ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
عاصمہ جہانگیر کی نکاح خوانی
عطاء اللہ صدیقی
’ ’ آزادئ نسواں‘‘ کے علمبرداروں کو مبارک ہو کہ عاصمہ جہانگیر نے ایک اور ’’ انقلابی ‘‘ قدم اٹھاتے ہوئے نکاح خوانی کی دستار فضیلت پہن لی ہے -
اس تاریخ ساز ‘ واقعہ کی ویڈیو فلم بھی استفادئہ عوام الناس کے لئے بنالی گئی ہے - اس فلم سازی کافریضہ بلیجئم کے انسانی حقوق کمیشن کی ایک مخصوص ٹیم نے انجام دیاہے جو اس ملک میں عاصمہ جہانگیر کی انسانی و نسوانی حقوق کے متعلق خدمات کے ناقابل تردید ثبوت کے طور پر یورپ کے شہریوں کو دکھائی جائے گی -یہ عظیم اعزاز ‘ عاصمہ جہانگیر نے مورخہ 3 اپریل کو قاسم شفیع نامی نوجوان کا نتاشہ عالم نامی لڑکی کے ساتھ نکاح پڑھا کر حاصل کیا ہے -
اب اہل زبان کو عاصمہ جہانگیر کے لئے نکاح خواں‘‘ کی بجائے کوئی مناسب سی ترکیب ایجاد کرنی پڑے گی کیونکہ ’’ نکاح خواں‘‘ میں مردانگی کا شائبہ ہوتا ہے اور عاصمہ جہانگیر مردوں کی برتری کی قطعاً قائل نہیں ہے بات اگر اصطلاحات کی چل نکلی ہے تو عاصمہ جہانگیر کے لئے بھی کوئی خاص نقطہ تخلیق ہونا چاہئے- کیونکہ وہ ’’ عورت‘‘ بننے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں تھیں- عورت کا مطلب اگر چھپی ہوئی جنس ہے ‘ تو عاصمہ جہانگیر یہ ’’ ذلت‘‘ کبھی گوارا نہیں کریں گی وہ تو ہمیشہ مکشوفہ یعنی کھلی ہوئی رہنا پسند کرتی ہیں-عاصمہ جہانگیر نے کم عمری میں بہت سے اعزازات سمیٹے ہیں لیکن تازہ ترین اعزاز اس اعتبار سے بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں عاصمہ جہانگیر ہی وہ واحد عورت ہے جس کے نامہ تقدری میں یہ بے نظیر اعزا ز لکھا تھا - اب وہ بے نظیر بھٹو کی ہمسری کرسکتی ہیں‘ جس طرح بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرسکتی ہیں‘ جس طرح بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرچکی ہیں ‘ اب ان کی رفیقہ خاص عاصمہ جہانگیر ’’ بے نظیر نکاح خواں‘‘ کے مرتبے پر فائز ہوگئی ہیں‘ -عربی ‘ فارسی اور اردوزبان کی کم ظرفی ‘ ملاحظہ ہو کہ ان زبانوں میں ایک نکاح خواں عورت کے لئے کوئی باقاعد ہ نقطہ نہیں ہے -
عاصمہ جہانگیر کی اس جارحانہ پیش قدمی سے بہت سے لائسنس یافتہ نکاح خوانوں کی روزی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے عاصمہ جہانگیر کی پیروی کرتے ہوئے بہت سی مغرب زدہ بیگمات میدان عمل میں اتر پڑیں گی- خواتین محاذ عمل‘ والی خواتین تو اس سلسلے میں تبھی بھی بے عملی کا مظاہر ہ نہیں کریں گی - توقع رکھنی چاہئے کہ جدید تہذیب یافتہ بیگمات نکاح خوانی کے معاملے میں بھی عنقریب خود انحصاری کی منزل عنقریب طے کرلیں گی -
