القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاۃ۔
شیخ امین اللہ حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا :
طاغوتی حکومت کے تحت جہادکے بارے میں سوال ہوا مجاہدین فی سبیل اللہ قتال کرتے ہیں جبکہ طاغوت صرف اپنی حکومتوں کی حفاظت کےلئے قتال کرتے ہیں ان کا مقصد اسلام نہیں ہوتا توکیا یہ جہاد صحیح ہے ؟
الجواب :
اللہ تعالی ہماری یہ کاوش قبول فرمائے اور افراط و تفریط کا شکار لوگوں کے لئے باعث اصلاح بنائے۔ آمینہمارے پیش آمدہ مسائل میں سے ایک معرکۃ الاراءمسئلہ یہ ہے کہ ،
کیاکفریہ اداروں یا طاغوت کے تعاون سے ہونے والا جہاد شرعی جہاد ہےیا غیر شرعی جہاد ؟ہم اس سوال کا تفصیلی جواب معروف عالم دین فضیلۃ الشیخ ابو محمد امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے قلم سے تحریر شدہ ان کے مطبوع فتاویٰ [الدین الخالص]میں سے نقل کررہے ہیں ۔
شیخ امین اللہ حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا :
طاغوتی حکومت کے تحت جہادکے بارے میں سوال ہوا مجاہدین فی سبیل اللہ قتال کرتے ہیں جبکہ طاغوت صرف اپنی حکومتوں کی حفاظت کےلئے قتال کرتے ہیں ان کا مقصد اسلام نہیں ہوتا توکیا یہ جہاد صحیح ہے ؟
الجواب :
الحمدللہ : طاغوت کے راستے میں اور طاغوت کی مدد کےلئے اور اللہ کے بندوں اور شہروں پر طاغوت کو مسلط کرنے کے لئے کیا جانے والے قتال کا حکم توشریعت اسلامیہ سے واضح معلوم ہے کہ وہ شرعی جہاد نہیں اور نہ ہی مسلمان کےلئے لائق ہے کہ وہ اپنی قیمتی جان ایسے قتال میں خرچ کرے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
اور نبیﷺ نے فرمایا :﴿الذين آمنوا يقاتلون في سبيل الله والذين كفروا يقاتلون في سبيل الطاغوت ﴾(النساء:76)
’’ایمان والے اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں اور کافر لوگ طاغوت کے راستے میں قتال کرتے ہیں ‘‘
جو شخص اللہ کے راستے میں قتال کرتا ہے اور اس کا مقصد اسلام کی مدد اور اعلاءکلمۃ اللہ عزوجلّ ہواور وہ حربی کفار سے قتال کرتا ہے لیکن اس کے جہادمیں بعض اوقات طواغیت یا ایسی حکومتیں جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتیں، وہ فائدہ اٹھاتی ہیں تو یہ فائدہ ضمنی ہوتا ہے ،جو مجاہدین کا مقصد نہیں ہوتا لہذا یہ جہاد کے مانع نہیں ہے۔جو شخص اندھے جھنڈے کے تلے لڑے گا (جس لڑائی کی درستگی شریعت سے صاف نہ ہو )غصہ ہو قو م کے لحاظ سے یا بلاتا ہو قوم کی طرف یامدد کرتا ہو قوم کی (اور خدا کی رضا مندی مقصود نہ ہو)پھر مارا جائے تو اس کا مارا جانا جاہلیت کے زمانے کا سا ہو گا ۔(صحیح مسلم کتاب الامارۃباب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظھور الفتن)
کیونکہ عموماً جو بھی جہاد فی سبیل اللہ ہوتا اس سے بعض کفار ومنافقین فائدہ اٹھاتے ہیں، جس طرح کہ صحابہ کرام کا فارس سے قتال کرنا رومیوں کے لئے فائدہ مند تھا اور ان کا اہل مکہ سے قتال کرنے سے اہل خزاعہ نے فائدہ اٹھایا ہے اور مجاہدین کا روسیوں کے خلاف قتال کرنا امریکہ وغیرہ کفار سلطنتوں کے لئے فائدہ مند تھا اور آج کل مجاہدین کا امریکہ کے خلاف قتال کرنا پاکستان اور چین وغیرہ ملکوں کے لئے مفید ہے
یہ چیزیں ان شاءاللہ شرعی جہاد پر اثرانداز نہیں ہوتیں۔ لہذا افواہیں پھیلانے والوں کی یہ افواہیں آپ کو پریشان نہ کریں کہ مجاہدین کا امریکہ کے خلاف جہاد چین ودیگر منافقین کےلئے مفید ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں بلکہ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ مشرکین ،منافقین اور طواغیت سے ضرورت کے تحت مدد لیناجائز ہے جبکہ وہ مجاہدین پر خلاف شریعت شرائط عائد نہ کریں جیسا کہ ہم نے بالتفصیل ج:8،ص:9،رقم:1538،کے تحت بیان کر دیاہے ۔
*اور یہ بات ثابت ہے کہ نبیﷺ اہل طائف سے مدد طلب کی لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا ،آپﷺ کی بات نہ مانی ،آپ ﷺ نے ان سے پناہ مانگی لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا، پھر آپ ﷺ عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ لی اور انہوں نے آپﷺکے پاس انگور بھیجے ،آپ ﷺ نے وہ کھائے پھر آپ ﷺ نے اخنس بن شریق سے پناہ مانگی اس نے بھی نہ دی، پھر مطعم بن عدی سے پناہ مانگی تو اس نے آپ ﷺ کو پناہ دے دی اور مطعم نے اپنی اولاد سمیت ہتھیار پہن لیے اور نبی ﷺ کے گرد حصار بنالیا اور اہل مکہ سے آپ ﷺ کی حفاظت کی اورابو جہل نے مطعم کو کہا :
مطعم نے کہا:تو پناہ دینے والا ہے یا پیروکار ؟
اور نبی ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے بارے فرمایا تھا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان بدبودار لاشوں کے بارے میں کلام کرتا تو میں اس کی وجہ سے ان کو چھوڑ دیتا ،اس کے احسان معاملہ کی وجہ سے ۔پناہ دینے والا ہوں۔
*اور الرحیق المختوم میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہجرت میں ایک رہنما (گائیڈ)مزدوری پر لیا جو بنو دائل قبیلے سے تھا اور مشرک تھا ۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
*اور یہ بات گزر چکی ہے کہ فرمان نے احد کے دن مسلمانوں کی جانب سے قتال کیا تھا اور آٹھ مشرکین کو قتل کیا پھر وہ زخمی ہوگیا اور اس کو اس کے محلے بنی ظفر میں پہنچادیا گیا مسلمانوں نے اس کو خوشخبری دی تواس نے کہا میں تو قوم کی عزت کی وجہ سے لڑا ہو اگرایسا نہ ہوتا تو میں اللہ کے راستے میں قتال نہ کرتا پھر اس نے خود کشی کر لی توآپ ﷺ نے فرمایا یہ اہل نار(جہنمیوں ) میں سے ہے جیساکہ ذاد المعادمیں 2/97،اور الرحیق المختوم میں ص:439،اور ابن ہشام میں 2/88،ہے ۔﴿لَّا يَنۡهَٮٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمۡ يُقَـٰتِلُوكُمۡ فِى ٱلدِّينِ وَلَمۡ يُخۡرِجُوكُم مِّن دِيَـٰرِكُمۡ أَن تَبَرُّوهُمۡ وَتُقۡسِطُوٓاْ إِلَيۡہِمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُقۡسِطِينَ﴾ ﴿ إِنَّمَا يَنۡہَٮٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ قَـٰتَلُوكُمۡ فِى ٱلدِّينِ وَأَخۡرَجُوڪُم مِّن دِيَـارِكُمۡ وَظَـٰهَرُواْ عَلَىٰٓ إِخۡرَاجِكُمۡ أَن تَوَلَّوۡهُمۡۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمۡ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ﴾ (الممتحنۃ:8-9)
’’اللہ تمہیں ان لوگوں سے دوستی سے منع نہیں کرتا، جنہوں نے نہ تم سے جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھر وں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو یقیناًاللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ اور اللہ تو تمہیں انہی لوگوں سے دوستی سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالااور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔‘‘
*اور یہ بات بھی گزر چکی ہے کہ مخیریق یہودی بذات خود آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوا تونبی ﷺ نے فرمایا مخیریق بہترین یہودی تھا
* اور ابو طالب نے تقریباً45سال آپ ﷺ کی حفاظت کی۔
*اور ابن دغنہ نے ابو بکر کو پناہ دی ۔
*اور عاص بن وائل نے عمر بن خطاب کو پناہ دی۔
*اور مشرکین نے نبی ﷺ سے مقاطعہ کا صحیفہ لکھا تھا اس کو مطعم بن عدی ،ابو البختری اور زھیر ہشام اور زمعہ بن اسود نے چاک کیاتھا ۔
نبیﷺ نے فرمایااوراس حدیث کو علماء محدثین نے کتاب الجہاد میں بیان کیا ہے :
اور بعض نے کہا ہے کہ جس طرح آج کل طاغوتی حکومت کے تحت حج ،عمرہ اور زکوۃ وغیرہ ادا کیے جاتے ہیں اہل علم میں کوئی نہیں کہتا کہ یہ ارکان اسلام جائزنہیں ،اسی طرح جہاد ہے ۔''وان اللہ لیؤید ھذاالدین بالرجل الفاجر.'' (صحیح بخاری' کتاب الجھاد والسیر' باب إن اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر)
’’بے شک ایک فاجر آدمی کے ذریعے بھی اس دین کی مدد کرتاہے ‘‘
اور نبی ﷺ معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوئے حالانکہ اس وقت اس کا سردار ورئیس عبداللہ بن جدعان مشرک تھا۔
توجب اللہ تعالی ٰ نے آپﷺکو نبوت سے مشرّف فرمایا اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا:
اس سے معلوم ہوا کہ ہو وہ جماعت یا حکومت اگرچہ وہ کافر ہو جب وہ ظلم وکفر کے خلاف کھڑی ہو تومسلمانوں کے لئے جائز ہے کہ وہ اس میں شریک ہوں اور اس موقع غنیمت سمجھیں یقیناً معاہدہ حلف الفضول کا محرّک ایک کافر تھا اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ اس میں شریک ہوئے اور نبوت کے بعد آپﷺ اس چیز ے معاہدوں میں شرکت کی طرف رہنمائی فرمائی ،اگر کوئی کافر حکومت امریکہ کے خلاف (جنگ کے لئے)کھڑی ہوجائے توکیا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس کافر کے ساتھ شریک ہوں اور شریعت مطہرہ کی شرائط کے تحت اس ظالم غاصب امریکہ سے قتال کریں ۔مزید تفصیل کے لئے دیکھیے ،رسالہ:طاغوت کے تحت جہاد کی شرعی حیثیت للشیخ محمد ابراہیم السلفی الحافظ رحمۃ اللہ علیہ بڑا مفید رسالہ ہے ۔میں حلف الفضول میں شریک ہوا ،میں نے نہیں پسند کرتا کہ اس کی بجائے میرے لئے سرخ اونٹ ہوتے اور اگر اسلام میں بھی مجھے کسی ایسے معاہدے میں بلایا گیا تو میں ضرور جاؤں گا جیسا کہ سیرت ابن ہشام اور الرحیق المختوم ،ص:78میں ہے۔
(فتاویٰ الدین الخالص،ص:229-231،ج:9)
جزاک اللہ خیرا