- شمولیت
- مارچ 04، 2011
- پیغامات
- 790
- ری ایکشن اسکور
- 3,981
- پوائنٹ
- 323
برصغیر پاک و ہند میں اسلام اس وقت آچکا تھا جب کہ کسی صوفی کا اس دنیا میں وجود تھا نہ تصوف کا۔ گو دوسری صدی ہجری کے اواخر یا تیسری صدی کے اوائل میں چند ایک بزرگوں کو صوفی کہا جانے لگا تھا۔ تاہم ان کی ابتداء تیسری صدی ہجری میں شمار ہوتی ہے۔ اور جو صوفیائے کرام برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے اور ان کی وساطت سے ہند میں اشاعت اسلام کا کام ہوا، ان میں سے دو ہستیاں ہی زیادہ مشہور ہیں جو پہلے پہل تشریف لائيں۔ پہلے حضرت علی ہجویری (1009ء تا 1072ء / 400 ھ تا 465 ھ) ہیں، یہ ہندوستان میں 1069ء / 462 ھ میں تشریف لائے اور دوسرے بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (1142ء تا 1235ء / 537ھ تا 633ھ) ہیں۔ جن کی ہندوستان میں آمد کی تاریخ دس محرم 561ھ بمطابق 1161ء بتلائی جاتی ہے، جو کہ سخت مشکوک ہے۔ تذکرہ نگاروں کے بیان کے مطابق یہ تاریخ بھی 577ھ اور 580ھ کے درمیان ہونی چاہیے۔
ان دو مشہور بزرگوں کے علاوہ دو اور بزرگوں کی آمد کا بھی تذکروں سے پتہ چلتا ہے۔ ان میں ایک تو شیخ محمد اسماعیل بخاری ہیں جو 395ھ / 1005ء میں لاہور تشریف لائے۔ (روح تصوف، ص 99 اور 102)
اور دوسرے بزرگ خواجہ ابو محمد بن ابو احمد جو محمود غزنوی رحمہ اللہ کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے۔ (تاریخ مشائخ چشت، خلیق نظامی ص: 145)
اور محمود غزنوی نے 1001ء سے لے کر 1025ء تک ہندوستان پر سترہ حملے کیے تھے۔ آخری حملہ سومنات پر 1025ء میں کیا گیا۔
ان تمام تر تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی صوفی بزرگ، وہ مشہور و معروف ہو یا غیر معروف، سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں وارد نہیں ہوا تھا۔ لیکن مسلمان ہمیں اس سے بہت پہلے یہاں نظر آتے ہیں۔ جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ اور یہ تفصیل ہم "تاریخ پاک و ہند" (مصنف پروفیسر عبداللہ ملک صدر شعبہ تاریخ، اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ، لاہور، ساتواں ایڈیشن 1978ء) سے پیش کر رہے ہیں۔ آپ کی یہ کتاب کالجوں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے۔
"اسلام مذہب کی حیثیت سے پہلے جنوبی ہند میں پہنچا۔ مسلمان تاجر اور مبلغین ساتویں صدی عیسوی میں (یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632ء میں ہوئی تھی۔ یعنی آپ کی وفات کے بعد جلد ہی مسلمان) مالیبار اور جنوبی سواحل کے دیگر علاقوں میں آنے جانے لگے۔ مسلمان چونکہ بہترین اخلاق و کردار کے مالک اور کاروباری لین دین میں دیانتدار واقع ہوئے تھے۔ لہذا مالیبار کے راجاؤں، تاجروں اور عام لوگوں نے ان کے ساتھ رواداری کا سلوک روا رکھا۔ چنانچہ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند کے مغربی ساحلوں پر قطعات اراضی حاصل کر کے مسجدیں تعمیر کیں۔ (یاد رہے کہ اس وقت خانقاہوں کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا) اور اپنے دین کی تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ ہر مسلمان اپنے اخلاق اور عمل کے اعتبار سے اپنے دین کا مبلغ تھا۔ نتیجۃً عوام ان کے اخلاق و اعمال سے متاثر ہوتے چلے گئے۔ تجارت اور تبلیغ کا یہ سلسلہ ایک صدی تک جاری رہا یہاں تک کہ مالیبار میں اسلام کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا اور وہاں کا راجہ بھی مسلمان ہو گیا۔ جنوبی ہند میں فروغ اسلام کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں جنوبی ہند مذہبی کشمکش کا شکار تھا۔ ہندو دھرم کے پیروکار بدھ مت اور جین مت کے شدید مخالف اور ان کی بیخ کنی میں مصروف تھے۔ ان حالات میں جب مبلغین اسلام نے توحید الہی کا پرچار اور ذات پات و چھوت چھات کو لا یعنی اور خلاف انسانیت قرار دیا، تو عوام جو ہزاروں سال سے تفرقات اور امتیازات کا شکار ہو رہے تھے۔ بے اختیار اسلام کی طرف مائل ہونے لگے۔ چونکہ حکومت اور معاشرہ کی طرف سے تبدیلی مذہب پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ لہذا ہزاروں غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔" (تاریخ پاک و ہند، ص:390)
اس اقتباس سے مندرجہ ذیل امور واضح ہوتے ہیں:
1- پہلی ہی صدی ہجری اسلام جنوبی ہند بالخصوص مالیبار اور مغربی سواحل میں پھیل گيا تھا۔ ان علاقوں کے ہزارہا غیر مسلم مسلمان ہو چکے تھے اور راجہ بھی مسلمان ہو گيا تھا۔
2- اشاعت اسلام کی اصل وجوہات تین تھیں:
(1) عقیدہ توحید الہی کی سادگی۔ (2) ذات پات اور چھوت چھات کو خلاف انسانیت قرار دینا۔ (3) مسلمانوں کے اعمال و اخلاق کی پاکیزگی اور شائستگی۔
گویا ہندوستان میں اشاعت اسلام کا اصل سبب اولیاء اللہ یا صوفیاء کی مزعومہ کرامات نہیں بلکہ درج بالا وجوہات تھیں۔
اب اس پہلی صدی ہجری میں برصغیر پاک و ہند میں جن جن مقامات پر اشاعت اسلام ہوئی اس کی مزید تفصیل درج ذیل اقتباس میں ملاحظہ فرمائيے:
"برصغیر پاک و ہند میں عربوں کے تجارتی مراکز میں سراندیپ، مالدیپ، مالیبار، کارومنڈل، گجرات اور سندھ قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ جنوبی ہند اور ساحلی علاقوں میں بھی جابجا عرب تاجروں کی نو آبادیت موجود تھیں۔ جہاں عراق اور عرب کے تاجر موجود تھے۔ ظہور اسلام کے بعد عربوں کی سیاسی، مجلسی اور اقتصادی سرگرمیاں تیز تر ہو گئیں۔ اب وہ تبلیغ اسلام کے شوق سے سرشار، اخلاق و اطوار کے لحاظ سے بلند معیار کے حامل اور صداقت و دیانت کے پیکر تھے۔ ان میں سے اکثر نے برصغیر میں ہی رہائش اختیار کر لی۔ آہستہ آہستہ جنوبی ہند کے اکثر مقامات پر مسلمانوں کی نو آبادیت قائم ہو گئيں۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو مشرف بہ اسلام کرنا شروع کر دیا۔ مقامی راجاؤں سے مسلمان تاجروں کے تعلقات نہایت خوشگوار تھے اور انہیں تبلیغ اسلام اور عبادت کی پوری آزادی حاصل تھی" (تاریخ پاک و ہند ص: 17،18)
اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ:
پہلی صدی ہجری میں اسلام صرف مالیبار اور مغربی سواحل پر ہی نہیں پھیلا بلکہ جزائر سراندیپ، مالدیپ اور علاقہ ہائے کارمنڈل، گجرات اور سندھ میں اسلام کی اشاعت ہو چکی تھی۔ ان مقامات پر مسلمان عربوں کی نو آبادیات بھی قائم تھیں اور بہت سے عرب مسلمان مستقلاً یہاں قیام پذیر ہو کر اسلام کی تبلیغ اور اشاعت میں منہمک ہو گئے تھے۔
برصغیر میں اشاعت اسلام کے سلسلہ میں یہ کچھ تو نجی سطح پر ہوا- اب جو کجھ سرکاری سطح پر ہوا اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
1۔ دور فاروقی۔۔۔۔۔ میں بحرین و عمان کے حاکم عثمان بن ابوالعاص ثقفی نے 636ء-637ء میں (وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف چار سال بعد) ایک فوجی مہم تھانہ نزد بمبئی میں بھیجی۔ پھر اس مہم کی اطلاع حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دی۔ آپ ناراض ہوئے اور لکھا کہ "تم نے میری اجازت کے بغیر سواحل ہند پر فوج بھیجی۔ اگر ہمارے آدمی وہاں مارے جاتے تو میں تمہارے قبیلہ کے اتنے ہی آدمی قتل کر ڈالتا۔" (تاریخ پاک و ہند ص: 18)
2۔ عہد عثمانی۔۔۔۔۔ میں عراق کے حاکم عبد اللہ بن عامر نے حکیم بن جبلہ کو برصغیر کے سرحدی حالات کی تحقیق پر مامور کیا۔ واپسی پر انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی رپورٹ میں بتلایا کہ "وہاں پانی کمیاب ہے پھل نکمے ہیں ڈاکو بہت دلیر ہیں اگر قلیل التعداد فوج بھیجی تو ہلاک ہو جائے گی اور اگر زیادہ لشکر بھیجا گیا، تو بھوکوں مرجائے گا" اس رپورٹ کی بناء پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مہم بھیجنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ (تاریخ پاک وہند ص: 19)
3۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں مشہور سپہ سالار مہلب بن ابی صفرہ نے برصغیر کی سرحد پر حملہ کیا اور لاہور تک بڑھ آیا۔ انہی ایام میں خلیفہ اسلام نے ایک اور سپہ سالار عبد اللہ بن سوار عبدی کو سواحل برصغیر کے سرکش لوگوں کی گو شمالی کے لیے چار ہزار کی عسکری جمیعت کے ساتھ بھیجا۔ اُس نے قیقان کے باشندوں کو سخت شکست دی اور مال غنیمت لے کر واپس چلا گیا۔ اس نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں قیقانی گھوڑے پیش کیے، لیکن کچھ مدت بعد عبد اللہ بن سوار قیقان واپس آ گیا، جہاں ترکوں نے یورش کرکے اسے قتل کر دیا۔ (تاریخ پاک وہند ص:19)
4۔ بعد ازاں 712ء یعنی 93ھ میں ولید بن عبد المالک کے زمانہ میں وہ واقعہ پیش آیا جس نے برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں بڑا موثر کردار ادا کیا یعنی محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے اس سال سندھ کے سارے علاقہ کو فتح کر لیا۔ اس حملہ کے اسباب اور محرکات ہمارے موضوع سے خارج ہیں۔ ہم تو یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس مہم میں محمد بن قاسم نے دیبل، نیرون، سیوستان، سیسم، رادڑ، برہمن آباد، اوور، باتیہ (موجودہ بہاولپور کے قرب و جوار میں موجود تھا) اور ملتان کو فتح کر لیا اور قنوج کی تسخیر کا ارادہ کر رہا تھا کہ اسے واپس بلا لیا گیا۔
محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے جانے کے بعد فتوحات کا سلسلہ اچانک رک گیا۔ بہرحال عرب سندھ و ملتان پر 200 سال سے زیادہ عرصہ تک (یعنی دسویں صدی عیسوی تک) قابض رہے۔ چوتھی صدی ہجری تک خلیفۃ المسلمین والیان سندھ کا تقرر کرتا رہا۔ اس کے بعد سندھ میں عربوں کی دو نیم آزاد ریاستیں قائم ہو گئیں۔ ان میں سے ایک ملتان اور دوسری منصورہ تھی۔ (تاریخ پاک و ہند ص: 35)
محمد بن قاسم کی ان فتوحات نے اشاعت اسلام کے سلسلہ میں کیا کردار ادا کیا؟ وہ پروفیسر عبدالقادر و شجاع الدین کی زبان سے سنیے:
"فتح سندھ کے بعد بے شمار علماء، مبلغین، تاجر اور صناع عرب سے آکر سندھ میں آباد ہوئے۔ مقامی باشندوں میں اسلام رائج ہوا اور یہ سرزمین فرزندان توحید کا گہوارہ بن گئی۔ آج سندھ اسی طرح اسلامی خطہ ہے جس طرح عراق اور مصر۔ ہم عربوں کی فتح سندھ کی عظمت، اس کی تاریخی اہمیت اور اس کے نتائج کے منکر نہیں ہو سکتے" (تاریخ پاک وہند ص: 40)
5۔ 976ء (چوتھی صدی ہجری) میں سبکتگین غزنوی نے پشاور کے قریب جے پال کو شکست دے کر لمغان (جلال آباد) سے دريائے سندھ تک کے تمام علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ان لڑائیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ برصغیر کی عسکری کمزوری مسلمانوں پر عیاں ہو گئی اور سندھ پار کے علاقے میں ایک طاقتور اسلامی حکومت قائم ہو گئی جو بعد ازاں پنجاب اور برصغیر کے دوسرے حصوں پر چھا گئی۔ نیز برصغیر کی فتح کے دروازے کھل گئے۔
سبکتگین کے عہد کا دوسرا اہم واقعہ افغان قوم کے معرض وجود میں آنے کا ہے۔ افغان پشاور اور غزنی کے درمیانی علاقہ کے باشندے تھے اور متعدد قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔ سبکتگین نے ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ان سے دوستانہ مراسم استوار کیے اور وہ تمام علاقے جو ان کے قبضے میں تھے ان کے سپرد کر دیئے۔ نتیجۃً افغان قوم کی بنیاد پڑی۔ نیز یہ قبائل نہ صرف حلقہ بگوش اسلام ہوئے بلکہ سلاطین غزنہ کی افواج میں بھرتی بھی ہو گئے۔ (تاریخ پاک وہند ص:64)
