• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عراق سے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں تھا، ٹونی بلئیر نے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
عراق سے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں تھا، ٹونی بلئیر نے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا:
چلکوٹ انکوائری کمیشن نے رپورٹ جاری کر دی
رونامہ پاکستان، 06 جولائی 2016

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) عراق کی جنگ کے حوالے سے برطانیہ کی سرکاری انکوائری کمیشن کے چیئرمین سر جان چلکوٹ نے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی قیادت میں’’عراق پر لشکر کشی‘‘ کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراق کے خلاف فوجی کاروائی آخری حل نہیں تھا اور نہ ہی صدام حسین سے برطانیہ کو فوری طور پر کوئی خطرہ لاحق تھا، ٹونی بلیئر نے صدام حسین کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور عراق پر چڑھائی سے قبل تمام پرامن طریقوں کو استعمال نہیں کیا۔

’’بی بی سی ‘‘ کے مطابق 7 سالوں میں مکمل ہونے والی 26 لاکھ الفاظ پر مشتمل رپورٹ میں چیئرمین جان چلکوٹ نے کہا ہے کہ عراق میں فوجی کارروائی سے پہلے عراق میں قیادت کی تبدیلی سے پیدا ہونیوالی صورتحال سے نمٹنے کی منصوبہ بندی مکمل طور پر ناقص تھی جبکہ عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی والے ہتھیاروں کی موجودگی کو بھی ثابت نہیں کیا گیا تھا۔

درپیش خطرات کی سنجیدگی کے بارے میں رائے کو جس یقین کے ساتھ پیش کیا گیا تھا اس سے اسے ثابت نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس انکوائری میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جن حالات کی بنا پر عراق پر لشکر کشی کا فیصلہ کیا گیا کہ وہ کہیں سے اطمینان بخش نہیں تھے، برطانیہ کو عراق پر حملے سے پہلے ہتھیاروں کو ترک کرنے کے پر امن طریقوں کا دیکھنا چاہیے تھا، صدام حسین کے بعد عراق کے بارے میں کی جانے والی منصوبہ بندی اور تیاریاں انتہائی ناموزوں تھیں۔ سر جان چلکوٹ کا کہنا تھا کہ جوائنٹ انٹیلی جنس کمیٹی کو ٹونی بلیئر پر واضح کرنا چاہئے تھا کہ جمع کی گئی خفیہ معلومات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عراق کیمیائی، بائیولوجیکل یا جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ واضح رہے کہ عراق کی جنگ کے متعلق سرکاری انکوائری کے چیئرمین سر جان چلکوٹ نے رپورٹ منظر عام آنے سے قبل کہا تھا کہ ان کو امید ہے کہ ان کی رپورٹ سے مستقبل میں اتنے بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت، محتاط تجزیے اور سیاسی دانشمندی سے کی جائے گی۔


 
Last edited:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ٹونی بلیئر نے جارج بش کو کیا لکھا؟
بی بی سی اردو، 7 گھنٹے پہلے

عراق جنگ کی تحقیقاتی رپورٹ میں سنہ 2001 سے 2007 تک اس وقت کے برطانوی وزیراعظم کے امریکی صدر کو لکھے گئے خطوط کو بھی شائع کیا گیا ہے۔

برطانیہ کے سابق وزیراعطم ٹونی بلیئر کی جانب سے عراق جنگ سے پہلے اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کو لکھے گئے خطوط سے دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے۔

٭ چلکوٹ رپورٹ کے خاص نکات
ہمیں صدام سے نمٹنے کی ضرورت ہے

ٹونی بلیئر کا جارج بش کو پیغام: 11 اکتوبر 2001

"مشرق وسطیٰ میں صدام حسین کو ہٹانے کی حقیقی رضامندی پائی جاتی ہے لیکن اس کو ایک دوسرے سے ملانے کی مخالفت ہے۔۔۔۔ حالیہ مشن (افغانستان میں بمباری)۔۔۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں صدام حسین سے نمٹنے کی ضرورت ہے لیکن اگر ہم اس وقت عراق پر وار کرتے ہیں تو ہم عرب دنیا، روس اور ممکنہ طور پر نصف یورپی اتحاد کو کھو دیں گے اور مجھے خوف ہے کہ اس کا تمام اثر پاکستان پر آئے گا، مجھے یقین ہے کہ ہم صدام حسین کے لیے حکمت عملی بنا سکتے ہیں جس پر آنے والے تاریخوں کو عمل کیا جا سکتا ہے۔"

ٹونی بلیئر نے اس میں مزید کہا کہ پہلے مرحلے میں افغانستان میں فوجی کارروائی تھی جہاں نائن الیون حملے کے منصوبہ ساز چھپے ہوئے ہیں اور دوسرے مرحلے میں تمام شکلوں میں موجود دہشت گردی کے خلاف مہم ہے۔
----------------

ٹونی بلیئر کا جارج بش کو میمو: چار دسمبر 2001

اس میمو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹونی بلیئر اور جارج بش 2001 سے کھلے عام صدام حسین کو ہٹانے کے بارے میں بات کرتے تھے اور نیوریاک میں نائن الیون حملوں کے ایک ماہ بعد۔

ٹونی بلیئر نے تجویز دی کہ عراق میں اقتدار کی تبدیلی کے معاملے کو درکار وقت تک اٹھایا جائے جب ہم اس مقام پر پہنچ جائیں جہاں ضرورت ہو تو بین الاقوامی حمایت کو کھوئے بغیر فوجی کارروائی کی جا سکے۔

"اگر صدام حسین کا تختہ الٹنا اولین مقصد ہے تو یہ شام اور ایران کے ساتھ مل کر یا ان کی رضامندی سے کرنا بہت زیادہ آسان ہے بجائے اس کے ان تینوں کو ایک ساتھ نشانہ بنایا جائے۔ میں اس حق میں ہوں کہ ان دونوں کو ایک مختلف تعلقات کی بنیاد پر ایک موقع دینا چاہیے۔"


افغانستان میں مداخلت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ٹونی بلیئر نے کہا کہ اگر یہ لوگوں کو ایک نئی امید دیتی ہے اور خاص کر اقتدار کی تبدیلی کو ایک اچھا نام دیتے ہیں تو اس صورت میں عراق پر ہماری دلیل کو فائدہ پہنچے گا۔
----------------

جو کچھ بھی ہو میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔۔۔

28 جولائی 2002

صدام حسین سے چھٹکارہ حاصل کرنا ایک ٹھیک کام ہے۔ وہ قابل ذکر خطرہ ہے۔ اس کو کنٹرول کرنا ہوگا لیکن جیسا کہ ہمیں القاعدہ کے معاملے میں معلوم ہوا کہ خاتمہ ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس کے (صدام) جانے سے تمام خطہ آزاد ہو جائے گا اور اس کا اقتدار ممکنہ طور پر شمالی کوریا کے علاوہ دنیا میں سب سے زیادہ ظالمانہ اور غیر انسانی ہے۔


پہلا سوال یہ ہے کہ اس کو ہٹانے کےلیے کیا آپ سمجھتے ہیں یا چاہتے ہیں کہ اتحاد کی ضرورت ہے؟

برطانیہ کی حمایت سے امریکہ اکیلا یہ کر سکتا ہے اور خطرہ یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح ایسی چیزوں سے غیر ارادی نتائج سامنے آتے ہیں۔

فرض کریں یہ (کارروائی) فوجی اعتبار سے پیچیدہ ہوتی ہے، فرض کریں عراق میں شہریوں کی غیر متوقع ہلاکتیں ہوتی ہیں، فرض کریں عرب (ممالک) کے لوگ گلیوں میں آ جاتے ہیں، فرض کریں صدام حسین خود کو سیاسی طور پر مضبوط محسوس کرتا ہے، اور اگر روایتی فوجی اعتبار سے کمزور ہونےکی وجہ سےوسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کرتا ہے، فرض کریں بغیر کسی اتحاد کے، عراقی میں یہ جذبات پیدا ہوتے ہیں کہ عراق پر حملہ کیا گیا اور اس میں اصل عراقی ( صدام کے سپیشل گارڈز کے علاوہ) مزاحمت کا فیصلہ کرتے ہیں، اگر ہم جلدی جلدی جیت جاتے ہیں تو ہر کوئی ہمارا دوست ہو گا اگر ایسا نہیں اور وہ پہلے سے کسی کے پابند نہیں تو جوابی الزام تراشیوں کا سلسلہ بہت جلد شروع ہو جائے گا۔

----------------

ٹونی بلیئر کا 28 جولائی 2002 کو جارج بش کو میمو


تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس تحریر کو چھ صفحوں کے پیغام سے نکالا گیا ہے اور اس پر ذاتی خفیہ، امریکی صدر کے لیے درج ہے۔ اس کو نمبر 10 ( وزیراعطم کے دفتر) کے اہلکار ہی ارسال کرنے سے پہلے دیکھنے کے مجاز ہوتے ہیں۔

چلکوٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صدر بش کو ارسال کرنے سے پہلے اس کی کاپی کو نہ تو وزیر خارجہ اور نہ ہی وزیر دفاع کو دیکھا گیا تھا اور وزیر خارجہ جیک سٹرا بھی اسے بعد میں ہی دیکھ پائے۔

عراق کی جنگ کے متعلق سرکاری انکوائری کے چیئرمین سر جان چلکوٹ کے مطابق اس مراسلے پر’ذاتی‘ کا درجہ دیاگیا تھا لیکن اس میں عراق پر حملے سے آٹھ ماہ پہلے برطانوی حکومت کی پوزیشن کے بارے میں جامع بیان کی عکاسی ہوتی ہے اور اس کو ارسال کیے جانے سے پہلے دونوں برطانوی وزرا کو اپنی اپنی رائے دینے کا موقع ملنا چاہیے تھا۔

’میری رائے میں نہ جرمنی اور نہ ہی فرانس اور ممکنہ طور پر اٹلی یا سپین بھی، اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر ہماری مدد کریں گے، اور یہاں میرا اصل نکتہ یہ ہے کہ عوامی رائے تو عوامی رائے ہوتی ہے۔ یہاں یورپ میں پائی جانے والی رائے کے برعکس امریکہ کسی اور ہی دنیا میں رہتا ہے۔

برطانیہ میں اس وقت مجھے حتمی طور پر یقین نہیں کہ پارلیمان سے مدد ملے گی، پارٹی، عوام اور کسی حد تک کابینہ سے اور یہ برطانیہ ہے۔ نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ میں جس طرح سے فوری ضروت کا احساس پایا جاتا ہے عام طور پر یورپ کے لوگوں میں نہیں ہے اور اس لمحے پر ہمارا سب سے اچھا اتحادی روس ہو سکتا ہے۔
----------------

ٹونی بلیئر 28 جولائی 2002 کو جارج بش مراسلہ

ٹونی بلیئر نے جارج بش کو بتایا ہے کہ اگر وہ ایک وسیع فوجی اتحاد چاہتے ہیں تو اس کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کرنا ہو گی، مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے عمل میں پیش رفت اور عوامی رائے میں تبدیلی کے لیے کام کرنا ہو گا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ امریکہ میں اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے جانے پر ہچکچاہٹ یا مزاحمت ہو سکتی ہے لیکن اصرار کیا کہ فوجی طاقت کے استعمال کے قانونی جواز حاصل کرنے کا یہ سب سے بہترین راستہ ہے۔

ایک پیراگراف پر ’ شواہد` درج تھا جس میں ٹونی بلیئر نے دوبارہ لکھا کہ امریکی تھنک ٹینکس نے مجھے بتایا ہے کہ یہ غیر ضروری ہے لیکن ہمیں یہ کیس بنانے کی ضرورت ہے، اگر ہم بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا خلاصہ دوبارہ بیان کریں اور اس میں یہ اضافہ کریں کہ وہ ( صدام حسین) جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے اور یہ اضافہ کیا جائے کہ القاعدہ سے تعلق ہے اور یہ بہت زیادہ ترغیب دے گا اور ہاں اس کے ساتھ وہاں اقتدار کی مکروہ شکل۔

ٹونی بلیئر کے جارج بش کو خط لکھنے کے تقریباً دو ماہ کے اندر اندر دونوں کی کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات ہوئی

ٹونی بلیئر نے آمر صدام حسین کے بارے میں شواہد پیش کرنے کی اہمیت پر زور دیا اگرچہ ان کو کسی نے دیکھا نہیں تھا۔ جس میں جس میں ممکنہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار، اور اس کے ساتھ یہ نائن الیون حملوں کے بعد القاعدہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش شامل ہے۔


یہ نوٹ بھیجنے کے دو ماہ کے اندر اندر ٹونی بلیئر نے صدر جارج بش کو کیمپ ڈیوڈ میں بتایا کہ اگر بات جنگ پر آتی ہے تو برطانیہ قابل ذکرحد تک فوجی کردار ادا کرے گا۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ اس بات پر کوئی فیصلہ نہیں کیاگیا تھا کہ امریکہ کو منصوبہ بندی کےحوالے سے کیا فوجی مدد فراہم کی جائے۔

مجھے خوشی ہوگی کہ ہم اس تمام کو ایک ساتھ مل کر کرنے کی کوشش کریں لیکن اس کے لیے وقت اور توانائی کےحوالے سے ایک بڑی ذمہ داری کی ضرورت ہو گی اور اس کی قدر و اہمیت اصل میں جب ہوگی جب ہم تمام ایک ہی صفحے پر ہوں گے۔

وقت کے انتخاب پر یہ ہے کہ ہم اسے رواں موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد شروع کر سکتے ہیں اور حملے آئندہ برس 2003 میں جنوری، فروری میں شروع کیے جا سکتے ہیں لیکن اہم سوال یہ نہیں کہ کب بلکہ یہ ہے کہ کس طرح سے۔۔۔

 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
برطانوی فوج کو عراق جنگ میں جھونکے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر

ایکپریس نیوز، بدھ 6 جولائ 2016


لندن: عراق جنگ کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے برطانوی فوجیوں کو جنگ میں جھونکنے کی ذمہ داری قبول کر لی۔

سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ عراق کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹ غلط تھی جس پر اتنا افسوس اور معذرت خواہ ہوں جتنا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق غلط انٹیلی جنس رپورٹ کے اثرات اتنے طویل، ذلت آمیز اور خون آلود ہوں گے ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق کے سابق صدر صدام حسین کے خلاف فوجی کارروائی کے فیصلے کی تمام تر ذمہ داری قبول کرتا ہوں تاہم فیصلہ اچھی نیت سے کیا تھا کیونکہ اس وقت ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، صدام حسین کا تختہ الٹنے کے لئے عراق جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ 10 سالہ دور حکومت کا مشکل ترین فیصلہ تھا۔

ٹونی بلیئر نے کہا کہ امریکا کی سرپرستی میں بننے والے 40 ملکی اتحاد نے عراق جنگ کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی اس کے بجائے دوسرا جنگی طریقہ اختیار کیا گیا جس کی وجہ سے وہ قوم جسے ہم صدام حسین کے عذاب سے بچانا چاہتے تھے وہ فرقہ ورانہ دہشت گردی کا نشانہ بن گئی۔ عراق جنگ میں برطانوی و دیگر ممالک کے فوجیوں اور مقامی شہریوں کی ہلاکت پر دلی افسوس ہے۔

واضح رہے کہ عراق جنگ میں برطانوی فوجیوں کی شمولیت کے فیصلے کے حوالے سے بننے والے انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنگ میں شمولیت کے ٹونی بلیئر کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کی تیاری ثابت نہ ہو سکی۔

ویڈو لنک
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ووبرکاتہ!
یہ انتظار نہ ٹھہرا کوئی بلا ٹھہری
کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری
 
Last edited:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
چلکوٹ رپورٹ پر ٹونی بلیئر کا صرف اظہار افسوس شرمناک ہے: عمران خان
روزنامہ پاکستان، 07 جولائی 2016


اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہاہے کہ چلکوٹ رپورٹ پر ٹونی بلیئر کا صرف اظہار افسوس شرمناک ہے ۔

عمران خان نے چلکوٹ رپورٹ پر اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ تعجب ہے عراق پر حملے اور 179 برطانوی فوجیوں کی ہلاکت پرانھیں ندامت نہیں، ٹونی بلئیر ہزاروں عراقیوں کی موت سے کیسے بری الذمہ ہو سکتے ہیں، کیا عراق اور خطے میں انتشار کے ذمہ دار امریکا اور برطانیہ نہیں؟

چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ٹونی بلیئرعرب ریاستوں میں کشیدگی اور انتشارسے کیسے انکاری ہو سکتے ہیں؟ ٹونی بلیئرانتہا پسندی اور داعش کے وجود سے بھی بری الذمہ نہیں ہو سکتے، جنگ میں غلط بیانی کا یقینی طور پر احتساب ہونا چاہیے، غلط بیانی سے پیدا ہونیوالی افراتفری سے موت کا کھیل آج بھی جاری ہے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
عراق پر لشکر کشی تباہ کن فیصلہ، حملہ غیر قانونی تھا: سابق نائب برطانوی وزیر اعظم
10 جولائی 2016

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) عراق پر حملہ غیر قانونی، لشکر کشی ایک تباہ کن فیصلہ تھا۔ ٹونی کی جانب سے ہر حال میں امریکہ کا ساتھ دینے کا پیغام تباہی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ٹونی بلیئر نے ہمیں ایک غیر قانونی جنگ میں جھونکا، تاحیات اس تباہ کن فیصلے کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار سابق برطانوی نائب وزیر اعظم جان پریسکوٹ نے برطانوی اخبار ’سنڈے مرر‘ میں لکھی گئی ایک تحریر میں کیا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ’کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں ہم نے جنگ میں جانے کے فیصلے کے بارے میں نہ سوچا ہو۔ ان برطانوی فوجیوں کے بارے میں جنھوں نے اپنی زندگی دی اور اپنے ملک کے لیے زخم اٹھائے۔ ان پونے دو لاکھ لوگوں کی موت کے بارے میں جو صدام حسین کو ہٹانے اور ہمارے پینڈورا باکس کھولنے کے نتیجے میں واقع ہوئیں۔‘

بی بی سی نے ڈیلی مرر کے حوالے سے بتایا کہ جان پریسکوٹ کا کہنا تھا کہ سنہ 2003 میں عراق پر برطانیہ اور امریکہ کا حملہ غیرقانونی تھا اور اب ’تاحیات اس تباہ کن فیصلے کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اب ’انتہائی غم و غصے‘ کی حالت میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان سے متفق ہیں کہ ’جنگ غیرقانونی تھی۔‘

انہوں نے لیبر پارٹی کے جیرمی کوربن کی پارٹی کی جانب سے معافی طلب کرنے پر تعریف کی ہے۔

لارڈ پریسکوٹ نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ جیریمی کوربن نے لیبر پارٹی کی جانب سے ان لوگوں سے معافی طلب کی جن کے رشتے دار یا تو مارے گئے یا پھر زخمی ہوئے۔

سابق نائب وزیر اعظم نے کہا کہ چلکوٹ رپورٹ نے غلطی کی تفصیل سے وضاحت کی ہے لیکن انھوں نے اس سے بعض سبق سیکھنے کی نشاندہی کی۔

انھوں نے لکھا: ’میری پہلی تشویش ٹونی بلیئر کے کابینہ چلانے کے انداز پر ہے۔ ہمیں اتنی کم دستاویزات دی گئیں کہ ہم اس کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔‘ عراق پر لشکر کشی کے خلاف اٹارنی جنرل لارڈ گولڈ سمتھ کی رائے کے متعلق کوئی دستاویز فراہم نہیں کی گئی۔ سر جان چلکوٹ کی سربراہی میں برطانیہ کے عراق پر حملے کی رپورٹ گذشتہ ہفتے شائع ہوئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عراق کے وسیع پیمنے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو جس یقین کے ساتھ سامنے لایا گیا تھا اس کا کوئی جواز نہیں پیش کیا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سنہ 2003 کا حملہ ’آخری حربہ نہیں تھا جیسا کہ رکن پارلیمان اور عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور یہ کہ صدام حسین سے برطانیہ کو کوئی ’ناگزیر خطرہ لاحق نہیں تھا۔‘ اس سے قبل ٹونی بلیئر نے غلطیوں کے لیے معافی طلب کی تھی تاہم جنگ چھیڑنے کے فیصلے پر نہیں۔

ح
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
صرف صدام کو هٹایا نہیں بلکہ وہاں ایران کو داخل بهی کیا اور غلبہ بهی دلوایا ۔ یہ بهی اس منصوبہ کا حصہ تها ۔
 
Top