کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
عدالت اور حاکمیت
18 فروری 2016اداریہ- کالم، جاوید کاہلوں…. اندازِفکر
سینکڑوں برس پیشتر جب جنس کے بدلے جنس کی بجائے کرنسی سے خرید وفروخت شروع ہوئی تو بادشاہان وقت اپنے اپنے ٹیکسالوں میں سونے‘ چاندی ‘ پیتل اور دوسری مختلف دھاتوں کے سکے ڈھلواتے تھے۔ ایسے دھاتی سکوں کے اوپر بادشاہ کا نام اور اس کے چہرے سے مماثل مجسمے کی تصویر بھی عموماً کندہ ہوتی۔ لہٰذا کسی بھی بادشاہت کا ثبوت بیرونی دنیا میں یہی بات سمجھی جاتی تھی کہ اس علاقے یا ریاست میں کس کے نام کا سکہ چلتا ہے۔ اس طرح جب کوئی بھی بادشاہ اپنے دارالحکومت میں کمزور پڑتا تھا اور اس کے ماتحت دور دراز کی کسی ریاست کو اپنی آزاد بادشاہت کا اعلان درکار ہوتا تھا تو وہاں کا صوبیدار مرکز گریزی کا اعلان عام طور پر ٹیکسالوں سے اپنے نام کے سکے بنا کر کرتا تھا۔ یعنی کہ کرنسی سکوں پر اپنا نام لکھوانا ہی کسی کی آزاد بادشاہت کا اعلان ہوتا تھا۔ جب یہی دھاتی سکے رفتہ رفتہ کرنسی نوٹوں سے بدل دیئے گئے تو ان کاغذری نوٹوں پر بھی اس ملک کی خود مختاری کا نشان اس ملک کے کسی عظیم لیڈر یا سربراہ حکومت کی تصویر کے ساتھ آج بھی ہوتا ہے۔ ماڈرن خود مختار ریاستوں میں جدید بینکنگ کی سہولتوں اور ”ای گورنمنٹوں“ کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کرنسی نوٹوں کی جگہ پلاسٹک کے بنے کریڈٹ کارڈوں نے لے لی ہے۔ تو اب کرنسی سکوں اور نوٹوں وغیرہ پر بھی نام یا تصویری مجسمہ کا ہونا پرانی روایت ہوتی چلی جا رہی ہے۔ سو یہاں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کسی علاقے پر جب کسی خود مختار (Sovereign) نے اپنی حاکمیت کا اظہار کرنا ہو تو وہ سکوںیا کرنسی نوٹوں کی عدم موجودگی میں کس طور پر کر سکتا ہے؟ اس بات کا جواب اب اس علاقے میں قائم شدہ عدالتوں ہی سے ممکن ہے یعنی کہ جو علاقہ جس کی حاکمیت میں ہو گا وہاں پر اسی حاکم یا گورنمنٹ کی عدالتیں قائم ہوںگی۔
عدالتوں کا وجود دراصل عدل وانصاف کی فراہمی کے علاوہ اس بات کا متقاضی بھی ہوتا ہے کہ ان فیصلوں کے پیچھے ایک موثر اور طاقتور قوت نافذہ بھی ہو، وگرنہ قوت نافذہ کے بغیرکسی بھی عدالت کا کوئی حکم کچھ بھی معنی نہیں رکھے گا اور یہ قوت نافذہ اس علاقے کے حکمران کے پاس ہی ہوتی ہے، لہٰذا ظاہری نظر میں توعدالتوں کا کام معاشرے میں امن وامان کا قیام اور فراہمی عدل وانصاف تک ہی محدود ہوتا ہے مگر یہ دراصل کسی بھی حاکم کا ”اظہار حاکمیت“ کا بھی واحد پیمانہ ہوتا ہے۔ اب اسی بیانئے کو اگر دوسری طرح سے بیان کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اگر کسی علاقے کی عدالتیں وہاں پرامن وامان قائم رکھ رہی ہیں اور ایک موثر اور سریع نظام عدل وانصاف عوام کو میسر ہے تو کسی بھی حاکم کی حاکمیت جاری وساری رہ سکتی ہے اور اگر کہیں پر عدالتیں تو موجود ہوں مگر وہاں نہ تو امن وامان قائم ہو اور نہ ہی مظلوم شہریوں کو عدل وانصاف میسر ہو رہا ہو تو پھر سمجھ لو کہ وہاں کی حاکمیت‘ حکومت یا گورنمنٹ کسی لمحے بھی گر سکتی ہے۔ اس بین الاقوامی سچائی کو صدیوں قبل صاحب نہج البلاغہ حضرت علی المرتضیٰ نے بھی بیان فرمایا تھا کہ ”کوئی بھی ملک حالت کفر پر تو اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے، عدم انصاف اور ظلم کی موجودگی میں نہیں۔“
اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ کیا ہماری عدالتیں وطن عزیز میں امن و امان قائم رکھ رہی ہیں؟
اور عام شہری کو انصاف میسر ہو رہا ہے؟
یقینا کوئی عقل سے عاری شخص بھی اس کا جواب ”نہیں“ میں دے گا۔
اب سوچنے کی بات ہے کہ اگر یہ جواب ”نہیں“ میں ہے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیان کی گئی سچائی کے مطابق مملکت پاکستان کب تک مزید قائم رہ سکتی ہے؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ مملکت خداداد پہلے ہی چار دھائیاں قبل دولخت ہو گئی تھی؟ بنگالیوں کے ضمن میں دو مارشل لاﺅں میں ان کو فراہمی عدم انصاف ہی کی شکایت تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو مغربی حصے سے علیحدہ کرلیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ باقی ماندہ پاکستان میں قومیتوں کی بنا پر تو شاید ویسے حالات نہیں مگر عام شہریوں اور معاشرے میں امن وامان کے حوالے سے ہماری عدالتیں ناکام ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر عدالتیں ناکام ہیں توحکومتیں اس سے بھی بڑھ کر ناکام ہیں۔ اور اگر ہمارا معاشرہ ‘ عدالتیں اور ہماری حکومتیں اس یک نکاتی حقیقت سے چشم پوشی کرتی رہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ نہ تو بین الاقوامی سچائیاں تبدیل ہو سکتی ہیں اور نہ ہی ”سنت اللہ“۔ اس مقام پر کچھ عقل کے اندھے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مایوسی پھیلائی جا رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کسی حد تک درست بھی لگے، مگرکچھ ایسے ہی اندھے ‘ بہرے جب مشرقی پاکستان پر فوجی ایکشن ہوا‘ مجیب الرحمن گرفتار ہوا‘ تب بھی کہہ رہے تھے کہ ”شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا“۔ یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ایسا بیان ہماری تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اب شترمرغ کی طرح ریت میں سر دینے کی بجائے بہادری سے موثر سیاسی فیصلے کئے جائیں۔
جہاں تک ہمارے دشمنوں کا تعلق ہے تو انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کے روپ میں آ کر اپنے مکروہ چہروں کو خوبصورت میک اپ میں ہمارے کوتاہ نظر سیاستدانوں کو کرپشن اور بے ایمانی کے جال میں پھنسا کر اپنا جرم آگے کیا۔ معیشت کے زمرے میں انہوں نے یقین کیا کہ ہم کسی طور پر اپنی پن بجلی کے منصوبے نہ بنا پائیں۔ توانائی کم ہو گی، پھر مہنگی ہو گی، تو یہ معیشت کیا‘ پورے ملک میں تباہی مچا دے گی، لہٰذا تربیلا اور منگلا ڈیموں کے بعد پچاس برس تک ہم نے کوئی بھی قابل قدر پن بجلی کا منصوبہ تعمیر نہیں کیا۔ ادھر کالا باغ ڈیم سیاست کی نظر ہوا جس کے بھیانک نتائج پاکستانی زراعت اور معیشت آج تک بھگت رہی ہے اور مستقبل میں مزید بھی بھگتے گی۔ امن وامان اور انصاف کے زمرے میں انہوں نے فقط ایک پھانسی کی سزا معطل کروا دی تو ہمارا معاشرہ ظلم سے مکمل بھر گیا اور اس میں کوئی دس برس لگ گئے۔ یہ کام حکومت نے کیا تو عدالتوں نے آگے بڑھ کر سارے نظام انصاف کی دھجیاں ہی بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ عدالتوں سے ”سوائے انصاف“ کے شہریوں کو سب کچھ مل سکتا ہے۔ دیوانی انصاف کا تو اب خواب دیکھنا بھی ایک جرم ہے۔ فوجداری انصاف بھی ہماری عدالتوں میں ایک شجر ممنوعہ بن چکا ہے۔
اس مختصر تنقید کے بعد اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ وہ پن بجلی کے منصوبے ہوں یا دوسرے ترقیاتی تعمیری کام، ان میں تو کسی حد تک ہمیں کچھ بجٹ درکار ہو سکتا ہے، مگر عدالتوں اور انصاف کے ضمن میں ہمیں شاید بجٹ کی بجائے صرف ایک مربوط حکمت عملی اور توانا عزم حکومت ہی درکار ہے۔ ہمیں جھوٹی گواہیوں سے نجات پانے کیلئے قرآنی ”فلسفہ کذاب“ کو شریعت میں ڈھال کر عدالتوں سے اس پر عملدرآمد چاہیے ہو گا۔
ناجائز مقدمات اور دعووں سے پیچھا چھڑانے کیلئے عبرتناک جرمانے (COSTS) کو رواج دینا ہو گا۔
صحت جرم (Plead Guilty) کے نظام کو اس کی روح کے ساتھ لاگو کرنا ہو گا۔
جیوری سسٹم اور عدالتوں پر سے بوجھ کم کرنے کیلئے مقامی یونین کونسلوں میں مجسٹریٹ متعین کر کے کوئی پچاس فیصد کام کو سمری عدالتوں میں سرانجام دینا ہوگا‘ فیصلہ سنانے اور اپیل کی حد مقرر کرنا ہوگی۔
بار کونسلوں کو عدالتی نگرانی میں تطہیر کے عمل سے گزرنا ہوگا‘
کیس واپس ریمانڈ کرنے میں جزا وسزا کو مدنظر رکھنا ہوگا اور آخر میں چھوٹی عدالتوں سے لے کر عدالت عظمیٰ تک کے ججوں تک کی جواب طلبی، برخواستگی اور سزاﺅں کو ممکن بھی بنانا ہوگا اور تیز ترین بھی کرنا ہوگا۔
اگر یہ نہ ہوا تو پاکستانی قوم کو جان لینا چاہیے کہ حاکمیت اور ملک اب اور صرف عدالتوں ہی کے مرہون منت ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک اور حاکمیت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد حل اپنی عدالتوں کی تطہیر اور فراہمی انصاف میں ہے، اور اس کے لئے ہمیں فقط قوت ارادی اور سیاسی پشت پناہی درکار ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان یقینا قائم رہے گا!
٭٭
ح