداء اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کو وصیت کرنا صلاۃ الضحی کی فضیلت، اس کے کثرت ثواب اور تاکیدی عمل پر دلالت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس پر محافظت برتی اور اسے کبھی نہیں چھوڑا۔
(المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم للقرطبی ط دار ابن کثیر: 2/359)
➋ صلاۃ الضحی بہت سارے صدقات سے کفایت کر جاتی ہے:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ؛ فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَى
ترجمہ: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”صبح کو تم میں سے ہر ایک شخص کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہوتا ہے۔ پس ہر ایک تسبیح (ایک دفعہ ”سبحان اللہ“ کہنا) صدقہ ہے۔ ہر ایک تحمید (الحمد للہ کہنا) صدقہ ہے، ہر ایک تہلیل (لا الہ الا اللہ کہنا) صدقہ ہے، ہر ایک تکبیر (اللہ اكبر کہنا) بھی صدقہ ہے۔ (کسی کو) نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور (کسی کو) برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔ اور ان تمام امور کی جگہ دو رکعتیں جو انسان چاشت کی پڑھتا ہے، کفایت کرتی ہیں۔
(صحیح مسلم: 720)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَجْزِي مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَى ضَبَطْنَاهُ وَيَجْزِي بِفَتْحِ أَوَّلِهِ وَضَمِّهِ فَالضَّمُّ مِنَ الْإِجْزَاءِ وَالْفَتْحُ من جزى يجزئ أَيْ كَفَى وَمِنْهُ قَوْلُهُ تَعَالَى لَا تَجْزِي نَفْسٌ وَفِي الْحَدِيثِ لَا يَجْزِي عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى عِظَمِ فَضْلِ الضُّحَى وَكَبِيرِ مَوْقِعِهَا وَأَنَّهَا تَصِحُّ رَكْعَتَيْنِ
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان ”وَيَجْزِي مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَى“ میں ”وَيَجْزِي“ کو پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ”یاء“ پر ضمہ پڑھا جائے، ایسی صورت میں اسکا مطلب ہوگا: قائم مقام ہونا (یعنی یہ دو رکعتیں صدقہ کے قائم مقام ہو جائیں گے) یا پھر اس پر فتحہ پڑھا جائے، ایسی صورت میں اس کا مطلب ہوگا: کافی ہونا۔ اسی معنی میں اللہ کا فرمان ”لَا تَجْزِي نَفْسٌ“ اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ”لَا يَجْزِي عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ“ استعمال ہوا ہے۔ اور اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ صلاۃ الضحی کی بہت فضیلت ہے اور اس کا بڑا مقام ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صلاۃ الضحی دو رکعتیں پڑھنا صحیح ہے۔
(المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ط دار احیاء التراث العربی: 5/234)
➌ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے حریص تھے:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى أَرْبَعًا، وَيَزِيدُ مَا شَاءَ اللَّهُ
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صلاۃ الضحی چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہتا زیادہ (بھی) پڑھ لیتے۔
(صحیح مسلم: 719)
➍ صلاۃ الضحی ”اوابین“ کی صلاۃ ہے اور اس کی پابندی صرف ”اوابین“ ہی کرتے ہیں:
صلاة الضحى صلاة الأوابين
ترجمہ: صلاۃ الضحی اوابین کی صلاۃ ہے۔
(صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ للالبانی ط المکتب الاسلامی: 2/712، حدیث نمبر: 3827)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُحَافِظُ عَلَى صَلَاةِ الضُّحَى إِلَّا أَوَّابٌ
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صلاۃ الضحی کی پابندی صرف ”اواب“ ہی کرتا ہے۔
(صحیح ابن خزیمہ ط المکتب الاسلامی: 2/228، حدیث نمبر: 1224)
➎ جو صلاۃ الضحی کی چار رکعتیں ادا کرتا ہے اللہ جل شانہ اس کے لئے پورے دن کے لئے کافی ہوجاتا ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں ارشاد ربانی ہے:
ابْنَ آدَمَ، ارْكَعْ لِي مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، أَكْفِكَ آخِرَهُ
ترجمہ: اے ابن آدم! تو دن کے شروع میں میرے لئے چار رکعتیں پڑھا کر، میں پورے دن تیرے لئے کافی ہوں گا۔
(سنن ترمذی: 475، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے)
علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ قِيلَ الْمُرَادُ صَلَاةُ الضُّحَى وَقِيلَ صَلَاةُ الْإِشْرَاقِ وَقِيلَ سُنَّةُ الصُّبْحِ وَفَرْضُهُ لِأَنَّهُ أَوَّلُ فَرْضِ النَّهَارِ الشَّرْعِيِّ، قُلْتُ: حَمَلَ الْمُؤَلِّفُ وَكَذَا أَبُو دَاوُدَ هَذِهِ الرَّكَعَاتِ عَلَى صَلَاةِ الضُّحَى وَلِذَلِكَ أَدْخَلَا هَذَا الْحَدِيثَ فِي بَابِ صَلَاةِ الضُّحَى (أَكْفِكَ) أَيْ مُهِمَّاتِكَ (آخِرَهُ) أَيِ النَّهَارِ۔ قَالَ الطِّيبِيُّ أَيْ أَكْفِكَ شُغْلَكَ وَحَوَائِجَكَ وَأَدْفَعُ عَنْكَ مَا تَكْرَهُهُ بَعْدَ صَلَاتِكَ إِلَى آخِرِ النَّهَارِ: وَالْمَعْنَى أَفْرِغْ بَالَكَ بِعِبَادَتِي فِي أَوَّلِ النَّهَارِ أُفْرِغْ بَالَكَ فِي آخِرِهِ بِقَضَاءِ حَوَائِجِكَ
ترجمہ: حدیث میں مذکور ”دن کے ابتدائی حصے“ سے مراد ایک قول کے مطابق صلاۃ الضحی ہے اور ایک قول کے مطابق صلاۃ اشراق ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد فجر کی سنتیں اور فرض ہیں کیونکہ شرعی طور پر وہ دن کی پہلی فرض (نماز) ہے۔ میں (علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ) کہتا ہوں کہ مولف (امام ترمذی) اور ابو داؤد رحمہما اللہ نے ان چار رکعتوں سے مراد صلاۃ الضحی ہی لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو صلاۃ الضحی کے باب میں ذکر کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ ”میں تمہیں کافی ہو جاؤں گا“ یعنی تمہاری ضروریات کو پورا کروں گا۔ اسی طرح ”آخری حصہ میں“ یعنی دن کے آخری حصہ میں۔ طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ میں تمہاری ضروریات اور حاجات کے لئے کافی ہو جاؤں گا، تمہاری چار رکعتوں سے فراغت کے بعد تمہیں پہنچنے والی ہر ناپسندیدہ چیز سے تمہارا دفاع کروں گا۔ یعنی میری عبادت کے لئے دن کے ابتدائی حصے میں تم وقت نکالو، میں دن کے آخری لمحے میں تمہاری حاجت روائی کر کے ذہنی اطمنان دوں گا۔
(تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی للمباركفورى ط دار الفکر: 2/585)
➏ صلاۃ الضحی ایک عظیم غنیمت ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، فَغَنِمُوا، وَأَسْرَعُوا الرَّجْعَةَ، فَتَحَدَّثَ النَّاسُ بِقُرْبِ مَغْزَاهُمْ، وَكَثْرَةِ غَنِيمَتِهِمْ، وَسُرْعَةِ رَجْعَتِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَقْرَبَ مِنْهُ مَغْزًى، وَأَكْثَرَ غَنِيمَةً، وَأَوْشَكَ رَجْعَةً؟ مَنْ تَوَضَّأَ، ثُمَّ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ لِسُبْحَةِ الضُّحَى، فَهُوَ أَقْرَبُ مَغْزًى، وَأَكْثَرُ غَنِيمَةً، وَأَوْشَكُ رَجْعَةً
ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا، پس انہوں نے غنیمت حاصل کی اور جلدی واپس لوٹ آئے، لوگوں نے اس غزوے میں (لڑائی کے) جلدی ختم ہو جانے، کثیر مقدار میں غنیمت حاصل کرنے اور ان کے جلدی واپس لوٹ آنے کے بارے میں باتیں کیں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہاری اس چیز کی طرف رہنمائی نہ کردوں کہ جو غزوہ کے لحاظ سے نزدیک ہو، غنیمت کے لحاظ سے زیادہ ہو اور لوٹنے کے لحاظ سے بھی قریب ہو؟ جس نے وضو کیا، پھر چاشت کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد گیا، وہ شخص غزوہ کے لحاظ سے نزدیک ہے اور زیادہ غنیمت والا اور جلدی لوٹنے والا ہے۔
(مسند احمد ط الرسالۃ: 6638، صحیح ابن حبان: 2526۔ مسند احمد کے محققین نے اس حدیث کو ”حسن لغیرہ“ کہا ہے۔ جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ کا حکم لگایا ہے)
➐ صلاۃ الضحی سے عمرہ کا ثواب حاصل ہوتا ہے:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ، فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ، وَمَنْ خَرَجَ إِلَى تَسْبِيحِ الضُّحَى، لَا يُنْصِبُهُ إِلَّا إِيَّاهُ، فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ، وَصَلَاةٌ عَلَى أَثَرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ
ترجمہ: ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لئے نکلے، تو اس کا ثواب احرام باندھنے والے حاجی کے ثواب کی طرح ہے، اور جو صلاۃ الضحی کے لئے نکلے اور اسی کی خاطر تکلیف برداشت کرتا ہو تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کی طرح ہے، اور ایک نماز سے لے کر دوسری نماز کے بیچ میں کوئی لغو کام نہ ہو تو وہ علیین میں لکھی جاتی ہے۔
(سنن ابی داؤد: 558، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ”حسن“ قرار دیا ہے)
➑ یہ ایسے وقت میں ادا کی جاتی ہے جس وقت نماز کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے:
صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ؛ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ صَلِّ؛ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ
ترجمہ: صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل کر بلند ہوجائے کیونکہ وہ جب طلوع ہوتا ہے تو شیطان (اپنے سینگوں کو آگے کر کے یوں دکھاتا ہے جیسے وہ اس) کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس (سورج) کو سجدہ کرتے ہیں، اس کے بعد نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس میں (فرشتے) حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے ساتھ لگ جائے (سورج بالکل سر پر آجائے)۔
(صحیح مسلم: 832)
➒ صلاۃ فجر کی ادائیگی کے بعد سورج نکلنے تک اللہ کا ذکر کرنے، اس کے بعد دو رکعتیں ادا کرنے سے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب حاصل ہوتا ہے:
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ۔ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ
ترجمہ: انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز فجر جماعت سے پڑھی پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکل گیا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو اسے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: پورا، پورا، پورا، یعنی حج و عمرے کا پورا ثواب۔
(سنن ترمذی: 586۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ”حسن“ قرار دیا ہے)
علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ اسکی تشریح میں لکھتے ہیں:
قَوْلُهُ (ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ) أَيْ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَ الطِّيبِيُّ: أَيْ ثُمَّ صَلَّى بَعْدَ أَنْ تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ قَدْرَ رُمْحٍ حَتَّى يَخْرُجَ وَقْتُ الْكَرَاهَةِ، وَهَذِهِ الصَّلَاةُ تُسَمَّى صَلَاةَ الْإِشْرَاقِ وَهِيَ أَوَّلُ صَلَاةِ الضُّحَى
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ”پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں“ یعنی سورج طلوع ہونے کے بعد۔ طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ نیزے کے برابر سورج طلوع ہونے کے بعد جب مکروہ وقت ختم ہوگیا تو دو رکعتیں ادا کیں، اس نماز کو نماز اشراق کہا جاتا ہے جو کہ صلاۃ الضحی کی ابتدائی صورت ہے۔
(تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی للمباركفورى ط دار الفکر: 3/194)
ظاہری تعارض اور تطبیق:
تعارض:
اوپر ذکر کی گئی تفاصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ صلاۃ الضحی ایک مستحب اور سنت موکدہ نماز ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کا اہتمام کیا ہے اور صحابہ کو بھی اس کی ترغیب دی ہے۔ لیکن صلاۃ الضحی ہی کے تعلق سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے دو طرح کی روایات منقول ہیں۔ ایک میں اثبات ہے اور ایک میں نفی۔ اثبات کے متعلق حدیث گزر چکی ہے جس میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم صلاۃ الضحی چار رکعتیں یا جس قدر اللہ چاہتا ادا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم: 719) جبکہ نفی کی روایت بایں الفاظ مروی ہے:
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي سُبْحَةَ الضُّحَى قَطُّ، وَإِنِّي لَأُسَبِّحُهَا، وَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَدَعُ الْعَمَلَ وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ؛ خَشْيَةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ، فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو چاشت کی نفل پڑھتے نہیں دیکھا، حالانکہ میں صلاۃ الضحی پڑھتی ہوں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کسی کام کو کرنا پسند فرماتے تھے لیکن اس ڈر سے کہ لوگ (بھی آپ کو دیکھ کر) وہ کام کریں گے اور (ان کی دلچسپی کی بنا پر) وہ کام ان پر فرض کر دیا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کام کو چھوڑ دیتے تھے۔
(صحیح بخاری: 1128، صحیح مسلم: 718 واللفظ لہ)
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم صلاۃ الضحی پڑھتے تھے تو انہوں نے کہا:
لَا، إِلَّا أَنْ يَجِيءَ مِنْ مَغِيبِهِ
ترجمہ: نہیں، الا یہ کہ باہر (سفر) سے واپس آئے ہوں۔
(صحیح مسلم: 717)
تطبیق:
اثبات و نفی کی روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے چاشت کی نماز کا اثبات اس خبر کی بنیاد پر کیا جو ان تک پہنچی تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم چار رکعات ادا کرتے تھے اور انہوں نے نفی اپنے نہ دیکھنے کی کی ہے یعنی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو صلاۃ الضحی صرف اسی وقت پڑھتے ہوئے دیکھا تھا جب وہ باہر رہنے کے بعد (یعنی سفر سے) واپس آئے ہوں۔ اور جہاں تک عائشہ رضی اللہ عنہا کے اپنے فعل کا تعلق ہے کہ وہ صلاۃ الضحی پڑھتی تھیں تو یہ اس بنا پر تھا کہ انہیں صلاۃ الضحی کی فضیلت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث پہنچی تھیں اور دوسرا یہ کہ انہیں یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی چاشت کے نماز پڑھتے تھے۔
(مستفاد من سبل السلام: 3/60)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَغَايَةُ الْأَمْرِ أَنَّهَا أَخْبَرَتْ عَمَّا بَلَغَ إلَيْهِ عِلْمُهَا۔ وَغَيْرُهَا مِنْ أَكَابِرِ الصَّحَابَةِ أَخْبَرَ بِمَا يَدُلّ عَلَى الْمُدَاوَمَةِ وَتَأَكُّدِ الْمَشْرُوعِيَّةِ، وَمَنْ عَلِمَ حُجَّةً عَلَى مَنْ لَمْ يَعْلَمْ، لَا سِيَّمَا وَذَلِكَ الْوَقْتُ الَّذِي تُفْعَلُ فِيهِ لَيْسَ مِنْ الْأَوْقَاتِ الَّتِي تُعْتَادُ فِيهَا الْخَلْوَةُ بِالنِّسَاءِ
ترجمہ: خلاصہ یہ ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے علم کے مطابق خبر دی ہے حالانکہ ان کے علاوہ دیگر کئی اکابر صحابہ کی روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صلاۃ الضحی سنت مؤکدہ ہے اور اس پر دوام برتنی چاہئے اور جس کو علم حاصل ہے وہ اس پر حجت ہے جس کو علم حاصل نہیں۔ خاص طور پر یہ بات مد نظر رہے کہ صلاۃ الضحی ان اوقات میں نہیں پڑھی جاتی جن میں عموما عورتوں کے ساتھ خلوت ہوتی ہے۔
(نیل الاوطار للشوکانی ط دار ابن الجوزی: 5/222)
دکتور سعید بن علی بن وہف القحطانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”صلاۃ التطوع“ میں لکھتے ہیں:
وسمعت الإمام عبد العزيز بن عبد الله بن باز - رحمه الله - أثناء تقريره على بلوغ المرام، الحديث رقم 415 417 يقول: والجمع بين الروايات أن يقال: إن الإثبات كان أولاً ثم نسيت، أو أن النفي كان أولاً ثم ذكرت، وما أثبتت من حجة مقدم على ما نفت، كما لو كان عن صحابيين فالمثبت مقدم على النافي
ترجمہ: میں نے علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے بلوغ المرام کی حدیث: 415-417 کی شرح کے دوران سنا تھا کہ ان روایات میں تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلے اس نماز کے اثبات کی خبر دی پھر شاید وہ بھول گئیں یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پہلے نفی کی ہو پھر انہیں یاد آگیا ہو۔ بہرحال اثبات نفی پر حجت ہے جیسا کہ اثبات اور نفی اگر الگ الگ صحابی سے مروی ھوتے تو ثابت کرنے والے کو نفی کرنے والے پر مقدم کیا جاتا۔
(صلاۃ التطوع: 95)
صلاۃ الضحی کا وقت:
سب سے پہلے یہ واضح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ صلاۃ الضحی ہی صلاۃ اشراق اور صلاۃ اوابین ہے۔ اور صلاۃ الضحی کا وقت ایک نیزے کے برابر سورج کے بلند ہونے سے لے کر زوال آفتاب سے کچھ پہلے تک جاری رہتا ہے (تقريبا سورج طلوع ہونے كے پندرہ منٹ بعد سے ليكر نماز ظہر سے تقريبا دس منٹ قبل تک ہے) جیسا کہ حدیث عمرو رضی اللہ عنہ میں موجود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ؛ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ صَلِّ؛ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ
ترجمہ: صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل کر بلند ہوجائے کیونکہ وہ جب طلوع ہوتا ہے تو شیطان (اپنے سینگوں کو آگے کر کے یوں دکھاتا ہے جیسے وہ اس) کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس (سورج) کو سجدہ کرتے ہیں، اس کے بعد نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس میں (فرشتے) حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے ساتھ لگ جائے (سورج بالکل سر پر آجائے)۔
(صحیح مسلم: 832)
جبکہ اس کا افضل وقت اس وقت ہے جب شدت گرمی سے اونٹ کے دودھ چھڑائے جانے والے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں (اور علماء كرام نے اس كا اندازہ دن كا چوتھائى حصہ لگايا ہے، يعنى ظہر اور طلوع شمس كے مابين نصف وقت):
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ قُبَاءَ، وَهُمْ يُصَلُّونَ، فَقَالَ : صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ إِذَا رَمِضَتِ الْفِصَالُ
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اہل قباء کے پاس تشریف لائے، وہ لوگ (اس وقت) نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا: اوابین کی نماز اس وقت ہوتی ہے، جب (گرمی سے) اونٹ کے دودھ چھڑائے جانے والے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔
(صحیح مسلم: 748)
جمہور کا مذہب افضل وقت کے متعلق یہی ہے۔ احناف، شافعیہ اور حنابلہ اسی کے قائل ہیں۔
اور اسی کو اگر اول وقت میں ادا کیا جائے تو اس کو نماز اشراق کہتے ہیں۔ گویا کہ صلاۃ الضحی اور اشراق کی نماز ایک ہی نماز ہیں یہ دو مختلف نمازیں نہیں۔
شيخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
صلاة الإشراق هي صلاة الضحى في أول وقتها
ترجمہ: اول وقت ميں چاشت كى نماز ادا كرنا ہی اشراق كى نماز كہلاتا ہے۔
(مجموع فتاوی ابن باز: 11/401)
کیا صلاۃ الضحی اور صلاۃ اوابین الگ الگ نمازیں ہیں:
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ صلاۃ اوابین ہی صلاۃ الضحی ہے:
صلاة الضحى صلاة الأوابين
ترجمہ: صلاۃ الضحی اوابین کی صلاۃ ہے۔
(صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ للالبانی ط المکتب الاسلامی: 2/712، حدیث نمبر: 3827)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُحَافِظُ عَلَى صَلَاةِ الضُّحَى إِلَّا أَوَّابٌ
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صلاۃ الضحی کی پابندی صرف ”اواب“ ہی کرتا ہے۔
(صحیح ابن خزیمہ ط المکتب الاسلامی: 2/228، حدیث نمبر: 1224)
مزید حدیث میں صلاۃ اوابین (صلاۃ الضحی) کا وقت بھی بتایا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ قُبَاءَ، وَهُمْ يُصَلُّونَ، فَقَالَ : صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ إِذَا رَمِضَتِ الْفِصَالُ
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اہل قباء کے پاس تشریف لائے، وہ لوگ (اس وقت) نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا: اوابین کی نماز اس وقت ہوتی ہے، جب (گرمی سے) اونٹ کے دودھ چھڑائے جانے والے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔
(صحیح مسلم: 748)
مذکورہ بالا احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صلاۃ الضحی اور صلاۃ اوابین ایک ہی نماز ہیں اور یہ ظہر سے پہلے ہی پڑھی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ مغرب کے بعد صلاۃ اوابین پڑھتے ہیں اور صلاۃ اوابین کو ایک مستقل نفل نماز قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کرتے ہیں، جو کہ ضعیف ہیں:
پہلی روایت:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ مَا بَيْنَ أَنْ يَنْكَفِتَ أَهْلُ الْمَغْرِبِ، إِلَى أَنْ يُثَوَّبَ إِلَى الْعِشَاءِ
ترجمہ: ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ صلاۃ الاوابین (کا وقت) اس وقت سے ہے جب نمازی مغرب کی نماز سے فارغ ہوں اور یہ عشاء کا وقت آنے تک رہتا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ط دار القبلۃ: 4/266، حدیث نمبر: 5973)
یہ موقوف روایت ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں ایک راوی موسیٰ بن عبیدہ ہے۔ جسے امام احمد بن حنبل اور ابو حاتم رحمہما اللہ نے ‘‘منکر الحدیث’’ قرار دیا ہے، نیز امام ابن معین، علی بن مدینی، ترمذی اور نسائی رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی اس پر جرح کی ہے۔
(دیکھیں: تہذیب الکمال للمزی ط مؤسسۃ الرسالۃ: 29/104)
دوسری روایت:
عن ابن عباس قال: الملائكة لتحف بالذين يصلون بين المغرب والعشاء وهي صلاة الأوابين
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہی صلاۃ اوابین ہے۔
(شرح السنۃ للبغوی ط المکتب الاسلامی: 3/474)
یہ روایت بھی قابل حجت نہیں ہے کیونکہ امام بغوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صیغہ تمریض سے بیان کیا ہے جو اس روایت کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
تیسری روایت:
عن محمد بن المنكدر يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم: من صلى ما بين صلاة المغرب إلى صلاة العشاء، فإنها صلاة الأوابين
ترجمہ: محمد بن المنکدر رحمہ اللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھی تو یہ اوابین کی نماز ہے۔
(مختصر قیام اللیل للمروزی: 88)
یہ حدیث مرسل ہونے کی بنا پر ضعیف ہے۔
(تفصیل کے لئے دیکھیں، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: 4617)
چوتھی روایت:
عن ابن المنكدر وأبي حازم يقولان : ”تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ“ هي ما بين المغرب وصلاة العشاء، صلاة الأوابين
ترجمہ: ابن المنکدر اور ابو حازم رحمہما اللہ ”تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد مغرب اور عشاء کے درمیان کی نماز ہے (جسے) صلاۃ اوابین کہا جاتا ہے۔
(السنن الکبری للبیہقی ط دار الکتب العلمیۃ: 3/29، حدیث نمبر: 4750، شعب الایمان للبیہقی ط مکتبۃ الرشد: 4/478، حدیث نمبر: 2840، مختصر قیام اللیل للمروزی: 38)
اس کی سند میں ابن لہیعہ موجود ہیں جو کہ ”عبادلہ“ کے علاوہ کی روایت میں ضعیف ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مغرب کے بعد صلاۃ اوابین کی ادائیگی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ صلاۃ الضحی ہی صلاۃ اوابین ہے، جیسا کہ اوپر احادیث گزر چکی ہیں جو کہ صحیح ہیں۔ لہذا اس کے بالمقابل ضعیف روایات سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ اسی لئے علماء کرام کی ایک جماعت نے مغرب اور عشاء کے درمیان صلاۃ اوابین کی ادائیگی کو غیر مشروع قرار دیا ہے اور یہ صراحت کی ہے کہ مغرب اور عشاء کے درمیان صلاۃ اوابین کی ادائیگی کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
صلاۃ الضحی کی رکعات:
صلاۃ الضحی کی کم سے کم رکعات دو ہیں۔ اور اس میں چاروں فقہی مذاہب یعنی احناف، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ کا اتفاق ہے۔ اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ؛ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے ہر مہینے کی تین تاریخوں میں روزہ رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ اسی طرح چاشت کی دو رکعتوں کی بھی وصیت فرمائی تھی اور اس کی بھی کہ سونے سے پہلے ہی میں وتر پڑھ لیا کروں۔
(صحیح بخاری: 1981، صحیح مسلم: 721)
ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ دَلِيلٌ عَلَى اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى، وَأَنَّهَا رَكْعَتَانِ، وَلَعَلَّهُ ذَكَرَ الْأَقَلَّ الَّذِي تَوَجَّهَ التَّأْكِيدُ لِفِعْلِهِ
ترجمہ: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ صلاۃ الضحی مستحب ہے اور یہ کہ صلاۃ الضحی دو رکعات ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ نے کم سے کم رکعات کا ذکر کیا ہے جو آپ کے فعل کی تاکید کو واضح کرتا ہے۔
(احکام الاحکام شرح عمدۃ الاحکام لابن دقیق العید ط عالم الکتب: 2/33)
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے صلاۃ الضحی دو رکعت سے کم ثابت نہیں ہے۔
(شرح منتہی الارادات للبھوتی ط عالم الکتب: 1/249)
