• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عالمی رؤیت هلال

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
عالمی رؤیت هلال

تحریر : حافظ جلال الدین القاسمی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


امت اسلامیہ جو ایک اللہ ایک رسول اور ایک ضابطہ حیات (قرآن) کا خود کو پابند قرار دیتی ہے جس کی ہر عبادت میں اجتماعیت اور عالمگیریت کا تصور نمایاں اور ممتاز نظر آتا ہے عید کی خوشی میں اپنے موجودہ قائدین کی نا اتفاقی کا رونا روتی نظر آتی ہے۔ شخصی انانیت مسلکی بغض خوشی کے چاند کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتا ہے، مسلکی بنیادوں پر مسلمانوں میں جو آج اختلافات موجود ہیں یہ واحد سبب ہیں کہ چاند کی تاریخ کے تعیین میں یہ لوگ دانستہ غلطیوں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کی ذاتی انا کی تسکین اور باہمی انتشار و افتراق سے اسلام کو کس مضحکہ خیزی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مسلمانوں کو کسی ذہنی اذیت اور کرب کے عالم سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

رویت ہلال کا مسئلہ خالص مذہبی نہ ہو کر سیاست کا اکھاڑا اور مسلکی برتری کی جنگ کا ذریعہ بن چکا ہے جس عید کو ایک دن منانا چاہئے اسے تین تین دن منایا جاتا ہے حالانکہ رویت ہلال کے بارے میں کوئی قطعی یا حتمی فیصلہ یا حتمی تاریخ اور دن کا تعین کرنا آج چنداں دشوار نہیں۔

اسلام جب آیا تھا اس وقت وسائل ترسیل اور ذرائع ابلاغ اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے جتنے آج ہیں آج دنیا ایک گاؤں کی شکل نہیں بلکہ مٹھی میں آچکی ہے۔ مالیگاؤں کا ایک عظیم شاعر سلیم جہانگیر کہتا ہے۔

نئی رت کا صحیفہ بولتا ہے
ہوا کی لے میں لمحہ بولتا ہے

دنیا میں کہیں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اس کی خبر آناً فاناً پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے رویت ہلال کے بارے میں اسلام کا نظریہ بالکل واضح ہے۔ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا انا امة امية لا نكتب ولا نحسب الشهر هكذا وهكذا (بخارى كتاب الصوم - عن ابن عمر)
ہم ایک نا خواندہ قوم ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں نہ حساب کرنا جانتے ہیں۔

ایک دوسری حدیث ہے۔ صوموا لرؤيته وأفطروا لرويته ( بخاری کتاب الصوم عن ابي هريرة )
چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑ دو۔ ان دونوں حدیثوں کو سامنے رکھ کر دو باتیں معلوم ہوئی ہیں۔ پہلی یہ کہ روزہ اور عید کا اہتمام چاند دیکھ کر کرنا چاہئے دوسرے یہ کہ زمانہ نبوی میں چاند دیکھنے کے علاوہ کوئی اور ذریعہ موجود نہ تھا اس لئے چاند دیکھنے کو کہا گیا ورنہ نبی اکرم ﷺ یہ نہ کہتے ہم امی امت ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں نہ حساب کرنا جانتے ہیں۔

حدیث : انا امۃ امیۃ سے ایک اور نکتہ مستفاد ہوتا ہے کہ پرنٹ میڈیا ( کتابت ) اور الیکٹرانک میڈیا (حساب) کی اہمیت قیامت تک رہے گی اور شرعی معاملات میں ان دونوں سے استفادہ کیا جائے گا۔ ڈاکٹر سید طنطاوی مفتی دیار مصر نے اس مسئلہ کو اجتہادی کہا۔ یہ موقف مجھے بھی بہت اچھا لگا کہ شیخ نے علماء عصر حاضر پر اجتہاد کا دروازہ بند نہیں کیا جیسا کہ اس زمانے کے علماء کا ایک طبقہ اس کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔

اب اگر یہ مسئلہ اجتہادی ہے تو ہمارے نزدیک وہ اجتہاد مقبول ہے جو عصری تقاضے اور شرعی تقاضے میں تطبیق پیدا کر دے۔ عصری تقاضا یہ ہے کہ ماہ رمضان کی ابتداء عیدین کی ادائیگی کے دنوں کی تعیین میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں میں اتحاد پایا جائے۔ اور شرعی تقاضا یہ ہے کہ روزہ، رمضان کی پہلی تاریخ سے شروع کیا جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ صبح صادق کے وجوب امساک کے وقت سے امساک کیا جائے۔

توحید رؤیت کے بارے میں قرآنی اشارہ

يسئلونك عن الاهلة قل هى مواقيت للناس والحج وہ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ کہہ دیں کہ وہ دنیا کے تمام لوگوں کے لئے اور حج کے لئے مواقیت ہیں۔ پہلی بات اس آیت میں یہ سمجھنے کی ہے کہ ہلال کو جمع کیوں لایا گیا جواب یہ ہے کہ یہاں اھلہ ہلال کی جمع لا کر منازل قمر کی طرف اشارہ کیا گیا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ابتداء مہینہ کے تین دنوں کے چاند کو ہلال ہی کہا جاتا ہے۔

اللہ یہ فرما رہا ہے کہ چاند کا تغیر لوگوں کے تمام معالموں میں تاریخ کی تعین (کیونکہ میقات متعین وقت کو کہتے ہیں جیسا کہ قرآن میں فرعون کے جادوگروں اور موسیٰ کے مقابلے کے تذکرے میں کہا گیا۔ فجمع السحرة لمیقات یوم معلوم متعین دن کے متعین وقت میں جادوگر جمع کر دئیے گئے۔ بعض لوگ میقات کا ترجمہ وقت کرتے ہیں جو صحیح نہیں ہے کیونکہ وقت کی جمع اوقات آتی ہے نہ کہ مواقیت) اور خاص کر ایام حج کی تعیین کے لئے ہے۔

اس تقسیم کے بعد حج کی تخصیص بیان کرنے میں اس بات کی طرف باریک اشارہ ہے کہ لوگ اصل تعیین زمانی (اصل تاریخ) کو صرف ایک جگہ (حج کی جگہ ) مکہ سے ملا کر اتحاد کو برقرار رکھیں۔

توحید رؤیت کے بارے میں حدیث نبوی کا اشارہ

بیہقی میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عرفہ اس دن ہے جس دن امام عرفہ کرے گا۔ یعنی جس دن مکہ میں عرفہ ہوگا اسی دن پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کو عرفہ کا روزہ رکھنا ہے۔

توحید رؤیت کے بارے میں علماء کے ارشادات

مسوی شرح موطا میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے و عند ابي حنيفة يلزم مطلقاً ابو حنیفہ کے نزدیک ایک ملک کی رویت بلال دیگر تمام ممالک میں لازمی طور پر قبول کی جائے گی۔ فتاوی ابن تیمیہ میں ہے ابن تیمیہ نے فرمایا انه راه بمكان من الامكنة قريب او بعيد وجب الصوم اس کو یعنی چاند کو قریبی جگہ یا دور کی جگہ سے دیکھے روزہ واجب ہو جائے گا۔
امام شوکانی نیل الاوطار میں فرماتے ہیں۔ اذا راه اهل بلد فقد رأه المسلمون
جب چاند ایک ملک والے دیکھ لیں تو سمجھو تمام دنیا کے مسلمانوں نے چاند دیکھ لیا۔

نواب صدیق حسن خان نے الروضتہ الندیہ، میں لکھا ہے وجه الاحاديث المصرحة بالصيام لرويته والافطار لرويته وهي خطاب لجميع الامة فمن رأه منهم فى اى مكان كان ذلك روية لجميعهم -
یہ حديث رسول - صوموا لرويته وأفطروا لرویتہ میں خطاب پوری امت کے لئے ہے تو کوئی مسلمان کسی بھی جگہ سے چاند دیکھ لے تو یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے رویت ہوگی۔

علامہ البانی نے تمام المنتہ فی التعلیق علی فقہ السنۃ میں رویت ہلال کی تعیم کے سلسلے میں صحیح حدیث کے عموم کو قابل اعتناء بتا کر اسے جمہور کا مذہب قرار دیا ہے۔

توحید رؤیت کے بارے میں عقل کی رہنمائی

جب ہم ہفتہ وار چھوٹی عید (جعہ) ایک ہی دن پوری دنیا میں ادا کرتے ہیں اور اس میں اختلاف نہیں کرتے تو ہمارے لئے یہ کیونکر جائز نہ ہوگا کہ بڑی عید تمام اقطار عالم میں ایک ہی دن کریں؟

توحید رؤیت کے بارے میں منطق کی رہنمائی

يسئلونك عن الاهلة قل هي مواقيت للناس والحج اس آیت کریم کو منطقی قیاس میں اس طرح ڈھالا جا سکتا ہے۔

صغریٰ... میقات عالم چاند ہے
کبریٰ ... چاند میقات حج ہے

صغریٰ اور کبریٰ میں جو حد اوسط ہے وہ چاند ہے اس کو گرا دیں نتیجہ نکلے گا۔

نتیجہ: میقات عالم میقات حج ہے

مذکورہ بالا قیاس کو منطق میں قیاس کی شکل اول ہے جس کا نتیجہ قطعی ہوتا ہے

حد اوسط کو گرا کر نتیجہ نکالنے کا طریقہ

میقات عالم چاند ہے
چاند میقات حج ہے
میقات عالم میقات حج ہے۔

توحید رؤیت کے بارے میں جیومٹری کی رہنمائی

يسئلونك عن الاهلة الخ

The Cresent moon is the time table for the people of the world, the Cresent moon is the time table for the Haj

جیومٹری کا قاعدہ ہے کہ اگر دو LHS equations برابر ہوں تو RHS بھی برابر ہوگا۔

طريقه

a = b

a
= c

آڑا ضرب کرلیں:

ac = ab

ac = ab

c = b


There fore b = c Proved

توحید رؤیت کے بارے میں مشاہدہ کی رہنمائی

یہ ایک فلکیاتی مسلمہ حقیقت ہے کہ چاند گہن ہمیشہ پورنیما ہی کو لگتا ہے۔ پچھلے سال رمضان میں چاند گہن لگا تھا سعودی قمری تاریخ کے حساب سے وہ پورنیما کی تاریخ تھی لیکن ہمارے ہندوستان میں اس دن جو قمری تاریخ تھی وہ پورنیما کی تاریخ نہیں تھی اب آپ فیصلہ کریں کہ وہی چاند جو مکہ میں چمک رہا تھا اور ہندوستان میں بھی چمک رہا تھا مکہ مکرمہ کے حساب سے وہ چودھویں (پورنیا) کا چاند تھا اور ہندوستان کے حساب سے وہ بارہویں کا چاند تھا۔ معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ ہی کی قمری تاریخ صحیح ہے۔ اور ہندوستان کی قمر کا تاریخ غلط ہے۔

اگر ہندوستان کے لوگ بھی مکہ کی قمری تاریخ کو اپنے یہاں کی قمری تاریخ قرار دے لیں تو یہ تضاد دور ہو جائے گا۔

ایک حدیثی اشکال اور اس کا جواب

ابو داؤد میں کریب کی ایک حدیث ہے کہ وہ شام گئے وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا پھر جب مدینہ آئے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ شام میں چاند جمعہ کی رات کو دکھائی دیا ہے اور شام کی رویت ہمارے لئے کافی نہیں۔

جواب : یہ ہے کہ ابن عباس کی حدیث ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اپنے شہر کی رویت پر روزہ رکھنا شروع کر دیا اس کے بعد بیچ رمضان میں انہیں علم ہوا کہ دوسرے شہر میں ایک دن پہلے چاند دیکھا گیا پس ایسی حالت میں یہ لوگ شہر والوں کے ساتھ اپنا روزہ جاری رکھتے ہوئے تیس دن پورے کر لیں یا چاند دیکھ کر روزہ توڑ دیں اس طرح اس خاص حالت میں ابن عباس کی کریب والی حدیث کا معارضہ باقی نہیں رہے گا۔ ویسے بھی یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا جسے حجت نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اختلاف مطالع : ایک عجیب تک

یہ اختلاف مطالع کہاں سے چپک پڑا فرمان نبوی صوموا لرویتہ وافطروا لرویتہ میں تو یہ قید نہیں ہے اور ابن عباس کے قول ھکذا امرنا رسول اللہ سے اختلاف مطلع کی تک کیسے نکالی جا سکتی ہے۔ کیا در حقیقت مدینہ اور دمشق کے درمیان اختلاف مطالع موجود ہے کیا اختلاف مطالع والے یہ نہیں کہے کہ پانچ سو میل قدیم کی دوری پر مطلع مختلف ہو جاتا ہے جو بقول بسام موجودہ کلو میٹر کے حساب سے تقریبا دو ہزار چھبیس کلو میٹر ہے تو کیا مدینہ اور شام میں اتنی دوری ہے۔ اگر اختلاف مطالع کو رویت ہلال میں معتبر مانتے ہیں تو ہمارا سوال ہے کہ دہلی کی رویت سے پانچ سو میل مشرق میں معتبر ہو گی اب اگر ایک ایسا شہر ہے کہ اس کے وسط میں پانچ سو میل کی مسافت ختم ہو جاتی ہے تو کیا اس شہر کے آدھے مشرقی حصہ والے روزہ عیدین نہ کریں آدھا حصہ چھوڑے ایک گھر پانچ سو اسی کے اندر پڑ رہا ہے اور دوسرا گھر پانچ سو اسی سے باہر پڑ رہا ہے تو دو متصل گھرانوں میں ایک گھر والے دہلی کی رویت مانیں اور دوسرے گھر والے بعض لوگوں نے اختلاف مطلع کے لئے اختلاف بلدین ( دو مختلف ممالک ) کو معتبر مانا ہے تو ممالک بدلتے رہتے ہیں ہندوستان پاکستان ایک تھے پھر تین ہوئے ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش۔

تو کیا سیاسی وجوہات پر ماضی میں متحدہ ہندوستان میں الگ ہوئے ایک ملک بنگلہ دیش میں ہندوستان کی رؤیت غیر معتبر ہوگی کہاں تک یہ معاملہ جائے گا کیا مستقبل میں اس کی کوئی حد ہے ؟ ۔

ایک سوال

قطبین میں چھ چھ ماہ کے دن اور رات ہوتے ہیں اس کا حل توحید اہلہ سے بہتر کیا ہے؟ جواب دیں اسی طرح انسان چاند پر جا کر بس جائے تو وہاں روزہ عیدین ہی نہیں نماز کے لئے مکہ کی توقیت مسئلہ کا حل نہیں ؟ جواب دیں۔

استاذ جامعه منصورہ مولانا فضل الرحمن مدنی کا سہو

دکتور فضل الرحمن مدنی استاذ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کا ایک مقالہ اس رؤیت ہلال کے موضوع پر نظر نواز ہوا حضرت نے لکھا ہیکہ اختلاف مطالع سے اختلاف رویت ہوتا ہے۔

حالانکہ یہ بات حضرت کے علم منطق و سائنس و فلکیات پر درک نہ ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اختلاف مطالع سے اختلاف وقت ہوتا ہے نہ کہ اختلاف مطلع سے اختلاف رویت ہو جاتا ہے۔

اختلاف مطلع سے اختلاف رویت ہو جاتا ہے اس سے مراد دکتور فضل الرحمن صاحب کی یہ ہے کہ اختلاف مطلع سے دن بدل جاتا ہے۔

ایک جغرافیائی اشکال اور اس کا جواب

غازی عزیز کی کتاب "رویت ہلال“ کے صفحہ ۲۹ پر ایک اعتراض موجود ہے۔ غازی عزیز کا کہنا ہے کہ جب ہوائی آئی لینڈ میں ۱۹ اکتوبر شام چھ بجے ہوں گے تو جمعہ کی رات شروع ہوگی اور رویت ہو چکی اس وقت نیوزی لینڈ میں ۲۰ اکتوبر شام چار بج رہے ہوں گے۔ غازی عزیز سے غلطی یہ ہوئی کہ انگریزی تاریخ بدلنے کا وقت رات بارہ بجے (شمسی تاریخ) ذہن میں رکھ کر کہا کہ دوسرے دن یعنی میں اکتوبر کی شام نیوزی لینڈ میں چار بج رہے ہوں گے جب کہ اسلامی قمری تاریخ کے حساب سے دن نہیں بدلے گا جمعہ ہی رہے گا۔

خلاصہ:

نقل و عقل حقائق و واقعات کی روشنی میں توحید اہلہ ہی مسائل کا حل ہے۔
 
Top