ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
طالب دنیا اور طالب آخرت
1 ۔ مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا ﴿١٨﴾
جس کا اراده صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا (18)
وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا ﴿١٩﴾
اور جس کا اراده آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہیئے، وه کرتا بھی ہو اور وه باایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی (19)سورة الإسراء
تفسیر ابن کثیر (رحمہ اللہ) :
''طالب دنیا کی چاہت
کچھ ضروری نہیں کہ دنیا کی ہر ایک چاہت پوری ہو ، جس کا جو ارادہ اللہ پورا کرنا چاہے کر دے لیکن ہاں ایسے لوگ آخرت میں خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ یہ تو وہاں جہنم کے گڑھے میں گھرے ہوئے ہوں گے نہایت برے حال میں ذلت و خواری میں ہوں گے ۔ کیونکہ یہاں انہوں نے یہی کیا تھا ، فانی کو باقی پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تھی اس لئے وہاں رحمت الہٰی سے دور ہیں ۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کے پاس اپنی گرہ کی عقل بالکل نہ ہو ۔ ہاں جو صحیح طریقے سے طالب دار آخرت میں کام آنے والی نیکیاں سنت کے مطابق کرتا رہے اور اس کے دل میں بھی ایمان تصدیق اور یقین ہو عذاب ثواب کے وعدے صحیح جانتا ہو ، اللہ و رسول کو مانتا ہو ، ان کی کوشش قدر دانی سے دیکھی جائے گی نیک بدلہ ملے گا ''۔
2 ۔ مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ ﴿٢٠﴾
جس کا اراده آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے، ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں (20)سورة الشورى
تفسیر تیسیر القرآن :
''ایک دنیا دار اور دیندار کے انجام کا موازنہ :۔
اس آیت میں دو آدمیوں کے طرز زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ جن میں سے ایک تو روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا اس سے منکر ہے اور سب کچھ اسی دنیا کو ہی سمجھتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص جو کام بھی کرے گا آخرت کے لیے کرے گا اور آخرت کے مفاد کو دنیا کے مفاد پر ترجیح دے گا۔
ایسا شخص جو کچھ بھی اس دنیا کی کھیتی میں آخرت کے دن پھل کاٹنے کے لیے بوئے گا اللہ تعالیٰ اس میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گا۔ جیسا کہ اس دنیا میں غلہ کا ایک دانہ بیجنے سے بعض دفعہ سات سو سے بھی زیادہ دانے حاصل ہوجاتے ہیں ۔ یہ تو اس کی آخرت کا معاملہ تھا۔ اور دنیا میں جتنا رزق یا جتنی بھلائی اس کے مقدر میں ہے وہ بھی اسے مل کے رہے گی۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص روزآخرت کا منکر ہے اور بس دنیا ہی دنیا کا مال اور بھلائی چاہتا ہے۔ وہ خواہ کتنی ہی کوشش کر دیکھے اسے اتنی ہی دنیا میں ملے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے اس سے زیادہ نہیں ۔ رہا اس کی آخرت کا معاملہ تو اگر اس نے دنیا میں کچھ نیک کام کئے بھی ہوں گے تو ان کا اسے کچھ بدلہ نہ ملے گا کیونکہ وہ کام اس نے اس نیت سے کیے ہی نہیں تھے کہ ان کا آخرت میں اسے کچھ بدلہ ملے، نہ ہی اس کا آخرت پر کچھ یقین تھا''۔
3 ۔ سیدنا ابان بن عثمان رحمہ اللہ سے روایت ہے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مروان کے پاس سے ٹھیک دوپہر کے وقت نکلے میں نے کہا اس وقت جو مروان نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا تو ضرور کچھ پوچھنے کیلئے بلایا ہوگا میں نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا مروان نے ہم سے چند باتیں پوچھیں جن کو ہم نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے جس شخص کو بڑی فکر دنیا کی ہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے کام پریشان کر دے گا اور اس کی مفلسی دونوں آنکھوں کے درمیان کر دے گا اور دنیا اس کو اتنی ہی ملے گی جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہے اور جس کی نیت اصل آخرت کی طرف ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے سب کام درست کر دے گا اس کے پھیلاؤ کو اس کی دلجمعی کیلئے اور اس کے دل میں
