سلام !
i) یہ قول اکثر سنا ہے کہ ضعیف حدیث فضائل کے باب میں معتبر ہوتی ہے
وعلیکم السلام!
کچھ اور اقوال بھی پیش خدمت ہیں۔
حدیث کے معاملے میں چھان بین اور احتیاط
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ"[النحل 44:16 ]
" اور ہم نے آپ کی طرف ذکر "قرآن مجید" نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کے لیے بیان کریں جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا ہے تا کہ وہ غوروفکر کریں۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الا انی اُوتیتُ الکتابَ وَ مِثلہُ معہُ"
"یاد رکھو! مجھے قرآن مجید اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز "حدیث" دی گئی ہے۔"
{[صحیح] سنن ابی داود، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، حدیث:4604 ، و سندہ صحیح، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث:97 میں اسے صحیح کہا ہے۔}
جس طرح اللہ تعالٰی نے اپنی اطاعت کو فرض کیا ہے، اسی طرح اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی فرض قرار دی ہے۔ فرمایا:
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ "[محمد 33:47 ]
"اے اہل ایمان! اللہ کی اطاعت کرو اور "اسکے" رسول کی اطاعت کرو۔ اور "اس اطاعت سے ہٹ کر" اپنے اعمال باطل نہ کرو۔"
معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی طرح حدیث نبوی بھی شرعی دلیل اور حجت ہے مگر حدیث سے دلیل لینے سے قبل اس بات کا علم ضروری ہے کہ آیا وہ حدیث، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے یا نہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یَکُونُ فی آخر الزمَان دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ یاتُونَکم منَ الاحَادیثِ بِمَا لم تسمعوا انتم ولا آباوکم فایاکم وایاکم وایاھم لا یُضلونَکم وَلا یفتنونکُمْ"
[صحیح مسلم، المقدمہ، باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحملھا، حدیث:7 ]
"آخری زمانے میں دجال اور کذاب ہوں گے، وہ تمھیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنھیں تم نے اور تمھارے آباء و اجداد نے نہیں سنا ہوگا، لہذا ان سے اپنے آپ کو بچانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمھیں گمراہ کردیں اور فتنے میں ڈال دیں۔"
مزید فرمایا:
"مَنْ کَذَبَ علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار"
[صحیح البخاری، العلم، باب اثم من کذاب علی النبی، حدیث:110,108,107 ]
"جو شخص مجھ پر عمدا جھوٹ بولے تو وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع"
[ صحیح مسلم، المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع، حدیث:5 ، ترقیم دارالسلام۔]
آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کردے۔"
ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جس نے مجھ سے ایسی کوئی حدیث بیان کی جسے وہ جانتا ہے کہ جھوٹ ہے تو یہ شخص جھوٹوں میں سے ایک ہے" اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث بیان کرتا ہے جس بارے میں اسے شک ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا صحیح نہیں تو یہ شخص جھوٹوں میں سے ایک ہے۔"
[اطراف الغرائب والافراد للدارقطنی، تالیف محمد بن طاہر المقدسی:22/1 ، و سندہ صحیح۔]
متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہ ثابت ہے کہ وہ حدیث بیان کرنے میں انتہائی احتیاط برتتے تھے۔
حافظ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
" صحابہ رضی اللہ عنھم کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے سے مخص اس لیے گریز کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حدیث بیان کرنے میں غلطی، زیادتی یا کمی ہوجائے اور وہ آپ کے اس فرمان " جو شخص مجھ پر عمدا جھوٹ بولتا ہے، اس کا ٹھکانا آگ ہے" کے مصداق قرار پائیں۔"
[الکامل لابن عدی: 80/1 ۔]
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جو شخص حدیث کے ضعیف راوی کا ضعف جاننے کے باوجود ضعف بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گناہ گار ہے اور عوام الناس کو دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث یا ان میں سے اکثر اکاذیب "جھوٹ" ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پھر بہت سے لوگ علم ہوجانے کے باوجود عمدا ضعیف اور مجہول اسناد والی احادیث محض اس لیے بیان کرتے ہیں کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ "اس کے پاس بہت احادیث ہیں اور اس نے بہت کتابیں تالیف کردی ہیں"۔ جو شخص علم کے معاملے میں اس روش کو اختیار کرتا ہے۔ اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں اور اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔"
[صحیح مسلم، المقدمہ، باب بیان ان الاسناد من الدین کے آخری الفاظ]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے کسی عمل کا واجب یا مستحب ہونا ثابت ہوسکتا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے، اس نے اجماع کی مخالفت کی۔"
[التوسل والوسیلۃ، ص:95 ۔]
جمال الدین قاسمی فرماتے ہیں کہ یحٰیی بن معین، ابن حزم اور ابوبکر ابن العربی رحمۃ اللہ علیھم کے نزدیک فضائل اعمال میں بھی صرف مقبول احادیث ہی قابل استدلال ہیں۔
[قواعد التحدیث، ذکر المذاھب فی الاخذ بالضعیف۔۔۔۔، ص:113 ۔]
شیخ احمد شاکر، شیخ البانی اور شیخ محمد محیی الدین عبدالحمید اور دیگر محقیقین کا بھی یہی موقف ہے۔
یاد رہے کہ ضعیف حدیث (جسے مسلکی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصول حدیث کی روشنی میں خالص فنی بنیادوں پر دلیل کے ساتھ ضعیف قرار دیا جائے) سے استدلال کے ضمن میں محدثین کرام کے مختلف اقوال ہیں، مثلا:
1- اگر عمل قوی دلائل سے ثابت ہے اور ضعیف حدیث میں صرف اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے تو لوگوں کو اس عمل کی ترغیب دینے کے لیے اس ضعیف حدیث کو بیان کرنا جائز ہے۔
2-کسی مسئلے کے متعلق قرآن مجید اور مقبول احادیث مکمل طور پر خاموش ہوں، صرف بعض ضعیف روایات سے کچھ راہنمائی ملتی ہو تو اس مسئلے میں کسی امام کے قول پر عمل کرنے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ اس ضعیف حدیث پر عمل کر لیا جائے۔ مگر دونوں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ صرف وہی ضعیف حدیث بیان کی جائے گی جس کا ضعف معمولی ہو، نیز اس کے ضعیف ہونے کی صراحت کی جائے گی۔
3-تیسری رائے یہ ہے کہ اگر ضعیف حدیث کی تائید میں دیگر قوی دلائل موجود ہوں تو پھر اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
4-چوتھا قول یہ ہے کہ ضعیف حدیث کے بیان کا دروازہ نہ کھولا جائے کیونکہ:
- کسی عمل کی جس فضیلت کو بیان کیا جائے گا، سننے والا اس فضیلت کی سچائی پر ایمان لائے گا "تبھی اس عمل کو بجا لائے گا" اور اسی بات کا نام عقیدہ ہے اور عقائد میں ضعیف حدیث سے استدلال بالاتفاق ناجائز ہے۔
- تقریبا ہر باطل فرقہ، کتاب و سنت کے فہم میں صحابہ و تابعین کے مجموعی فہم و عمل سے کافی دور ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے خود ساختہ امتیازی مسائل کا دفاع نہیں کرسکتا، اب اگر ضعیف احادیث کے بیان کا دروازہ کھول دیا گیا تو وہ یہ جھوٹا دعوٰی کرے گا کہ "فلاں حدیث اگرچہ ضعیف ہے مگر اس کی تائید فلاں آیت کریمہ یا مقبول حدیث سے ہورہی ہے، لہذا یہ حدیث ضعیف کے باوجود قابل استدلال ہے۔" حالانکہ فہم سلف کے مطابق اس فلاں آیت یا مقبول حدیث سے اس ضعیف حدیث کی قطعا تائید نہیں ہوتی۔
- آج کل عملا جو کچھ ہورہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ مفاد پرست علمائے سوء صرف فضائل ہی نہیں بلکہ عقائد و اعمال کو بھی مردود بلکہ موضوع روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ "اول تو یہ احادیث بالکل صحیح ہیں اور اگر کوئی حدیث ضعیف ہوئی تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بالاتفاق قابل قبول ہوتی ہے۔"
- اس میں شک نہیں کہ دین محمدی کا اصل محافظ اللہ تعالی ہے، لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ دین الہی کی کوئی بات مروی نہ ہو یا مروی تو ہو مگر اس کی تمام روایات ضعیف ہوں، اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ایک چیز دین الہی نہ ہو مگر مقبول احادیث کے ذخیرے میں موجود ہو، دوسرے الفاظ میں جو اصل دین ہے وہ مقبول روایات میں موجود ہے اور جو دین نہیں ہے اس روایت پر موثر جرح موجود ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر بہتر یہی ہے کہ ضعیف حدیث سے استدلال کا دروازہ بند ہی رہنے دیا جائے۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: ریاض الصالحین اردو" طبیع دارالسلام فوائد حدیث:1381
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"محقیقین، محدثین اور ائمہ رحمۃ اللہ علیھم کا کہنا ہے کہ جب حدیث ضعیف ہو تو اس کے بارے میں یوں نہیں کہنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا آپ نے کیا ہے۔ یا آپ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ یا منع کیا ہے۔ یہ اس لیے کی جزم کے صیغے روایت کی صحت کا تقاضا کرتے ہیں، لہذا ان کا اطلاق اسی روایت پر کیا جانا چاہیے جو ثابت ہو ورنہ وہ انسان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کے مانند ہوگا مگر "افسوس کہ" اس اصول کو جمہور فقہاء اور دیگر اہل علم نے ملحوظ نہیں رکھا، سوائے محقیقین محدثین کے اور یہ قبیح قسم کا تساہل ہے کیونکہ وہ "علماء" بہت سی صحیح روایات کے بارے میں صیغہ تمریض کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی۔ اور بہت سی ضعیف روایات کے بارے میں صیغہ جزم کے ساتھ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ یا اسے فلاں نے روایت کیا ہے۔ اور یہ صحیح طریقے سے ہٹ جانا ہے۔"
[مقدمۃ المجموع:63/1 ]
معلوم ہوا کہ صحیح اور ضعیف روایات کی پہچان اور ان میں تمیز کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غیر ثابت شدہ حدیث کی نسبت کرنے سے بچا جاسکے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ولا فرق فی العمل بالحدیث فی الاحکام او فی الفضائل اذ الکل شرع۔ "احکام ہوں یا فضائل، حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ سب شریعت میں سے ہیں۔"
[تبیین العجب بما ورد فی فضائل رجب، ص:73 ]