مزید یہ کہ شریعت اسلامیہ میں وتر کے علاوہ کسی اور نماز میں دو سے کم رکعات مشروع نہیں ہیں۔ لہذا ایک رکعت نفل کسی بھی نماز میں نہیں پڑھی جاتی ہے سوائے وتر کی نماز کے۔
(الشرح الممتع على زاد المستقنع لابن عثیمین ط دار ابن الجوزی: 4/84)
صلاۃ الضحی زیادہ سے زیادہ کتنی رکعت ہیں اس مسئلہ میں علماء کے کئی اقوال ہیں۔ ان میں سے تین اقوال زیادہ مضبوط ہیں۔
پہلا قول: صلاۃ الضحی کی زیادہ سے زیادہ رکعات آٹھ ہیں۔ یہ جمہور کا یعنی مالکیہ، شافعیہ (معتمد قول کے مطابق) اور حنابلہ کا مذہب ہے۔ ان کی دلیل:
أَنَّهُ لَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ بِأَعْلَى مَكَّةَ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى غُسْلِهِ، فَسَتَرَتْ عَلَيْهِ فَاطِمَةُ، ثُمَّ أَخَذَ ثَوْبَهُ فَالْتَحَفَ بِهِ، ثُمَّ صَلَّى ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، سُبْحَةَ الضُّحَى
ترجمہ: جس سال مکہ فتح ہوا ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں، (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ کے بالائی حصے میں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہانے کے لئے اٹھے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے آگے پردہ کر دیا، پھر (غسل کے بعد) آپ نے اپنا کپڑا لے کر اپنے گرد لپیٹا، پھر آٹھ رکعتیں چاشت کی پڑھیں۔
(صحیح مسلم: 336)
وجہ استدلال: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
مفہوم: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فعل کے متعلق یہ سب سے زیادہ رکعات وارد ہیں اور عبادت میں اصل توقف ہے۔
(فتح الباری لابن حجر ط دار المعرفۃ - بیروت: 3/54)
دوسرا قول: صلاۃ الضحی کے رکعات کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ سید سابق رحمہ اللہ نے فقہ السنہ میں بعض اہل علم سے یہ قول نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
علماء کی ایک جماعت جن میں ابو جعفر طبری اور حلیمی بھی ہیں، اس بات کی قائل ہے کہ صلاۃ الضحی کی زیادہ سے زیادہ کوئی حد متعین نہیں ہے، شافعیہ کے رویانی اور ملیمی کا بھی اسی پر جزم ہے، عراقی شرح ترمذی میں کہتے ہیں: میں نے صحابہ و تابعین میں سے کسی سے منقول نہیں پایا کہ وہ اسے بارہ رکعات میں محدود کرتے ہوں۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی یہی کہا ہے۔
(فقہ السنہ لسید سابق: 1/208)
ابن جریر طبری، ابن باز اور ابن عثیمین رحمہم اللہ اسی کے قائل ہیں۔ اس رائے کے قائلین کے دلائل:
⓵ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى أَرْبَعًا، وَيَزِيدُ مَا شَاءَ اللَّهُ
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صلاۃ الضحی چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہتا زیادہ (بھی) پڑھ لیتے۔
(صحیح مسلم: 719)
⓶ ایک لمبی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ؛ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ صَلِّ؛ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ
ترجمہ: صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل کر بلند ہوجائے کیونکہ وہ جب طلوع ہوتا ہے تو شیطان (اپنے سینگوں کو آگے کر کے یوں دکھاتا ہے جیسے وہ اس) کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس (سورج) کو سجدہ کرتے ہیں، اس کے بعد نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس میں (فرشتے) حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے ساتھ لگ جائے (سورج بالکل سر پر آجائے)۔
(صحیح مسلم: 832)
وجہ استدلال: پہلی حدیث (حدیث عائشہ) میں لفظ ”وَيَزِيدُ مَا شَاءَ اللَّهُ“ اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ اسکی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ جبکہ دوسری حدیث (حدیث عمرو بن عبسہ) میں ”ثُمَّ صَلِّ“ کا لفظ اس پر دلیل ہے کہ صلاۃ الضحی کی کوئی حد نہیں ہے۔ جتنی چاہے انسان پڑھ سکتا ہے۔
تیسرا قول: احناف، بعض شافعیہ اور امام احمد رحمہ اللہ کی ایک روایت کے مطابق صلاۃ الضحی کی اکثر تعداد بارہ ہے۔ انکی دلیل:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى الضُّحَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فِي الْجَنَّةِ
ترجمہ: انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ اس کے لئے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیر فرمائے گا۔“
(سنن ترمذی: 473)
اس کی سند میں موسی بن فلاں بن انس نامی مجہول راوی ہے لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔
(تفصیل کے لئے دیکھیں: تخريج مشكاة المصابيح: 1267)
علامہ نووی، الدمیاطی اور علامہ سیوطی رحمہم اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔
راجح قول: اس تعلق سے دوسرا قول (یعنی صلاۃ الضحی کی زیادہ سے زیادہ کوئی حد متعین نہیں ہے) راجح ہے جیسا کہ دلائل گزرے۔ رہا پہلا اور دوسرا قول تو وہ دونوں مرجوح ہیں کیونکہ پہلے قول کی دلیل کے برخلاف حدیث عائشہ اور حدیث عبسہ ہے جس میں زیادتی کی بات کہی گئی ہے۔ جبکہ دوسرے قول کی دلیل ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأقلها ركعتان، فإذا حافظت على ركعتين فقد أديت الضحى، وإن صليت أربعا أو ستا أو ثمانا أو أكثر من ذلك فلا بأس على حسب التيسير، وليس فيها حد محدود
ترجمہ: صلاۃ الضحی کی کم سے کم رکعات دو ہیں۔ اگر آپ نے دو رکعتوں پر محافظت برتی تو آپ نے صلاۃ الضحی ادا کر لی۔ اور اگر آپ نے بقدر آسانی چار، چھ، آٹھ یا اس سے زائد پڑھ لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس میں کوئی حد متعین نہیں ہے۔
(مجموع فتاوی ابن باز: 11/399)
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أقلها ركعتان، وأما أكثرها فلا حد لها، يصلي الإنسان نشاطه
ترجمہ: صلاۃ الضحی کی کم سے کم رکعات دو ہیں۔ رہی بات اکثر رکعات کی تو اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ انسان اپنی نشاط کے بقدر (جتنی چاہے) پڑھ سکتا ہے۔
(مجموع فتاوی و رسائل العثیمین: 14/305)
فتاوی اللجنہ الدائمہ میں ہے:
وأقلها ركعتان ولا حد لأكثرها والأفضل ألا يتجاوز بها الثمان ويسلم في كل ركعتين ولا ينبغي جمعهن بسلام واحد
ترجمہ: صلاۃ الضحی کم سے کم دو رکعات ہیں اور اس کی اکثر تعداد متعین نہیں ہے۔ افضل یہ ہے کہ آٹھ رکعات سے تجاوز نہ کیا جائے اور ہر دو رکعت میں سلام پھیرا جائے اور ایک سلام کے ساتھ سب کو جمع کرنا (یعنی ایک ہی سلام سے پڑھنا) مناسب نہیں ہے۔
(فتاوی اللجنہ الدائمہ: 6/145)
صلاۃ الضحی کے متعلق بعض اہم مسائل:
➊ کیا صلاۃ الضحی روزآنہ پڑھ سکتے ہیں؟
اگر کوئی صلاۃ الضحی روزآنہ پڑھتا ہے تو یہ عمل صحیح ہے۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صلاۃ الضحی ہر دن (پڑھنا) مسنون ہے۔
(فتاوى نور على الدرب لابن باز: 10/399)
اور علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والأظهر: أنها سُنَّة مطلقة دائماً
ترجمہ: راجح بات یہ ہے کہ صلاۃ الضحی مطلق طور پر دائمی سنت ہے۔
(الشرح الممتع على زاد المستقنع لابن عثیمین ط دار ابن الجوزی: 4/83)
➋ صلاۃ الضحی مسافر کے لئے مشروع ہے یا نہیں؟
صلاۃ الضحی مسافر کے لئے بھی مشروع ہے۔ چنانچہ فتاوی اللجنہ الدائمہ میں ہے:
چاشت کے نماز مسافر اور اس کے علاوہ (تمام لوگوں) کے لئے (پڑھنا) مستحب ہے۔
(فتاوی اللجنہ الدائمہ: 6/151)
➌ صلاۃ الضحی سری ہوگی یا جہری؟
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صلاة الضحى سرية
ترجمہ: صلاۃ الضحی سری ہوگی۔
(فتاوى نور على الدرب لابن باز: 10/431)
➍ کیا صلاۃ الضحی ایک بار پڑھ لینے سے واجب ہو جاتی ہے؟
فتاوی اللجنہ الدائمہ میں ہے:
لا تلزمه سنة الضحى إذا صلاها مرة أو مرات، بل تبقى سنة كما كانت من قبل، لأنها نافلة وليست فريضة
ترجمہ: صلاۃ الضحی کی سنت واجب نہیں ہو جاتی اگر کوئی اسے ایک یا کئی بار پڑھ لے۔ بلکہ یہ سنت ہی باقی رہتی ہے جیسے پہلے تھی۔ کیونکہ وہ نفل ہے فرض نہیں۔
(فتاوی اللجنہ الدائمہ: 7/259)
➎ کیا صلاۃ عیدین اور صلاۃ استسقاء صلاۃ الضحی کی نیابت کرتی ہیں؟
اگر کوئی صلاۃ عیدین یا صلاۃ استسقاء ادا کرلے تو اس سے صلاۃ الضحی کفایت نہیں کرے گی۔ فتاوی اللجنہ الدائمہ میں ہے:
لا تنوب صلاة العيد أو الاستسقاء عن صلاة الضحى
ترجمہ: صلاۃ عید اور صلاۃ استسقاء صلاۃ الضحی کی نیابت نہیں کر سکتی ہیں۔
(فتاوی اللجنہ الدائمہ: 7/258)