ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
عاصمہ جہانگیر کے اپنے غیر ملکی آقائوں سے رابطے
محمد عطاء اللہ صدیقی
محب وطن حلقے عرصہ دراز سے عاصمہ جہانگیر کی ملک دشمن سرگرمیوں کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ عاصمہ جہانگیر کو مغربی صہیونی لانی کی تنخواہ دار ایجنٹ قرار دیا لیکن عاصمہ جہانگیر نے اسے ہمیشہ الزام تراشی پر مبنی پراپیگنڈہ کہہ کر مسترد کردیا۔
مذکورہ کمیشن کو مغرب کی طرف سے پاکستان کے خاندانی نطام اور سماجی اقدار کو مغربی تہذیب میں ڈھالنے کامشن سونپا گیا ہے۔ کسی بھی ملک کی نظریاتی اساس مذہبی تعلیمات اور سماجی اقدار کے خلاف مہم جوئی کے خلاف ہمیشہ شدید ردعمل کا اظہار کیا جاتاہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس، اسلام کی الہامی اور آفاقی تعلیمات پر قائم ہے۔ ظاہر ہے اگر کوئی شخص ان کے خلاف بات کرے گا، تو اسے مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ وہ اس خطرناک مشن کی پیروی سے پہلے اپنے جان و مال کے تحفظ کے لئے حفاظتی اقدامات ضرور کرے گا۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنی مذہب مخالف اور پاکستان دشمن سرگرمیوں کے خلاف کسی بھی متوقع رد عمل سے بچائو کے لئے اپنے مغربی آقائوں کی پشت پناہی اور آشیر باد کو ہمیشہ ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان مغربی آقائوں کا طرز عمل بالکل ایک پیشہ ور رسہ گیر کا رہا ہے جو اپنے تربیت یافتہ چوروں کے ذریعے واردات کروانا ہے اور پھر پکڑے جانے کے نتیجے میں ان کے تحفظ کے لئے بھرپور کوششیں کرتا ہے۔عاصمہ جہانگیر کی زیرنگرانی چلنے والا انسانی حقوق کمیشن مغربی اداروں کی طرف سے دیئے جانے والے کروڑوں روپے کے فنڈز کی بنیاد پر قائم ہے۔
6۔ اپریل کو عاصمہ جہانگیر کے ادارے ’’دستک‘‘ میں پشاور سے بھاگ کر آنے والی سمیعہ عمران کے قتل کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ سمیعہ عمران کے والد سرور مہمند ایوان صنعت و تجارت پشاور کے سابق صدر اور سابق رکن اسمبلی ہونے کے علاوہ ایک بااثر شخصیت ہیں۔ انہوں نے قتل کی ذمہ داری عاصمہ جہانگیر اور اس کی بہن حنا جیلانی پر عائد کی۔ غلام سرور مہمند کی حمایت میں صوبہ سرحد کی بااثر شخصیات نے بے حد جذباتی بیانات دیئے اور عاصمہ جہانگیر سے قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا۔ لاہور کی مال روڈ پر عورتوں کے نام نہاد حقوق کے لئے جارحانہ بیان بازی اور بڑھکیں لگانے والی عاصمہ جہانگیر ان بیانات سے عدم تحفظ کا شکار ہوگئی۔ سمیعہ کے قتل کے دو دن بعد بالآخر عاصمہ جہانگیر نے امریکہ ’’فرار‘‘ ہونے میں عافیت سمجھی۔ امریکہ پہنچ کر اس نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ میری ربنسن کے علاوہ امریکی سینٹ اور ایوان نمائندگان کے ارکان سے ملاقاتیں کیں او راپنے عدم تحفظ کی خوب دھائی دی۔ اس کے علاوہ امریکہ اور کنیڈا کی بعض عالمی سطح پر معروف این۔ جی۔ اوز کے ذمہ داران سے بھی عاصمہ جہانگیر نے ملاقاتیں کیں اور ان سب کو تیار کیا کہ وہ پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالیں کہ وہ عاصمہ جہانگیر کی جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے فوری انتظامات کرے۔ مذکورہ شخصیات نے صدر پاکستان جناب رفیق احمد تارڑ صاحب اور وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو مفصل خطوط فیکس کئے جن میں سمیعہ عمران کے قتل پر اپنی تشویش کے اظہار کے ساتھ ساتھ عاصمہ جہانگیر کی زندگی کو لاحق خطرات پر اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔ ان تمام نے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر کی زندگی کے تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کرے۔ ذیل کی سطور میں مذکورہ خطوط کا اردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے:
امریکی کانگریس کے عورتوں کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ کے ارکان نے پاکستان کے وزیراعظم کو اپنے مکتوب میں لکھا:
مورخہ22 ۔اپریل 1999ء
جناب وزیراعظم پاکستان، میاں محمدنوازشریف صاحب
اسلام آباد۔اسلامیہ جمہوریہ پاکستان
ڈیئر وزیراعظم نوازشریف!
مسماۃ سمیعہ سرور کو محض اس لئے قتل کیا گیا کیونکہ وہ اپنے ظالم خاوند جس سے وہ 1985ء سے علیحدہ رہ رہی تھی، سے طلاق لینا چاہتی تھی، بادی ٔ النظر میں اس کے اس وحشیانہ قتل کا بندوبست اس کے خاندان ہی نے کرایاتھا، کیونکہ ان کی نگاہ میں اس طرح کا طرز عمل ایک عورت کے لئے غیر آبرو مندانہ (disbonourable) تھا۔ مسماۃ سمیعہ سرور کے قاتل، جو کہ اس کے خاندان نے کرایہ پر لیا تھا، نے اس کی وکیل حنا جیلانی پر بھی قریبی نشانہ لے کر فائر کیا جس سے وہ بڑی مشکل سے بچیں۔ سمیعہ کا چچا اور اس کی ماں جو اس قتل میں شریک تھے، نے اے۔ جی۔ایچ۔ ایس کے سٹاف ممبر کو بھی بندوق کی نوک پر یرغمال بنا لیا اور وہ اسے لے کر رکشہ میں بیٹھ کر دفتر سے بھاگ نکلے۔ اس سٹاف ممبر کو انہوں نے دفتر سے کچھ فاصلے پر جاکر چھوڑ دیا۔’’ہم امریکی کانگریس کے عورتوں کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ (کانگریشنل ورکنگ گروپ آف انٹرنیشنل وومن ہیومن رائٹس) جوکہ امریکی سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے غیر جانبدار ارکان پر مشتمل ہے، کی طرف سے یہ لکھ رہے ہیں۔ یہ گروپ پوری دنیا میں عورتوں کے انسانی حقوق کے احترام کے فروع کی غرض سے تشکیل دیا گیا ہے۔ ہم یہ سطور گذشتہ منگل بتاریخ ۶۔ اپریل کو اے ۔ جی۔ ایچ ۔ ایس کے لیگل سیل لاہور کے دفتر میں سمیعہ سرور کے گھنائونے اور باقاعدہ منصوہ بندی کے تحت کئے جانے والے قتل پر اپنی تشویش کے اظہار کے لئے لکھ رہے ہیں۔ سمیعہ سرور کے قتل کے بعد اس کی وکیل خواتین عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کو جو دھمکیاں دی گئی ہیں، اس کی روشنی میں ہم ان وکلاء کی جان کے تحفظ کے بارے میں سخت خدشات کا شکار ہیں۔
ہمیں اس بات پر سخت تشویش لاحق ہے کہ اس جرم کے مرتکب افراد کو حکام نے ابھی تک گرفتار نہیں کیا، اس حقیقت کے باوجود کہ ان کی شناخت اور اتا پتہ کے متعلق قتل کے فوراً بعد ہی معلومات دے دی گئی تھیں۔ پاکستانی حکام نے روایتی طور پر عورتوں کے خلاف ان نام نہاد غیرت (Honour) کے جرائم کے متعلق ناقابل دفاع ا حد تک نرم پالیسی اختیا رکی ہے۔ بہت سے مقدمات میں جرم کے مرتکب افراد کے خلاف قانون چارہ جوئی تک نہیں کی جاتی۔ اور وہ جنہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، انہیں بھی جرم کی سنگینی کے مقابلے میں خطرناک حد تک نرم سزائیں دی جاتی ہیں۔ عزت کے جرائم کے مرتکب افراد جس طرح سزا سے محفوظ رہتے ہیں، اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ایک ایسا سماجی اور قانونی نظام جس میں عورتوں کی زندگی کو کمتر سمجھا جاتا ہے، میں حکومت بھی خاموش شریک کار کا درجہ رکھتی ہے۔ اس طرح کے جرائم کومحض یہ کہہ کر کہ یہ قدیم سماجی برائیاں ہیں جس پر حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، کی بجائے حکومت کو عورتوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے باضابطہ کوششیں کرنی چاہئے۔جب سے یہ قتل کی واردات ہوئی ہے، حنا جیلانی او راس کی بہن عاصمہ جہانگیر کو پشاور چیمبر آف کامرس سے وابستہ افراد کے ایک گروہ اور متعدد مذہبی گروہوں کی طرف سے مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ مسماۃ سمیعہ سرور کا والد، جو کہ پشاور ایوان صنعت و تجارت کا راہنما ہے نے سمیعہ کے وکلاء کے سروں پر انعام کا اعلان کیاہے۔ حنا جیلانی اور عاصمہ جہانگیر دونوں پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی معروف علمبردار ہیں اور عاصمہ جہانگیر تو اقوام متحدہ کی طرف سے عدالت سے ماوراء قتل کے متعلق خصوصی نمائندہ (Rapporteur) بھی ہے۔
ہم آپ پر زور دیتے ہیں کہ سمیعہ سرور کی ماں، اس کے چچا اور باپ کو گرفتار کیا جائے اور حنا جیلانی او رعاصمہ جہانگیر کے تحفظ کو پولیس کی اولین ترجیح (Top Priority) قرار دیا جائے۔ انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ سمیعہ کے قتل کی مکمل تفتیش کی جائے۔ اور جو جو اس میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے او رانہیں سزا دی جائے ہم ا یک دفعہ پھر آپ پر زور دیتے ہیں کہ وکلائ، حنا جیلانی اور عاصمہ جہانگیر کی موثر حفاظت کو فوری طور پر یقین بنائیں‘‘
اس معاملے پر فوری توجہ کے لئے آپ کا بے حد شکریہ… ہم آ پ کے جواب کے منتظر ہیں‘‘
مخلص
دستخط
(1) Senator petty Murray, (2) Rep-Costance Morrella
(3) Senator Olympin (4) Rep- Joe Moakley.
اس خط کی نقول منجملہ دیگر حضرات کے امریکہ میں پاکستانی سفیر جناب ریاض حسین بخاری صاحب کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔
مندرجہ بالا خط کے مطالعے کے بعد درج ذیل باتیں توجہ طلب ہیں:
(1) اس خط کی بعض باتیں سو فیصد حناجیلانی اور عاصمہ جہانگیر کے بیانات سے مماثلت رکھتی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اس خط کے بعض حصے خود عاصمہ جہانگیر نے تحریر کئے ہیں۔ بے حد تعجب ہے کہ حنا جیلانی پر قریبی نشانہ لے کر فائر کیا گیا۔
(2) امریکی سینیٹرز کا یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ ان کا گروپ پوری دنیا میں عورتوں کے انسانی حقوق کے فروغ کی غرض سے قائم کیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ محض ان عورتوں کے حقوق پر کیوں آواز اٹھاتے ہیں جو پاکستانی معاشرے کی بنیادی اقدار سے بغاوت کی مرتکب ہوئی ہیں اور جنہیں عاصمہ جہانگیر کی سرپرستی حاصل ہو۔ مزید برآں امریکی سینیٹرز نے انصاف کے تقاضوں کو بھی مدنظر نہیں رکھا۔ سمیعہ عمران کے قتل کی ذمہ داری دونوں فریق ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں، یہ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ صحیح صورتحال کا تعین کریں۔ امریکی سینٹ کے ارکان نے محض اپنی حمایت یافتہ اور تنخواہ دار عاصمہ جہانگیر کا مؤقف سن کر ہی تشویش کا اظہا رکیا ہے۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہ دوسری پارٹی یعنی سمیعہ کے والدین کے مؤقف کو بھی سن کر اپنی رائے کا اظہا رکرتے۔
(3) امریکی مجلس قانون ساز کا مندرجہ بالا خط آزاد اور خود مختار مملکت پاکستان کے اندرونی معاملات اور عدالتی نظام میں توہین آمیز مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔ آخر انہوں نے یہ کیسے فرض کر لیا ہے کہ انہیں پوری دنیا کے ممالک کے معاملات میں یوں کھلم کھلا مداخلت کا استحقاق حاصل ہے۔ کیا وہ یہ حق پاکستان یا دوسرے ممالک کے شہریوں کو دینے کے لئے تیار ہیں کہ وہ امریکی عدالتوں کے معاملات میں اس طرح کی دخل اندازی کرسکیں؟ کیا امریکی شہری محض اپنے ’’سپرپاور‘‘ ہونے کی زعم میں اس طرح کی ناروا مداخلت کو جائز سمجھتے ہیں؟ اگر ان کی سوچ کی بنیاد یہی ہے تو یہ جدید استعماریت کی آئینہ دار ہے او رانہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی استعماریت کو کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
(4) عاصمہ جہانگیر کی حواس باختگی اور یہ دوڑ دھوپ چغلی کھا رہی ہے کہ وہ خود بھی مجرمانہ احساس (guilty conscienceکے زیر بار ہے۔ وہ دل میں یہ احساس ضرور رکھتی ہے کہ پاکستان کے خاندانی نظام کے خلاف جو اس نے تحریک چلا رکھی ہے،
اسے یہ بھی احساس ہے کہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں غیر متناسب پذیرائی کے باوجود پاکستانی عوام میں اس کی جڑیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب سے ا س نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف جلوس نکالے ہیں، ا س کے خلاف عوامی نفرت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر پاکستانی عوام میں اسے پذیرائی یا مقبولیت حاصل ہوتی تو اسے امریکہ جاکر اپنی جان کے تحفظ کے لئے مہم چلانے کی ضرورت نہ تھی۔اسے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے
(5) گذشتہ چند دہائیوں میں پاکستانی حکمران امریکی امداد پر اس قدر انحصار کرتے رہے ہیں کہ عمومی تاثر پیدا ہوا کہ پاکستان میں حکومت کرنے کے لئے امریکہ کی مخالفت مول نہیں لینی چاہئے۔ عاصمہ جہانگیر بھی یہی سوچ کر امریکہ میں اپنے متعلق فضا ہموار کرنے چلی گئی ۔ امریکی سینٹ کے ارکان نے بھی شاید پاکستان کے متعلق وہی استعماری سوچ رکھتے ہیں۔ لیکن عاصمہ جہانگیر اور اس کے مربی یہ فراموش کرگئے ہیں کہ پاکستان امریکی شدید مخالفت کے باوجود اگر ایٹمی دھماکہ کرسکتا ہے تو ان کا یہ احتجاج کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ حال ہی میں نجم سیٹھی کے متعلق امریکی وزارت خارجہ کے بیانات کو پاکستان نے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔عاصمہ جہانگیر اپنے آقائوں کی آشیرباد کے بل بوتے پر پاکستان میں غل غپاڑہ کرتی رہی ہے۔ اب اسے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنی منفی سرگرمیوں پرنظرثانی کرنی چاہئے۔ جب تک اسکی طرف سے اشتعال انگیز سرگرمیوں سے دست برداری کا اعلان نہیں کیاجاتا، اسے اپنے خلاف دھمکیوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
(6) امریکی کانگریس کے ارکان نے ایک عجب مطالبہ یہ کیا ہے کہ پاکستان کی پولیس کو عاصمہ جہانگیر کے تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہئے۔ (top priority) کا سرکاری زبان میں یہ مطلب یہ لیا جاتاہے کہ باقی سب کام چھوڑ کر صرف مسئلہ زیر غور پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اب گویا امن عامہ اور دیگر اہم امور کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستانی پولیس کو عاصمہ جہانگیر کی جان کی حفاظت پر ہی تمام تر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عاصمہ جہانگیر کی پاکستانی عوام کے لئے وہ کون سی ’’شاندار خدمات‘‘ ہیں کہ جن کے صلے میں قومی خزانہ سے زر کثیر اس کی حفاظت پر خرچ کیا جانا چاہئے۔ وہ پاکستان میں خاندانی نظام کی تباہی کے ایجنڈا پر کام کرہی ہے۔ اس نے پاکستان کے قابل افتخار ایٹمی پروگرام کے خلاف جلوس نکالے۔
اس کو گرفتار کرکے اس کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی بجائے اس کی حفاظت پر پہلے ہی کئی کانسٹیبل مامور کر رکھے ہیں۔ سمیعہ عمران کے مبینہ قاتل حبیب الرحمن کو حنا جیلانی کے دفتر میںقتل کرنے والا بشارت بھی پنجاب پولیس کا کانسٹیبل ہے۔ امریکی فاضل ارکان اگر عاصمہ جہانگیر کے متعلق اس قدر تشویش میں مبتلا ہیں تو وہ عاصمہ کو امریکہ میں مستقل قیام کا مشورہ کیوں نہیں دیتے اگر وہ اتنا کرسکیں تو پاکستانی عوام ان کے احسان مند ہوں گے۔ لیکن پھر انہیں اپنے ایجنڈا پر عملدرآمد کے لئے کسی اور ’عاصمہ جہانگیر‘‘ کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ اور اس درجہ کے ضمیر فروشوں کی تلاش کوئی آسان امر نہیں ہے۔وہ انسانی حقوق کے نام پر امریکہ او ریورپ میں پاکستان کے متعلق فلمیں بھجوا کر پاکستان کو بدنام کر رہی ہے۔ پاکستانی حکومت کا عاصمہ جہانگیر پر اتنا احسان کیا کم ہے کہ اس نے آج تک اس کی اسلام کے خلاف اور وطن دشمن سرگرمیوں کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔
دوسرا خط:
انٹرنیشنل سنٹر فار ہیومن رائٹس اینڈ ڈیمو کریٹک ڈیویلپمنٹ کے صدر وارن آلمنڈ (Warren Allmand) نے مانٹریال (کنیڈا) سے وزیراعظم پاکستان کو خط تحریر کیا: مورخہ 19۔ اپریل 1999ء…فیکس نمبر 011-92-51-920-8890:
ہز ایکسیلنسی، وزیراعظم پاکستان …اسلام آباد (پاکستان)
عنوان: 6۔ اپریل 1999ء کو سمیعہ سرور کا قتل اور حنا جیلانی اور عاصمہ جہانگیر کو قتل کی دھمکیاں
جناب وزیراعظم!
6۔ اپریل کو AGHS لاء ایسوسی ایٹس لاہور میں سمیعہ عمران کے قتل کے حوالہ سے، میں شدید دکھ کے ساتھ آپ کو لکھ رہا ہوں۔ ایک ایسے ادارے کی حیثیت سے جسے کنیڈا کی پارلیمنٹ نے تمام عالم میں انسانی حقوق کو فروغ دینے کا ’’مینڈیٹ‘ دیا ہے۔ انٹرنیشنل سنٹر اس افسوسناک واقعہ پر سخت صدمہ کا شکار ہے۔ میں مسماۃ سرور کی وکیل حنا جیلانی اور اس کی بہن عاصمہ جہانگیر کی ذات کو ملنے والی دھمکیوں کے متعلق بھی تشویش میں مبتلا ہوں۔
خواتین کے خلاف تمام امتیازات کے خاتمہ کے کنونشن (CEDAW) پر دستخط کردہ فریق کی حیثیت سے پاکستان کا یہ فرض ہے کہ وہ خواتین کے مساوی حقوق کو بہتر بنانے اور ان کا تحفظ کرے۔ عزت کے نام پر قتل کی روایت، سمیعہ سرور جس کا شکار ہوئی، اس کنونشن کے تحت پاکستان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں یہ کوئی اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں ہے۔ جیسا کہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ برائے 1996ء میں مذکور ہے۔ اس رپورٹ میں گذشتہ سال کے دوران صرف صوبہ پنجاب میں 286 قتل کی واردتوں کی تصدیق کی گئی ہے ایسی صورتحال میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستانی حکام عورتوں کے خلاف تشدد اور عزت کے نام پر قتل کی برسر عام مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی طور پرتسلیم شدہ قوانین کے انسانی حقوق کے ساتھ اپنی وابستگی اور احترام کا اعادہ کریں۔
مجھے یقین ہے کہ آپ آگاہ ہیں کہ پاکستان کی بین الاقوامی شہرت کے لئے یہ ایک اہم امتحان (Test) ہے۔ میں خلوص مندی سے پرامید ہوں کہ پاکستان کی بین الاقوامی انسانی حقوق سے وابستگی او ریقین بالآخر اس معاملے میں غالب رہے گا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے اس سنگین مسئلہ پر حکومت پاکستان کی طرف سے کئے گئے اقدامات کے متعلق مطلع کریں۔یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستانی حکام سمیعہ سرور کے قتل کے معاملے میں اس عزم کا مظاہرہ کریں کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ اس قتل کے متعلق غیر جانبدار اور مفصل انکوائری کرائی جائے اور اس کے ذمہ دار افراد کو ایک غیر جانبدار ٹریبونل کے سامنے پیش کیا جائے، جو قانون کی روشنی میں تحقیقات کریـ۔AGHS لاء ایسوسی ایٹس بالعموم اور حنا جیلانی اور عاصمہ جہانگیر بین الاقوامی مرکز برائے انسانی حقوق کے لئے ایک جانا پہچانا ادارہ اور شخصیات ہیں۔ میں بھی انہیں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ ناگفتہ بہ حالات میں جس طرح وہ انسانی حقوق کے دفاع کافریضہ انجام دے رہی ہیں، میرے دل میں ان کے عزم اور مقصد سے لگن کا بے حد احترام ہے۔ میری توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ بعض افراد اور شمال مغربی سرحد ی صوبہ کے مذہبی فرقوں کے ارکان حکومت پر ان حوصلہ مند عورتوں کے خلاف ایکشن لینے پر زور دے رہے ہیں، ورنہ وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر حکومت نے اقدام نہ کیا تو وہ ان کے قتل کاخود بندوبست کریں گے۔ ایسی دھمکیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لہذا میں حکومت پاکستان پر زور دیتا ہوں کہ وہ یہ باور کرائے کہ ایسی دھمکیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ایسی دھمکیوں کے مرتکب افراد کے خلاف قانون چارہ جوئی کی جائے گی۔ مزید برآں میں آپ پر یہ بھی زور دیتا ہوں کہ عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کی حفاظت اور اس کی جسمانی اور نفسیاتی Integrity (یکجہتی) کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
آپ کا مخلص وارن آلمنڈ Warren Allmand صدر
تبصرہ:
(1)عا صمہ جہانگیر کے ادارے AGHS کے متعلق پاکستان میں معدودے چند لوگ جانتے ہیں لیکن اس کی بین الاقوامی شہرت (یا بدنامی؟) ملاحظہ کیجئے کہ کنیڈا کا انسانی حقوق کا بین الاقوامی مرکز نہ صرف اسے اچھی طرح جانتا ہے بلکہ اس کا صدر برملا کہہ رہا ہے کہ وہ عاصمہ جہانگیر سے ذاتی شناسائی بھی رکھتا ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر استعماری طاقتوں نے عالمی سطح پر نیٹ ورک، قائم کر رکھا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ان کی تنخواہ دار این۔جی۔اوز اس نیٹ ورک سے مربوط ہیں۔ یہ نیٹ ورک ان تنظیموں کے لئے عملاً ’’عالمی بستی‘‘ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس بستی کا وڈیرہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک اس کے بااثر ارکان ہیں۔
(2) عاصمہ جہانگیر کے دروغ ساز انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹوں کو اہل مغرب ’’صحیفہ آسمانی‘‘ کا درجہ دیتے ہیں۔ جن ممالک میں مغرب کے سرمائے سے چلنے والے انسانی حقوق کے نام نہاد کمیشن کام کر رہے ہیں وہاں ان اداروں کی طرف سے پیش کردہ غلط بیانیوں اور مبالغہ آمیز رپورٹوں کو ’’حقائق‘‘ سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے اور پھر مسلسل ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا خط میں بھی عاصمہ جہانگیر کے کمیشن کے اعداووشمار کو پیش کیا گیا ہے۔ درحقیقت ’’کمیشن‘‘ کا لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے ظاہر کرتا ہے کہ کسی بیرونی طاقت نے اسے پاکستان میں مقرر کیا ہے او رکمیشن ایک خاص مقصد کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔ آپ ذرا فرق ملاحظہ کیجئے کنیڈا میں انسانی حقوق کے متعلق کام کرنے والا ادارہ ’’سنٹر‘‘ کہلاتا ہے جبکہ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں ایسے ادارے ’’کمیشن‘‘ کے نام سے کام کر رہے ہیں۔
(3)کینیڈا کے انسانی حقوق مرکز کے صدر صاحب گھر سے فرار ہونے والی ایک حیا باختہ شادی شدہ عورت سمیعہ کے قتل کے متعلق تو بے حد تشویش کا شکار ہیں کیا انہوں نے پاکستان یا دیگر ممالک میں قتل کی ایسی گھنائونی وارداتوں پر بھی کبھی اپنی تشویش کا اظہا رکیا ہے جس میں دس دس، پندرہ پندرہ ایک ہی خاندان کے افراد کو بے حد سفاکانہ طریقہ سے قتل کردیا جاتاہے؟ لاہور میں اسلام پورہ کا واقعہ، گجرات میں نو افراد کا قتل، غالباً اس طرح کے واقعات تو ان کے نوٹس میں بھی نہیں لائے جاتے۔ پھر ہم یہ بھی پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کشمیر، بوسنیا، کوسوو میں مسلمانوں کے قتل عام پرانسانی حقوق کے ان بدبخت منادوں نے کیا احتجاج کیا تھا۔ عراق میں امریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک نے عام بے گناہ شہریوں پر وحشیانہ بمباری کی ، اس وقت یہ انسانی حقوق کے علمبردار کہاں مرگئے تھے۔ ابھی حال ہی میں بھارتی طیاروں نے کارگل سیکٹر میں کئی سکولوں پر وحشیانہ بمباری کی جس کے نتیجے میں درجنوں معصوم او ربے گناہ بچے شہید ہوگئے۔ عاصمہ جہانگیر او ران کے بے حس مغربی آقائوں کے نزدیک کیا ان بچوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں؟ سمیعہ عمران کے قتل پر سیکرٹریٹ پر دھاوا بولنے والی عاصمہ جہانگیر کو ان معصوم بچوں کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے کی توفیق آخر کیوں نہیں ہوئی۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان این۔ جی۔اوز کا بنیادی مقصد انسانی حقوق کو فروغ دینا نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق کی آڑ میں مسلم معاشروں کے خاندانی نظام اور ان کی مذہبی اقدار کو تباہ کرنا ان کا اصل ہدف ہے انسانی حقوق کا تو محض انہوں نے ڈھونگ رچا رکھا ہے۔
(4) انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں نے عجب وطیرہ یہ بھی اپنا رکھا ہے کہ پاکستانی حکومت کو طعنہ دیتے ہیں کہ اس نے چونکہ فلاں فلاں ’’کنونشن‘‘ پر دستخط کر رکھے ہیں لہذا اب اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ’’کنونشن‘‘ پر بعینہ اسی طرح عملدرآمد کرائے جس طرح کہ مغرب کی این۔ جی۔اوز (N.G.O's) اس سے تقاضا کریں۔ حالانکہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ڈیکلریشن ہر ریاست کو اپنی ثقافتی اقدار کی روشنی میں اقدامات اٹھانے کا حق دیتا ہے۔ اسلامی یا ایشیائی معاشروں میں مساوات مرد و زن کی وہ صورتیں ناقابل عمل ہیں جو یورپی معاشرہ میں ہمیں دکھائی د یتی ہیں۔ کنیڈا کے انسانی حقوق مرکز کے صدر وارن آلمنڈ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے متعلق تو بے حد تشویش میں مبتلا ہیں اور حکومت پاکستان کو یاددہانی کرا رہے ہیں کہ وہ CEDAW پر دستخط کرنے کے بعد عاصمہ جہانگیر جیسی پاکستان دشمن عورتوں کی حفاظت کا ’’فول پروف‘‘ انتظام کرے۔ لیکن انہیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ وارن صاحب کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ جس ’’سیڈا‘‘ پر عمل درآمد کی وہ پاکستانی حکومت کو تنبیہ فرما رہے ہیں، اسی ’’سیڈا‘‘ کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تو آج تک توثیق (Ratify) نہیں کی۔ انہیں چاہئے کہ پہلے وہ انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار امریکہ سے اس کی توثیق کرائیں۔ بعد میں پاکستان جیسے ترقی پذیر لیکن اسلامی جمہوری ملک کے بارے میں فکر مند ہوں۔ پاکستان نے CEDAW پر اس وقت دستخط کئے جب یہاں خاتون وزیراعظم برسراقتدار تھیں جن کی مغربی تہذیب سے محبت ایک کھلا ہوا راز ہے۔ محترمہ نے قاہرہ کا نفرنس اور بیجنگ کانفرنس میں بے حد ذوق و شوق سے شرکت فرمائی اور ان کانفرنسوں کی تمام قراردادوں کی تائید کی حالانکہ قاہرہ کانفرنس کو ’’کنڈوم کلچر‘‘ کو فروغ دینے اور اسقاط حمل میں آزادی کے حوالہ سے مسلم ممالک کے علاوہ مسیحی چرچ نے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے حکمران پاکستانی عوام کی نمائندگی کادعویٰ کرتے کبھی نہیں تھکتے لیکن جب ان کی رائے کی ترجمانی کا وقت آتا ہے تو اپنی خواہش نفس اور ذاتی رائے کو قومی رائے پر ترجیح دیتے ہیں۔ خاتون وزیراعظم نے اسلامی تعلیمات اور پاکستانی عوام کی امنگوں کو سراسر نظر انداز کرتے ہوئے۔ ’’سیڈا‘‘ پردستخط کر دیئے تھے۔ پاکستان میں نفاذ شریعت کی علمبردار حکومت کو چاہئے کہ وہ اس توثیق کو واپس لے کیونکہ یہ ایک استعماری پھندا ہے جس کو مغربی طاقتیں ترقی پذیر ممالک میں مداخلت کے لئے جواز کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ پاکستانی عوام کسی بھی ایسے ’’کنونشن‘‘ یا میثاق کو اپنے پائوں کی ٹھوکر پر رکھتے ہیں جو اسلام کے آفاقی اور روشن اصولوں سے متصادم ہوں۔ اقوام متحدہ کے اعلامیہ کو ایک عالمی سازش کے ذریعے انسانیت کے ’’متبادل مذہب‘‘ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ مسلم ممالک کو اس سازش کے خلاف متحدہ کاوشیں بروئے کار لانی چاہئیں۔
جنیوا میں پاکستان کے مستقل مندوب کی طرف سے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی چیئر پرسن میری روبنسن (Mary Robinson) کو جو خط لکھا گیا ،اس کا خوشامدانہ اور معذرت خواہانہ اسلوب ملاحظہ فرمائیے:
میڈم چیئر پرسن!
میں نے واپسی جواب کیلئے درخواست کی ہے، اگرچہ اس سے مقصود جواب کے حق کا اظہار نہیں ہی۔ اصل مقصود اس بدقسمت واقعے کے متعلق حکومت ِپاکستان کی پورزیشن کو ریکارڈ پر لانا ہے، جو عاصمہ جہانگیر کی بہن حنا جیلانی کے دفتر میں پیش آیا۔ انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے اس واقعہ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، حکومت ِپاکستان اس تشویش میں برابر کی شریک ہے۔
اس قابل نفرت واقعہ کو ’’غیرت کا قتل‘‘ کہا گیا ہے، ہم اس رویہ کو غیر آبرو مندانہ اور عورتوں کے خلاف تشدد کی انتہائی صورت سمجھتے ہیں جو کہ اسلامی قانون اور رواداری کے اصولوں کے منافی ہے۔ اس طرح کے قابل نفرت واقعات ہر روز نہیں ہوتے اور نہ ہی ریاست کی منظوری انہیں حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک انتہائی بدقسمت واقعہ تھا جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔اس واقعہ نے پاکستان میں غم وغصہ کی لہر پیدا کر دی ہے، پاکستان ایک جمہوری اور ترقی پسندانہ معاشرہ ہے۔ خود عاصمہ جہانگیر پاکستان کی اس متحرک جدیدیت کی پیداوار ہے۔پاکستان کا آئین تمام شہریوں کے مکمل تحفظ اور مساوات اور قومی دھارے میں عورتوں کی بھرپور شرکت کی ضمانت دیتا ہے۔ غربت اور کم ترقی کے پیدا کردہ گھمبیر مسائل کے باوجو حکومت ِپاکستان آئین کی روشنی میں عورتوں کے خلاف تمام امتیازات اور تشدد کے خاتمہ کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
وہ تمام افراد جنہوں نے اس واقعہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے، میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ حکومت ِپاکستان عاصمہ جہانگیر کے تحفظ کیلئے تمام ضروری اقدامات کرے گی، جیسا کہ ہم نے ماضی میں بھی بارہا مؤثر اقدامات کیے ہیں… محترمہ چیئر پرسن میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘
تبصرہ
1۔ جنیوا میں پاکستان کے مستقل مندوب کا یہ مکتوب قومی خود داری کے تقاضوں کے منافی ہے۔ وہ انسانی حقوق کمیشن کی چیئر پرسن کے سامنے یوں بچھے جا رہے ہیں گویا پاکستان ابھی تک برطانیہ کی کالونی ہو۔
اور اسے ’’جدید جمہوری پاکستان کی پیداوار‘‘ قرار دے رہے ہیں حالانکہ عاصمہ جہانگیر سرتاپا مغرب زدہ عورت ہے، اس میں ’’پاکستانیت‘‘ نام کو نہیں ہے، وہ پاکستان میں خاندانی نظام کی جڑیں کھود رہی ہے، وہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے جیسا کہ پنجاب کے صوبائی وزیر بنیامین رضوی نے اپنے انٹر ویو میں کہا ہے (نوائے وقت : ۱۵؍ جون)2۔ عاصمہ جہانگیر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف جلوس نکالتی رہی ہے اور حکومت ِپاکستان کو بیرون ملک بدنام کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے لیکن حکومت پاکستان کے جنیوا میں مندوب اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں
۳۔ آخر پاکستان اس طرح کے واقعات پر غیر ملکی باشندوں کو جواب دینے کا مکلف کیوں ہے؟ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ یہ کام پاکستانی عدالتوں کا ہے کہ وہ قتل کی مذکورہ واقعات کے ذمہ داروں کا تعین کر کے پاکستانی قانون کے مطابق سزا سنائے۔حکومت ِپاکستان کو چاہئے کہ جنیوا میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے کسی خالصتاً پاکستانی سوچ رکھنے والے نمائندے کا تقرر کرے جو پاکستانی قوم کی نظریاتی اساس اور اس کی حقیقی اُمنگوں کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے نہ کہ عاصمہ جہانگیر جیسی پاکستان دشمن عورت کے گن گاتا پھرے۔
۴۔ پنجاب کے صوبائی وزیر سماجی بہبود جناب بنیامین رضوی صاحب نے اپنے حالیہ انٹرویو (۱۳ ؍جون ،نوائے وقت) میں کہا ہے ’’کچھ این جی اوز کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کے تعلقات بھارتی سفارتی حکام سے بھی ہیں۔ یہاں بھارتی عہدیداروں کی آمد ورفت ہوتی رہتی ہے۔ بعض اداروں میں دیگر اداروں کی بھی آمد ورفت رہی ہے‘‘ عاصمہ جہانگیر کے نام نہاد انسانی حقوق کمیشن کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رضوی صاحب نے کہا ’’اب تک جو ثبوت سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق یہ نام نہاد کمیشن پاکستان کو بیرونِ ملک بدنام کرنے، اقلیتوں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے، والدین اور بیٹیوں کی آپس میں جنگ کرانے اور ایک مسلم معاشرے میں اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے کیلئے کام کر رہا ہے‘‘ …اگر پنجاب حکومت کے ایک ذمہ دار وزیر بھی یہ رائے رکھتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ منفی کردار ادا کرنے والے کمیشن کی چیئر پرسن کیلئے حکومت ِپاکستان قومی خزانے سے تحفظ کا بندوبست کیوں کرے۔ مزید برآں پاکستان میں عاصمہ جہانگیر سے زیادہ غیر ملکی سفارت کاروں بالخصوص بھارتی سفارت کاروں سے ربط وتعلق رکھنے والی شخصیت کوئی بھی نہیں ہی۔ تعجب ہے کہ ناقابل تردید ثبوت کے ہوتے ہوئے عاصمہ جہانگیر پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جارہا۔ اور اس کے نام نہاد انسانی حقوق کمیشن پر اب تک پابندی عائد کیوں نہیں کی گئی۔پاکستان کے عوام حکومت سے اس کا جواب مانگتے ہیں…!!اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی چیئر پرسن کو عاصمہ جہانگیر کے تحفظ کے بارے میں تو سخت تشویش ہے، ہم ان سے یہ دریافت کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ انہیں کشمیر میں بھارتی طیاروں کی وحشیانہ بمباری کے نتیجہ میں شہید ہونے والی سینکڑوں خواتین اور معصوم بچوں کا علم نہیں ہے۔ اس ظلم پر وہ خاموش کیوں ہیں؟ کیا انہوں نے بھارت کے صدر اور وزیر اعظم کے نام اس ظلم کو بند کرانے کیلئے کوئی خط تحریر کیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان دوہرے معیارات کا آخر جواز کیا ہے؟