کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
عراق اور شام 3 ٹکڑوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں، امریکی دفاعی ماہرین
ایکپریس نیوز25 منٹ پہلے
سال 2000 میں مشرقَ وسطیٰ کے دواہم ممالک میں ٹوٹ پھوٹ پر بنایا جانے والا ایک نقشہ
جو وقت کے ساتھ ساتھ سچ ثابت ہوتا جارہا ہے۔ فوٹو: بشکریہ کولمبیا یونیورسٹی
واشنگٹن: امریکا کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ فرقہ واریت اور خانہ جنگی نے شام اور عراق کو مختلف حصوں میں تقشیم کر کے رکھ دیا ہے اور شاید مستقبل میں یہ دونوں ملک اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں۔
امریکی ڈیفینس انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ونسنٹ اسٹیورٹ کا کہنا ہے کہ عراق سنی، کرد اور شیعہ علاقوں میں تقسیم ہو جائے گا اور عراقی وزیراعظم بھی اسی خدشے کا اظہار کر چکے ہیں جب کہ شام اور عراق کے وسیع علاقے اب شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے میں جا چکے ہیں۔
جنرل ونسنٹ اسٹیورٹ نے کہا کہ شمالی عراق میں کرد نیم خود مختار علاقہ قائم کر چکے ہیں اور داعش سے بقیہ علاقہ چھڑانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ کرد علاقے کے صدر مسعود برزانی نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ کردوں نے آزادی کے لیے جانیں دی ہیں اس لئے ہم مرکزی حکومت میں حصے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے کہا کہ شام بھی 2 یا 3 حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔ ترک فضائیہ کی جانب سے عراقی سرحد عبور کر کے کرد علاقوں پر بمباری بھی عراق کی مرکزی حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ جان برینن کا کہنا ہے کہ عراق اور شام میں لوگ اپنی قومیت کی بجائے اپنی زبان اور فرقہ وارانہ وابستگی پر ذیادہ فخر کرتے ہیں اور اس طرح اگلے 10 سے 20 سالوں میں مشرقِ وسطیٰ میں غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
واضح رہے کہ 2006 میں امریکی سینیٹر جان برینن نے عراق کو 3 خودمختار علاقوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی تھی لیکن اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