حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
میں عبدالمالک مجاہد
بنیادی طور پر کیلی گرافر ہوں جسے اُردو میں خطاط کہا جاتا ہے۔ کیلی گرافر کی خوش بختی یہ ہوتی ہے کہ اس کا قلم جب بھی لفظ لکھتا اور اٹھاتا ہے تو قرآن مبین کا ہوتا ہے۔ میری زندگی کی ساری خوشیاں اور کامیابیاں اسی عظیم کتاب سے جڑی ہوئی ہیں۔بطور کاتب جو پہلا سبق میں نے سیکھا وہ تھا
گر تومی خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
(اگر تو چاہتا ہے تو خوش خط ہو جائے)
(پھر لکھتے رہو، لکھتے رہو)
جب سے دارالسلام میری زندگی کی پہلی ترجیح بنا تو یہ سبق یوں بدل گیا کہ اگر تو کامیابی چاہتا ہے تو خلوصِ نیت اور مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے رہو۔ کرتے رہو۔
میں نے ۳۲ سال پہلے پاکستان سے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں کئی سال وزارتِ دفاع میں ملازم رہا۔کام اور تعلقات دونوں کو سنبھالنے میں، میں نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ جب نوکری چھوڑ کر میں نے طباعت ،نشر و اشاعت میں آنے کا فیصلہ کیا تو ہمارے افسر اعلیٰ نے صاف انکار کر دیا۔ مجھے تب تک انتظار کرنا پڑا جب تک ان کی ٹرانسفر نہیں ہو گئی۔ نئے افسر سے گزارش کی تب جا کر مجھے اجازت ملی۔
''دارالسلام'' میرا خواب تھا۔
ریاض میں اس کی تعبیر سامنے آئی۔ کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت کے لیے دنیا کی سب سے بہترین طباعت و اشاعت کا ادارہ ، اللہ رب العزت نے اسباب ہی فراہم نہیں کیے عمدہ اور اعلیٰ درجے کی ٹیم بھی فراہم کر دی۔ آج دارالسلام عالم اسلام کا سب سے نمایاں ادارہ قرار دیا جا رہا ہے، ہم ۱۴۰۰ سے زائد ٹائٹل چھاپ چکے ہیں۔ ۵۵۰ انگلش میں اور ۳۳۰ اُردو میں۔ باقی عربی میں۔
۳۰ ممالک میں ہماری فرنچائز کام کر رہی ہیں۔ ۱۰۰ نئی کتابیں آنے والی ہیں۔ ہماری ہر کتاب کا ایڈیشن ۳ہزار کا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک نئی روایت ہے کہ ہر کتاب کے کئی کئی ایڈیشن آ چکے ہیں۔
لوگ پوچھتے ہیں آپ کی کامیابی کی وجہ کیا ہے؟
اللہ کی رحمت اور کرم کے بعد میری والدہ، ان کی دعائیں، صدقہ خیرات بھی بہت کرتی تھیں۔ میری اہلیہ میرے کئی کاموںمیں مشاورت میں شامل ہوتی ہیں۔ میرے بچے جو ہر حال میں میرے قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ میرا سٹاف ، آپ کو حیرت ہو گی ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو سفر کے آغاز سے میرے ساتھ ہیں۔ میں نے ان کی خبر گیری میں کوتاہی نہیں کی۔ ان کی عزت، مرتبے، سہولت اور تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے علم میں اضافے کی پوری طرح سعی کرتا ہوں۔ اپنے سٹاف کو تنخواہ ہم ڈالر میں دیتے ہیں تا کہ مہنگائی کا بہت زیادہ اثر ان پر نہ ہو۔
اچھے لوگوں اور اچھی ٹیم پر میرا یقین اور جستجو میرا ہمیشہ فوکس رہا ہے۔ آج پرائیویٹ سطح پر آپ کو اتنے عالم کسی ایک ادارے میں اکٹھے کام کرتے کم ہی نظر آئیں گے۔
جو ایک بار دارلسلام آ جاتا ہے واپس نہیں جاتا۔ مشن سمجھ کر وابستہ ہو یا نوکری جان کر آئے۔ اسے جلدی ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ''دین بھی ہے اور دنیا بھی''۔ پھر جہاں عزتِ نفس کے ساتھ کام کی آزادی ہو وہاں کوئی کیوں نہیں کام کرنا چاہے گا؟
سچ تو یہ ہے کہ یہ اب ایک افراد ساز ادارے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عالم یہاں آ کر ریسرچ سکالر بن رہے ہیں۔ تحقیق و جستجو کے جدید اور قدیم اصولوں کوسیکھتے ہیں اور پھر ہر کتاب کو، تحریر کو ان اصولوں کی بنیاد پر پرکھتے ہیں، جانچتے ہیں۔
عالم کی خوبی صرف اس کی ذات تک ہوتی ہے۔ ہم نے علماء کو سکالر بننے اور اپنانے کا پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔ کتاب کے مواد کی پیش کش تو خوبصورت اور پُر کشش ہونا ہی چاہیے ہم نے مواد کو مستند ترین حوالوں سے پرکھنے کی طرح ڈالی ہے۔علماء کو اُردو ادب پڑھنے کی تربیت دی ہے زبان و بیان کے رموز سکھائے ہیں۔ اس وقت ۵۰ ہمہ وقتی علماء ہمارے ساتھ لاہور آفس میں وابستہ ہیں۔
ان میں ۹۰ فیصد وہ ہیں جو پہلے دن سے ہماری ٹیم کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہاں وزٹ کے لیے آنے والے حیران ہوتے ہیں کہ ایک ہی چھت تلے اتنے علماء جمع ہیں اور اس قدر عمدگی سے کام کرتے ہیں۔
دارالسلام کے آغاز کی ایک وجہ بے شک تجارت بھی ہے مگر ہم سارے ہی اسے عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔
ہمارے ریاض آفس میں مختلف زبانوں کا علم رکھنے والے، مترجم اور ایڈیٹر ہیں۔ ان کی تعداد ۱۰۰ سے زائد ہے۔ سعودی عرب میں ہماری ۱۰ برانچیں ہیں، نیویارک، ہیوسٹن، لندن، شارجہ، آسٹریلیا، ملائیشیاسمیت ۳۰ ممالک میں شاخیں ہیں۔ ساتھ میں اسلامک سپر مارکیٹ کا تصور دے رہے ہیں۔
نوبل قرآن۔ ۳ ملین کاپیاں
ہماری سب سے بڑی سعادت نوبل قرآن کی تیاری اور اشاعت ثابت ہوئی۔ اس کا انگریزی ترجمہ کرنے والی شخصیت ڈاکٹر محمد محسن خان صاحب پنجاب کے شہر قصور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایم بی بی ایس کر کے دل کے امراض کے ماہر بنے۔ پھر برطانیہ چلے گئے اور وہاں سے سعودی عرب، کنگ عبدالعزیز السعود کی بادشاہت میں وزارتِ صحت سے وابستہ ہوئے۔ ۱۵ سال اسی وزارت میں رہے، زیادہ وقت طائف میں گزارا۔ شاہ خالد کے عہد میں ان کو سعودی عرب کے پہلے چیسٹ ہسپتال کا ایم ایس بنایا گیا۔
اُن کو خواب میں آنحضورﷺکی زیارت ہوئی، خواب میں ہی استعفا دیا اور پھر حضورﷺ کے کہے لفظوں کی حفاظت اور خدمت پر لگ گئے۔ انتہائی وجیہہ، سرخ و سفیدرنگت اور پُر کشش شخصیت کے حامل۔ انھوں نے قرآن پاک کا انگریزی میں بہت عمدہ اور معیاری ترجمہ کیا۔ میں ان سے اجازت لینے گیا۔ ان کی سیرت اور صورت دونوں نے موہ لیا۔ میں نے ترجمے کی رائلٹی کا پوچھا۔ بولے رائلٹی لے لی تو قیامت کے روز آنحضورﷺ کو کیا منہ دکھائوں گا؟ نوبل قرآن کے ترجمہ والا یہ منصوبہ بہت بڑا تھا۔
راہوالی شوگر ملز کے یوسف سیٹھی صاحب کو اللہ نے چن لیا۔ انھوں نے بہت کھلے دل کے ساتھ اس پر رقم خرچ کی۔ ہدف یہ تھا کہ نسخہ صحت کے اعتبار سے بہترین ہو۔ ۱۹۹۳ء میں اس کا پہلا ایڈیشن چھپا۔ الحمد اللہ اب تک ۳ملین (۳۰لاکھ) کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
نوبل قرآن آج دنیا کا سب سے معروف اور مقبول انگریزی ترجمہ مانا جاتا ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس میں مختصر حواشی بھی ہیں۔ ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے بھی اس پر بہت کام کیا۔ سعودی گورنمنٹ اور علماء کے بورڈ نے منظور کیا تب یہ طبع ہوا۔میرا خواب یہ تھا کہ دنیا میں بائبل سب سے عمدہ ۵۶گرام کاغذپر اورپاکٹ سائز میں چھپتی ہے۔ نوبل قرآن کو ویسی ہی کوالٹی سے چھاپا جائے۔
اٹلی میں پریس تھا۔ میں وہاں پہنچا ان کے پاس کئی سال کی بکنگ تھی۔ میں نے ان سے بکنگ کی تاریخ لی۔ کاغذ وہ صرف خاص کارخانے سے لیتے ہیں جو صرف بائبل کے لیے ہی بنایا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے عمدہ، باریک اور دیر پا کاغذ ہے۔ میں وہاں پہنچا، ان سے کاغذ کی بات کی۔ اس پریس سے جہاں ہمیشہ بائبل چھپی، پہلی بار قرآن پاک شائع ہوا۔ ۱۰ہزار کا پہلا ایڈیشن چند دنوں میں امریکا میں فروخت ہوگیا۔ ہم وہاں سے ۲ایڈیشن اور طبع کرائے۔
ابھی بہت آرڈرز تھے مگر انھوں نے انکار کر دیا کہ ہمارے پالیسی سازوں نے منع کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم یہاں صرف بائبل چھاپیں گے۔ میں اس فیکٹری میں پہنچا اور پوچھا کہ آپ کا غذاور کون کون چھاپتا ہے پھر ہمیں دوسرے اچھے پریسوں کا بھی پتا چل گیا جہاں اسی کاغذ پر طباعت ہوتی تھی۔ یوں عمدہ ترین کاغذ پر نوبل قرآن کی ایک نہ ختم ہونے والی طباعت کا سلسلہ چل پڑا۔ اس کے بعد ہم نے مختلف زبانوں میں قرآن پاک چھاپنے کا آغاز کیا۔ اب تک ۲۵ زبانوں میں قرآن چھاپ چکے ہیں۔
صحاح ستہ کا ۱۰۰سال بعد ترجمہ
ہدف یہ تھا کہ صحت اور اسناد کے اعتبار سے احادیث اور سیرت پر بہترین کام ہو۔ ہندوستان کے مولانا صفی الدین مبارک پوری علمی کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ وہ احادیث کے خدا داد کمپیوٹر تھے۔
صحاح ستہ کا انگریزی ترجمہ ۳۸جلدوں میں چھپا ہے۔ اللو لٔووالمرجان (یعنی بخاری اور مسلم کی متفق علیہ احادیث کا مجموعہ) کا بھی ترجمہ کرا لیا ہے۔ صحاح ستہ کا ترجمہ کوئی ۱۰۰سال پہلے ہوا تھا۔ مشکل الفاظ پر پرانی زبان، تشریح کی بھی ضرورت تھی۔ علماء اورشیوخ الاحادیث کو جمع کیا اور اس بڑے منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
سنن ابو دائو (۴جلدوں میں) سنن نسائی (۷جلدوں) سنن ابن ماجہ (۵ جلدوں) شائع ہو چکی ہیں۔ یہ مختلف سائز میں ۱۴۴۰صفحات سے ۱۹۰۰صفحات پر مشتمل ہیں۔ ڈاکٹر محسن صاحب نے صحیح بخاری کا پہلی بار ترجمہ کیا اور یہ ۹جلدوں میں طبع ہوا۔
صحاح ستہ ایک جلد میں بھی اٹلی سے چھپوائی گئی۔ ۲۷۷۲ صفحات A/4 سائز اور ۴۰ گرام پیپر پر۔ تین ہزار کاپیاں چھپوائی گئیں۔ میں ۱۰ دن وہیں اٹلی کے پریس میں بیٹھا رہا۔ یہ میرا دیرینہ خواب تھا۔ اس کی تکمیل کا لمحہ لمحہ اپنے سامنے تکمیل پاتا دیکھ رہا تھا۔ ساتھ ساتھ پروف ریڈنگ کرتا رہا۔ جب صحاح ستہ ایک جلد میں چھپ کر میرے ہاتھوں میں آئی تووہ زندگی کا خوشگوار ترین لمحہ تھا۔ تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا اور میرے ہاتھوں ہوا تھا۔
مجھے سارے لمحے یاد تھے۔ ساری ٹیم دن رات کام کر رہی ہوتی۔ صبح و شام کھانا پینا تک دارالسلام کی طرف سے تھا کہ کسی سکالر، عالم کو کہیں ذرا سی دیر کے لیے بھی جانا نہ پڑے۔ مدد و رہنمائی کے لیے ہندوستان سے نواب صدیق حسن خاں کے ''فتح الباری''(بخاری کی شرح)مخطوطات منگوائے گئے۔میں طبع شدہ صحاح ستہ کی کاپیاں لے کر ریاض پہنچا۔ تب وہاں ایک بہت بڑی نمائش چل رہی تھی۔ صحاح ستہ وہاں مرکز نگاہ بنی رہی۔کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اتنی بڑی کتاب ایک ہی جلد میں کیسے آ سکتی ہے۔
۴مئی ۱۹۹۴ء دارالسلام لاہور کا قیام
اُردو بازار غزنی سٹریٹ لاہور میں میری ایک دکان موجود تھی۔ میں نے اپنے بھائی عبدالعظیم اسد (جو میرے دوست، مخلص نائب اور میرے بچوں کے ماموں بھی ہیں) سے جو علوم دین کی تعلیم مکمل کر کے فارغ ہوئے تھے اور سعودی عرب آنے کے خواہش مند تھے۔ ان سے کہا کہ آپ یہاں دارالسلام کا کام شروع کرو۔ کتابیں میں سعودی عرب سے بھجواتا ہوں۔ یوں ۱۹۹۴ء میں پہلا کنٹینر لاہور آیا۔جسے خود انھوں نے کریم بلاک میں اپنے ہاتھوں سے اتروایا۔
یہ قرآن و حدیث کے حوالے سے مختلف معروف اور مستند عربی کتابیں تھیں۔ اللہ نے اس قدر برکت دی کہ وہاں سے ہم لوئر مال پہ جہاں قومی پریس تھا منتقل ہوئے۔ وہاں پورا فلور لے لیا۔ ۷سال وہاں رہے پھر سیکرٹریٹ سٹاپ کے ساتھ اپنا پریس لگایا اور دارلسلام سپر مارکیٹ بنائی۔ یہ ۳منزلہ بلڈنگ ہے۔ یہاں ریسرچ سنٹر کا آغاز فروری ۱۹۹۵ء میں ہوا۔ کتاب و سنت کی اشاعت آسان نہیں ہے۔
صحت کا خیال رکھنا، اصل مراجع اور مصادر سے لے کر ہر تحریر کو غلطیوں اور شبہات سے پاک رکھنا۔ اس کام کے لیے بہترین دماغ درکار تھے۔ آغاز حافظ صلاح الدین یوسف سے کیا گیا۔ شریعت کورٹ کے ایڈوائزر رہے تھے۔پھر آہستہ آہستہ ٹیم بنتی گئی۔ یہیں ہم نے پروف پڑھنے کا ایک باقاعدہ شعبہ بنایا۔ایک بہترین شعبہ ڈیزائن قائم کیا۔ ہم نے شروع دن سے طے کیا کہ کتابوں کی طباعت و اشاعت میں کبھی معیار پر کمپرومائز نہیں کریں گے۔
کوالٹی نہ صرف ریسرچ کی بلکہ طباعت و اشاعت کی ہر دو صورتوں میں ترجیح اول رہے گی۔ بہت لوگوں نے کہا کتابیں بہت اچھی ہیں۔ سستا ایڈیشن بھی چھاپیں۔ ہم نے بات نہیں مانی۔ ہماری ۳۰ فیصد کتابیں ۴کلر ہو چکی ہیں۔ بہترین اور عمدہ کاغذ پر ان کی طباعت ہوئی ہے۔ آنے والا دور ۴کلر کتابوں کا ہے۔ ہم نے ابھی سے اپنی ہر کتاب کو ۴کلر کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
ہمارا سالانہ ٹرن اوور ۴۳ ملین ریال ہے۔ ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اس کا ثُلث یعنی ۳۳فیصد حصہ فی سبیل اللہ خرچ کریں گے۔ اس پر عمل پیرا ہیں۔سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ ابن باز کہ میں تو انھیں اس دور کا حاتم طائی کہتا ہوں۔ ان کے ہاں دو وقت امیر و غریب کے لیے دستر خوان سجا رہتا ہے۔ کیا آدمی تھے۔ ان کو ویسا ہی ہونا چاہیے کھلے ہاتھ والا۔انہیں مل کر ویسا بننے کی آرزو ہو جاتی تھی۔
اصل اسلامی سپرٹ تو یہی ہے
یہی سوچ کر ہم نے پاکستان میں باقاعدہ ٹرسٹ بھی بنا دیا ہے۔دینی اور تعلیمی ادارے بنانے کے ساتھ ساتھ، مساجد بنا رہے ہیں۔ ڈسپنسریاں قائم کر رہے ہیں۔ خوشی کے ایام میں تحائف تقسیم کرتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں عبدالعظیم اسد سارا نظام بحسن و خوبی دیکھ رہے ہیں۔ دو زون بنا رکھے ہیں۔
زون۱۔ حافظ آباد میں، اسے محمد طارق شاہد دیکھتے ہیں زون۲۔ واربرٹن شیخوپورہ، پروفیسر امان اللہ بھٹی دیکھتے ہیں۔ ننکانہ سٹی عمران ناصر صاحب اور شرقپور سٹی محمود الحسن بزمی صاحب، خیر کے ان کاموں میں ہمارے دست و بازو ہیں۔
دارالسلام حفظ و مڈل سکول سسٹم
دارالسلام حفظ و مڈل سکول سسٹم، واربرٹن میں پرائمری پاس بچوں کو انٹری ٹیسٹ کے بعد داخلہ دیا جاتا ہے اور تین سال میں حفظ کے ساتھ ساتھ مڈل کی ریگولر تعلیم دی جاتی ہے۔ مڈل کا مکمل نصاب پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا پڑھایا جاتا ہے۔ مڈل کی تعلیم کا طریقہ کار اس طرح ہے کہ چھٹی اور ساتویں کلاس میں تین مضمون (انگلش، ریاضی، اردو) ریگولر پڑھائے جاتے ہیں۔
پڑھائی کے ساتھ ساتھ اردو اور انگلش خوشخطی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ہر روز ۲ گھنٹے سکول کی کلاس ہوتی اور ایک گھنٹہ ہوم ورک کے لیے۔ یہ ایک بورڈنگ سکول ہے جس میں حفظ القرآن اور دینی تربیت کے ساتھ فل ٹائم سکولنگ کرائی جاتی ہے۔
دارالسلام ٹرسٹ کے زیر انتظام عرصہ ۵ سال سے واربرٹن سٹی میں اس سسٹم کے تحت تین مساجد (جامع مسجد ریاض الاسلام، مسجد فاران اور مسجد ریاض الجنتہ) میں کام ہو رہا ہے۔ ان مساجد میں چھ کلاسیں اور ۱۲۰ طلباء حفظ و مڈل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اب تک ۵۷ طلباء حفظ و مڈل کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
دارالسلام حفظ و مڈل سکول سسٹم کے تحت شیخوپورہ سٹی، ننکانہ سٹی اور شرقپور سٹی میں ابتدائی طور پر اسکول شروع کیا گیا ہے ۔ یہ منصوبہ بڑا منفرد اور تربیتی اعتبار سے عظیم الشان ہے۔
الرحمہ انسٹیٹیوٹ
واربرٹن سابقہ ضلع شیخوپورہ اور موجودہ ضلع ننکانہ کا ایک تاریخی قصبہ ہے جو ہر مذہب و مسلک سے وابستہ لوگوں کا مسکن ہے۔ تمام مذاہب و مسالک کے لوگ اپنے اپنے اسلوب کے مطابق دینی و تبلیغی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اس قصبے میں خالص کتاب و سنت کے حاملین بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو شروع ہی سے انفرادی طور پر تعلیم و تعلم اور دعوت و تبلیغ کا کام کر رہے تھے۔
اسی دعوتی و تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے دسمبر ۲۰۰۲ء میں واربرٹن کے چند مخلص احباب نے پروگرام بنایا کہ ۲۰۰۹ء میں طلبہ کے لیے بھی ریلوے اسٹیشن واربرٹن کے عقب میں چھوٹی سی مسجد ریاض الجنہ کے اندر ''الرحمہ ٹرسٹ'' کے زیر انتظام ''الرحمہ انسٹیٹیوٹ'' کے نام سے شعبہ علوم اسلامیہ کا آغاز کر دیا جائے۔ چنانچہ اب الحمد اللہ ''روشنی جنرل ہسپتال'' واربرٹن کے عقب میں ایک شاندار عمارت میں اسے منتقل کر دیا گیا ہے۔
''الرحمہ انسٹیٹیوٹ'' کو اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے بڑی اچھی شہرت سے نوازا ہے۔ اس وقت انسٹیٹیوٹ سے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دُور دراز علاقوں کے طلبہ بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ان تمام تعلیمی اداروں میں ۳۰۰ بیرونی طلبہ و طالبات رہائش پذیر ہیںجن کے قیام و طعام اور علاج معالجہ کا انتظام نہایت احسن انداز میںکیا جا رہا ہے۔ یہاں میٹرک سے ایم۔اے تک تعلیم کا بندوبست ہے۔
دارالسلام ۔امت کا اثاثہ
آج میں پوری دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ دارالسلام جو ایک کیلی گرافر کا خواب تھا۔ اب امت کا اثاثہ بن گیا ہے اور اس اثاثے کا اصلی سرمایہ ہمارے سکالرز اور علماء ہیں۔ پروفیسر یحییٰ صاحب ۷۵ سال کی عمر میں جب یہ کہتے ہیں کہ یہاں آ کر تھکاوٹ نہیں ہوتی روزانہ بے حد خوشی ہوتی ہے۔ ان جیسے اہل علم کا اکرام اور احترام مجھ پر اور میری پوری ٹیم پر واجب ہے۔ سارے کام کرنے والوں کی پذیرائی اور عزت افرائی ہمیشہ میرے پیش نظر رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں دارالسلام کی کامیابی میں اس رویے کا بھی ضرور دخل رہا ہو گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا ''مسلمان نرم طبیعت اور نرم خو ہوتا ہے۔'' ہمارے ہاں کسی ایک مکتبہ فکر کے عالم نہیں ہیں ۔ مولانا تقی عثمانی صاحب کے شاگرد مفتی عبدالسمیع بھی ہیں جنھوں نے ان سے تخصص کیا۔ میں نے اپنے لیے منیجر کے بجائے رہنما کا رول پسند کیا ہے۔ اس لیے سفر وحضر میں سوچنے، نئی نئی راہیں تلاش کرنے اور بہترین وسائل مہیا کرنے کی فکر رہتی ہے۔
میرے اہلِ خانہ
اللہ نے مجھے ۶بیٹے اور دو بیٹیاں دی ہیں
میرا بڑا بیٹا عکاشہ مجاہد اب انٹرنیشنل مارکیٹنگ دیکھ رہا ہے۔ دوسرا بیٹا حافظ عبدالغفار مجاہد، میرے تمام ذاتی معاملات اور میٹنگز دیکھتا ہے۔ تیسرا بیٹا حافظ طلحہ آئی ٹی کا ماہر ہے۔ پورا شعبہ قائم کر دیا ہے۔عبد اللہ، عبدالرحمن اور محمد ابھی پڑھ رہے ہیں۔
میری اہلیہ حافظہ انیسہ فردوس عالمہ اور مبلغ ہیں۔ وہ ریاض میں الصخی انٹرنیشنل سکول چلاتی ہیں جو فیڈرل بورڈ اسلام آباد سے ملحق ہے۔ ۷۰۰بچے، بچیاں وہاں پڑھ رہے ہیں۔ وہ ریاض میں خواتین کے قرآن و سنت کی تعلیم کے ۲۴حلقے بھی چلا رہی ہیںجہاں وہ ہفتہ وار درس دیتی ہیں۔
میرے شوق اور احساس
مجھے تاریخ پڑھنے کا بے حد شوق ہے۔دو اڑھائی سو سے زائد کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ سیرت پہ لکھی گئی کتابیں بہت چاہت سے پڑھتا ہوں۔ یوں سمجھیں کتابوں کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ جس ملک میں جائوں وہاں اسلامک سنٹر اور بک سٹورز پہلے ڈھونڈتا ہوں۔ آفس سے آ کر مغرب تا رات ۹بجے تک لکھنے کا کام کرتا ہوں۔ اب تک ۱۵کتابیں لکھ چکا ہوں۔ سعودی عرب کے مقبول اردو اخبار میں کالم بھی لکھتا ہوں۔
میں اپنے رب کا بہت شکر گزار ہوں۔ بہت اچھی اور بھرپور زندگی کی نعمت ملی ہے۔ ریاض میں ہونے کی صورت بچوں کے ساتھ شام کو واک پہ بھی جاتاہوں اور باہر کھانا بھی کھاتے ہیں۔ میری مصروفیات کے باعث بچوں کی تعلیم اور کیرئیر سارا اہلیہ کے ذمے تھا۔ ۳۲سال قبل ریاض میں رہتے ہوئے جب دارالسلام ہمارے چھوٹے سے گھر کے کچن سے شروع ہوا تھا کیونکہ اس کا دروازہ باہر کو کھلتا تھا۔ میری اہلیہ نے وہ میرے حوالے کر دیا تھااور خودکچن دوسری جگہ شفٹ کر لیا۔ میں نے وہاں کمپیوٹر رکھ کر کمپوزنگ سے کام کا آغاز کیا تھا۔
میں تنہائی میں رو دیتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ رسول اللہﷺ کی صورت اور سیرت کو موتیوں کی طرح پیش کروں کہ دیکھنے پڑھنے والے اس کی طرف متوجہ ہوں۔ اب جب دنیا بھر کے ممالک میں دارالسلام کا پیغام اور کام لیے پھرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے اللہ نے میری دعا سن لی ہے۔
(معلومات کے لیے جناب عبدالعظیم اسد، پروفیسر محمد یحییٰ ، عکاشہ مجاہد اور محترمہ انیسہ فردوس کا شکریہ)
بنیادی طور پر کیلی گرافر ہوں جسے اُردو میں خطاط کہا جاتا ہے۔ کیلی گرافر کی خوش بختی یہ ہوتی ہے کہ اس کا قلم جب بھی لفظ لکھتا اور اٹھاتا ہے تو قرآن مبین کا ہوتا ہے۔ میری زندگی کی ساری خوشیاں اور کامیابیاں اسی عظیم کتاب سے جڑی ہوئی ہیں۔بطور کاتب جو پہلا سبق میں نے سیکھا وہ تھا
گر تومی خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
(اگر تو چاہتا ہے تو خوش خط ہو جائے)
(پھر لکھتے رہو، لکھتے رہو)
جب سے دارالسلام میری زندگی کی پہلی ترجیح بنا تو یہ سبق یوں بدل گیا کہ اگر تو کامیابی چاہتا ہے تو خلوصِ نیت اور مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے رہو۔ کرتے رہو۔
میں نے ۳۲ سال پہلے پاکستان سے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں کئی سال وزارتِ دفاع میں ملازم رہا۔کام اور تعلقات دونوں کو سنبھالنے میں، میں نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ جب نوکری چھوڑ کر میں نے طباعت ،نشر و اشاعت میں آنے کا فیصلہ کیا تو ہمارے افسر اعلیٰ نے صاف انکار کر دیا۔ مجھے تب تک انتظار کرنا پڑا جب تک ان کی ٹرانسفر نہیں ہو گئی۔ نئے افسر سے گزارش کی تب جا کر مجھے اجازت ملی۔
''دارالسلام'' میرا خواب تھا۔
ریاض میں اس کی تعبیر سامنے آئی۔ کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت کے لیے دنیا کی سب سے بہترین طباعت و اشاعت کا ادارہ ، اللہ رب العزت نے اسباب ہی فراہم نہیں کیے عمدہ اور اعلیٰ درجے کی ٹیم بھی فراہم کر دی۔ آج دارالسلام عالم اسلام کا سب سے نمایاں ادارہ قرار دیا جا رہا ہے، ہم ۱۴۰۰ سے زائد ٹائٹل چھاپ چکے ہیں۔ ۵۵۰ انگلش میں اور ۳۳۰ اُردو میں۔ باقی عربی میں۔
۳۰ ممالک میں ہماری فرنچائز کام کر رہی ہیں۔ ۱۰۰ نئی کتابیں آنے والی ہیں۔ ہماری ہر کتاب کا ایڈیشن ۳ہزار کا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک نئی روایت ہے کہ ہر کتاب کے کئی کئی ایڈیشن آ چکے ہیں۔
لوگ پوچھتے ہیں آپ کی کامیابی کی وجہ کیا ہے؟
اللہ کی رحمت اور کرم کے بعد میری والدہ، ان کی دعائیں، صدقہ خیرات بھی بہت کرتی تھیں۔ میری اہلیہ میرے کئی کاموںمیں مشاورت میں شامل ہوتی ہیں۔ میرے بچے جو ہر حال میں میرے قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ میرا سٹاف ، آپ کو حیرت ہو گی ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو سفر کے آغاز سے میرے ساتھ ہیں۔ میں نے ان کی خبر گیری میں کوتاہی نہیں کی۔ ان کی عزت، مرتبے، سہولت اور تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے علم میں اضافے کی پوری طرح سعی کرتا ہوں۔ اپنے سٹاف کو تنخواہ ہم ڈالر میں دیتے ہیں تا کہ مہنگائی کا بہت زیادہ اثر ان پر نہ ہو۔
اچھے لوگوں اور اچھی ٹیم پر میرا یقین اور جستجو میرا ہمیشہ فوکس رہا ہے۔ آج پرائیویٹ سطح پر آپ کو اتنے عالم کسی ایک ادارے میں اکٹھے کام کرتے کم ہی نظر آئیں گے۔
جو ایک بار دارلسلام آ جاتا ہے واپس نہیں جاتا۔ مشن سمجھ کر وابستہ ہو یا نوکری جان کر آئے۔ اسے جلدی ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ''دین بھی ہے اور دنیا بھی''۔ پھر جہاں عزتِ نفس کے ساتھ کام کی آزادی ہو وہاں کوئی کیوں نہیں کام کرنا چاہے گا؟
سچ تو یہ ہے کہ یہ اب ایک افراد ساز ادارے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عالم یہاں آ کر ریسرچ سکالر بن رہے ہیں۔ تحقیق و جستجو کے جدید اور قدیم اصولوں کوسیکھتے ہیں اور پھر ہر کتاب کو، تحریر کو ان اصولوں کی بنیاد پر پرکھتے ہیں، جانچتے ہیں۔
عالم کی خوبی صرف اس کی ذات تک ہوتی ہے۔ ہم نے علماء کو سکالر بننے اور اپنانے کا پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔ کتاب کے مواد کی پیش کش تو خوبصورت اور پُر کشش ہونا ہی چاہیے ہم نے مواد کو مستند ترین حوالوں سے پرکھنے کی طرح ڈالی ہے۔علماء کو اُردو ادب پڑھنے کی تربیت دی ہے زبان و بیان کے رموز سکھائے ہیں۔ اس وقت ۵۰ ہمہ وقتی علماء ہمارے ساتھ لاہور آفس میں وابستہ ہیں۔
ان میں ۹۰ فیصد وہ ہیں جو پہلے دن سے ہماری ٹیم کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہاں وزٹ کے لیے آنے والے حیران ہوتے ہیں کہ ایک ہی چھت تلے اتنے علماء جمع ہیں اور اس قدر عمدگی سے کام کرتے ہیں۔
دارالسلام کے آغاز کی ایک وجہ بے شک تجارت بھی ہے مگر ہم سارے ہی اسے عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔
ہمارے ریاض آفس میں مختلف زبانوں کا علم رکھنے والے، مترجم اور ایڈیٹر ہیں۔ ان کی تعداد ۱۰۰ سے زائد ہے۔ سعودی عرب میں ہماری ۱۰ برانچیں ہیں، نیویارک، ہیوسٹن، لندن، شارجہ، آسٹریلیا، ملائیشیاسمیت ۳۰ ممالک میں شاخیں ہیں۔ ساتھ میں اسلامک سپر مارکیٹ کا تصور دے رہے ہیں۔
نوبل قرآن۔ ۳ ملین کاپیاں
ہماری سب سے بڑی سعادت نوبل قرآن کی تیاری اور اشاعت ثابت ہوئی۔ اس کا انگریزی ترجمہ کرنے والی شخصیت ڈاکٹر محمد محسن خان صاحب پنجاب کے شہر قصور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایم بی بی ایس کر کے دل کے امراض کے ماہر بنے۔ پھر برطانیہ چلے گئے اور وہاں سے سعودی عرب، کنگ عبدالعزیز السعود کی بادشاہت میں وزارتِ صحت سے وابستہ ہوئے۔ ۱۵ سال اسی وزارت میں رہے، زیادہ وقت طائف میں گزارا۔ شاہ خالد کے عہد میں ان کو سعودی عرب کے پہلے چیسٹ ہسپتال کا ایم ایس بنایا گیا۔
اُن کو خواب میں آنحضورﷺکی زیارت ہوئی، خواب میں ہی استعفا دیا اور پھر حضورﷺ کے کہے لفظوں کی حفاظت اور خدمت پر لگ گئے۔ انتہائی وجیہہ، سرخ و سفیدرنگت اور پُر کشش شخصیت کے حامل۔ انھوں نے قرآن پاک کا انگریزی میں بہت عمدہ اور معیاری ترجمہ کیا۔ میں ان سے اجازت لینے گیا۔ ان کی سیرت اور صورت دونوں نے موہ لیا۔ میں نے ترجمے کی رائلٹی کا پوچھا۔ بولے رائلٹی لے لی تو قیامت کے روز آنحضورﷺ کو کیا منہ دکھائوں گا؟ نوبل قرآن کے ترجمہ والا یہ منصوبہ بہت بڑا تھا۔
راہوالی شوگر ملز کے یوسف سیٹھی صاحب کو اللہ نے چن لیا۔ انھوں نے بہت کھلے دل کے ساتھ اس پر رقم خرچ کی۔ ہدف یہ تھا کہ نسخہ صحت کے اعتبار سے بہترین ہو۔ ۱۹۹۳ء میں اس کا پہلا ایڈیشن چھپا۔ الحمد اللہ اب تک ۳ملین (۳۰لاکھ) کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
نوبل قرآن آج دنیا کا سب سے معروف اور مقبول انگریزی ترجمہ مانا جاتا ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس میں مختصر حواشی بھی ہیں۔ ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے بھی اس پر بہت کام کیا۔ سعودی گورنمنٹ اور علماء کے بورڈ نے منظور کیا تب یہ طبع ہوا۔میرا خواب یہ تھا کہ دنیا میں بائبل سب سے عمدہ ۵۶گرام کاغذپر اورپاکٹ سائز میں چھپتی ہے۔ نوبل قرآن کو ویسی ہی کوالٹی سے چھاپا جائے۔
اٹلی میں پریس تھا۔ میں وہاں پہنچا ان کے پاس کئی سال کی بکنگ تھی۔ میں نے ان سے بکنگ کی تاریخ لی۔ کاغذ وہ صرف خاص کارخانے سے لیتے ہیں جو صرف بائبل کے لیے ہی بنایا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے عمدہ، باریک اور دیر پا کاغذ ہے۔ میں وہاں پہنچا، ان سے کاغذ کی بات کی۔ اس پریس سے جہاں ہمیشہ بائبل چھپی، پہلی بار قرآن پاک شائع ہوا۔ ۱۰ہزار کا پہلا ایڈیشن چند دنوں میں امریکا میں فروخت ہوگیا۔ ہم وہاں سے ۲ایڈیشن اور طبع کرائے۔
ابھی بہت آرڈرز تھے مگر انھوں نے انکار کر دیا کہ ہمارے پالیسی سازوں نے منع کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم یہاں صرف بائبل چھاپیں گے۔ میں اس فیکٹری میں پہنچا اور پوچھا کہ آپ کا غذاور کون کون چھاپتا ہے پھر ہمیں دوسرے اچھے پریسوں کا بھی پتا چل گیا جہاں اسی کاغذ پر طباعت ہوتی تھی۔ یوں عمدہ ترین کاغذ پر نوبل قرآن کی ایک نہ ختم ہونے والی طباعت کا سلسلہ چل پڑا۔ اس کے بعد ہم نے مختلف زبانوں میں قرآن پاک چھاپنے کا آغاز کیا۔ اب تک ۲۵ زبانوں میں قرآن چھاپ چکے ہیں۔
صحاح ستہ کا ۱۰۰سال بعد ترجمہ
ہدف یہ تھا کہ صحت اور اسناد کے اعتبار سے احادیث اور سیرت پر بہترین کام ہو۔ ہندوستان کے مولانا صفی الدین مبارک پوری علمی کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ وہ احادیث کے خدا داد کمپیوٹر تھے۔
صحاح ستہ کا انگریزی ترجمہ ۳۸جلدوں میں چھپا ہے۔ اللو لٔووالمرجان (یعنی بخاری اور مسلم کی متفق علیہ احادیث کا مجموعہ) کا بھی ترجمہ کرا لیا ہے۔ صحاح ستہ کا ترجمہ کوئی ۱۰۰سال پہلے ہوا تھا۔ مشکل الفاظ پر پرانی زبان، تشریح کی بھی ضرورت تھی۔ علماء اورشیوخ الاحادیث کو جمع کیا اور اس بڑے منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
سنن ابو دائو (۴جلدوں میں) سنن نسائی (۷جلدوں) سنن ابن ماجہ (۵ جلدوں) شائع ہو چکی ہیں۔ یہ مختلف سائز میں ۱۴۴۰صفحات سے ۱۹۰۰صفحات پر مشتمل ہیں۔ ڈاکٹر محسن صاحب نے صحیح بخاری کا پہلی بار ترجمہ کیا اور یہ ۹جلدوں میں طبع ہوا۔
صحاح ستہ ایک جلد میں بھی اٹلی سے چھپوائی گئی۔ ۲۷۷۲ صفحات A/4 سائز اور ۴۰ گرام پیپر پر۔ تین ہزار کاپیاں چھپوائی گئیں۔ میں ۱۰ دن وہیں اٹلی کے پریس میں بیٹھا رہا۔ یہ میرا دیرینہ خواب تھا۔ اس کی تکمیل کا لمحہ لمحہ اپنے سامنے تکمیل پاتا دیکھ رہا تھا۔ ساتھ ساتھ پروف ریڈنگ کرتا رہا۔ جب صحاح ستہ ایک جلد میں چھپ کر میرے ہاتھوں میں آئی تووہ زندگی کا خوشگوار ترین لمحہ تھا۔ تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا اور میرے ہاتھوں ہوا تھا۔
مجھے سارے لمحے یاد تھے۔ ساری ٹیم دن رات کام کر رہی ہوتی۔ صبح و شام کھانا پینا تک دارالسلام کی طرف سے تھا کہ کسی سکالر، عالم کو کہیں ذرا سی دیر کے لیے بھی جانا نہ پڑے۔ مدد و رہنمائی کے لیے ہندوستان سے نواب صدیق حسن خاں کے ''فتح الباری''(بخاری کی شرح)مخطوطات منگوائے گئے۔میں طبع شدہ صحاح ستہ کی کاپیاں لے کر ریاض پہنچا۔ تب وہاں ایک بہت بڑی نمائش چل رہی تھی۔ صحاح ستہ وہاں مرکز نگاہ بنی رہی۔کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اتنی بڑی کتاب ایک ہی جلد میں کیسے آ سکتی ہے۔
۴مئی ۱۹۹۴ء دارالسلام لاہور کا قیام
اُردو بازار غزنی سٹریٹ لاہور میں میری ایک دکان موجود تھی۔ میں نے اپنے بھائی عبدالعظیم اسد (جو میرے دوست، مخلص نائب اور میرے بچوں کے ماموں بھی ہیں) سے جو علوم دین کی تعلیم مکمل کر کے فارغ ہوئے تھے اور سعودی عرب آنے کے خواہش مند تھے۔ ان سے کہا کہ آپ یہاں دارالسلام کا کام شروع کرو۔ کتابیں میں سعودی عرب سے بھجواتا ہوں۔ یوں ۱۹۹۴ء میں پہلا کنٹینر لاہور آیا۔جسے خود انھوں نے کریم بلاک میں اپنے ہاتھوں سے اتروایا۔
یہ قرآن و حدیث کے حوالے سے مختلف معروف اور مستند عربی کتابیں تھیں۔ اللہ نے اس قدر برکت دی کہ وہاں سے ہم لوئر مال پہ جہاں قومی پریس تھا منتقل ہوئے۔ وہاں پورا فلور لے لیا۔ ۷سال وہاں رہے پھر سیکرٹریٹ سٹاپ کے ساتھ اپنا پریس لگایا اور دارلسلام سپر مارکیٹ بنائی۔ یہ ۳منزلہ بلڈنگ ہے۔ یہاں ریسرچ سنٹر کا آغاز فروری ۱۹۹۵ء میں ہوا۔ کتاب و سنت کی اشاعت آسان نہیں ہے۔
صحت کا خیال رکھنا، اصل مراجع اور مصادر سے لے کر ہر تحریر کو غلطیوں اور شبہات سے پاک رکھنا۔ اس کام کے لیے بہترین دماغ درکار تھے۔ آغاز حافظ صلاح الدین یوسف سے کیا گیا۔ شریعت کورٹ کے ایڈوائزر رہے تھے۔پھر آہستہ آہستہ ٹیم بنتی گئی۔ یہیں ہم نے پروف پڑھنے کا ایک باقاعدہ شعبہ بنایا۔ایک بہترین شعبہ ڈیزائن قائم کیا۔ ہم نے شروع دن سے طے کیا کہ کتابوں کی طباعت و اشاعت میں کبھی معیار پر کمپرومائز نہیں کریں گے۔
کوالٹی نہ صرف ریسرچ کی بلکہ طباعت و اشاعت کی ہر دو صورتوں میں ترجیح اول رہے گی۔ بہت لوگوں نے کہا کتابیں بہت اچھی ہیں۔ سستا ایڈیشن بھی چھاپیں۔ ہم نے بات نہیں مانی۔ ہماری ۳۰ فیصد کتابیں ۴کلر ہو چکی ہیں۔ بہترین اور عمدہ کاغذ پر ان کی طباعت ہوئی ہے۔ آنے والا دور ۴کلر کتابوں کا ہے۔ ہم نے ابھی سے اپنی ہر کتاب کو ۴کلر کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
ہمارا سالانہ ٹرن اوور ۴۳ ملین ریال ہے۔ ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اس کا ثُلث یعنی ۳۳فیصد حصہ فی سبیل اللہ خرچ کریں گے۔ اس پر عمل پیرا ہیں۔سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ ابن باز کہ میں تو انھیں اس دور کا حاتم طائی کہتا ہوں۔ ان کے ہاں دو وقت امیر و غریب کے لیے دستر خوان سجا رہتا ہے۔ کیا آدمی تھے۔ ان کو ویسا ہی ہونا چاہیے کھلے ہاتھ والا۔انہیں مل کر ویسا بننے کی آرزو ہو جاتی تھی۔
اصل اسلامی سپرٹ تو یہی ہے
یہی سوچ کر ہم نے پاکستان میں باقاعدہ ٹرسٹ بھی بنا دیا ہے۔دینی اور تعلیمی ادارے بنانے کے ساتھ ساتھ، مساجد بنا رہے ہیں۔ ڈسپنسریاں قائم کر رہے ہیں۔ خوشی کے ایام میں تحائف تقسیم کرتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں عبدالعظیم اسد سارا نظام بحسن و خوبی دیکھ رہے ہیں۔ دو زون بنا رکھے ہیں۔
زون۱۔ حافظ آباد میں، اسے محمد طارق شاہد دیکھتے ہیں زون۲۔ واربرٹن شیخوپورہ، پروفیسر امان اللہ بھٹی دیکھتے ہیں۔ ننکانہ سٹی عمران ناصر صاحب اور شرقپور سٹی محمود الحسن بزمی صاحب، خیر کے ان کاموں میں ہمارے دست و بازو ہیں۔
دارالسلام حفظ و مڈل سکول سسٹم
دارالسلام حفظ و مڈل سکول سسٹم، واربرٹن میں پرائمری پاس بچوں کو انٹری ٹیسٹ کے بعد داخلہ دیا جاتا ہے اور تین سال میں حفظ کے ساتھ ساتھ مڈل کی ریگولر تعلیم دی جاتی ہے۔ مڈل کا مکمل نصاب پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا پڑھایا جاتا ہے۔ مڈل کی تعلیم کا طریقہ کار اس طرح ہے کہ چھٹی اور ساتویں کلاس میں تین مضمون (انگلش، ریاضی، اردو) ریگولر پڑھائے جاتے ہیں۔
پڑھائی کے ساتھ ساتھ اردو اور انگلش خوشخطی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ہر روز ۲ گھنٹے سکول کی کلاس ہوتی اور ایک گھنٹہ ہوم ورک کے لیے۔ یہ ایک بورڈنگ سکول ہے جس میں حفظ القرآن اور دینی تربیت کے ساتھ فل ٹائم سکولنگ کرائی جاتی ہے۔
دارالسلام ٹرسٹ کے زیر انتظام عرصہ ۵ سال سے واربرٹن سٹی میں اس سسٹم کے تحت تین مساجد (جامع مسجد ریاض الاسلام، مسجد فاران اور مسجد ریاض الجنتہ) میں کام ہو رہا ہے۔ ان مساجد میں چھ کلاسیں اور ۱۲۰ طلباء حفظ و مڈل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اب تک ۵۷ طلباء حفظ و مڈل کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
دارالسلام حفظ و مڈل سکول سسٹم کے تحت شیخوپورہ سٹی، ننکانہ سٹی اور شرقپور سٹی میں ابتدائی طور پر اسکول شروع کیا گیا ہے ۔ یہ منصوبہ بڑا منفرد اور تربیتی اعتبار سے عظیم الشان ہے۔
الرحمہ انسٹیٹیوٹ
واربرٹن سابقہ ضلع شیخوپورہ اور موجودہ ضلع ننکانہ کا ایک تاریخی قصبہ ہے جو ہر مذہب و مسلک سے وابستہ لوگوں کا مسکن ہے۔ تمام مذاہب و مسالک کے لوگ اپنے اپنے اسلوب کے مطابق دینی و تبلیغی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اس قصبے میں خالص کتاب و سنت کے حاملین بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو شروع ہی سے انفرادی طور پر تعلیم و تعلم اور دعوت و تبلیغ کا کام کر رہے تھے۔
اسی دعوتی و تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے دسمبر ۲۰۰۲ء میں واربرٹن کے چند مخلص احباب نے پروگرام بنایا کہ ۲۰۰۹ء میں طلبہ کے لیے بھی ریلوے اسٹیشن واربرٹن کے عقب میں چھوٹی سی مسجد ریاض الجنہ کے اندر ''الرحمہ ٹرسٹ'' کے زیر انتظام ''الرحمہ انسٹیٹیوٹ'' کے نام سے شعبہ علوم اسلامیہ کا آغاز کر دیا جائے۔ چنانچہ اب الحمد اللہ ''روشنی جنرل ہسپتال'' واربرٹن کے عقب میں ایک شاندار عمارت میں اسے منتقل کر دیا گیا ہے۔
''الرحمہ انسٹیٹیوٹ'' کو اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے بڑی اچھی شہرت سے نوازا ہے۔ اس وقت انسٹیٹیوٹ سے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دُور دراز علاقوں کے طلبہ بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ان تمام تعلیمی اداروں میں ۳۰۰ بیرونی طلبہ و طالبات رہائش پذیر ہیںجن کے قیام و طعام اور علاج معالجہ کا انتظام نہایت احسن انداز میںکیا جا رہا ہے۔ یہاں میٹرک سے ایم۔اے تک تعلیم کا بندوبست ہے۔
دارالسلام ۔امت کا اثاثہ
آج میں پوری دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ دارالسلام جو ایک کیلی گرافر کا خواب تھا۔ اب امت کا اثاثہ بن گیا ہے اور اس اثاثے کا اصلی سرمایہ ہمارے سکالرز اور علماء ہیں۔ پروفیسر یحییٰ صاحب ۷۵ سال کی عمر میں جب یہ کہتے ہیں کہ یہاں آ کر تھکاوٹ نہیں ہوتی روزانہ بے حد خوشی ہوتی ہے۔ ان جیسے اہل علم کا اکرام اور احترام مجھ پر اور میری پوری ٹیم پر واجب ہے۔ سارے کام کرنے والوں کی پذیرائی اور عزت افرائی ہمیشہ میرے پیش نظر رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں دارالسلام کی کامیابی میں اس رویے کا بھی ضرور دخل رہا ہو گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا ''مسلمان نرم طبیعت اور نرم خو ہوتا ہے۔'' ہمارے ہاں کسی ایک مکتبہ فکر کے عالم نہیں ہیں ۔ مولانا تقی عثمانی صاحب کے شاگرد مفتی عبدالسمیع بھی ہیں جنھوں نے ان سے تخصص کیا۔ میں نے اپنے لیے منیجر کے بجائے رہنما کا رول پسند کیا ہے۔ اس لیے سفر وحضر میں سوچنے، نئی نئی راہیں تلاش کرنے اور بہترین وسائل مہیا کرنے کی فکر رہتی ہے۔
میرے اہلِ خانہ
اللہ نے مجھے ۶بیٹے اور دو بیٹیاں دی ہیں
میرا بڑا بیٹا عکاشہ مجاہد اب انٹرنیشنل مارکیٹنگ دیکھ رہا ہے۔ دوسرا بیٹا حافظ عبدالغفار مجاہد، میرے تمام ذاتی معاملات اور میٹنگز دیکھتا ہے۔ تیسرا بیٹا حافظ طلحہ آئی ٹی کا ماہر ہے۔ پورا شعبہ قائم کر دیا ہے۔عبد اللہ، عبدالرحمن اور محمد ابھی پڑھ رہے ہیں۔
میری اہلیہ حافظہ انیسہ فردوس عالمہ اور مبلغ ہیں۔ وہ ریاض میں الصخی انٹرنیشنل سکول چلاتی ہیں جو فیڈرل بورڈ اسلام آباد سے ملحق ہے۔ ۷۰۰بچے، بچیاں وہاں پڑھ رہے ہیں۔ وہ ریاض میں خواتین کے قرآن و سنت کی تعلیم کے ۲۴حلقے بھی چلا رہی ہیںجہاں وہ ہفتہ وار درس دیتی ہیں۔
میرے شوق اور احساس
مجھے تاریخ پڑھنے کا بے حد شوق ہے۔دو اڑھائی سو سے زائد کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ سیرت پہ لکھی گئی کتابیں بہت چاہت سے پڑھتا ہوں۔ یوں سمجھیں کتابوں کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ جس ملک میں جائوں وہاں اسلامک سنٹر اور بک سٹورز پہلے ڈھونڈتا ہوں۔ آفس سے آ کر مغرب تا رات ۹بجے تک لکھنے کا کام کرتا ہوں۔ اب تک ۱۵کتابیں لکھ چکا ہوں۔ سعودی عرب کے مقبول اردو اخبار میں کالم بھی لکھتا ہوں۔
میں اپنے رب کا بہت شکر گزار ہوں۔ بہت اچھی اور بھرپور زندگی کی نعمت ملی ہے۔ ریاض میں ہونے کی صورت بچوں کے ساتھ شام کو واک پہ بھی جاتاہوں اور باہر کھانا بھی کھاتے ہیں۔ میری مصروفیات کے باعث بچوں کی تعلیم اور کیرئیر سارا اہلیہ کے ذمے تھا۔ ۳۲سال قبل ریاض میں رہتے ہوئے جب دارالسلام ہمارے چھوٹے سے گھر کے کچن سے شروع ہوا تھا کیونکہ اس کا دروازہ باہر کو کھلتا تھا۔ میری اہلیہ نے وہ میرے حوالے کر دیا تھااور خودکچن دوسری جگہ شفٹ کر لیا۔ میں نے وہاں کمپیوٹر رکھ کر کمپوزنگ سے کام کا آغاز کیا تھا۔
میں تنہائی میں رو دیتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ رسول اللہﷺ کی صورت اور سیرت کو موتیوں کی طرح پیش کروں کہ دیکھنے پڑھنے والے اس کی طرف متوجہ ہوں۔ اب جب دنیا بھر کے ممالک میں دارالسلام کا پیغام اور کام لیے پھرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے اللہ نے میری دعا سن لی ہے۔
(معلومات کے لیے جناب عبدالعظیم اسد، پروفیسر محمد یحییٰ ، عکاشہ مجاہد اور محترمہ انیسہ فردوس کا شکریہ)