محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
طاغوت سے فیصلے کرانا یعنی غیر اللہ کے احکام کو تسلیم کرنا طاغوت پر ایمان ہے
تاریخ سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جب تاتاری یا سق کے مطابق حکومت کر رہے تھے اس وقت بھی امت مسلمہ اللہ عزوجل کی شریعت کے مطابق حکومت کر رہی تھی اس دور کے مسلمانوں نے ہمارے لئے توحید پر ثابت قدم رہنے کی عمدہ مثالیں چھوڑی ہیں وہ اس طرح کہ علماء اسلام نے تاتاریوں کی بنائی ہوئی شریعت کو ان مختلف طریقوں سے بے اثر بنا کر چھوڑا ۔
1۔ اس شریعت کے بنانے اور نافذ کرنے والوں کو کافر قرار دیدیا ۔
2۔ اس شریعت کے پاس اپنے فیصلے لیکر نہیں گئے ۔
3۔ ان کی شریعت کو نہ پڑھا نہ اس پر عمل کیا اپنے فیصلوں اور دیگر معاملات میں جیسا کہ فتاوی ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن کثیر رحمہ اللہ کی البدایہ والنہایہ اور تفسیر ابن کثیر میں اسکا ذکر موجود ہے اس طرح ان علماء نے اس خود ساختہ شریعت کے اثرات کو زائل کیا اور اسے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا(ان حق پرست علماء نے اس پر خطر دور میں بھی ان ظالموں کی شریعت کو نہیں اپنایا بلکہ اسلامی شریعت پر کار بند رہے)مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ موجودہ دور میں (اسلامی ممالک میں بھی )طاغوتی خود ساختہ قوانین کی حکمرانی ہے اگرچہ کچھ دینی جماعتیں اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کررہی ہیں مگر انہی جماعتوں کے کچھ افراد ان طاغوتی قوانین کو پڑھتے ہیں لاء کالجز میں داخلے لیتے ہیں وہاں کی ڈگریاں حاصل کرکے انہی طاغوتی عدالتوں میں وکیل اور جج بن کر خدمات انجام دے رہے ہیں یہ واضح تضاد ہے مسلمانوں کے کردار میں کہ ایک طرف غیر اسلامی قوانین کے خاتمے کے مطالبے کرتے ہیں اور دوسری طرف انہی قوانین کو اپنا رہے ہیں ان کی ترویج و اشاعت کاسبب بن رہے ہیں یہ تو وکلاء اور ججوں کی بات ہے جہاں تک مسلمان عوام کی بات ہے وہ بھی اس طاغوتی نظام سے اپنے فیصلے کرانے اس کے پاس اپنے مقدمات لیجانے میں پیش پیش ہیں مسلمانوں کایہ طرز عمل عقیدۂ لا الٰہ الا اللہ کے لئے بہت ہی نقصان دہ ہے جب کچھ مسلمانوں کایہ نظریہ ہے کہ جب انسان کا عقیدہ ہوکہ حکم صرف اللہ کا ہی ہے مگر فیصلے شریعت کے علاوہ کسی اور قانون کے مطابق کرے یا کروائے تو ایسا انسان مسلمان تو ہے مگر نافرمان شمار ہوگا یہ بات کہکر گویا یہ لوگ توحید ربوبیت کا تواقرار کررہے ہیں یعنی اللہ کو اس کے افعال میں اکیلا مان رہے ہیں کہ اس کو ہی حاکم تسلیم کررہے ہیں مگر توحید الوہیت کو مسلمان ہونے کے لئے شرط نہیں مان رہے (حالانکہ توحید ربوبیت کے ساتھ توحید الوہیت بھی مسلمان ہونے کے لئے شرط ہے(توحید الوہیت یہ ہے کہ بندہ اپنے عبادت کے امور صرف ایک اللہ کے لئے خاص کرے ان میں سے کوئی بھی عمل غیر اللہ کے لئے نہ ہو ان عبادتی امور میں تحاکم بھی شامل ہے ۔یعنی قانون کا نفاذ اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا کرانا یہ بھی اللہ کے حکم کے بغیر نہیں ہونا چاہیئے ورنہ شرک فی الالوہیت شمار ہوگا)۔
طاغوت سے فیصلے کرانا یعنی غیر اللہ کے احکام کو تسلیم کرنا طاغوت پر ایمان ہے شرک ہے اور اللہ کا انکار ہے جس طرح مردوں سے دعائیں مانگنا، غیر اللہ کے لئے ذبح کرنا،نذر و نیاز کرنا یہ سب برابر ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہے (جو لوگ طاغوتی احکام کو مانتے ہیں ان کے مطابق فیصلے کرتے کراتے ہیں وہ لوگ دراصل )انبیاء کرام کے منہج اور طریقے کی مخالفت کررہے ہیں اس لئے کہ یہ لوگ انبیاء کی لائی ہوئی توحید ربوبیت کو تو مانتے ہیں مگر انہی کی لائی ہوئی توحید الوہیت کو عملاً ترک کر چکے ہیں جبکہ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ توحید ربوبیت و الوہیت دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں اب جو شخص اللہ تعالی کو ربوبیت میں اکیلا تسلیم کرتاہو مگر الوہیت میں نہ کرے تو یہ شخص مسلمان نہیں ہے بہت سی آیات ہماری اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