اس انقلابی اقدام کے بعد عاصمہ جہانگیر کو چاہئے کہ وہ سلسلہء عاصمیہ کے قیام کا اعلان بھی بر ملا اور ڈنکے کی چوٹ پر کردیں ہمار ے ہاں نام نہاد فقیروں نے بھی عورتوں کے حقوق کا بے رحمانہ استحصال کیا ہے - اگر عاصمہ جہانگیر کی صورت میں ’’ عورت دوست‘ ‘ پیرنی سامنے آجائے تو بہت سے خواتین اس ناروااستحصال کے شکنجے سے محفوظ رہیں گی - اور اس طرح پیری فقیری کے معاملے میں مردوزن میں جو صدیوں سے ’’ عدم مساوات‘‘‘ چل آرہی ہے اس کا بھی ازالہ ہو سکے گا -اب بہت سے جوان جوڑوں کو نکاح خواں کی تلاش میں خوامخواہ خوار نہیں ہونا پڑے گا ادھر کسی کی زلف گرہ گیر ( یا کوتاہ ) کے اسیر ہوئے ‘ ادھر عاصمہ جہانگیر یا ان کی کسی نائبہ کے در دولت پر حاضری دی اور ’’نکاح ‘‘ کے تمام مراحل ایک ہی جست میں طے کر لئے -
جنگ کے معاملے میں ایک اصول بڑ ا اہم ہے ‘ وہ یہ ہے کہاگر دشمن بہت سخت ہو اور اسے نیچادکھانے کی کوئی صورت ممکن نہ نظر آتی ہو تو حکمت عملی کے طور پر دشمن کی صفوں میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا جاتا ہے - خود حفاظتی کے لئے بے حد مؤثر چال سمجھی جاتی ہے یہ دفاعی حکمت عملی میں دھوبی پٹڑا ‘ کا داؤ سمجھا جاتا ہے - عاصمہ جہانگیر اب تک ملا ّؤں کے خلاف نبر د آزما ہو کر دیکھ چکیں -ملا ّؤں‘ کی نقل و حرکت اور چلت پھرت میں مزید اضافہ ہوتا گیا بالآخر انہوں نے اب یہ خوب چال چلی ہے کہ عین انکی صفوں میں داخل ہو کر نکاح خوانی کے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہو جائیں - آخر وہ کو نسا کٹ محب ملا ّ ہو گا جو اس نیک کام کی انجام دہی پر انگلی اٹھا سکے گا کئی ’’ علماء‘‘ تو عاصمہ جہانگیر کے حق میں بیان دے کر اپنے ’’ قتیلی ‘‘ہونے کا اعلان کرچکے ہیں باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں - عین ممکن ہے کہ اب بہت سے اہل شریعت ‘ عاصمہ جہانگیر کو افرنگ زدہ عورت کا طعنہ دینے کی بجائے طبقہ علماء میں سے ایک عورت یعنی ’’ملونٹی‘‘ کے خطاب سے نوازنے کااعلان کردیں - عاصمہ جہانگیر بھی جوابی مروت کے اظہار کے طور پر علماء کو ’’ ملّا ‘‘ کی گالی سے نوازنے سے ‘امید ہے ‘ اب بازرہیں گی-عاصمہ جہانگیر کی انقلابی طبیعت کے بہت سے میدان ابھی تک منتظر ہیں اگر انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں ’’ مساوات مردو زن ‘‘ کو عملاً قائم کر دکھانے کا ’’ مقدس ‘‘ فریضہ سنبھال ہی لیا ہے تو پھر انہیں ہَمارے مسجدوں کی صورتحال پر بھی توجہ دینی پڑے گی کیونکہ یہ مساجد بھی مردوں کے ظالمانہ تصرف میں اور آج تک کسی خاتون کو شرف امامت سے نہیں نوازا گیا - مساجد کے پیش اماموں کو ابھی سے خبردار رہنا پڑے گا کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ کسی دن عاصمہ جہانگیر اپنی نکاح خوانی کے ذوق کی تسکین کے لئے مسجد کا انتخاب کرلیں - اور بعد از نکاح مصلی شریف کو بھی اپنی امامت کے زیر تصر ف لانے کا اعلان کردیں - اور کیا بعید ہے کہ ہمارے علماء کا ایک گروہ نماز میں عورت کی امامت کے جوا ز میں فتویٰ صادر فرما دے جس طرح کہ عاصمہ جہانگیر کے اقدام نکاح خوانی کو ’ ’ شریعت کے عین مطابق‘‘ اور ’’ قانونی‘‘ اقدام ہونے کے متعلق بعض علماء کے 5 اپریل کے اخبارات میں بیانات شائع ہوئے ہیں-
اگر وہ بھی ’’ نکاح خوانی‘‘ کے فرائض نبھانا چاہیں تو انہیں بہرحال عاصمہ جہانگیر کی ’’ اقتدار‘‘ کا ناخوشگوار فریضہ ضرور اداکرنا پڑے گا - اگر وہ عاصمہ جہانگیر کو اس ’’ شرف ‘‘ سے محروم کرنا چاہتی ہیں- تو انہیں کوئی نہ کوئی چال ضرور چلنی ہوگی ‘ مثلاً وہ جوش دین میں آکر یہ اعلان کرسکتی ہیں کہ عاصمہ جہانگیر ’’ عورت‘‘ نہیں ہیں ‘ یا یہ کہ عاصمہ جہانگیر اپنا نکاح دوبارہ پڑھوائیں کیونکہ ایک قادیانی کی زوجہ ہیں - اگر وہ مسلمان ہیں تو کسی قادیانی کے نکاح میں نہیں آسکتیں -ا ور اگر قادیانی ہیں تو کسی مسلمان عورت کا نکاح نہیں پڑھاسکتیں‘ اس صورت میں عاصمہ جہانگیر اپنے نکاح خوانی کے شوق کا صرف قادیانی عورتوں کو ہی تختہ مشق بنا سکیں گی - مسلمان عورتیں اس کی دست درازی اور نکاح بازی سے محفوظ و ممنون رہیں گی -قاضی حسین احمد - پروفیسر طاہر القادری ‘ مولانا فضل الرحمان ‘ ڈاکٹر اسرار احمد اور حافظ عبد الرحمن مدنی کی بیگمات اپنی کوتاہی عمل پر اب پچھتار ہی ہوں گی اگر بعض علماء کے بقول عورت کے نکاح خواں ہونے میں کوئی غیر شرعی بات نہیں ہے تو یہ بیگمات اپنے مذہبی پس منظر اور دینی خدمات کی روشنی میں اس عہدہ جلیلہ کی زیادہ حقدارتھیں- وہ اس معاملے میں ’ ’ شرف اولیت ‘‘ سے محروم ہی رہیں گی -
قاسم اور نتاشہ کا نکاح پڑھا کر عاصمہ جہانگیرسے ایک چوک ضرور ہوئی ہے - انہیں چاہئے تھا کہ وہ ’’ اول خویش بعد درویش‘‘ والے اصول پر عمل پیرا ہوتیں - اپنی نکاح خوانی کے شرف سے انہیں پہلے اپنے عزیز و اقارب کو نوازنا چاہئے تھا - مثلاً اس کے لئے ان کی بہن حنا جیلانی بہت موزوں امید وار ہوسکتی تھیں - جن کے متعلق یہ افواہ ہے کہ وہ گذشتہ دس برسوں سے بغیر نکاح کے قزلباش نامی ایک مردکے ساتھ ’’ میاں بیوی‘‘ کی حیثیت سے رہ رہی ہیں - حنا جیلانی عورتوں کی مساوات بلکہ برتری کی جوشیلی علمبردار ہیں - انہوں نے کسی مرد کے ہاتھوں نکاح پڑھوانے کی ذلت سہنے کی بجائے بغیر نکاح کے گذارہ کرنے کو ترجیح دی - لیکن اب جبکہ ان کی ہمشیرہ نے ’’ نکاح خوانی‘‘ کاسلسلہ خود شروع کردیا ہے تو حنا جیلانی کو ان کے دست عورت پرست پر نکاح پڑھوانے میں کوئی عذر اعتراض نہیں ہونا چاہئے - دیکھئے عاصمہ جہانگیر کے ہاتھوں حناجیلانی کے نکاح پڑھے جانے کی خبر اور تصویر ہمارے قومی اخبارات میں کب چھپتی ہے ؟ ذہین اور تجربہ کار رپورٹر کو ابھی سے اس قومی اہمیت کے حامل واقعہ کو lover کرنے کے لئے چاق و چوبند رہنا ہوگا-
عاصمہ جہانگیر ہمیشہ کوئی نہ کوئی چونکا دینے والا کام کرتی ہیں - بڑے عرصہ سے اخبارات انکے متعلق سر د مہری ‘ کا روایہ اپنائے ہوئے تھے - کبھی کبھار اندرونی صفحات میں ایک کالمی خبر کے علاوہ زیادہ لفٹ نہیں کرارہے تھے جب سے عاصمہ جہانگیر نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف جلو س نکالے تھے ‘ بہت سے صحافی اس سے روگردانی کرچکے تھے - انسانی حقوق کی تکرار کی خبریں تو اب معمول کا حصہ بن گئی تھیں- ان میں خیریت کا عنصر باقی نہیں رہا تھا- اور پھر یہ کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے متعلق تنظیمیں کھمبو ں کی طرح اگ آئی ہیں- اب عاصمہ جہانگیر کو اس معاملے میں وہ امتیاز یا تخصص بھی حاصل نہیں رہا - صائمہ کیس بھی عرصہ ہوا ‘ قصہ ماضی بن گیا ہے ایک ایم - پی - اے کی بیٹی حمیرا کے گھر سے فرار ہونے کے واقع کو اخبارات نے وہ اہمیت نہ دی جو کہ صائمہ کیس میں دیکھنے میں آئی تھی - ’’ دستک‘‘ کا معاملہ بھی ٹھنڈا پڑگیا ہے وہاں بھی گرما گرمی نہیں نظر آتی - یہ سارے حالات عاصمہ جہانگیر کو بے چین و بے قرار کردینے کے لئے کافی تھے ‘ وہ تو ہر روز کوئی نہ کوئی ہنگامہ پرور خبر سننے یا چھپوانے پر یقین رکھتی ہیں - سندھ میں کاروباری کے واقعات کی زیادہ تر خود ساختہ لرز ہ خیز داستانیں بھی کوئی بہت بڑا ردعمل دکھانے میں ناکام رہی ہیں - عیسائی برادری میں بھی کوئی سلامت مسیح ‘ یار حمت مسیح دوبارہ پیدا نہ ہوا جو ’’ موت ‘‘ کو گلے لگا کر انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے ویڈیو فلم بنواتا جو بعد میں یورپ میں دکھائی جاسکتیں -
بالآخر ان کے زہن رسانے ایک انتھائی عجوبہ روزگاراوور نادر الوجود منصوبہ تخلیق کر لیا - ان کا ذہن کتناذرخیز ہے - اس کا اندازہ ان کے دوستوں کو ہے نہ دشمنوں کو - 4 اور 5 اپریل کے صفحہ اول پر عاصمہ جہانگیر کے متعلق خبریں اور بالخصوص نکاح خوانی کے منظر کی وہ خشوع و خضوع میں ڈوبی بڑے سائز کی تصویر دیکھ کر ان کی جدت طرازی کی دا د دینی پڑی - قاسم اور نتاشہ کا نکاح پڑھاتے ہوئے وہ وکیل نہیں بلکہ’’ سچ مچ ‘‘ کی نکاح خواں لگ رہی تھیں- قومی اخبارات کے صفحہ اول پر جگہ پانی کوئی عام کارنامہ نہیں ہے ایسے بہت سے کارنامے سے عاصمہ جہانگیر پہلے ہی انجام دے چکی ہیں - لیکن یہ تازہ ترین کا رنامہ اپنی روح اور نوع کے اعتبار سے یگانہ روزگار ‘ تحیر آیند اور بلا خیز ہے اس نے تو واقعی عاصمہ جہانگیر کے دوستوں اوور دشمنوں دونوں میں صف ہائے ماتم بچھا دی ہیں - دوستوں میں اس لئے کہ ملا ّؤں کو دشنام طرازی کا نشانہ بنانے والی لبرل عاصمہ جہانگیر بالآخر ’’ ملائیت ‘‘ پر اتر آئی ہے اور دشمنوں میں ماتم اس لئے کہ انہیں اپنے بے روز گار ہونے کا خطرہ صاف دکھائی دے رہے ہے نکاح خوانوں کے تھڑے اب بے رونق ہو جائیں گے کیونکہ جس شہر میں عاصمہ جہانگیر جیسی روشن خیال قانون دان ‘تعلیم یافتہ ‘ ہنر منداور سلیقہ شعار نکاح خواں عورت موجود ہو جو ایک ٹکالئے بغیر نکاح پڑھا دے ‘ وہاں کوئی عقل سے پیدل شخص ہی ایک ثقہ نکاح خواں کے ناز اٹھائے گا اور پیسہ بھی برباد کرے گا -عیسائی بشپ ‘ فرانسسی جوزف کی خود کشی نے ملکی صورتحال میں تھوڑی بہت ہلچل مچا کر کچھ امیدیں زندہ کردی تھیں لیکن برا ہو عیسائی کارکنوں کا کہ وہ لاہور کی مال روڈ پر چند ڈھنڈ ے کھانے کے بعد ہی خاموش ہو کر بیٹھے گئے - ان حالات میں عاصمہ جہانگیر کی بے قراری اوور نوا میدی دیکھی نہ جاتی تھی - وہ ایک جمہوریت پسند‘‘ خاتون ہیں اور اشتہاربازی ‘ بیانات ‘ جلسے جلوس ‘ نعرہ بازی ‘ دھائی وغیرہ جمہوریت کی عین روح اور آکسیجن ہیں- عاصمہ جہانگیر اس آکسیجن میں کمی آنے کے بعد سخت جسمانی وذہنی دباؤ کا شکار چلی آتی تھیں-
عاصمہ جہانگیر کی نکاح خوانی اور تصویر دیکھ کر ستم ظریف نے یہ بھی رائے زنی کی ہے کہ وہ اپنی ایک عزیزہ کے ہونے والے نکاح میں مولوی کی شمولیت کے احساس سے شدید پریشان تھیں وہ کسی مولوی صاحب کو اپنے گھر میں براجمان دیکھ کر ہوش و حواس کو قائم رکھنے میں ناکام رہتیں - انہوں نے اپنے مردوں سے اپنی اس پریشانی کا اظہار کیا اوران سے درخواست کی کہ وہ مولوی کی نمائندگی کا فریضہ ادا کرتے ہوئے نکاح خوانی کا مرحلہ خود ہی طے کرائیں مگر عاصمہ جہانگیر کے زیر اثر مردوں میں یہ ’’ مردانگی‘‘ ہی کہاں باقی تھی کہ وہ یہ جرأت مندانہ اقدام اٹھا سکیں ‘ انہوں نے تو معذرت کرلی - اب مجبوراً عاصمہ جہانگیر کو یہ ’’ بارگراں‘‘ خود ہی اٹھانا پڑا - چونکہ یہ بالکل نیا شوق تھا اس کی ادائیگی کے لئے ریہرسل ضروری تھی -گویا عاصمہ جہانگیر نے قاسم اور تناشہ کا نکاح پڑھا کر یہ ریہرسل کی ہے-اب وہ اپنے گھرانے کی کسی صاحبزادی اور بے حد اعتماد کے ساتھ پڑھا سکیں گی -سنا ہے عاصمہ جہانگیر عورتوں پر مردوں کے ظلم و ستم پر اس قدر دلگیر و رنجور ہیں کہ وہ ہرصورت میں انکو ظالم مردوں کی دسترس سے با ہر رکھنا چاہتی ہیں اور مردوں میں ’’ طبقہ ملا ّ‘‘ تو بالخصوص میں انکی نفرت کا نشانہ بنا ہوا ہے - وہ اسے ہر میدان میں شکست سے دوچار کرنے کے عزم بالجزم کرچکی ہیں یہ تازہ اقدام تو محض شروعات کہی جاسکتی ہیں - مساجد کی امامت پر قبضہ اور تجہیز و تکفین اور جنازہ پڑھانے کے معاملات کو اپنے قبضہ قدرت میں لینا انکے آئندہ کے انقلابی اقدامات میں شامل ہے اور عنقریب وہ اپنے چاہنے والوں کو یہ خبر جانفراء بھی سنائیں گی بلکہ اس کی ویڈیو دکھائیں گی کہ وہ کیا قیامت خیز منظر ہوگا جب عاصمہ جہانگیر کی مسجد کے محراب میں کھڑی ہو کر فریضہ امامت ادا کریں گی ‘ انسانی حقوق کمیشن کے مرد ارکان انکی اقتداء میں ’’نماز ‘‘ ادا کررہے ہوں گے اور پھر دوسرا منظر یہ ہوگا کہ وہ لاہور میں کسی معروف ہستی کی نما ز جنازہ پڑھاتے دکھائی دیں گی ’’ معروف ‘‘ اسی لئے کیونکہ کسی غیر معروف کی ویڈیو فلم بنانا ان کے نزدیک تضیع اوقات اور بربادی دولت ہے -
عاصمہ جہانگیر نے نکاح کیا پڑھایا ہے ‘ گویا مختلف تبصروں کا دروازہ کھل گیا ہے - ایک صاحب کا خیال ہے کہ عاصمہ نے آزاد خیال اور انقلابی ہونے کا تو محض ڈھونک رچا رکھا تھا- وہ تو ایک ناٹک تھا- اصل میںتو وہ ایک ’’ مذہبی عورت‘‘ہے - وہ ایک شب زندہ دار عورت ہے - دن کو مال روڈپر عورتوں کے جھرمٹ میں کھڑے ہو کر آزادئی نسواں کے نعرے لگاتی ہے اور رات کو مصلی پربیٹھ کر خالق کائنات کے لو لگاتی ہے ‘ تسبیح گھماتی ہے اور ذکر میں مصروف رہتی ہے - تم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ مولانا صلاح الدین کی نواسی مذہب سے ایسی برگشتہ نہیں ہو سکتی - دوسرے صاحب یوں گویا ہوئے - عاصمہ جہانگیر کے کیا پوچھتے ہو‘ وہ تو ایک ذہنی اور نفسیاتی مریضہ ہے - سستی شہرت کے لئے وہ کوئی بھی ڈرامہ رچا سکتی ہے- مذہب وزہب کا کوئی معاملہ نہیں ہے - میں نے اس کو فلاں فلاں حالت میں دیکھا ہے-نکاح کے الفاظ بھی اب ان کی زبان پر چڑھ گئے ہوں گے - ورنہ قرآنی آیات کو ایک سیکولر اور ’’ روشن خیال‘‘ عجلت پسند عاصمہ کے لئے زبان پر لانا ایک تکلیف دہ امر تھا - عاصمہ جہانگیرکے گھرانے کی ہونے والی منکوحہ لڑکیوں کو مبارک ہو کہ اب انہیں کسی مولوی صاحب کی شکل نہیں دیکھنی پڑے گی اب وہ نکاح خواں کے بارے میں خود کفالت کے درجہ پر متمکن ہیں یہ ترقی اقبال پہ لوٹنے کی جائے ہے -
تیسرے صاحب کا خیال تھا ‘ عاصمہ جہانگیر کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ سگمند فرائید کے بقول وہ اپنے عورت ہونے پر سخت پریشان و پشماں ہے -
ایک اور ذات شریف بھی اس تبصرہ بازی کے شغل میں شریک ہونے سے باز نہ رہ سکی - اس کے بقول عاصمہ جہانگیر ہر کا م سوچ سمجھ کر اور سائنس منصوبہ بندی کے تحت کرتی ہے- پہلے مرحلے میں اس نے عورتوں کی مخصوص نشستوں کی آواز اٹھاتی- دوسرے مرحلے میں حدود آرڈیننس کے نفاذ پر احتجاج کیا - تیسرے مرحلے میں اس نے صائمہ کیس کے ذریعے عدالت سے نکاح میں ولی کی عدم ضرورت پر فیصلہ حاصل کیا اور اب چوتھے مرحلے میں نکاح خواں بن چکی ہوں- عاصمہ جہانگیر جیسی انفرادیت پسند خاتون کو یہ ہر گزگوارا نہیں ہے کہ وہ بھی ویسے کام کرے جو دیگر عورتیں کر رہی ہوں اصل میں یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی جدو جہد کا منطقی اور تدریجی ارتقاء - غرض جتنے منہ اتنی باتیں-اس کی اصلی پریشانی یہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی اس ترقی کے باوجود وہ مرد کیوں نہیں بن سکتی - لہٰذا اسی احساس محرومی کا نتیجہ ہے کہ وہ ہر کام کرنے میں مریضانہ لذت محسوس کرتی ہے جو بنیادی طورپر مردوں کے دائرہ کار میں آتا ہے - وہ عورت کی حدود سے کب کی نکل چکی ہے اب وہ اس درجہ پر پہنچ چکی ہے جو اقبال کی زبان میں ’’ نازن‘‘ کہلاتا ہے -
مرحبا اے عاصمہ ! لوگ تو باتیں کرتے ہیں اور تونے اپنے عمل سے ہی ثابت کردیا کہ مرد و زن ’’ برابر‘‘ ہیں - تو نے ثابت کردیا ہے کہ جب کوئی عورت ‘ عورت نہ رہے تو عملی طور پر ’’ مساوات مرد و زن‘‘ قائم ہو ہی جاتی ہے مساوات ِ مرد و زن کا یہ ثبوت عاصمہ جہانگیر جیسی عورتوں کے حقوق کی چیمپین کے علاوہ آخر اور کون دے سکتاتھا- قاسم اور نتاشہ خاطرجمع رکھیں ‘ اپنی ہونے والی اولاد کی قانونی حیثیت کے بارے میں متفکر نہ ہوں یہ ان جیسے جوڑوں کے فکر مند ہونے کا معاملہ نہیں ہے - البتہ ہم ان کے بارے میں متفکر ضرور ہیں کہ ایسی روشن خیال اہل شباب نے عاصمہ جہانگیر سے نکاح پڑھوانے کا تکلف خوامخواہ کیوں کیا - بھلا سچی ’’ محبت ‘‘ کرنے والے دلوں کو نکاح جیسی رسومات کے چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے-