عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
درود کا اختصار،
فضیلتہ الشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی جگہ ”ص،صعم،صلم،صلیو،صلع اور صلعم”جیسے رموزو اشارات کا استعمال حکم الٰہی اور منہجِ سلف صالحین کی مخالفت ہے۔یہ قبیح اور بدعی اختصار خلافِ ادب ہے۔یہ ایسی بے ہودہ اصطلاح ہے کہ کوئی نادان ہی اس پر اکتفا کر سکتا ہے۔
حافظ سخاوی رحمہ اللہ (٨٣١۔٩٠٢ھ)لکھتے ہیں:
وَاجْتَنِبْ أَیُّہَا الْکَاتِبُ الرَّمْزَ لَہَا أَيْ لِلصَّلَاۃِ عَلٰی رُسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي خَطِّکَ، بِأَنْ تَقْتَصِرَ مِنْہَا عَلٰی حَرْفَیْنِ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ، فَتَکُونَ مَنْقُوصَۃً صُورَۃً، کَمَا یَفْعَلُہُ الْکِسَائِيُّ وَالْجَہَلَۃُ مِنْ أَبْنَاءِ الْعَجَمِ غَالِبًا وَعَوَامُّ الطَّلَبَۃِ، فَیَکْتُبُونَ بَدَلًا عَنْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ص، أَوْ صم، أَوْ صلم، أَوْ صلعم، فَذٰلِکَ لِمَا فِیہِ مِنْ نَّقْصِ الْـأَجْرِ لِنَقْصِ الْکِتَابَۃِ خِلَافُ الْـأَوْلٰی .
”اے لکھنے والے!اپنی لکھائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی اس طرح رمز لکھنے سے اجتناب کرو کہ دو یا تین چار حرفوں پر اکتفا کر لو۔اس طرح درود کی صورت ناقص ہو جاتی ہے،جیسے کسائی،بہت سے جاہل عجمی لوگوں اور اکثر طلبہ کا طرز عمل ہے۔ وہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ص،صم،صلم یاصلعم لکھتے ہیں۔یہ طریقہ کتابت میں نقص کی وجہ سے خلافِ اولیٰ ہے۔”
(فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث : 71/3، 72)
علامہ ابو یحییٰ زکریا انصاری رحمہ اللہ (م:٩٢٦ھ)لکھتے ہیں:
وَتُسَنُّ الصَّلاَۃُ نُطْقًا وَّکِتَابَۃً عَلٰی سَائِرِ الْـأَنْبِیَاءِ وَالْمَلاَئِکَۃِ صَلَّی اللّٰہُ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ، کَمَا نَقَلَہُ النَّوَوِيُّ عَنْ إِجْمَاعِ مَنْ یُّعْتَدُّ بِہٖ .
”تمام انبیاے کرام اور فرشتوں پر بول اور لکھ کر درود وسلام بھیجنا مسنون ہے، جیسا کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے تمام معتبر اہل علم کے اجماع سے یہ بات نقل کی ہے۔”
(فتح الباقي بشرح ألفیۃ العراقي : 44/2)
علامہ ابن حجر ہیتمی(٩٠٩۔٩٧٤ھ)لکھتے ہیں:
وَکَذَا اسْمُ رَسُولِہٖ بِأَنْ یُّکْتَبَ عَقِبَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ جَرَتْ بِہٖ عَادَۃُ الْخَلَفِ کَالسَّلَفِ، وَلَا یُخْتَصَرُ کتَابَتُہَا بِنَحْوِ صلعم؛ فَإِنَّہ، عَادَۃُ الْمَحْرُومِینَ .
”اسی طرح اللہ کے رسول کے نام کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا چاہیے۔خلف و سلف کی یہی عادت رہی ہے۔البتہ درود کا اختصار لکھنا،جیسے صلعم،یہ محروم لوگوں کی عادت ہے۔”
(الفتاوی الحدیثیّۃ : 164/1)
علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَأَنَّ الصَّلَاۃَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِبَارَۃٌ عَنْ تَعْظِیمِہٖ وَتَبْجِیلِہٖ، فَمَنْ عَظَّمَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحَبِیبَہ،؛ عَظَّمَہُ اللّٰہُ، وَرَفَعَ قَدْرَہ، فِي الدَّارَیْنِ، وَمَنْ لَّمْ یُعَظِّمْہُ؛ أَذَلَّہ، اللّٰہُ، فَالْمَعْنٰی : بَعِیدٌ مِّنَ الْعَاقِلِ، بَلْ مِنَ الْمُؤْمِنِ الْمُعْتَقِدِ أَنْ یَّتَمَکَّنَ مِنْ إِجْرَاءِ کَلِمَاتٍ مَّعْدُودَۃٍ عَلٰی لِسَانِہٖ، فَیَفُوزُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ مِّنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَ، وَبِرَفْعِ عَشْرِ دَرَجَاتٍ لَّہ،، وَبِحَطِّ عَشْرِ خَطِیئَاتٍ عَنْہُ، ثُمَّ لَمْ یَغْتَنِمْہُ حَتّٰی یَفُوتَ عَنْہُ، فَحَقِیقٌ بِأَنْ یَّحْقِرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَیَضْرِبَ عَلَیْہِ الذِّلَّۃَ وَالْمَسْکِنَۃَ، وَبَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَمِنْ ہٰذَا الْقَبِیلِ عَادَۃُ أَکْثَرِ الْکُتَّابِ أَنْ یَّقْتَصِرُوا فِي کِتَابَۃِ الصَّلَاۃِ وَالسَّلَامِ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الرَّمْزِ .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم ہے۔جو اللہ کے رسول اور حبیب کی تعظیم کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے عظمت عطا فرمائیں گے اور دنیاوآخرت میں اس کی شان بلند کر دیں گے۔جو (درود نہ پڑھ کر)آپ کی تعظیم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کر دیں گے۔مطلب یہ کہ کسی عاقل،بالخصوص کسی ایسے پختہ اعتقاد والے مؤمن سے یہ بات بعید ہے کہ وہ اپنی زبان پر چند کلمات جاری نہ کر سکے،جن کے بدلے وہ اللہ تعالیٰ کی دس رحمتوں کے حصول،دس درجات کی بلندی اور دس گناہوں کی معافی سے بہرہ ور نہ ہو جائے۔پھر وہ اس غنیمت سے فائدہ نہ اٹھائے،حتی کہ درود اس سے رہ جائے۔ایسا شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے اور اس پر ذلت و مسکینی نازل کرے اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔اکثر کاتبوں کی عادت بھی اسی قبیل سے ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود لکھنے کے بجائے اشارے پر اکتفا کرتے ہیں۔”
(شرح المشکــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاۃ : 131/2)
جناب مفتی محمد شفیع دیوبندی صاحب،جناب اشرف علی تھانوی صاحب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”فرمایا کہ حضورؐ کے نام مبارک کے ساتھ درود شریف پڑھنا واجب ہے، اگر کسی نے صرف لفظ ”صلعم” قلم سے لکھ دیا ،زبان سے درود سلام نہیں پڑھا تو میرا گمان یہ ہے کہ واجب ادا نہیں ہو گا،مجلس میں چند علماء بھی تھے،انہوں نے اس سے اختلاف کیا اور عرض کیا کہ آج کل لفظ ”صلعم” پورے درود پر دلالت تامہ کرنے لگا ہے،اس لیے کافی معلوم ہوتا ہے،حضرت نے فرمایا: میرا اس میں شرح صدر نہیں ہوا،در اصل بات تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسے محسن خلق کے معاملہ میں اختصار کی کوشش اور کاوش ہی کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔اگر آپؐ ہمارے معاملہ میں اختصارات سے کام لینے لگیں تو ہم کہاں جائیں؟
احقرجامع(مفتی محمد شفیع )عرض کرتا ہے کہ جہاں تک کہ ضرورت کا تعلق ہے، سب سے زیادہ ضرورت اختصار کی، حضراتِ محدثین کو تھی، جن کی ہر سطر میں تقریبا حضورؐ کا نام مبارک آتا ہے،مگر آپ ائمہ حدیث کی کتابوں کا مشاہدہ فرما لیں کہ انہوں نے ہر ہر جگہ نام مبارک کے ساتھ پورا درود و سلام لکھا ہے،اختصار کرنا پسند نہیں کیا۔”
(مجالس حکیم الامت،ص : 241)
علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ مَا یُذْکَرُ وَیُکْتَبُ لَفْظُ (صلعم) بَدْلَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ فَغَیْرُ مَرْضِيٍّ .
