@اسحاق سلفی بھائی جان السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محدث لائبریری میں طلاق سے متعلق کتابیں میں نے پڑھی کسی کتاب میں اس روایت پر جو اعتراض کئے گئے ہیں ان کا جواب مجھے نہیں ملا اور میں اب ان دیوبندی علماؤوں کی تحریر کو اردو میں ٹرانسلیٹ کر کے یہاں پیش کر رہا ہوں تاکہ اہل علم جواب دے سکیں اور ہر دلائل کا اسکین پیج اوپر لنک میں موجود ہے انکی ویب سائٹ پر اعتراض ملاحظہ ہو
طلاق سے متعلق صحیح مسلم کی روایت پر احناف کا اعتراض
غیر مقلدین شیعہ اور قادیانی کی طرح یہ دعوہ کرتے ہیں کہ تین طلاق اگر ایک مجلس میں دی جائے تو وہ ایک مانی جاتی ہے اور اپنی بات ثابت کرنے کے لئے وہ لوگ صحیح مسلم کی روایت عموماً پیش کرتے ہیں جسکی سند یوں ہے
امام مسلم رح==> ابن رافع رح==> عبدالرزاق رح==> ابن جریج==> ابن طاؤس رح==> ابو صہباء رح،ابن عباس رضی اللہ عنہ ـ(صحیح مسلم ص ۵۹۰ حدیث نمبر ۱۴۷۲-۱۷)
اور اسکا تحقیقی جواب ملاحظہ فرمائیں
الجواب نمبر ۱- یہ روایت طاؤس رح کا وہم ہے
یہ روایت طاؤس رح کا وہم ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کئی ثقہ و مشہور شاگردوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن کسی نے بھی طاؤس رح والی بات بیان نہیں کی
پہلے شاگرد حضرت مجاہد رح کی روایت
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ” يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ، فَيَرْكَبُ الْحُمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} ، وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا، عَصَيْتَ رَبَّكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ} فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ
ترجمہ:- حضرت مجاہد رح فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک شخص حاضر ہوا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاق دے دی ہے ـ
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ چپ رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اسے رجاعت (رجوع) کا حکم دیں گے پھر فرمایا کہ پہلے تو حماقت کر بیٹھا ہے پھر اے ابن عباس،ابن عباس چلاتا ہے
اللہ تعالی کا فرمان جو اللہ سے ڈرے گا اس کے واسطے اللہ گنجائش کی راہ پیدا کرے گا ـ تم نے اللہ کا خوف نہیں کیا لہذا میں تیرے واسطے گنجائش کی راہ نہیں پاتا،تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ دے جدا ہو گئی ـ
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا ارادہ کرو تو انھیں طلاق دو ان کی عدت کے وقت سے پہلے ـ (سنن ابی داود ج ۲ ص ۴۹۹ حدیث نمبر ۲۱۹۷)
امام ابو داود رح فرماتے ہیں کہ مجاہد رح کے علاوہ سعید بن جبیر رح،عطاء (بن ابی رباح) رح،مالک ابن الحارث رح،امر بن دینار رح نے بھی اس حدیث کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ـ(سنن ابی داود ج ۲ ص ۴۹۹)
دوسرے شاگرد حضرت سعید بن جبیر رح کی روایت
امام بیھقی رح نے اسکو روایت کیا ہے اور اس میں بھی یہی بات ہے جو مجاہد رح نے نقل کی ہے ـ (سنن الکبری للبیھقی ج ۹ ص ۵۴۲ حدیث نمبر ۱۴۹۴۵)
تیسرے شاگرد حضرت مالک ابن الحارث رح کی روایت
امام بیھقی رح نے اسکو اپنی سنن الکبری میں روایت کیا ہے اور اس میں تین طلاق کو تین ہی کہا گیا ہے ـ (سنن الکبری للبیھقی ج ۴ ص ۵۲۲ حدیث نمبر ۱۴۹۸۱)
چوتھے شاگرد حضرت عطاء بن ابی رباح رح کی روایت
امام محمد بن حسن الشیبانی رح نے اس روایت کو کتاب الآثار میں نقل کیا ہے اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اسی پر ہمارا عمل ہے اور یہی امام ابو حنیفہ رح اور تمام لوگوں کا مذہب ہے اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے ـ (کتاب الآثار بروایة امام محمد ج ۲ ص ۴۴۱، ۴۴۲ حدیث نمبر ۴۸۳)
پانویں شاگرد محمد بن عیاس البکیر رح کی روایت
امام بیھقی رح نے اس کو اپنی سنن الکبری میں روایت کیا ہے اور یہاں بھی وہی بات موجود ہے جو کہ مجاہد رح نے نقل کی ہے ـ (سنن الکبری للبیھقی ج ۹ ص ۵۴۸،۵۴۹ حدیث نمبر ۱۴۹۶۵)
چھٹویں شاگرد امر بن دینار رح کی روایت
امام بیھقی رح نے اسکو اپنی سنن الکبری میں روایت کیا ہے اور بات وہی ہے جو مجاہد رح نے نقل کی ہے ـ (سنن الکبری للبیھقی ج ۹ ص ۵۵۲ حدیث نمبر ۱۴۹۸۰)
ساتویں شاگرد حضرت عنزة رح کی روایت
امام ابو بکر ابن ابی شیبہ رح نے اس روایت کو اپنی مصنف میں نقل کیا ہے اور تین طلاق کو تین کہنے والی بات انھوں نے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے ـ) مصنف ابن ابی شیبہ ج ۹ ص ۵۲۲ حدیث نمبر ۱۸۱۰۲)
قارئین آپنے پڑھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جلیل القدر شاگرد جن میں عطاء بن ابی رباح رح،مجاہد رح،سعید بن جبیر رح وغیرہ ہیں یہ سب طاؤس رح کے خلاف نقل کر رہے ہیں اور
۱- امام بیھقی رح فرماتے ہیں کہ
۲- اور امام بخاری رح نے اس روایت کی تخریج نہیں کہ محض اس لئے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جملے صحیح روایت کے خلاف ہیں ـ (سنن الکبری ج ۷ ص ۵۵۱ )
مزید امام بیھقی رح فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر رح،حضرت عطاء بن ابی رباح رح،مجاہد رح،امر بن دینار رح،مالک بن الحارث رح،محمد بن عیاس بن بکیر رح اور معاویہ بن ابی عیاش الانصاری رح تمام (ثقہ و مشہور) راوی ابن عباش رضی اللہ عنہ سے یہی روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے تین طلاق کو تین ہی قرار دیا ہے ـ (سنن الکبری للبیھقی ج ۷ ص ۵۵۳)
۳- امام ابن رشد رح فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ضی اللہ عنہ کے جملے جلیل القدر شاگرد مثلاً سعید بن جبیر رح،مجاہد رح،عطاء رح، امر بن دینار رح اور انکے علاوہ انکے شاگردوں کی ایک خاص جماعت اسکے خلاف روایت کرتی ہے صرف طاؤس اس پوری جماعت کے خلاف روایت کرتے ہیں ـ) بدایتہ المجتہد ج ۲ ص ۶۱)
۴- امام ابن عبدالبر رح فرماتے ہیں کہ مسلم کی یہ روایت وہم اور غلط ہے ـ (الاستذکار ج ۱۷ ص ۱۵)
۵- امام قرطبی رح فرماتے ہیں کہ (ابن عبدالبر رح نے فرمایا کہ) طاؤس کی روایت وہم اور غلط ہے ـ حجاز ،عراق،مشرق اور مشرب کے فقہاء اور امسار میں سے کسی نے اس پر اعتماد نہیں کیا ہے ـ (الجامع الاحکام القرآن ج ۴ ص ۶۱)
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام قرطبی رح بھی امام ابن عبدالبر رح کی بات سے راضی ہیں
الغرض جب یہ روایت طاؤس رح کا وہم اور دوسرے شاگردوں کی ایک جماعت کے خلاف ہے تو یہ کیسے حجت ہو سکتی ہے
الجواب نمبر ۲ (اس حدیث میں غیر مدخول بیوی کی شرط ہے)
امام احمد بن حنبل رح فرماتے ہیں کہ جب تک حدیث کے تمام طرق جمع نہ کر لے اس وقت تک حدیث کا معنی سمجھ نہیں سکتے ـ اس لئے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تشریح کرتی ہے ـ (الجامع الاخلاق الراوی للخطیب ج ۲ ص ۲۱۲)
اور محدث زبیر علی زئی صاحب بھی لکھتے ہیں کہ حدیث کو خود حدیث کی تشریح کرتی ہے ـ (نورالعینعین ص ۱۲۵ ۲۰۱۲ ایڈشن)
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سنن ابی داود میں ہے اور یہ روایت اور صحیح مسلم کی مزکورہ روایت کے الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں وہ روایت یہ ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں جب خاوند اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دیتا (تو) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں اسے ایک شمار کیا جاتا تھا ـ (سنن ابی داود ج ۲ ص ۴۵۰ حدیث ۲۱۹۹)
اس روایت کی سند صحیح ہے
امام ابن قیم رح نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے ـ (زاد المعاد ج ۴ ص ۱۰۱۴)
لہذا معلوم ہوا کہ مسلم کی روایت جس سے غیر مقلدین دلیل لیتے ہیں وہ روایت مطلق نہیں ہے بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ یے کہ تین طلاق کو صرف اسی وقت ایک کہا جائے گا جب کوئی مرد اپنی بیوی کو تین بار "تجھے طلاق ہے" کہے ـالغرض بیوی سے ہمبستری کے بعد شوہر کا بیوی کو تین طلاق دینا اور اس مسئلہ میں غیر مقلدین کا تین طلاق کو ایک ثابت کرنے کے لئے اس حدیث کو پیش کرنا باطل ہے
مزید یہ کہ طاؤس رح سے یہی فتوی (یعنی جب کوئی مرد اپنی اس بیوی کو تین طلاق دے جس سے ہمبستری نہیں ہوئی،تو ایک شمار ہوگی) منقول ہے ـ
امام ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ
حضرت طاؤس رح،عطا بن ابی رباح رح،اور حضرت جابر بن زید رح سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو تین طلاق دے دے تو وہ ایک ہی واقع ہوگی ـ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۹ ص ۵۴۰،۵۴۱)
امام مردینی رح فرماتے ہیں کہ اس روایت کے رجال ثقہ ہیں ـ (الجوہر النقی ج ۷ ۳۳۱)
اس سے بھی یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں غیر مدخول بیوی کی شرط بلا شک و شبہ موجود ہے
الجواب نمبر ۳ (اسکا ایک راوی طاؤس شیعہ ہے لہذا یہ روایت حجت نہیں ہے)
اس روایت میں ایک راوی طاووس یمنی ہے
امام سفیان ثوری رح،امام ابن قطیبہ رح اور امام ذہبی رح نے انہیں شیعہ کہا ہے ـ (سیئر اعلام النبلاء ج ۵ ص ۴۳ و المعارف للابن قطیبہ ص ۲۶۷،۲۶۸)
اور اصول حدیث کا قائدہ ہے
کہ بدعتی راوی کی روایت اگر اس کے بدعت کی تائید کرتی ہو تو (وہ روایت) ناقابل قبول ہے ـ (نزھتہ النظر ص ۱۲۳ و نخبتہ الفکر ص ۱۳۹ و شرح نخبتہ الفکر للقاری ج ۱ ص ۵۳۰ و الغایہ فی شرح الھدایہ فی علم الروایہ للسخاوی ج ۱ ص ۱۳۰)
لہذا یہ روایت سے استدلال صحیح نہیں ہے
الجواب نمبر چار (دوسرا راوی ابن جریج بھی شیعہ ہے)
اسی طرح اس روایت میں ایک اور راوی ہے جس کا نام ابن جریج ہے وہ بھی شیعہ ہے بلکہ انکے اوپر یہ الزام ہے کہ متعہ کرتے تھے ـ (سیر اعلام النبلاء ج ۵ ص ۴۹۷ و تزکرتہ الحفاظ ج ۱ ص ۱۲۸ و میزان الاعتدال ج ۲ ص ۵۰۹)
اور اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ بدعتی راوی کی وہ روایت جو اسکے مزہب کی تائید کرتی ہو قابل قبول نہیں ہے
الجواب نمبر پانچ (یہ حدیث منسوخ ہے)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنا فتوی بھی خود اس حدیث کے خلاف ہے چنانچہ
مالک بن حارث رح بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور اسنے کہا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو اکٹھی (ایک لفظ میں) تین طلاق دے دی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی لہذا اللہ تعالی اسکو نادم کرے گا اور اسکے واسطے گنجائش بیدا نہیں کرے گا ـ) سنن الکبری للبیھقی ج ۴ ص ۵۵۲ حدیث ۱۴۹۸۱)
اور یہی روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جلیل القدر شاگردوں نے بیان کئے ہیں جن کے نام جواب نمبر ایک کے ذیل میں گزر چکے
اور اصول حدیث کا قائدہ ہے کہ
راوی کا اپنی روایت کے خلاف عمل کرنا یا فتوی دینا،اس روایت سے عمل کو ساقط کر دیتا ہے ـ) قوائد فی علوم الحدیث ص ۲۰۲)
الجواب نمبر چھ (یہ روایت مرفوع نہیں ہے)
کسی چیز کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں (اور اسی طرح عہد صدیقی میں) ہونا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور اجازت سے ہوا ہو
بعض ایسے کام بھی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہوتے تھے لیکن اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکی خبر تک نہ تھی تو ایسے امور کا جواز کیسے ثابت ہو سکتا ہے ؟
مثلاً
حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جنابت کے لئے تیمم کرتے وقت سر سے پاؤوں تک سارے بدن پر پلٹے کھاخہ کے مٹی ملی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس کاروائی کو غلط قرار دیا ـ (بخاری ج ۱ ص ۵۰)
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باحالت جنابت پانی نہ ملا تو نماز ہی نہیں پڑھی ـ (بخاری ج ۱ ص ۴۸)
اس قسم کے کئی واقعات کتب حدیث میں موجود ہیں
تو کیا غیر مقلدین کے نزدیق یہ سب کام جائز ہو گئے ؟
اور مزکورہ مسلم کی روایت میں نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور فعل ہے تو پھر اس سے کیسے حجت پکڑی جا سکتی ہے
اور یہی وجہ ہے کہ امام ابن حزم رح فرماتے ہیں کہ
اس حدیث میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاقوں کو ایک کیا تھا یا انکو ایک کی لوٹا دیا تھا اور نہ اس میں یہ چیز موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکا علم ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو برقرار رکھا ہو
اور حجت تو صرف اسی چیز میں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو یا کوئی کام کیا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہو اور یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر نہ فرمائی ہو ـ(المحلی ج ۱۰ ص ۱۶۸،۱۶۹)
الغرض معلوم ہوا یہ روایت مرفوع نہیں ہے
الجواب نمبر سات (یہ روایت مضطرب ہے )
یہ روایت مضطرب ہے اس اضطراب کی وجہ یہ ہے کہ
طاووس کی ایک روایت یہ ہے کہ تین طلاق ایک ہوتی تھی،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں،ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پہلے دو سال میں ـ (صحیح مسلم ص ۵۹۰ حدیث ۱۴۷۲-۱۵)
لیکن دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پہلے تین سال کا ذکر کرتے ہیں ـ) صحیح مسلم ص ۵۹۰ حدیث ۱۴۷۲-۱۶)
اور تیسری روایت میں دو یا تین سال کسی کا بھی ذکر نہیں ہے ـ) صحیح مسلم ص ۵۹۰ حدیث ۱۴۷۲-۱۷)
مزید یہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اکثر شاگرد ان سے تین طلاق کا تین ہونا ہی روایت کرتے ہیں صرف طاووس ہی ایک ہونا روایت کرتے ہیں
اور یہی وجہ ہے کہ امام قرطبی رح فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے ـ (المفھم شرح صحیح مسلم بحوالہ فتح الباری ج ۹ ص ۳۶۴)
اور بعض لوگوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یہ روایت سنداً بھی مضطرب ہے اور انھوں نے اپنا دعوہ یہ ثابت کیا ہے کہ
صحیح مسلم کی پہلی روایت کی سند یوں ہے
ابن طاووس رح=> اپنے باپ (طاووس رح)==> ابن عباس رضی اللہ عنہ
(صحیح مسلم ص ۵۹۰ حدیث ۱۴۷۲-۱۵)
دوسری روایت کی سند اس طرح ہے
ابن طاووس رح==> اپنے باپ طاووس رح==> ابو صہباء اور ابن عباس رضی اللہ عنہ
(صحیح مسلم ص ۵۹۰ حدیث ۱۴۷۲-۱۶)
قرائین پہلی روایت میں طاووس رح ڈائریکٹ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں،تو کبھی طاووس اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو صہباء کا ذکر کرتے ہیں
اب سوال یہ ہے کہ کیا طاووس اس روایت کو بواسطہ ابو صہباء سے روایت کرتے ہیں یا ابو صہباء کے سوال کے وقت مجلس میں حاضر تھے
الجواب نمبر آٹھ (اس روایت کو فقہاء و محدثین نے قبول نہیں کیا)
۱- امام الفقہاء امام شافعی رح(متوفی ۲۰۴ ھ) فرماتے ہیں کہ بعید نہیں کہ یہ روایت جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے منسوخ ہے ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی الللہ علیہ وسلم کا ایک حکم ان کو معلوم ہو پھر وہ دے دانستاں اسکے خلاف عمل کرتے اور فتوی دیتے ہو ـ (سنن الکبری للبیھقی ج ۷ ص ۵۵۳ حدیث ۱۴۹۸۳)
۲- امام اہل سنت امام احمد ابن حنبل رح(متوفی ۲۴۱ ھ) فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے تمام شاگرد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اسکے خلاف روایت کرتے ہیں جو طاووس نقل کرتے ہیں ـ (مسائل احمد و اسحاق ج ۴ ص ۱۱۷۰ رقم ۱۱۴۹)
۳- امام بخاری رح (متوفی ۲۵۶ ھ) نے اس روایت کی تخریج نہیں کی محض اس للئے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جملے صحیح روایت کے خلاف ہے ـ(سنن الکبری للبیھقی ج ۷ ص ۵۵۱)
۴- امام ابو جعفر النحاص رح (متوفی ۳۷۰ ھ) فرماتے ہیں کہ طاووس رح اگر چہ مرد صالح ہیں لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بہت سی روایت میں منفرد ہیں ـ
اہل علم ان روایات کو قبول نہیں کرتے،منجملہ انکی ایک روایت وہ بھی ہے جس میں انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے تین طلاق کے ایک ہونے کی روایت کی ہے لیکن صحیح روایات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہی ہے کہ تین طلاق تین ہوتی ہے ـ(الناسخ والمنسوخ للنحاص ج ۱ ص ۷۱)
۵- امام بیھقی رح(متوفی ۴۵۸ ھ) فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر رح،حضرت عطاء بن ابی رباح رح،مجاہد رح،امر بن دینار رح،مالک بن الحارث رح،محمد بن عیاس بن بکیر رح اور معاویہ بن ابی عیاش الانصاری رح تمام (ثقہ و مشہور) راوی ابن عباش رضی اللہ عنہ سے یہی روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے تین طلاق کو تین ہی قرار دیا ہے ـ (سنن الکبری للبیھقی ج ۷ ص ۵۵۳)
۶- امام ابن رشد رح فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ضی اللہ عنہ کے جملے جلیل القدر شاگرد مثلاً سعید بن جبیر رح،مجاہد رح،عطاء رح، امر بن دینار رح اور انکے علاوہ انکے شاگردوں کی ایک خاص جماعت اسکے خلاف روایت کرتی ہے صرف طاؤس اس پوری جماعت کے خلاف روایت کرتے ہیں ـ) بدایتہ المجتہد ج ۲ ص ۶۱)
۷- امام ابن عبدالبر رح فرماتے ہیں کہ مسلم کی یہ روایت وہم اور غلط ہے ـ (الاستذکار ج ۱۷ ص ۱۵)
۸- امام قرطبی رح فرماتے ہیں کہ (ابن عبدالبر رح نے فرمایا کہ) طاؤس کی روایت وہم اور غلط ہے ـ حجاز ،عراق،مشرق اور مشرب کے فقہاء اور امسار میں سے کسی نے اس پر اعتماد نہیں کیا ہے ـ (الجامع الاحکام القرآن ج ۴ ص ۶۱)
اس سے معلوم ہوا کہ امام قرطبی رح کے نزدیق یہ روایت غلط ہے
۹- امام قرطبی رح (متوفی ۶۷۱ ھ) سے یہ بھی منقول ہے کہ انھوں نے اس روایت کو مضطرب قرار دیا ہے ـ (فتح الباری ج ۹ ص ۳۶۴)
۱۰- امام ابن العربی المالکی رح (متوفی ۵۴۲ ھ) فرماتے ہیں کہ اس روایت میں کلام ہے لہذا یہ روایت اجماع پر کیسے ترجیح پاسکتی ہے ـ (فتح الباری ج ۹ ص ۳۶۳)
۱۱- امام ابن حزم رح (متوفی ۴۵۶ ھ) کا قول جو کہ جواب نمبر چھ کے ذیل میں گزر چکا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انکے نزدیق بھی یہ روایت صحیح نہیں ہے ـ
۱۲- امام احمد ابن حنبل رح (متوفی ۲۴۱ ھ) سے اس روایت کے بارے میں امام اثرم رح نے پوچھا،آپ رح نے اسے ترک کر دیا،تو انھوں نے جواب میں فرمایا : اس لئے کہ سب لوگ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ یکجائی تین طلاقوں کو تین ہی مانتے تھے ـ (المغنی ج ۱۰ ص ۳۳۵)
۱۳- امام ابن قدامہ رح (متوفی ۶۲۰ ھ) نے امام احمد بن حنبل رح کی مزکورہ عبارتکو بااحتجاج اپنی المغنی میں طلاق کے باب میں نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سے سہمت ہیں کہ اس روایت کو ترک کر دیا جائے ـ
۱۴- امام الجوزجانی رح فرماتے ہیں کہ طاووس کی روایت ساذ ہے اور آگے فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے ـ (ابحاث هيءة الكبار العلماء ج ۱ ص ۴۵۹)
۱۵- امام ابو جعفر الطحاوی رح (متوفی ۳۲۱ ھ) فرماتے ہیں کہ سعید بن جبیر رح،مجاہد رح،امر بن دینار رح، مالک ابن الحارث رح،محمد بن عیاس ابن البخیر رح اور نعمان بن ابی عیاش سب نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیوی کو تین طلاق دینے والے کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور اسکی بیوی اس سے جدا ہو گئی اور اس سے یہ دوبارہ اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے ـ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ان ائمہ نے جماعت صحابہ کے موافق جو روایت کیا (اور) یہ طاووس وغیرہ کی روایت ضعیف ہونے کی دلیل ہے ـ (تفسیر القرطبی ج ۴ ص ۶۱)
۱۶- امام العینی رح (متوفی ۸۵۵ ھ) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو احادیث مروی ہے اسکو امام طحاوی رح نے منسوخ قرار دیا ہے ـ (عمدة القاري ص ۲۲۳)
اور یہ قول کو امام العینی رح نے بلا نکیر نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیق بھی امام طحاوی رح کی بات صحیح اور معتبر ہے
۱۷ - امام ابو بکر الجصاص ر (متوفی ۳۷۰ ھ) فرماتے ہیں کہ طاووس رح اپنی فضیلت،ملند مرتبہ اور صلاحیت کے باوجود منکر روایت نقل کرتے ہیں ان میں سے ایک روایت وہ بھی ہے جو انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے کہ جو تین طلاقیں دے تو وہ ایک ہوتی ہے ـ (احکام القرآن ج ۲ ص ۹۵)
۱۸- امام احمد بن عمر القرطبی رح (متوفی ۶۷۱ ھ) نے اس روایت کو بے اصل قرار دیا ہے ـ) المفھم شرح مسلم بحوالہ فتح الباری ج ۹ ص ۳۶۴)
لہذا جب جلیل القدر فقہاء والمححدثین نے اس روایت کو قبول نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ حدیث اس لائق ہے ہی نہیں کہ اس پر عمل کیا جائے ـ
الجواب نمبر نو (اہل حدیث کے گھر کی گواہی کہ یہ روایت اجماع کے خلاف ہے لہذا حجت نہیں)
غیر مقلدین کے فتاوی میں لکھا ہے کہ
مسلم کی یہ حدیث امام حازمی رح اور امام ابن جریر رح اور امام ابن کثیر رح کی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ حدیث بظاہر کتاب و سنت صحیحہ و اجماع صحابہ رضی اللہ عنہما وغیرہ ائمہ محدثین کے خلاف ہے لہذا حجت نہیں - (فتاوی ثنائیہ ج ۲ ص ۲۱۹)
غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ ہماری نہیں تو کم از کم اپنے علماء کی ہی بات مان لیں
الجواب نمبر ۱۰ (الزامی جواب)
صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ عطاء فرماتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ عمرہ کا احرام باندھے ہوئے آئے تو ان کے پاس ان کے گھر پر گئے لوگوں نے ان سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کیا پھر لوگوں نے متعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں! ہم نے متعہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ـ (صحیح مسلم ص ۵۵۱ حدییث ۱۴۰۵-۱۵)
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے روک دیاـ
اب جو جواب غیر مقلدین اس روایت کا دیں گے وہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ہوگا
اگر مسلم کی حدیث صحیح ہونے کی وجہ سے تین طلاق کو ایک جائز مانتے ہو تو کیا متعہ النساء کو بھی جائز مانو گے؟
الغرض خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلم کی یہ روایت منسوخ ہے اس پر کسی صورت میں بھی عمل جائز نہیں
نیز یہ حدیچ طاووس کا وھم،مضطرب اور اجماع کے خلاف ہے اور متقدمین میں سے کسی فقیہ یا محدثین نے اس سے استدلال نہیں کیا
واللہ اعلم