بےپرواہی ڈال دے گا اور دنیا جھک مار کر اس کے پاس آئے گی۔
سنن ابن ماجہ > زھد کا بیان > دنیا کی فکر کرنا کیسا ہے ؟۔
الراوي: زيد بن ثابت المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 3329
خلاصة حكم المحدث: صحيح
4 ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو اپنی تمام فکروں کو ایک فکر آخرت کی فکر بنا لے۔ اللہ تعالیٰ دنیوی پریشانیوں اور فکروں سے اس کی کفایت فرماتے ہیں اور جس کو دنیوی حالات کی فکریں گھیرلیں تو اللہ کو بھی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ دنیا میں کس جنگل میں ہلاک ہوگا۔ الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 3330
خلاصة حكم المحدث: حسن
5 ۔ قال سفيان بن عيينة رحمه الله:
« كان العلماء فيما مضى يكتب بعضهم إلى بعض بهؤلاء الكلمات:
مَن أصْلحَ سرِيرته، أصْلح اللّه علانيَّته،
ومَن أصْلحَ ما بينه وبين اللّه، أصْلحَ اللّه ما بينه وبين النَّاس،
ومَن عَمِلَ لآخرته، كَفَاهُ اللّه أمر دنياه».
سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
''سلف صالحین ایک دوسرے کی اس قسم کی نصیحتیں لکھا کرتے تھے :۔
جو اپنا باطن ٹھیک کر لے گا ، اللہ اس کا ظاہر صحیح کر دیں گے
جو اللہ اور اپنے درمیان معاملہ صحیح کر لے گا ، اللہ اس کے اور لوگوں کے درمیان تعلقات سدھار دیں گے
جو آخرت کو ذہن میں رکھ کر اس کے لیے عمل کرے گا، اللہ مالک الملک اس کے لیے دنیا میں کافی ہوجائیں گے ''۔
(رواه ابن أبي الدُّنيا في كتاب "الإخلاص").
جس کا اراده صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا (18)
وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا ﴿١٩﴾
اور جس کا اراده آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہیئے، وه کرتا بھی ہو اور وه باایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی (19)سورة الإسراء
تفسیر ابن کثیر (رحمہ اللہ) :
''طالب دنیا کی چاہت
کچھ ضروری نہیں کہ دنیا کی ہر ایک چاہت پوری ہو ، جس کا جو ارادہ اللہ پورا کرنا چاہے کر دے لیکن ہاں ایسے لوگ آخرت میں خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ یہ تو وہاں جہنم کے گڑھے میں گھرے ہوئے ہوں گے نہایت برے حال میں ذلت و خواری میں ہوں گے ۔ کیونکہ یہاں انہوں نے یہی کیا تھا ، فانی کو باقی پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تھی اس لئے وہاں رحمت الہٰی سے دور ہیں ۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کے پاس اپنی گرہ کی عقل بالکل نہ ہو ۔ ہاں جو صحیح طریقے سے طالب دار آخرت میں کام آنے والی نیکیاں سنت کے مطابق کرتا رہے اور اس کے دل میں بھی ایمان تصدیق اور یقین ہو عذاب ثواب کے وعدے صحیح جانتا ہو ، اللہ و رسول کو مانتا ہو ، ان کی کوشش قدر دانی سے دیکھی جائے گی نیک بدلہ ملے گا ''۔
2 ۔ مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ ﴿٢٠﴾
جس کا اراده آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے، ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں (20)سورة الشورى
تفسیر تیسیر القرآن :
''ایک دنیا دار اور دیندار کے انجام کا موازنہ :۔
اس آیت میں دو آدمیوں کے طرز زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ جن میں سے ایک تو روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا اس سے منکر ہے اور سب کچھ اسی دنیا کو ہی سمجھتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص جو کام بھی کرے گا آخرت کے لیے کرے گا اور آخرت کے مفاد کو دنیا کے مفاد پر ترجیح دے گا۔
ایسا شخص جو کچھ بھی اس دنیا کی کھیتی میں آخرت کے دن پھل کاٹنے کے لیے بوئے گا اللہ تعالیٰ اس میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گا۔ جیسا کہ اس دنیا میں غلہ کا ایک دانہ بیجنے سے بعض دفعہ سات سو سے بھی زیادہ دانے حاصل ہوجاتے ہیں ۔ یہ تو اس کی آخرت کا معاملہ تھا۔ اور دنیا میں جتنا رزق یا جتنی بھلائی اس کے مقدر میں ہے وہ بھی اسے مل کے رہے گی۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص روزآخرت کا منکر ہے اور بس دنیا ہی دنیا کا مال اور بھلائی چاہتا ہے۔ وہ خواہ کتنی ہی کوشش کر دیکھے اسے اتنی ہی دنیا میں ملے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے اس سے زیادہ نہیں ۔ رہا اس کی آخرت کا معاملہ تو اگر اس نے دنیا میں کچھ نیک کام کئے بھی ہوں گے تو ان کا اسے کچھ بدلہ نہ ملے گا کیونکہ وہ کام اس نے اس نیت سے کیے ہی نہیں تھے کہ ان کا آخرت میں اسے کچھ بدلہ ملے، نہ ہی اس کا آخرت پر کچھ یقین تھا''۔
3 ۔ سیدنا ابان بن عثمان رحمہ اللہ سے روایت ہے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مروان کے پاس سے ٹھیک دوپہر کے وقت نکلے میں نے کہا اس وقت جو مروان نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا تو ضرور کچھ پوچھنے کیلئے بلایا ہوگا میں نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا مروان نے ہم سے چند باتیں پوچھیں جن کو ہم نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے جس شخص کو بڑی فکر دنیا کی ہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے کام پریشان کر دے گا اور اس کی مفلسی دونوں آنکھوں کے درمیان کر دے گا اور دنیا اس کو اتنی ہی ملے گی جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہے اور جس کی نیت اصل آخرت کی طرف ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے سب کام درست کر دے گا اس کے پھیلاؤ کو اس کی دلجمعی کیلئے اور اس کے دل میں
بےپرواہی ڈال دے گا اور دنیا جھک مار کر اس کے پاس آئے گی۔
سنن ابن ماجہ > زھد کا بیان > دنیا کی فکر کرنا کیسا ہے ؟۔
الراوي: زيد بن ثابت المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 3329
خلاصة حكم المحدث: صحيح
4 ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو اپنی تمام فکروں کو ایک فکر آخرت کی فکر بنا لے۔ اللہ تعالیٰ دنیوی پریشانیوں اور فکروں سے اس کی کفایت فرماتے ہیں اور جس کو دنیوی حالات کی فکریں گھیرلیں تو اللہ کو بھی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ دنیا میں کس جنگل میں ہلاک ہوگا۔ الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 3330
خلاصة حكم المحدث: حسن
5 ۔ قال سفيان بن عيينة رحمه الله:
« كان العلماء فيما مضى يكتب بعضهم إلى بعض بهؤلاء الكلمات:
مَن أصْلحَ سرِيرته، أصْلح اللّه علانيَّته،
ومَن أصْلحَ ما بينه وبين اللّه، أصْلحَ اللّه ما بينه وبين النَّاس،
ومَن عَمِلَ لآخرته، كَفَاهُ اللّه أمر دنياه».
سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
''سلف صالحین ایک دوسرے کی اس قسم کی نصیحتیں لکھا کرتے تھے :۔
جو اپنا باطن ٹھیک کر لے گا ، اللہ اس کا ظاہر صحیح کر دیں گے
جو اللہ اور اپنے درمیان معاملہ صحیح کر لے گا ، اللہ اس کے اور لوگوں کے درمیان تعلقات سدھار دیں گے
جو آخرت کو ذہن میں رکھ کر اس کے لیے عمل کرے گا، اللہ مالک الملک اس کے لیے دنیا میں کافی ہوجائیں گے ''۔
(رواه ابن أبي الدُّنيا في كتاب "الإخلاص").