”جان لیجیے کہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ جو صلعم کا لفط بولا اور لکھا جاتا ہے،وہ نا پسندیدہ ہے۔”
(العرف الشذي : 110/1)
جناب محمد زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”جب اسمِ مبارک لکھے،صلاۃ وسلام بھی لکھے،یعنی صلی اللہ علیہ وسلم پورا لکھے،اس میں کوتاہی نہ کرے۔صرف ” ؑ”یا صلعم پر اکتفا نہ کرے۔”
(تبلیغی نصاب، ص : 769)
محمد امجد علی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
”اکثر لوگ آجکل درود شریف کے بدلے صلعم ،عم، ؐ، ؑ،لکھتے ہیں،یہ ناجائزو سخت حرام ہے۔”
(بہارِ شریعت،حصہ سوم،ص : 87)
یاد رہے کہ بہار ِشریعت کا یہ حصہ”اعلیٰ حضرت بریلوی”کا تصدیق شدہ ہے۔
درود کا اختصار،
فضیلتہ الشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی جگہ ”ص،صعم،صلم،صلیو،صلع اور صلعم”جیسے رموزو اشارات کا استعمال حکم الٰہی اور منہجِ سلف صالحین کی مخالفت ہے۔یہ قبیح اور بدعی اختصار خلافِ ادب ہے۔یہ ایسی بے ہودہ اصطلاح ہے کہ کوئی نادان ہی اس پر اکتفا کر سکتا ہے۔
حافظ سخاوی رحمہ اللہ (٨٣١۔٩٠٢ھ)لکھتے ہیں:
وَاجْتَنِبْ أَیُّہَا الْکَاتِبُ الرَّمْزَ لَہَا أَيْ لِلصَّلَاۃِ عَلٰی رُسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي خَطِّکَ، بِأَنْ تَقْتَصِرَ مِنْہَا عَلٰی حَرْفَیْنِ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ، فَتَکُونَ مَنْقُوصَۃً صُورَۃً، کَمَا یَفْعَلُہُ الْکِسَائِيُّ وَالْجَہَلَۃُ مِنْ أَبْنَاءِ الْعَجَمِ غَالِبًا وَعَوَامُّ الطَّلَبَۃِ، فَیَکْتُبُونَ بَدَلًا عَنْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ص، أَوْ صم، أَوْ صلم، أَوْ صلعم، فَذٰلِکَ لِمَا فِیہِ مِنْ نَّقْصِ الْـأَجْرِ لِنَقْصِ الْکِتَابَۃِ خِلَافُ الْـأَوْلٰی .
”اے لکھنے والے!اپنی لکھائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی اس طرح رمز لکھنے سے اجتناب کرو کہ دو یا تین چار حرفوں پر اکتفا کر لو۔اس طرح درود کی صورت ناقص ہو جاتی ہے،جیسے کسائی،بہت سے جاہل عجمی لوگوں اور اکثر طلبہ کا طرز عمل ہے۔ وہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ص،صم،صلم یاصلعم لکھتے ہیں۔یہ طریقہ کتابت میں نقص کی وجہ سے خلافِ اولیٰ ہے۔”
(فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث : 71/3، 72)
علامہ ابو یحییٰ زکریا انصاری رحمہ اللہ (م:٩٢٦ھ)لکھتے ہیں:
وَتُسَنُّ الصَّلاَۃُ نُطْقًا وَّکِتَابَۃً عَلٰی سَائِرِ الْـأَنْبِیَاءِ وَالْمَلاَئِکَۃِ صَلَّی اللّٰہُ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ، کَمَا نَقَلَہُ النَّوَوِيُّ عَنْ إِجْمَاعِ مَنْ یُّعْتَدُّ بِہٖ .
”تمام انبیاے کرام اور فرشتوں پر بول اور لکھ کر درود وسلام بھیجنا مسنون ہے، جیسا کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے تمام معتبر اہل علم کے اجماع سے یہ بات نقل کی ہے۔”
(فتح الباقي بشرح ألفیۃ العراقي : 44/2)
علامہ ابن حجر ہیتمی(٩٠٩۔٩٧٤ھ)لکھتے ہیں:
وَکَذَا اسْمُ رَسُولِہٖ بِأَنْ یُّکْتَبَ عَقِبَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ جَرَتْ بِہٖ عَادَۃُ الْخَلَفِ کَالسَّلَفِ، وَلَا یُخْتَصَرُ کتَابَتُہَا بِنَحْوِ صلعم؛ فَإِنَّہ، عَادَۃُ الْمَحْرُومِینَ .
”اسی طرح اللہ کے رسول کے نام کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا چاہیے۔خلف و سلف کی یہی عادت رہی ہے۔البتہ درود کا اختصار لکھنا،جیسے صلعم،یہ محروم لوگوں کی عادت ہے۔”
(الفتاوی الحدیثیّۃ : 164/1)
علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَأَنَّ الصَّلَاۃَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِبَارَۃٌ عَنْ تَعْظِیمِہٖ وَتَبْجِیلِہٖ، فَمَنْ عَظَّمَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحَبِیبَہ،؛ عَظَّمَہُ اللّٰہُ، وَرَفَعَ قَدْرَہ، فِي الدَّارَیْنِ، وَمَنْ لَّمْ یُعَظِّمْہُ؛ أَذَلَّہ، اللّٰہُ، فَالْمَعْنٰی : بَعِیدٌ مِّنَ الْعَاقِلِ، بَلْ مِنَ الْمُؤْمِنِ الْمُعْتَقِدِ أَنْ یَّتَمَکَّنَ مِنْ إِجْرَاءِ کَلِمَاتٍ مَّعْدُودَۃٍ عَلٰی لِسَانِہٖ، فَیَفُوزُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ مِّنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَ، وَبِرَفْعِ عَشْرِ دَرَجَاتٍ لَّہ،، وَبِحَطِّ عَشْرِ خَطِیئَاتٍ عَنْہُ، ثُمَّ لَمْ یَغْتَنِمْہُ حَتّٰی یَفُوتَ عَنْہُ، فَحَقِیقٌ بِأَنْ یَّحْقِرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَیَضْرِبَ عَلَیْہِ الذِّلَّۃَ وَالْمَسْکِنَۃَ، وَبَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَمِنْ ہٰذَا الْقَبِیلِ عَادَۃُ أَکْثَرِ الْکُتَّابِ أَنْ یَّقْتَصِرُوا فِي کِتَابَۃِ الصَّلَاۃِ وَالسَّلَامِ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الرَّمْزِ .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم ہے۔جو اللہ کے رسول اور حبیب کی تعظیم کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے عظمت عطا فرمائیں گے اور دنیاوآخرت میں اس کی شان بلند کر دیں گے۔جو (درود نہ پڑھ کر)آپ کی تعظیم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کر دیں گے۔مطلب یہ کہ کسی عاقل،بالخصوص کسی ایسے پختہ اعتقاد والے مؤمن سے یہ بات بعید ہے کہ وہ اپنی زبان پر چند کلمات جاری نہ کر سکے،جن کے بدلے وہ اللہ تعالیٰ کی دس رحمتوں کے حصول،دس درجات کی بلندی اور دس گناہوں کی معافی سے بہرہ ور نہ ہو جائے۔پھر وہ اس غنیمت سے فائدہ نہ اٹھائے،حتی کہ درود اس سے رہ جائے۔ایسا شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے اور اس پر ذلت و مسکینی نازل کرے اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔اکثر کاتبوں کی عادت بھی اسی قبیل سے ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود لکھنے کے بجائے اشارے پر اکتفا کرتے ہیں۔”
(شرح المشکــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاۃ : 131/2)
جناب مفتی محمد شفیع دیوبندی صاحب،جناب اشرف علی تھانوی صاحب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”فرمایا کہ حضورؐ کے نام مبارک کے ساتھ درود شریف پڑھنا واجب ہے، اگر کسی نے صرف لفظ ”صلعم” قلم سے لکھ دیا ،زبان سے درود سلام نہیں پڑھا تو میرا گمان یہ ہے کہ واجب ادا نہیں ہو گا،مجلس میں چند علماء بھی تھے،انہوں نے اس سے اختلاف کیا اور عرض کیا کہ آج کل لفظ ”صلعم” پورے درود پر دلالت تامہ کرنے لگا ہے،اس لیے کافی معلوم ہوتا ہے،حضرت نے فرمایا: میرا اس میں شرح صدر نہیں ہوا،در اصل بات تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسے محسن خلق کے معاملہ میں اختصار کی کوشش اور کاوش ہی کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔اگر آپؐ ہمارے معاملہ میں اختصارات سے کام لینے لگیں تو ہم کہاں جائیں؟
احقرجامع(مفتی محمد شفیع )عرض کرتا ہے کہ جہاں تک کہ ضرورت کا تعلق ہے، سب سے زیادہ ضرورت اختصار کی، حضراتِ محدثین کو تھی، جن کی ہر سطر میں تقریبا حضورؐ کا نام مبارک آتا ہے،مگر آپ ائمہ حدیث کی کتابوں کا مشاہدہ فرما لیں کہ انہوں نے ہر ہر جگہ نام مبارک کے ساتھ پورا درود و سلام لکھا ہے،اختصار کرنا پسند نہیں کیا۔”
(مجالس حکیم الامت،ص : 241)
علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ مَا یُذْکَرُ وَیُکْتَبُ لَفْظُ (صلعم) بَدْلَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ فَغَیْرُ مَرْضِيٍّ .
”جان لیجیے کہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ جو صلعم کا لفط بولا اور لکھا جاتا ہے،وہ نا پسندیدہ ہے۔”
(العرف الشذي : 110/1)
جناب محمد زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”جب اسمِ مبارک لکھے،صلاۃ وسلام بھی لکھے،یعنی صلی اللہ علیہ وسلم پورا لکھے،اس میں کوتاہی نہ کرے۔صرف ” ؑ”یا صلعم پر اکتفا نہ کرے۔”
(تبلیغی نصاب، ص : 769)
محمد امجد علی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
”اکثر لوگ آجکل درود شریف کے بدلے صلعم ،عم، ؐ، ؑ،لکھتے ہیں،یہ ناجائزو سخت حرام ہے۔”
(بہارِ شریعت،حصہ سوم،ص : 87)
یاد رہے کہ بہار ِشریعت کا یہ حصہ”اعلیٰ حضرت بریلوی”کا تصدیق شدہ ہے۔