makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
انسانیت کا منشور اعظم، انسانی حقوق و فرائض کا اولین و کامل ترین چارٹر حضور رسالت مآب، معلم بشریت، محسن انسانیتﷺ نے حجۃ الوداع کے تاریخی موقع پر یوم عرفہ میں وادی نمرہ میں جہاں کم و بیش ڈیڑھ لاکھ نفوسِ قدسیہ ہمہ تن گوش تھے اور پھر یوم الحج الاکبر یعنی 10 ذی الحجہ کو جمرات کے قریب اور اوسط ایام تشریق یعنی 12 ذی الحجہ کو منیٰ میں خطبات ارشاد فرمائے۔
یوں تو صاحب جوامع الکلمﷺ کا ہر خطبہ ہی اہم ہے لیکن حجۃ الوداع میں آپؐ نے جو خطبات ارشاد فرمائے، خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لئے کہ یہ الوداع کہنے والے الصادق الامین اور ناصح امت صلی اللہ علیہ وسلم کی، امت کو الوداع کہتے وقت کی نصیحتیں ہیں کہ اپنے رب کی عبادت کرو، نماز پنجگانہ جو تم پر فرض ہے ادا کرو، ماہ (رمضان) کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو اور چار باتیں ہیں (ان سے دور رہو): اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، جس جان کو اللہ نے حرمت دی ہے اسے ناحق قتل نہ کرو، زِنا نہ کرو اور چوری نہ کرو (البدایہ والنہایہ ۶/۸۹۱، بحوالہ مسند احمد)
اگر کوئی سیاہ فام ناک کٹا غلام بھی تم پر امیر مقرر کر دیا جائے اور وہ کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ (صحیح مسلم)
لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے، وہ ہے اللہ کی کتاب۔
اسی لئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس خطبہ کے متعلق فرمایا:
’’اللہ کی قسم! یہ نبی کریمؐ کی اپنی امت کیلئے وصیت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری باب)
چنانچہ آپنے کئی فقرات بار بار دہرائے اور فرمائے جیسے: اللھم ھل بلغت؟ اللھم ھل بلغت؟
اللہ کو گواہ بنا کر بتاؤ کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا؟ اسی اہمیت کے پیش نظر جناب رسول اللہؐ کی آواز غیر معمولی طور پر بلند تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی غیر معمولی توجہ کے ساتھ سن رہے تھے۔ چنانچہ سنن نسائی میں حضرت عبدالرحمان بن معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’یعنی رسول اللہؐ نے منیٰ میں ہم سے خطاب فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کانوں کو کھول دیا یہاں تک کہ ہم اپنے اپنے پڑاؤ میں بھی آپؐ کے ارشادات بخوبی سن رہے تھے۔‘‘ (یہی نہیں محدثین رحمہم اللہ کی الہامی کاوشوں کے نتیجہ میں ہم آج بھی یہ خطبات سن سکتے ہیں)
آپؐ نے جہاں اپنے ان خطبات میں دین حنیف کے اصول و قواعد بیان فرمائے اور ملت ابراہیمی کا ایک ایک نقشہ اجاگر کیا وہیں شرک اور جاہلیت کی بنیادیں اکھاڑ دیں۔ اس لئے یہ حکمت بھرے خطبات ہمیشہ پیش نظر رہنے چاہئیں تا کہ قلوب و اذھان نور ایمان سے جگمگاتے رہیں۔
آپؐ نے میدان عرفات میں عظیم خطبہ کا آغاز کرنے سے پہلے جلیل القدر صحابی حضرت جریر بن عبداللہ البجلی کو حکم دیا کہ لوگوں کو خاموش ہو کر خطبہ سننے کا کہیں۔ آپ اس وقت اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھے۔ آپؐ نے بلند آواز میں فرمایا: آلا تسمعون؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟ (مسند امام احمد ۵/۱۵۲) پھر یوں گہر بار ہوئے:
تمام تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں، ہم اسی کی حمد کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں اور اس سے اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنے گناہوں اور خطاؤں پر نادم ہو کر اسی کے حضور رجوع کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفوس امارہ کی فتنہ انگیزیوں اور اپنے اعمال کے برے نتائج سے اسی کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ رشد و ہدایت سے نوازے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ اپنی توفیق و ہدایت سے محروم کر کے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ راست پر نہیں لا سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں اس امر کی کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کیلئے ساری تعریفیں، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا وتنہا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور اسی نے تنہا تمام گروہوں کو شکست دی۔
لوگو! میری باتیں پوری توجہ سے سنو اس لئے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس سال کے بعد تم سے اس مقام پر ملاقات کر سکوں یا حج کر سکوں گا۔ لوگو! میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے یعنی اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت اور تلقین کرتا ہوں۔ لوگو! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تا کہ باہم پہچان سکو، اس میں شک نہیں کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ معزز وہی ہے جس میں تقویٰ زیادہ ہے۔‘‘
(الحجرات: ۳۱)
اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خوب سمجھ لو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں‘ اسی طرح کسی کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے، کیا میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔۔۔؟؟
اے لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں آپس میں حرام کر دی گئی ہیں تا آنکہ تم اپنے رب کے حضور پیش ہو جاؤ۔ یہ حرمت اسی طرح کی ہے جیسے تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں تمہارا یہ دن محترم اور حرام ہے۔ (مسند احمد: ۴/۵۱۴)
آگاہ رہنا میں نے یہ بات تم تک پہنچا دی، اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا۔ جو تم میں سے یہاں موجود ہے وہ غیرحاضر افراد تک یہ بات پہنچا دے۔ تم پر ایک دوسرے کا احترام آج کے دن کے احترام کی مانند فرض ہے۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مسلم کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مومن کون ہے؟ مومن وہ ہے اہل ایمان جس کی طرف سے اپنی جانوں کے بارے میں بے خوف و خطر رہیں۔
میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مہاجر کون ہے؟ مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ برائیاں ترک کر دے اور مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے لئے اپنے نفس سے جہاد کرے۔ (مجمع الزوائد: ۳/۲۷۲) مومن‘ مومن پر آج کے دن کی طرح محترم اور حرام ہے، اس کا گوشت اس پر حرام ہے کہ غائبانہ غیبت کر کے کھائے۔ اسکی آبرو اس پر حرام ہے کہ اسے زک پہنچائے۔ اس کا چہرہ اس پر حرام ہے کہ اس پر تھپڑ مارے، اسے تکلیف پہنچانا بھی اس پر حرام ہے اور اسے دھکا دینا جس سے وہ لڑکھڑا جائے، بھی حرام ہے۔ (مجمع الزوائد: ۳/۲۷۲)
تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ آگاہ رہنا! زمانہ جاہلیت کے تمام اعزازات، امتیازات اور خون یا مال جن کا دعویٰ کیا جاتا ہے میرے ان دو قدموں کے نیچے (یعنی کالعدم) ہیں، سوائے سدانہ (کعبہ کی دربانی) اور سقایہ (حاجیوں کیلئے آب رسانی) کے۔ پھر فرمایا اے قریش! ایسا نہ ہو کہ لوگ آخرت کیلئے اعمال لے کر آئیں اور تم اس طرح آؤ کہ دنیا کندھوں پر اٹھائی ہوئی ہو۔ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کسی کام نہ آ سکوں گا۔ آگاہ ہو جاؤ! زمانہ جاہلیت کی ہر بات میرے قدموں کے نیچے پامال اور موقوف ہے۔
زمانہ جاہلیت میں ہونے والے تمام خونوں کے مطالبات قصاص ساقط کر دئیے گئے ہیں اور سب سے پہلے میں عمار بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کے خون کا مطالبہ ساقط کرتا ہوں جو بنو سعد میں دودھ پیتے تھے کہ بنوھذیل نے انہیں قتل کر دیا تھا۔
زمانہ جاہلیت کے سودی مطالبات کالعدم ہو چکے اور میں سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے سودی مطالبات کالعدم قرار دیتا ہوں۔ لوگو! مہینوں کا ادل بدل اور تقدیم تأخیر کفر کے طرز عمل میں اضافہ ہے اور اس طرح کافر لوگ اور زیادہ گمراہی میں پڑتے ہیں کہ ایک سال کے کسی مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام قرار دیتے ہیں تا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ مہینوں کی گنتی پوری کردیں۔
آگاہ رہو! زمانہ گردش لے کر اسی حالت پر آگیا ہے جس پر تخلیق ارض و سما کے دن تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں مہینوں کی تعداد قطعی طور پر بارہ ہے۔ یہ تعداد اللہ کی کتاب میں ثابت ہے اور ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین متواتر یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور ایک اکیلا یعنی رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔
آگاہ رہو! میں نے یہ بات پہنچا دی‘ اے اللہ تو بھی گواہ رہیو! اے لوگو! تمہاری عورتیں تمہارے زیرنگیں ہیں، وہ اپنے لئے بطور خود کچھ نہیں کر سکتیں، تم نے اللہ تعالیٰ کی امانت کے طور پر انہیں اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اس کے کلام اور قانون سے خود پر حلال کیا ہے، تمہارے ان پر حقوق ہیں تو ان کے بھی حقوق تمہارے ذمہ ہیں۔ تمہارے حق کے طور پر ان پر لازم ہے کہ تمہاری خواب گاہوں میں تمہارے سوا کسی کو نہ آنے دیں اور تمہارے گھروں میں کوئی ایسا شخص نہ آئے جو تمہیں ناپسند ہے اور کسی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں اور تمہاری نافرمانی نہ کریں۔ اگر وہ یہ حق ادا کریں تو تمہیں ان پر کچھ اختیار نہیں اور دستور کے مطابق ان کا نان و نفقہ تمہارے ذمہ ہے۔
اگر وہ اپنے فرائض میں کوتاہی کریں تو اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ ان کی اصلاح کے لئے انہیں خواب گاہوں سے الگ کر دو۔ انہیں ایسی بدنی سزا دو جو نشان ڈالنے والی نہ ہو، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بھلے طریقے سے ان کے ساتھ رہو۔ آگاہ رہو! کسی عورت کے لئے روا نہیں کہ شوہر کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ دے۔
لوگو! اللہ تعالیٰ نے وراثت میں ہر حقدار کا حق مقرر فرما دیا ہے۔ اس لئے وارث کے لئے وصیت کرنا روا نہیں۔
بچہ اسی کی طرف منسوب ہوگا جو بستر کا (قانونی اور شرعی) مالک ہے اور زانی کے لئے (سنگساری) کے پتھر اور ان کا حساب اللہ کے ہاں ہے۔ جس نے اپنے باپ کے سواکسی دوسرے کوباپ قرار دیا اور جس غلام نے اپنے حقیقی آقا کی بجائے کسی اور آقا کی طرف خود کو منسوب کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے اور قیامت کے دن اس سے کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔ عارضی لی گئی چیز واپس کرنا ہوگی، قرض ادا کرنا ہوگا اور وقتی طور پر دی گئی چیز واپس لوٹانا ہوگی اور ضمانت دینے والا ذمہ دار ہے۔
کسی شخص کے لئے اپنے بھائی کے مال میں سے کوئی چیز حلال نہیں سوائے اس کے جو وہ بخوشی دے تو اس بارے میں خود پر ظلم نہ کرو۔
آگاہ رہو! کسی بھی جرم کا مواخذہ اس کے مرتکب کے سوا کسی سے نہیں ہوگا۔ باپ کے جرم کا مواخذہ اسکے بیٹے سے اور بیٹے کے جرم کا مواخذہ اس کے باپ سے نہیں ہوگا۔ آگاہ رہنا! شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا کہ اس سرزمین میں اس کی عبادت ہوگی لیکن کچھ ایسے امور میں اس کی اطاعت ہوگی جنہیں تم معمولی سمجھو گے اور وہ اسی طرح راضی ہوگا۔
دیکھنا! میرے بعد کہیں پھر سے کافرانہ ڈھنگ اختیار کر کے ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگنا۔ لوگو! تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو بتاؤ کیا کہو گے؟
سب نے بیک زبان کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ نے اللہ کا پیغام بلا کم و کاست پہنچا دیا، امت کی خیر خواہی کا حق ادا کر دیا اور اللہ کی امانت کو کماحقہ ہم تک پہنچا دیا۔ اس پر جناب ختمی مرتبتؐ نے انگشت شہادت آسمان کی طرف بلند کی پھر اپنے سامنے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار کہا:
اے اللہ تو گواہ رہیو، اے اللہ تو گواہ رہیو، اے اللہ تو گواہ رہیو۔
"رانا محمد شفیق پسروری کا مضمون
روزنامہ پاکستان"
یوں تو صاحب جوامع الکلمﷺ کا ہر خطبہ ہی اہم ہے لیکن حجۃ الوداع میں آپؐ نے جو خطبات ارشاد فرمائے، خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لئے کہ یہ الوداع کہنے والے الصادق الامین اور ناصح امت صلی اللہ علیہ وسلم کی، امت کو الوداع کہتے وقت کی نصیحتیں ہیں کہ اپنے رب کی عبادت کرو، نماز پنجگانہ جو تم پر فرض ہے ادا کرو، ماہ (رمضان) کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو اور چار باتیں ہیں (ان سے دور رہو): اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، جس جان کو اللہ نے حرمت دی ہے اسے ناحق قتل نہ کرو، زِنا نہ کرو اور چوری نہ کرو (البدایہ والنہایہ ۶/۸۹۱، بحوالہ مسند احمد)
اگر کوئی سیاہ فام ناک کٹا غلام بھی تم پر امیر مقرر کر دیا جائے اور وہ کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ (صحیح مسلم)
لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے، وہ ہے اللہ کی کتاب۔
اسی لئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس خطبہ کے متعلق فرمایا:
’’اللہ کی قسم! یہ نبی کریمؐ کی اپنی امت کیلئے وصیت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری باب)
چنانچہ آپنے کئی فقرات بار بار دہرائے اور فرمائے جیسے: اللھم ھل بلغت؟ اللھم ھل بلغت؟
اللہ کو گواہ بنا کر بتاؤ کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا؟ اسی اہمیت کے پیش نظر جناب رسول اللہؐ کی آواز غیر معمولی طور پر بلند تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی غیر معمولی توجہ کے ساتھ سن رہے تھے۔ چنانچہ سنن نسائی میں حضرت عبدالرحمان بن معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’یعنی رسول اللہؐ نے منیٰ میں ہم سے خطاب فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کانوں کو کھول دیا یہاں تک کہ ہم اپنے اپنے پڑاؤ میں بھی آپؐ کے ارشادات بخوبی سن رہے تھے۔‘‘ (یہی نہیں محدثین رحمہم اللہ کی الہامی کاوشوں کے نتیجہ میں ہم آج بھی یہ خطبات سن سکتے ہیں)
آپؐ نے جہاں اپنے ان خطبات میں دین حنیف کے اصول و قواعد بیان فرمائے اور ملت ابراہیمی کا ایک ایک نقشہ اجاگر کیا وہیں شرک اور جاہلیت کی بنیادیں اکھاڑ دیں۔ اس لئے یہ حکمت بھرے خطبات ہمیشہ پیش نظر رہنے چاہئیں تا کہ قلوب و اذھان نور ایمان سے جگمگاتے رہیں۔
آپؐ نے میدان عرفات میں عظیم خطبہ کا آغاز کرنے سے پہلے جلیل القدر صحابی حضرت جریر بن عبداللہ البجلی کو حکم دیا کہ لوگوں کو خاموش ہو کر خطبہ سننے کا کہیں۔ آپ اس وقت اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھے۔ آپؐ نے بلند آواز میں فرمایا: آلا تسمعون؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟ (مسند امام احمد ۵/۱۵۲) پھر یوں گہر بار ہوئے:
تمام تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں، ہم اسی کی حمد کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں اور اس سے اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنے گناہوں اور خطاؤں پر نادم ہو کر اسی کے حضور رجوع کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفوس امارہ کی فتنہ انگیزیوں اور اپنے اعمال کے برے نتائج سے اسی کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ رشد و ہدایت سے نوازے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ اپنی توفیق و ہدایت سے محروم کر کے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ راست پر نہیں لا سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں اس امر کی کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کیلئے ساری تعریفیں، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا وتنہا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور اسی نے تنہا تمام گروہوں کو شکست دی۔
لوگو! میری باتیں پوری توجہ سے سنو اس لئے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس سال کے بعد تم سے اس مقام پر ملاقات کر سکوں یا حج کر سکوں گا۔ لوگو! میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے یعنی اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت اور تلقین کرتا ہوں۔ لوگو! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تا کہ باہم پہچان سکو، اس میں شک نہیں کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ معزز وہی ہے جس میں تقویٰ زیادہ ہے۔‘‘
(الحجرات: ۳۱)
اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خوب سمجھ لو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں‘ اسی طرح کسی کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے، کیا میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔۔۔؟؟
اے لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں آپس میں حرام کر دی گئی ہیں تا آنکہ تم اپنے رب کے حضور پیش ہو جاؤ۔ یہ حرمت اسی طرح کی ہے جیسے تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں تمہارا یہ دن محترم اور حرام ہے۔ (مسند احمد: ۴/۵۱۴)
آگاہ رہنا میں نے یہ بات تم تک پہنچا دی، اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا۔ جو تم میں سے یہاں موجود ہے وہ غیرحاضر افراد تک یہ بات پہنچا دے۔ تم پر ایک دوسرے کا احترام آج کے دن کے احترام کی مانند فرض ہے۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مسلم کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مومن کون ہے؟ مومن وہ ہے اہل ایمان جس کی طرف سے اپنی جانوں کے بارے میں بے خوف و خطر رہیں۔
میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مہاجر کون ہے؟ مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ برائیاں ترک کر دے اور مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے لئے اپنے نفس سے جہاد کرے۔ (مجمع الزوائد: ۳/۲۷۲) مومن‘ مومن پر آج کے دن کی طرح محترم اور حرام ہے، اس کا گوشت اس پر حرام ہے کہ غائبانہ غیبت کر کے کھائے۔ اسکی آبرو اس پر حرام ہے کہ اسے زک پہنچائے۔ اس کا چہرہ اس پر حرام ہے کہ اس پر تھپڑ مارے، اسے تکلیف پہنچانا بھی اس پر حرام ہے اور اسے دھکا دینا جس سے وہ لڑکھڑا جائے، بھی حرام ہے۔ (مجمع الزوائد: ۳/۲۷۲)
تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ آگاہ رہنا! زمانہ جاہلیت کے تمام اعزازات، امتیازات اور خون یا مال جن کا دعویٰ کیا جاتا ہے میرے ان دو قدموں کے نیچے (یعنی کالعدم) ہیں، سوائے سدانہ (کعبہ کی دربانی) اور سقایہ (حاجیوں کیلئے آب رسانی) کے۔ پھر فرمایا اے قریش! ایسا نہ ہو کہ لوگ آخرت کیلئے اعمال لے کر آئیں اور تم اس طرح آؤ کہ دنیا کندھوں پر اٹھائی ہوئی ہو۔ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کسی کام نہ آ سکوں گا۔ آگاہ ہو جاؤ! زمانہ جاہلیت کی ہر بات میرے قدموں کے نیچے پامال اور موقوف ہے۔
زمانہ جاہلیت میں ہونے والے تمام خونوں کے مطالبات قصاص ساقط کر دئیے گئے ہیں اور سب سے پہلے میں عمار بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کے خون کا مطالبہ ساقط کرتا ہوں جو بنو سعد میں دودھ پیتے تھے کہ بنوھذیل نے انہیں قتل کر دیا تھا۔
زمانہ جاہلیت کے سودی مطالبات کالعدم ہو چکے اور میں سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے سودی مطالبات کالعدم قرار دیتا ہوں۔ لوگو! مہینوں کا ادل بدل اور تقدیم تأخیر کفر کے طرز عمل میں اضافہ ہے اور اس طرح کافر لوگ اور زیادہ گمراہی میں پڑتے ہیں کہ ایک سال کے کسی مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام قرار دیتے ہیں تا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ مہینوں کی گنتی پوری کردیں۔
آگاہ رہو! زمانہ گردش لے کر اسی حالت پر آگیا ہے جس پر تخلیق ارض و سما کے دن تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں مہینوں کی تعداد قطعی طور پر بارہ ہے۔ یہ تعداد اللہ کی کتاب میں ثابت ہے اور ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین متواتر یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور ایک اکیلا یعنی رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔
آگاہ رہو! میں نے یہ بات پہنچا دی‘ اے اللہ تو بھی گواہ رہیو! اے لوگو! تمہاری عورتیں تمہارے زیرنگیں ہیں، وہ اپنے لئے بطور خود کچھ نہیں کر سکتیں، تم نے اللہ تعالیٰ کی امانت کے طور پر انہیں اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اس کے کلام اور قانون سے خود پر حلال کیا ہے، تمہارے ان پر حقوق ہیں تو ان کے بھی حقوق تمہارے ذمہ ہیں۔ تمہارے حق کے طور پر ان پر لازم ہے کہ تمہاری خواب گاہوں میں تمہارے سوا کسی کو نہ آنے دیں اور تمہارے گھروں میں کوئی ایسا شخص نہ آئے جو تمہیں ناپسند ہے اور کسی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں اور تمہاری نافرمانی نہ کریں۔ اگر وہ یہ حق ادا کریں تو تمہیں ان پر کچھ اختیار نہیں اور دستور کے مطابق ان کا نان و نفقہ تمہارے ذمہ ہے۔
اگر وہ اپنے فرائض میں کوتاہی کریں تو اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ ان کی اصلاح کے لئے انہیں خواب گاہوں سے الگ کر دو۔ انہیں ایسی بدنی سزا دو جو نشان ڈالنے والی نہ ہو، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بھلے طریقے سے ان کے ساتھ رہو۔ آگاہ رہو! کسی عورت کے لئے روا نہیں کہ شوہر کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ دے۔
لوگو! اللہ تعالیٰ نے وراثت میں ہر حقدار کا حق مقرر فرما دیا ہے۔ اس لئے وارث کے لئے وصیت کرنا روا نہیں۔
بچہ اسی کی طرف منسوب ہوگا جو بستر کا (قانونی اور شرعی) مالک ہے اور زانی کے لئے (سنگساری) کے پتھر اور ان کا حساب اللہ کے ہاں ہے۔ جس نے اپنے باپ کے سواکسی دوسرے کوباپ قرار دیا اور جس غلام نے اپنے حقیقی آقا کی بجائے کسی اور آقا کی طرف خود کو منسوب کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے اور قیامت کے دن اس سے کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔ عارضی لی گئی چیز واپس کرنا ہوگی، قرض ادا کرنا ہوگا اور وقتی طور پر دی گئی چیز واپس لوٹانا ہوگی اور ضمانت دینے والا ذمہ دار ہے۔
کسی شخص کے لئے اپنے بھائی کے مال میں سے کوئی چیز حلال نہیں سوائے اس کے جو وہ بخوشی دے تو اس بارے میں خود پر ظلم نہ کرو۔
آگاہ رہو! کسی بھی جرم کا مواخذہ اس کے مرتکب کے سوا کسی سے نہیں ہوگا۔ باپ کے جرم کا مواخذہ اسکے بیٹے سے اور بیٹے کے جرم کا مواخذہ اس کے باپ سے نہیں ہوگا۔ آگاہ رہنا! شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا کہ اس سرزمین میں اس کی عبادت ہوگی لیکن کچھ ایسے امور میں اس کی اطاعت ہوگی جنہیں تم معمولی سمجھو گے اور وہ اسی طرح راضی ہوگا۔
دیکھنا! میرے بعد کہیں پھر سے کافرانہ ڈھنگ اختیار کر کے ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگنا۔ لوگو! تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو بتاؤ کیا کہو گے؟
سب نے بیک زبان کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ نے اللہ کا پیغام بلا کم و کاست پہنچا دیا، امت کی خیر خواہی کا حق ادا کر دیا اور اللہ کی امانت کو کماحقہ ہم تک پہنچا دیا۔ اس پر جناب ختمی مرتبتؐ نے انگشت شہادت آسمان کی طرف بلند کی پھر اپنے سامنے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار کہا:
اے اللہ تو گواہ رہیو، اے اللہ تو گواہ رہیو، اے اللہ تو گواہ رہیو۔
"رانا محمد شفیق پسروری کا مضمون
روزنامہ پاکستان"