- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کا ملک میں سٹریٹیجک لحاظ سے اہم شہر قندوز پر قبضے کے بعد قبضے کو چھڑانے کے لیے افغان سکیورٹی فورسز جوابی حملے کے لیے شہر کے ہوائی اڈے پر جمع ہو رہے ہیں۔
قندوز کی پولیس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ چند ہی گھنٹوں میں طالبان سے قندوز کا قبضہ واپس لینے کے لیے آپریشن کیا جائے گا۔
سینکڑوں طالبان کے حملے کے باعث افغان فوج اور حکام پسپا ہو کر ہوائی اڈے میں جمع ہو گئے ہیں۔
طالبان نے قندوز میں سرکاری عمارتوں کے علاوہ جیل پر بھی حملہ کیا اور سینکڑوں قیدیوں کو رہا کرا لیا۔
یاد رہے کہ قندوز پہلا شہر تھا جو طالبان کے ہاتھوں سے اس وقت گیا جب امریکہ نے ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد افغانستان میں آپریشن شروع کیا۔
بی بی سی کے نامہ نگار داؤد اعظمی کا کہنا ہے کہ اگرچہ 14 سال میں قندوز پر طالبان قبضہ افغان حکومت کے لیے سب سے بڑا دھچکہ ہے تاہم طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج قندوز پر قبضے کو برقرار رکھنا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ طالبان جنگجو ہوائی اڈے کی جانب بھی پیش قدمی کریں گے۔ تاہم مقامی افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی۔
یاد رہے کہ پیر کو سینکڑوں طالبان جنگجوؤں نے ملک میں سٹریٹیجک لحاظ سے اہم شہر قندوز پر کئی اطراف سے حملہ کیا اور شہر کے نصف حصے پر قابض ہوئے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طالبان کے شہر کے مرکزی علاقے میں اپنا پرچم بھی لہرا دیا ہے۔
افغان حکام کے مطابق اب تک لڑائی میں دو افغان فوجی اور 25 شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں جبکہ شہر میں موجود سکیورٹی اہلکاروں کی مدد کے لیے تازہ کمک بھیجی جا رہی ہے۔
قندوز میں پولیس کے ترجمان سید سرور حسینی نے بی بی سی کے محفوظ زبیدی کو بتایا کہ شدت پسندوں نے مقامی جیل پر قبضہ کر کے پانچ سو کے قریب قیدیوں کو رہا کروالیا ہے جن میں متعدد طالبان بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل انھوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ’ شہر کے مرکزی داخلی راستوں خان آباد، چاردرا اور امام شہید پر شدید لڑائی جاری ہیں۔ ہمارے پاس کافی نفری ہے اور ہم انھیں باہر نکال دیں گے۔‘
حوالہ
قندوز کی پولیس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ چند ہی گھنٹوں میں طالبان سے قندوز کا قبضہ واپس لینے کے لیے آپریشن کیا جائے گا۔
سینکڑوں طالبان کے حملے کے باعث افغان فوج اور حکام پسپا ہو کر ہوائی اڈے میں جمع ہو گئے ہیں۔
طالبان نے قندوز میں سرکاری عمارتوں کے علاوہ جیل پر بھی حملہ کیا اور سینکڑوں قیدیوں کو رہا کرا لیا۔
یاد رہے کہ قندوز پہلا شہر تھا جو طالبان کے ہاتھوں سے اس وقت گیا جب امریکہ نے ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد افغانستان میں آپریشن شروع کیا۔
بی بی سی کے نامہ نگار داؤد اعظمی کا کہنا ہے کہ اگرچہ 14 سال میں قندوز پر طالبان قبضہ افغان حکومت کے لیے سب سے بڑا دھچکہ ہے تاہم طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج قندوز پر قبضے کو برقرار رکھنا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ طالبان جنگجو ہوائی اڈے کی جانب بھی پیش قدمی کریں گے۔ تاہم مقامی افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی۔
یاد رہے کہ پیر کو سینکڑوں طالبان جنگجوؤں نے ملک میں سٹریٹیجک لحاظ سے اہم شہر قندوز پر کئی اطراف سے حملہ کیا اور شہر کے نصف حصے پر قابض ہوئے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طالبان کے شہر کے مرکزی علاقے میں اپنا پرچم بھی لہرا دیا ہے۔
افغان حکام کے مطابق اب تک لڑائی میں دو افغان فوجی اور 25 شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں جبکہ شہر میں موجود سکیورٹی اہلکاروں کی مدد کے لیے تازہ کمک بھیجی جا رہی ہے۔
قندوز میں پولیس کے ترجمان سید سرور حسینی نے بی بی سی کے محفوظ زبیدی کو بتایا کہ شدت پسندوں نے مقامی جیل پر قبضہ کر کے پانچ سو کے قریب قیدیوں کو رہا کروالیا ہے جن میں متعدد طالبان بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل انھوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ’ شہر کے مرکزی داخلی راستوں خان آباد، چاردرا اور امام شہید پر شدید لڑائی جاری ہیں۔ ہمارے پاس کافی نفری ہے اور ہم انھیں باہر نکال دیں گے۔‘
حوالہ