6۔ سبکتگین کے بعد سلطان محمود غونوی (997 تا 1030ء) کا دور آتا ہے جس نے پہلا حملہ 1001ء میں برصغیر پر کرکے درّہ خیبر کے نواحی علاقوں کی تسخیر کی۔ اس نے کل 17 حملے برصغیر پر کیے تھے۔ آخری حملہ 1025ء میں کیا جس میں سومنات کو فتح کیا۔ اس دوراں محمود غزنوی رحمہ اللہ نے برصغیر کے جن علاقوں کو فتح کیا ان کے نام یہ ہیں:
درہ خیبر اور اس کے نواحی علاقے، ملتان (یہاں کا حاکم شیخ حمید بوی مسلمان تھا، لیکن محمود غونوی کی مخالفت اور بھرہ کے راجہ بجے رائے کا حلیف تھا) پنجاب، کانگڑہ، نگر کوٹ، تھانیسر، نندنہ، کشمیر، قنوج، کالنجر، گوالیار اور سومنات۔
فتح سومنات کے متعلق ابن اثیر، ابن خلدون اور تاریخ فرشتہ کا بیان ہے کہ:
"جب محمود نے برصغیر پاک و ہند کے مختلف راجگان کو شکست دی اور ہندوؤں کے متعدد مندر اس کے ہاتھوں تاخت و تاراج ہوئے، تو ہندوؤں نے کہنا شروع کر دیا کہ جن دیوتاؤں کے مندر برباد ہوئے ہیں ان سے شوجی (سومنات کا بڑا دیوتا) ناراض تھے۔ اگر محمود نے سومنات پر حملہ کیا، تو منہ کی کھائے گا۔ چنانچہ محمود نے ہندوؤں کے اس خیال کو باطل ثابت کرنے کے لیے اور بتوں کی جھوٹی عظمت کو ختم کرنے کے لیے سومنات پر حملہ آور ہونے کا عزم صمیم کیا۔ تاکہ لوگوں پر بتوں کی بے بسی اور بے ثباتی واضح ہو جائے اور لوگ بت پرستی اور شرک کو ترک کر دیں۔ پھر جب محمود نے سومنات کو بھی فتح کر لیا۔ تو اس فتح کی خبر نے عالم اسلام میں مسرت کی لہر دوڑا دی۔ اور خلیفہ بغداد نے خوش ہو کر سلطان محمود، اس کے بیٹوں اور بھائی کو خطابت اور اعزازات سے نوازا۔ سومنات کا بت تباہ و برباد ہو گیا، لیکن سلطان محمود کے نام کو شہرت و دوام حاصل ہو گئی۔" (تاریخ پاک وہند ص: 60،61)
سلطان محمود غونوی (م 1030ء) کے بعد اُس کے جانشین مزید 150 سال یعنی 1186ء تک ان علاقوں پر قابص رہے۔
7- غزنی خاندان کے بعد خاندان غور ہند پر قابض ہوتا ہے۔ سلطان شھاب الدین محمد غوری نے سب سے پہلے حملہ 1175ء میں ملتان کو فتح کیا۔ جس پر غزنویوں کے بعد دوبارہ قرامطی برسر اقتدار آ گئے تھے۔ محمد غوری نے بھی ہندوستان کے بہت سے علاقوں کو فتح کیا۔ پھر غوریوں کے بعد ہندوستان میں خاندان غلاماں خلجی، تغلق، سادات اور لودھی برسر اقتدار آئے پھر 1526ء میں بابر نے ہندوستان میں مغلیہ خاندان کی بنیاد رکھی اور یہ مغلیہ خاندان 1857ء تک برصغیر پاک وہند میں برسر اقتدار رہا-
یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جن سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ 712ء یا 93ھ سے لےکر 1857ء تک کوئی ایسا وقت نہیں گزرا جب کہ برصغیر کے کسی نہ کسی حصے پر مسلمانوں کی حکومت موجود نہ رہی ہو۔ اب صوفیاء کی طرف سے دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ پہلے صوفیاء ہندوستان گئے۔ انہوں نے وہاں اشاعت اسلام کا فریضہ انجام دیا اور مسلمان حکمرانوں کے حملہ اور فتح کے لیے زمین ہموار کرتے رہے۔ لیکن تاریخی حقائق کی روشنی میں صوفیاء کے اس مزعومہ دعوے کو کیوں کر باور کیا جا سکتا ہے جبکہ صوفی تو پیداوار ہی تیسری صدی ہجری کی ہیں اور پہلے صوفی جو ہندوستان تشریف لائے وہ اسماعیل بخاری ہیں جو 1005ء (395 ھ) میں محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان تشریف لاتے ہیں جبکہ مسلمان حکمرانوں کا 712ء (93ھ) سے لے کر 1857ء تک ایسا تسلسل قائم رہا ہے کہ اس میں ایک دن کا بھی انقطاع واقع نہیں ہوا۔
زیادہ سے زیادہ جو چيز باور کی جا سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ محمود غزنوی چونکہ خود بھی صوفی منش اور صوفیاء کا قدردان تھا۔ اس لیے اس نے یہ تحریک پیدا کی کہ دوسرے علمائے دین کے ساتھ صوفیاء بھی اس سرزمین پر تشریف لائيں اور مفتوحہ علاقوں میں اشاعت اسلام کا فریضہ سر انجام دیں۔ چنانچہ پہلے صوفی جن کا نام تذکروں میں ملتا ہے وہ اسماعیل بخاری ہیں جنہیں 1005ء میں اپنے ساتھ لایا تھا۔ حالانکہ وہ خود 1001ء سے ہندوستان پر حملے کر رہا تھا۔
اس مضمون کی پروف ریڈنگ بتاریخ 08.04.2023 کو کی گئی ہے۔ منجانب۔ نعیم یونس
بحوالہ
http://www.deenekhalis.net/play.php?catsmktba=229
ان دو مشہور بزرگوں کے علاوہ دو اور بزرگوں کی آمد کا بھی تذکروں سے پتہ چلتا ہے۔ ان میں ایک تو شیخ محمد اسماعیل بخاری ہیں جو 395ھ / 1005ء میں لاہور تشریف لائے۔ (روح تصوف، ص 99 اور 102)
اور دوسرے بزرگ خواجہ ابو محمد بن ابو احمد جو محمود غزنوی رحمہ اللہ کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے۔ (تاریخ مشائخ چشت، خلیق نظامی ص: 145)
اور محمود غزنوی نے 1001ء سے لے کر 1025ء تک ہندوستان پر سترہ حملے کیے تھے۔ آخری حملہ سومنات پر 1025ء میں کیا گیا۔
ان تمام تر تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی صوفی بزرگ، وہ مشہور و معروف ہو یا غیر معروف، سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں وارد نہیں ہوا تھا۔ لیکن مسلمان ہمیں اس سے بہت پہلے یہاں نظر آتے ہیں۔ جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ اور یہ تفصیل ہم "تاریخ پاک و ہند" (مصنف پروفیسر عبداللہ ملک صدر شعبہ تاریخ، اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ، لاہور، ساتواں ایڈیشن 1978ء) سے پیش کر رہے ہیں۔ آپ کی یہ کتاب کالجوں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے۔
"اسلام مذہب کی حیثیت سے پہلے جنوبی ہند میں پہنچا۔ مسلمان تاجر اور مبلغین ساتویں صدی عیسوی میں (یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632ء میں ہوئی تھی۔ یعنی آپ کی وفات کے بعد جلد ہی مسلمان) مالیبار اور جنوبی سواحل کے دیگر علاقوں میں آنے جانے لگے۔ مسلمان چونکہ بہترین اخلاق و کردار کے مالک اور کاروباری لین دین میں دیانتدار واقع ہوئے تھے۔ لہذا مالیبار کے راجاؤں، تاجروں اور عام لوگوں نے ان کے ساتھ رواداری کا سلوک روا رکھا۔ چنانچہ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند کے مغربی ساحلوں پر قطعات اراضی حاصل کر کے مسجدیں تعمیر کیں۔ (یاد رہے کہ اس وقت خانقاہوں کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا) اور اپنے دین کی تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ ہر مسلمان اپنے اخلاق اور عمل کے اعتبار سے اپنے دین کا مبلغ تھا۔ نتیجۃً عوام ان کے اخلاق و اعمال سے متاثر ہوتے چلے گئے۔ تجارت اور تبلیغ کا یہ سلسلہ ایک صدی تک جاری رہا یہاں تک کہ مالیبار میں اسلام کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا اور وہاں کا راجہ بھی مسلمان ہو گیا۔ جنوبی ہند میں فروغ اسلام کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں جنوبی ہند مذہبی کشمکش کا شکار تھا۔ ہندو دھرم کے پیروکار بدھ مت اور جین مت کے شدید مخالف اور ان کی بیخ کنی میں مصروف تھے۔ ان حالات میں جب مبلغین اسلام نے توحید الہی کا پرچار اور ذات پات و چھوت چھات کو لا یعنی اور خلاف انسانیت قرار دیا، تو عوام جو ہزاروں سال سے تفرقات اور امتیازات کا شکار ہو رہے تھے۔ بے اختیار اسلام کی طرف مائل ہونے لگے۔ چونکہ حکومت اور معاشرہ کی طرف سے تبدیلی مذہب پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ لہذا ہزاروں غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔" (تاریخ پاک و ہند، ص:390)
اس اقتباس سے مندرجہ ذیل امور واضح ہوتے ہیں:
1- پہلی ہی صدی ہجری اسلام جنوبی ہند بالخصوص مالیبار اور مغربی سواحل میں پھیل گيا تھا۔ ان علاقوں کے ہزارہا غیر مسلم مسلمان ہو چکے تھے اور راجہ بھی مسلمان ہو گيا تھا۔
2- اشاعت اسلام کی اصل وجوہات تین تھیں:
(1) عقیدہ توحید الہی کی سادگی۔ (2) ذات پات اور چھوت چھات کو خلاف انسانیت قرار دینا۔ (3) مسلمانوں کے اعمال و اخلاق کی پاکیزگی اور شائستگی۔
گویا ہندوستان میں اشاعت اسلام کا اصل سبب اولیاء اللہ یا صوفیاء کی مزعومہ کرامات نہیں بلکہ درج بالا وجوہات تھیں۔
اب اس پہلی صدی ہجری میں برصغیر پاک و ہند میں جن جن مقامات پر اشاعت اسلام ہوئی اس کی مزید تفصیل درج ذیل اقتباس میں ملاحظہ فرمائيے:
"برصغیر پاک و ہند میں عربوں کے تجارتی مراکز میں سراندیپ، مالدیپ، مالیبار، کارومنڈل، گجرات اور سندھ قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ جنوبی ہند اور ساحلی علاقوں میں بھی جابجا عرب تاجروں کی نو آبادیت موجود تھیں۔ جہاں عراق اور عرب کے تاجر موجود تھے۔ ظہور اسلام کے بعد عربوں کی سیاسی، مجلسی اور اقتصادی سرگرمیاں تیز تر ہو گئیں۔ اب وہ تبلیغ اسلام کے شوق سے سرشار، اخلاق و اطوار کے لحاظ سے بلند معیار کے حامل اور صداقت و دیانت کے پیکر تھے۔ ان میں سے اکثر نے برصغیر میں ہی رہائش اختیار کر لی۔ آہستہ آہستہ جنوبی ہند کے اکثر مقامات پر مسلمانوں کی نو آبادیت قائم ہو گئيں۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو مشرف بہ اسلام کرنا شروع کر دیا۔ مقامی راجاؤں سے مسلمان تاجروں کے تعلقات نہایت خوشگوار تھے اور انہیں تبلیغ اسلام اور عبادت کی پوری آزادی حاصل تھی" (تاریخ پاک و ہند ص: 17،18)
اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ:
پہلی صدی ہجری میں اسلام صرف مالیبار اور مغربی سواحل پر ہی نہیں پھیلا بلکہ جزائر سراندیپ، مالدیپ اور علاقہ ہائے کارمنڈل، گجرات اور سندھ میں اسلام کی اشاعت ہو چکی تھی۔ ان مقامات پر مسلمان عربوں کی نو آبادیات بھی قائم تھیں اور بہت سے عرب مسلمان مستقلاً یہاں قیام پذیر ہو کر اسلام کی تبلیغ اور اشاعت میں منہمک ہو گئے تھے۔
برصغیر میں اشاعت اسلام کے سلسلہ میں یہ کچھ تو نجی سطح پر ہوا- اب جو کجھ سرکاری سطح پر ہوا اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
1۔ دور فاروقی۔۔۔۔۔ میں بحرین و عمان کے حاکم عثمان بن ابوالعاص ثقفی نے 636ء-637ء میں (وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف چار سال بعد) ایک فوجی مہم تھانہ نزد بمبئی میں بھیجی۔ پھر اس مہم کی اطلاع حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دی۔ آپ ناراض ہوئے اور لکھا کہ "تم نے میری اجازت کے بغیر سواحل ہند پر فوج بھیجی۔ اگر ہمارے آدمی وہاں مارے جاتے تو میں تمہارے قبیلہ کے اتنے ہی آدمی قتل کر ڈالتا۔" (تاریخ پاک و ہند ص: 18)
2۔ عہد عثمانی۔۔۔۔۔ میں عراق کے حاکم عبد اللہ بن عامر نے حکیم بن جبلہ کو برصغیر کے سرحدی حالات کی تحقیق پر مامور کیا۔ واپسی پر انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی رپورٹ میں بتلایا کہ "وہاں پانی کمیاب ہے پھل نکمے ہیں ڈاکو بہت دلیر ہیں اگر قلیل التعداد فوج بھیجی تو ہلاک ہو جائے گی اور اگر زیادہ لشکر بھیجا گیا، تو بھوکوں مرجائے گا" اس رپورٹ کی بناء پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مہم بھیجنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ (تاریخ پاک وہند ص: 19)
3۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں مشہور سپہ سالار مہلب بن ابی صفرہ نے برصغیر کی سرحد پر حملہ کیا اور لاہور تک بڑھ آیا۔ انہی ایام میں خلیفہ اسلام نے ایک اور سپہ سالار عبد اللہ بن سوار عبدی کو سواحل برصغیر کے سرکش لوگوں کی گو شمالی کے لیے چار ہزار کی عسکری جمیعت کے ساتھ بھیجا۔ اُس نے قیقان کے باشندوں کو سخت شکست دی اور مال غنیمت لے کر واپس چلا گیا۔ اس نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں قیقانی گھوڑے پیش کیے، لیکن کچھ مدت بعد عبد اللہ بن سوار قیقان واپس آ گیا، جہاں ترکوں نے یورش کرکے اسے قتل کر دیا۔ (تاریخ پاک وہند ص:19)
4۔ بعد ازاں 712ء یعنی 93ھ میں ولید بن عبد المالک کے زمانہ میں وہ واقعہ پیش آیا جس نے برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں بڑا موثر کردار ادا کیا یعنی محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے اس سال سندھ کے سارے علاقہ کو فتح کر لیا۔ اس حملہ کے اسباب اور محرکات ہمارے موضوع سے خارج ہیں۔ ہم تو یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس مہم میں محمد بن قاسم نے دیبل، نیرون، سیوستان، سیسم، رادڑ، برہمن آباد، اوور، باتیہ (موجودہ بہاولپور کے قرب و جوار میں موجود تھا) اور ملتان کو فتح کر لیا اور قنوج کی تسخیر کا ارادہ کر رہا تھا کہ اسے واپس بلا لیا گیا۔
محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے جانے کے بعد فتوحات کا سلسلہ اچانک رک گیا۔ بہرحال عرب سندھ و ملتان پر 200 سال سے زیادہ عرصہ تک (یعنی دسویں صدی عیسوی تک) قابض رہے۔ چوتھی صدی ہجری تک خلیفۃ المسلمین والیان سندھ کا تقرر کرتا رہا۔ اس کے بعد سندھ میں عربوں کی دو نیم آزاد ریاستیں قائم ہو گئیں۔ ان میں سے ایک ملتان اور دوسری منصورہ تھی۔ (تاریخ پاک و ہند ص: 35)
محمد بن قاسم کی ان فتوحات نے اشاعت اسلام کے سلسلہ میں کیا کردار ادا کیا؟ وہ پروفیسر عبدالقادر و شجاع الدین کی زبان سے سنیے:
"فتح سندھ کے بعد بے شمار علماء، مبلغین، تاجر اور صناع عرب سے آکر سندھ میں آباد ہوئے۔ مقامی باشندوں میں اسلام رائج ہوا اور یہ سرزمین فرزندان توحید کا گہوارہ بن گئی۔ آج سندھ اسی طرح اسلامی خطہ ہے جس طرح عراق اور مصر۔ ہم عربوں کی فتح سندھ کی عظمت، اس کی تاریخی اہمیت اور اس کے نتائج کے منکر نہیں ہو سکتے" (تاریخ پاک وہند ص: 40)
5۔ 976ء (چوتھی صدی ہجری) میں سبکتگین غزنوی نے پشاور کے قریب جے پال کو شکست دے کر لمغان (جلال آباد) سے دريائے سندھ تک کے تمام علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ان لڑائیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ برصغیر کی عسکری کمزوری مسلمانوں پر عیاں ہو گئی اور سندھ پار کے علاقے میں ایک طاقتور اسلامی حکومت قائم ہو گئی جو بعد ازاں پنجاب اور برصغیر کے دوسرے حصوں پر چھا گئی۔ نیز برصغیر کی فتح کے دروازے کھل گئے۔
سبکتگین کے عہد کا دوسرا اہم واقعہ افغان قوم کے معرض وجود میں آنے کا ہے۔ افغان پشاور اور غزنی کے درمیانی علاقہ کے باشندے تھے اور متعدد قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔ سبکتگین نے ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ان سے دوستانہ مراسم استوار کیے اور وہ تمام علاقے جو ان کے قبضے میں تھے ان کے سپرد کر دیئے۔ نتیجۃً افغان قوم کی بنیاد پڑی۔ نیز یہ قبائل نہ صرف حلقہ بگوش اسلام ہوئے بلکہ سلاطین غزنہ کی افواج میں بھرتی بھی ہو گئے۔ (تاریخ پاک وہند ص:64)
6۔ سبکتگین کے بعد سلطان محمود غونوی (997 تا 1030ء) کا دور آتا ہے جس نے پہلا حملہ 1001ء میں برصغیر پر کرکے درّہ خیبر کے نواحی علاقوں کی تسخیر کی۔ اس نے کل 17 حملے برصغیر پر کیے تھے۔ آخری حملہ 1025ء میں کیا جس میں سومنات کو فتح کیا۔ اس دوراں محمود غزنوی رحمہ اللہ نے برصغیر کے جن علاقوں کو فتح کیا ان کے نام یہ ہیں:
درہ خیبر اور اس کے نواحی علاقے، ملتان (یہاں کا حاکم شیخ حمید بوی مسلمان تھا، لیکن محمود غونوی کی مخالفت اور بھرہ کے راجہ بجے رائے کا حلیف تھا) پنجاب، کانگڑہ، نگر کوٹ، تھانیسر، نندنہ، کشمیر، قنوج، کالنجر، گوالیار اور سومنات۔
فتح سومنات کے متعلق ابن اثیر، ابن خلدون اور تاریخ فرشتہ کا بیان ہے کہ:
"جب محمود نے برصغیر پاک و ہند کے مختلف راجگان کو شکست دی اور ہندوؤں کے متعدد مندر اس کے ہاتھوں تاخت و تاراج ہوئے، تو ہندوؤں نے کہنا شروع کر دیا کہ جن دیوتاؤں کے مندر برباد ہوئے ہیں ان سے شوجی (سومنات کا بڑا دیوتا) ناراض تھے۔ اگر محمود نے سومنات پر حملہ کیا، تو منہ کی کھائے گا۔ چنانچہ محمود نے ہندوؤں کے اس خیال کو باطل ثابت کرنے کے لیے اور بتوں کی جھوٹی عظمت کو ختم کرنے کے لیے سومنات پر حملہ آور ہونے کا عزم صمیم کیا۔ تاکہ لوگوں پر بتوں کی بے بسی اور بے ثباتی واضح ہو جائے اور لوگ بت پرستی اور شرک کو ترک کر دیں۔ پھر جب محمود نے سومنات کو بھی فتح کر لیا۔ تو اس فتح کی خبر نے عالم اسلام میں مسرت کی لہر دوڑا دی۔ اور خلیفہ بغداد نے خوش ہو کر سلطان محمود، اس کے بیٹوں اور بھائی کو خطابت اور اعزازات سے نوازا۔ سومنات کا بت تباہ و برباد ہو گیا، لیکن سلطان محمود کے نام کو شہرت و دوام حاصل ہو گئی۔" (تاریخ پاک وہند ص: 60،61)
سلطان محمود غونوی (م 1030ء) کے بعد اُس کے جانشین مزید 150 سال یعنی 1186ء تک ان علاقوں پر قابص رہے۔
7- غزنی خاندان کے بعد خاندان غور ہند پر قابض ہوتا ہے۔ سلطان شھاب الدین محمد غوری نے سب سے پہلے حملہ 1175ء میں ملتان کو فتح کیا۔ جس پر غزنویوں کے بعد دوبارہ قرامطی برسر اقتدار آ گئے تھے۔ محمد غوری نے بھی ہندوستان کے بہت سے علاقوں کو فتح کیا۔ پھر غوریوں کے بعد ہندوستان میں خاندان غلاماں خلجی، تغلق، سادات اور لودھی برسر اقتدار آئے پھر 1526ء میں بابر نے ہندوستان میں مغلیہ خاندان کی بنیاد رکھی اور یہ مغلیہ خاندان 1857ء تک برصغیر پاک وہند میں برسر اقتدار رہا-
یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جن سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ 712ء یا 93ھ سے لےکر 1857ء تک کوئی ایسا وقت نہیں گزرا جب کہ برصغیر کے کسی نہ کسی حصے پر مسلمانوں کی حکومت موجود نہ رہی ہو۔ اب صوفیاء کی طرف سے دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ پہلے صوفیاء ہندوستان گئے۔ انہوں نے وہاں اشاعت اسلام کا فریضہ انجام دیا اور مسلمان حکمرانوں کے حملہ اور فتح کے لیے زمین ہموار کرتے رہے۔ لیکن تاریخی حقائق کی روشنی میں صوفیاء کے اس مزعومہ دعوے کو کیوں کر باور کیا جا سکتا ہے جبکہ صوفی تو پیداوار ہی تیسری صدی ہجری کی ہیں اور پہلے صوفی جو ہندوستان تشریف لائے وہ اسماعیل بخاری ہیں جو 1005ء (395 ھ) میں محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان تشریف لاتے ہیں جبکہ مسلمان حکمرانوں کا 712ء (93ھ) سے لے کر 1857ء تک ایسا تسلسل قائم رہا ہے کہ اس میں ایک دن کا بھی انقطاع واقع نہیں ہوا۔
زیادہ سے زیادہ جو چيز باور کی جا سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ محمود غزنوی چونکہ خود بھی صوفی منش اور صوفیاء کا قدردان تھا۔ اس لیے اس نے یہ تحریک پیدا کی کہ دوسرے علمائے دین کے ساتھ صوفیاء بھی اس سرزمین پر تشریف لائيں اور مفتوحہ علاقوں میں اشاعت اسلام کا فریضہ سر انجام دیں۔ چنانچہ پہلے صوفی جن کا نام تذکروں میں ملتا ہے وہ اسماعیل بخاری ہیں جنہیں 1005ء میں اپنے ساتھ لایا تھا۔ حالانکہ وہ خود 1001ء سے ہندوستان پر حملے کر رہا تھا۔
اس مضمون کی پروف ریڈنگ بتاریخ 08.04.2023 کو کی گئی ہے۔ منجانب۔ نعیم یونس
بحوالہ
http://www.deenekhalis.net/play.php?catsmktba=229
Last edited by a moderator: