• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک روایت کی سند درکار ہے

شمولیت
اکتوبر 27، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
41
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
محترم شیخ @اسحاق سلفی بھائی اس حدیث کی سند درکار ہے ؛
عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُکَانَةَ أَنَّ رُکَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بِذَلِکَ وَقَالَ وَاﷲِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَاﷲِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً فَقَالَ رُکَانَةُ وَاﷲِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ.
ترجمہ :
’’نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سہیمہ کو تین طلاقیں دے دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات بتائی گئی تو حضرت رکانہ بن عبد یزید نے کہا : خدا کی قسم، میں نے ارادہ نہیں کیا مگر ایک کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہو کہ ایک ہی کا ارادہ کیا تھا؟ حضرت رکانہ نے کہا : خدا کی قسم، میں نے ایک کا ہی ارادہ کیا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی بیوی ان کی طرف لوٹا دی۔ پھر انہوں نے دوسری طلاق حضرت عمر کے زمانے میں اور تیسری حضرت عثمان کے زمانے میں دی‘‘۔

ابو داؤد، السنن، 2 : 263، رقم : 2206، دار الفکر
ترمذی، السنن 3 : 480، رقم : 1177، دار احياء التراث العربي بيروت
ابن ماجة، السنن، 1 : 661، رقم : 2051، دار الفکر بيروت
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
محترم شیخ @اسحاق سلفی بھائی اس حدیث کی سند درکار ہے
عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُکَانَةَ أَنَّ رُکَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بِذَلِکَ وَقَالَ وَاﷲِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَاﷲِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً فَقَالَ رُکَانَةُ وَاﷲِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ.

’’نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سہیمہ کو تین طلاقیں دے دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات بتائی گئی تو حضرت رکانہ بن عبد یزید نے کہا : خدا کی قسم، میں نے ارادہ نہیں کیا مگر ایک کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہو کہ ایک ہی کا ارادہ کیا تھا؟ حضرت رکانہ نے کہا : خدا کی قسم، میں نے ایک کا ہی ارادہ کیا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی بیوی ان کی طرف لوٹا دی۔ پھر انہوں نے دوسری طلاق حضرت عمر کے زمانے میں اور تیسری حضرت عثمان کے زمانے میں دی‘‘۔

ابو داؤد، السنن، 2 : 263، رقم : 2206، دار الفکر
ترمذی، السنن 3 : 480، رقم : 1177، دار احياء التراث العربي بيروت
ابن ماجة، السنن، 1 : 661، رقم : 2051، دار الفکر بيروت
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
یہ حدیث ضعیف ،سنن الترمذی (1177) میں ہے :

باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ
باب: آدمی کے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتہ) دینے کا بیان۔
حدثنا هناد، حدثنا قبيصة، عن جرير بن حازم، عن الزبير بن سعيد، عن عبد الله بن يزيد بن ركانة، عن ابيه، عن جده، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني طلقت امراتي البتة، فقال: " ما اردت بها؟ " قلت: واحدة، قال: " والله؟ " قلت: والله، قال: " فهو ما اردت ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه، إلا من هذا الوجه، وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: فيه اضطراب ويروى، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان ركانة طلق امراته ثلاثا، وقد اختلف اهل العلم، من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم في طلاق البتة، فروي عن عمر بن الخطاب، انه جعل البتة واحدة وروي، عن علي انه جعلها ثلاثا، وقال بعض اهل العلم: فيه نية الرجل، إن نوى واحدة فواحدة، وإن نوى ثلاثا فثلاث، وإن نوى ثنتين لم تكن إلا واحدة، وهو قول: الثوري، واهل الكوفة، وقال: مالك بن انس في البتة: إن كان قد دخل بها فهي ثلاث تطليقات، وقال الشافعي: إن نوى واحدة فواحدة يملك الرجعة، وإن نوى ثنتين فثنتان، وإن نوى ثلاثا فثلاث.
(سنن الترمذی ،کتاب الطلاق ،حدیث نمبر حدیث نمبر: 1177)
جناب رکانہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتّہ) دی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تم نے اس سے کیا مراد لی تھی؟“، میں نے عرض کیا: ایک طلاق مراد لی تھی، آپ نے پوچھا: ”اللہ کی قسم؟“ میں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے فرمایا: ”تو یہ اتنی ہی ہے جتنی کا تم نے ارادہ کیا تھا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس میں اضطراب ہے، عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں،
۳- اہل علم صحابہ کرام وغیرہم میں سے عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے طلاق بتہ کو ایک طلاق قرار دی ہے،
۴- اور علی رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے اسے تین طلاق قرار دی ہے،
۵- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں آدمی کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہو گی اور اگر تین کی کی ہے تو تین ہو گی۔ اور اگر اس نے دو کی نیت کی ہے تو صرف ایک شمار ہو گی۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے،
۶- مالک بن انس قطعی طلاق (بتّہ) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر عورت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دخول ہو چکا ہے تو طلاق بتّہ تین طلاق شمار ہو گی،
۷- شافعی کہتے ہیں: اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اگر دو کی نیت کی ہے تو دو ہو گی اور اگر تین کی نیت کی ہے تو تین شمار ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 14 (2208)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 19 (2051) سنن الدارمی/الطلاق 8 (2318)، (تحفة الأشراف: 3613)
(سند میں زبیر بن سعید اور عبد اللہ بن علی ضعیف ہیں، اور علی بن یزید بن رکانہ مجہول ہیں، نیز بروایتِ ترمذی بقول امام بخاری: اس حدیث میں سخت اضطراب ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: الارواء (رقم 2063)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2051) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (444) ، ضعيف أبي داود (479 / 2206) ، الإرواء (2063)
قال الشيخ زبير على زئي: (1177) إسناده ضعيف / د 2208، جه 2051​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
جناب رکانہ بن یزید رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ درج ذیل حدیث مروی ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا قَالَ فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ طَلَّقْتَهَا قَالَ طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا قَالَ فَقَالَ فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَارْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ قَالَ فَرَجَعَهَا فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَرَى أَنَّمَا الطَّلَاقُ عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ ( مسند احمد2387)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ جناب رکانہ بن عبد ِیزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں۔ پھر اس پر سخت دکھی اور غمگین ہوئے تو رسول اللہﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تو نے طلاق کس طرح دی ہے؟ اُس نے کہا: میں نے تینوںطلاقیں دے دے دی ہیں۔ آپؐ نے پوچھا: کیاایک ہی مجلس میں دی ہیں؟ اس نے کہا: ہاں( ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں) آپؐ نے فرمایا: یہ توایک ہی طلاق ہوئی ہے۔ تو چاہے تو اس سے رجوع کرلے۔تو اس نے رجوع کرلیا ،اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ طلاق صرف ہر طہر ہی میں دینی چاہیئے۔ (مسند احمد: ج4ص218)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت کےحوالے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ وَهَذَا الْحَدِيثُ نَصٌّ فِي الْمَسْأَلَةِ لَا يَقْبَلُ التَّأْوِيلَ‘‘ [فتح الباری جلد 9 ص362]
یعنی :’’یہ حدیث اس مسئلہ میں نص ہے اور کسی تاویل کو قبول نہیں کرتی۔ ‘‘

مزیداس حدیث کی تصحیح مندرجہ ذیل ائمہ حدیث نے فرمائی ہے۔
علامہ احمد شاکرؒ مصری
(1892م-1958م)
نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، لکھتے ہیں :
إسناده صحيح، ورواه الضياء في المختارة، كما نقله ابن القيم في إغاثة اللهفان 158، ورواه أبو يعلى، كما ذكر الشوكاني 7: 17 - 18، ورواه البيهقي، كما في الدر المنثور 1: 279. وهذا الحديث عندي أصل جليل من أصول التشريع في الطلاق، يدل على أن الخلاف في وقوع الطلقات الثلاث مجتمعة وعدم وقوعه إنما هو في الطلاق إذا كرره المطلق، أي طلق مرة ثم مرة ثم ثالثة في العدة، في مجلس واحد أو مجالس. وأنه ليس الخلاف في وصف الطلاق بالعدد، كقولهم "طالق ثلاثَا" مثلا، فإن هذا الوصف لغو في اللغة، باطل في العقل. وقد شرحته وفصلت القول فيه في كتابي "نظام الطلاق في الإسلام "ص 39 وما بعدها.

https://archive.org/stream/WAQmusndaWAQ/musnda03#page/n90
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کے حوالے سے دور حاضر کے عظیم محقق علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’ هذا الإسناد صححه الإمام أحمد والحاكم والذهبى وحسنه الترمذى فى متن آخر تقدم برقم (1921) , وذكرنا هنالك اختلاف العلماء فى داود بن الحصين وأنه حجة فى غير عكرمة , ولولا ذلك لكان إسناد الحديث لذاته قويا , ولكن لا يمنع من الاعتبار بحديثه والاستشهاد بمتابعته لبعض بنى رافع , فلا أقل من أن يكون الحديث حسنا بمجموع الطريقين عن عكرمة , ومال ابن القيم إلى تصحيحه وذكر أن الحاكم رواه فى مستدركه وقال إسناده صحيح , ولم أره فى " المستدرك " لا فى " الطلاق " منه , ولا فى " الفضائل " والله أعلم , وقال ابن تيمية فى " الفتاوى " (3/18) : " وهذا إسناد جيد ".
وكلام الحافظ ابن حجر فى " الفتح " (9/362) يشعر بأنه يرجح صحته أيضا ‘‘

[إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل 7/145]
یعنی :اس سند کو امام احمد، حاکم اور ذھبی نے صحیح کہا ہے،اور امام ترمذی نے دوسرے متن میں اس سند کو حسن قرار دیا ہے،وہاں ہم نے اس سند کے ایک راوی داؤد بن حصین کی توثیق و جرح کے حوالے سے اقوال علماء پیش کردئیے ہیں،کیونکہ داؤد بن حصین عکرمہ سے روایت بیان کرنے میں قابل حجت نہیں۔اگر یہ علت نہ ہوتی، تو یہ روایت لذاتہ قوی ہو جاتی،لیکن پھر بھی اس روایت کوبعض بنی رافع کی متابعت کی وجہ سے استشہاد اور اعتبار کے طور پر پیش کرنے سے کوئی مانع نہیں۔لہذا جناب عکرمہ کے طریق سے یہ روایت حسن کے درجہ سے کم نہیں۔ امام ابن قیم بھی اس کی تصحیح کے قائل ہیں۔
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں یہ روایت جید الاسناد ہے ،اور حافظ ابن حجرؒ کے کلام سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ وہ اس حدیث کے صحیح ہونے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔(ارواء الغلیل)

مزید اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجرفرماتے ہیں :
’’ ويقوى حديث بن إسحاق المذكور ما أخرجه مسلم من طريق عبد الرزاق عن معمر عن عبد الله بن طاوس عن أبيه عن بن عباس قال كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم ‘‘[فتح الباری ،جلد 9 ص363(قوله باب من جوز الطلاق الثلاث)]
یعنی : محمد بن اسحاق کی اس حدیث کوصحیح مسلم والی حدیث قوی بناتی ہے ،جس میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے (ابتدائی) دو سالوں تک (اکٹھی) تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں نے ایسے کام میں جلد بازی شروع کر دی ہے جس میں ان کے لیے تحمل اور سوچ بچار (ضروری) تھا۔ اگر ہم اس (عجلت) کو ان پر نافذ کر دیں (تو شاید وہ تحمل سے کام لینا شروع کر دیں) اس کے بعد انہوں نے اسے ان پر نافذ کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی سند صحیح ہے محدث کبیر علامہ محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تنویر الآفاق میں اس کی سند پر بھر پور بحث کی ہے، اور سند پر پیش کئے جانے والے تمام اشکالات کا دندان شکن جواب دیا ہے ۔
https://archive.org/stream/TanveerU...eer-ul-Afaaq-Fi-Masala-Al-Talaaq-Urdu#page/n9
 
Top