• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صلۂ رحمی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
صلۂ رحمی- اللہ تعالی کی پسندیدہ عبادت

أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ إِیْمَانٌ بِاللّٰہِ، ثُمَّ صِلَۃُ الرَّحِمِ (صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۶۴)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
"اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بہترین عمل اس پر ایمان لانا اور پھر صلہ رحمی کرنا ہے۔ (یعنی رشتہ داری جوڑنا)"
شرح: دوسرا عمل جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے وہ صلہ رحمی ہے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ، حَتّٰی إِذَا فَرَغَ مِنْ خَلْقِہٖ قَالَتِ الرَّحِمُ ھَذٰا مَقَامُ الْعَائِذِ بِکَ مِنَ الْقَطِیْعَۃِ، قَالَ: نَعَمْ، أَمَا تَرْضِیْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَکِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکِ؟ قَالَتْ: بَلیٰ یَا رَبِّ۔ قَالَ: فَھُوَ لَکِ۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : فَاقْرَئُ وْا إِنْ شِئْتُمْ {فَھَلْ عَسَیْتُمْ إِنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوْا فِیْ الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَرْحَامَکُمْ (أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: من وصل وصلہ اللّٰہ، ح: ۵۹۸۷)
"اللہ تعالیٰ جب مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد فارغ ہوئے تو رحم نے عرض کیا: یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میں اس سے جوڑوں جو تم سے اپنے آپ کو جوڑے اور اس سے توڑ لوں جو تم سے اپنے آپ کو توڑے؟ رحم نے کہا: کیوں نہیں! اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پس یہ تجھ کو دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو:
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ‎﴿٢٢﴾‏ (سورۃ محمد)
"یعنی کچھ عجب نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم ملک میں فساد برپا کرو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو۔"
علماء صلہ رحمی کی حقیقت کو پیار محبت اور شفقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے صلہ کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ نرمی اور پیار و محبت کرے گا اور ان پر اپنے احسانات اور نعمتوں کی برسات کر دے گا یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ملکوت اعلیٰ کے باسیوں کے ساتھ ملا دے گا اور ان کے سینے اپنی معرفت اور اطاعت کے لیے کھول دے گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ یُبْسَطَ لَہٗ فِيْ رِزْقِہٖ، وَیُنْسَأَ لَہٗ فِيْ أَثَرِہٖ، فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ (أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: من بسط لہ في الرزق بصلۃ الرحم، ح: ۵۹۸۶)
"جس شخص کو پسند ہو کہ اس کی روزی بڑھے اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے رشتے ناتے جوڑے۔"
رشتہ داری کی اقسام:
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رشتہ داری دو طرح کی ہوتی ہے:
(۱) …عام (۲) …خاص
عام رشتہ داری:
دین کی رشتہ داری اور ناطہ عام ہے اس کو ملانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایمان پر قائم رہے، مومنوں کے ساتھ پیار و محبت کرے، ان کی خیر خواہی اور مدد کرے، ان کو تکلیف نہ پہنچائے، ان کے درمیان عدل کرے، ان کے معاملات میں انصاف کرے، ان کے فرضی حقوق ادا کرے، جیسے: بیمار کی تیمار داری کرنا، فوت شدگان کے لیے غسل، کفن دفن کا انتظام کرنا اور ان کی نماز جنازہ ادا کرنا وغیرہ۔
خاص رشتہ داری:
خاص رشتہ داری سے مراد وہ تعلق ہے جو انسان کا اپنے ددھیال اور ننھیال کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان رشتہ داروں کے متعلق ہر مسلمان کے ذمہ فرضی حقوق کے علاوہ اور بھی کئی حقوق ہیں، مثلاً: خرچہ کرنا، ان کے حالات کا جائزہ لینا، ضرورت کے وقت غفلت کی بجائے ان کی دیکھ بھال کرنا، ان کے عام رشتہ داری کے حقوق تو بالاولیٰ لاگو ہوں گے حتیٰ کہ جب مختلف حقوق اکٹھے ہو جائیں تو نمبر اور ترتیب کے ساتھ ان پر عمل کیا جائے گا۔ (یعنی جو حق زیادہ قریبی بنتا ہے وہ پہلے ادا ہو گا اس کے بعد دوسرے نمبر والا اسی طرح چلتے جائیں گے۔)
ابن ابی جمرہ فرماتے ہیں: صلہ رحمی مال سے ضرورت کے وقت مدد کرنے سے، تکلیف کو دور کرنے سے، خوش ہو کر ملنے اور دعا کرنے سے بھی ہو سکتی ہے۔
تو صلہ رحمی کا جامع مفہوم یہ ہوا کہ کسی سے ممکن حد تک اچھائی اور بھلائی کرنا اور ممکن حد تک اس سے برائی کو روکنا اور شر کو دور کرنا۔
یہ تعلق اس وقت تک قائم رہے گا جب تک رشتہ دار مسلمان ہوں اور جب کافر یا فاجر ہوں تو اللہ کی وجہ سے ان کا مقاطعہ کرنا ہی ان کی صلہ رحمی ہے مگر شرط یہ ہے کہ انسان ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کر چکا ہو، چنانچہ جب وہ انکار پر ہی بضد ہوں تو ان کو بتا دیا جائے کہ ہم آپ سے مقاطعہ حق کو نہ ماننے کی وجہ سے کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے لیے راہ ہدایت کی دعا کا حق ساقط نہیں ہوتا تاکہ وہ دین کے مثالی راستے کی طرف لوٹ آئیں۔
 
Top