عالم کا مقام اورذمہ داریاں
قرآن و حدیث میں علم کو فلاح اور کام یابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور اہل علم کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ علم انسان کو پستی سے بلندی کی طرف لے جاتاہے۔ یہ ادنیٰ کو اعلیٰ بناتا ہے۔ غیر تہذیب یافتہ اقوام کو تہذیب کی دولت سے مالا مال کر تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اہل علم افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ علم کی اہمیت کے حوالے سے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے۔
چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کعبہ کی تعمیر مکمل کی تو دعا فرمائی :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴿129
’’ اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقیناً تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
( سورۃ البقرہ: 129)
علم دین کی ضرورت و اہمیت کے باب میں نبی اکرم ﷺ کا یہی فرمان کافی ہے کہ جس ذات کے اندر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات کی تمام خوبیاں یکجا کر دیں، اُس ذات نے خود کو معلم کے طور پر پیش کیا اور فرمایا ’’ بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
اور آپ نے عالم و معلم کی فضیلت میں فرمایا :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَيْرَ»:
قال الترمذیؒ «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ»
جناب ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نبي اکرمﷺ نے ارشاد فرمايا کہ ’’اللہ تعالي رحمت نازل فرماتا ہے
اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمين ميں رہنے والي ساري مخلوقات، يہاں تک کہ چيونٹياں اپنے سوراخوں ميں اور مچھلياں (پاني ميں) اس بندے کے ليے دعائے خير کرتي ہيں جو لوگوں کو بھلائي کي اور دين کي تعليم ديتا ہے ‘‘ (جامع تر مذي)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن اس شان اور فضیلت کے ساتھ ساتھ عالم کی ذمہ داریاں بہت اہم اور نازک ہیں :
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (سورۃ البقرۃ 159)
جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدايتوں کو جو ہم نے نازل کي ہيں (کسي غرض فاسد سے) چھپاتے ہيں باوجوديکہ ہم نے ان لوگوں کے (سمجھانے کے) ليے اپني کتاب ميں کھول کھول کر بيان کر ديا ہے ايسوں پر خدا اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہيں "[جالندھري]
------------------------
امام ابن کثيرؒ اس آيت کي تفسير ميں لکھتے ہيں :
هَذَا وَعِيدٌ شَدِيدٌ لِمَنْ كَتَمَ مَا جَاءَتْ بِهِ الرسلُ مِنَ الدَّلَالَاتِ الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمَقَاصِدِ الصَّحِيحَةِ وَالْهُدَى النَّافِعِ لِلْقُلُوبِ،
مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَهُ اللَّهُ -تَعَالَى -لِعِبَادِهِ فِي كُتُبِهِ، التِي أَنْزَلَهَا عَلَى رُسُلِهِ.
اس ميں زبردست دھمکي ہے ان لوگوں کو جو انبياء کي لائي ہوئي شريعت کے صحيح مقاصد پرواضح دلالت کرنے والی باتوں کو جو دلوں کيلئے نفع بخش ھدايت ہيں چھپاتے ہيں "
علم کو چھپانا جہنمي لگام پہننے کے مترادف ہے جس شخص کو اللہ تعالي علم دے اور وہ اسے چھپائے
تو قيامت کے روز اللہ اسے آگ کي لگام پہنائيں گے -
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ
(ابن ماجہ 264 »
سیدنا انس بن مالک رضي اللہ عنہ کہتے ہيں کہ ميں نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”
جس شخص سے دين کے کسي مسئلہ کے متعلق پوچھا گيا، اور باوجود علم کے اس نے اسے چھپايا، تو
قيامت کے دن اسے آگ کي لگام پہنائي جائے گي“
( ابن ماجہ،(اسکی سند ميں يوسف بن ابراہيم ضعيف ہيں، ليکن شواہد کی بناء پر حديث صحيح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة بتحقیق الالبانیؒ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ رَجُلٍ يَحْفَظُ عِلْمًا فَيَكْتُمُهُ، إِلَّا أُتِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلْجَمًا بِلِجَامٍ مِنَ النَّارِ»
سنن ابن ماجه261
ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ”جو شخص بھي علم
دين ياد رکھتے ہوئے اسے چھپائے، تو اسے قيامت کے دن آگ کي لگام پہنا کر لايا جائے گا“
(ابن ماجہ ،سنن ابي داود/ العلم ،سنن الترمذي/ العلم ،وقد اخرجہ: مسند احمد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ القِيَامَةِ
بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ» [ص:30] وَفِي البَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: «حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ
سنن الترمذي 2649 )»
ابوہريرہ رضي الله عنہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ”جس سے علم دين کي کوئي
ايسي بات پوچھي جائے جسے وہ جانتا ہے، پھر وہ اسے چھپائے تو قيامت کے دن اسے آگ کي لگام
پہنائي جائے گي“
امام ترمذي کہتے ہيں: - ابوہريرہ رضي الله عنہ کي حديث حسن ہے، - اس باب ميں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضي الله عنہم سے بھي احاديث آئي ہيں۔
تخريج دارالدعوہ: سنن ابي داود/ العلم ، سنن ابن ماجہ/المقدمة)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہذا علم اور شرعی حکم چھپانا نہیں چاہیئے ، تاہم :
حق بات کے اظہار میں مصالح و مفاسد کا خیال رکھناضروری ہے ، لہذا وقتی طور پر اگر کسی بات کو بتانے سے گریز بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ، بلکہ بعض دفعہ ضروری ہوتا ہے ۔