• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عراق و شام میں حکمران جماعت ؛ داعش کے ماسٹر مائنڈ :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عراق و شام میں حکمران جماعت ؛ داعش کے ماسٹر مائنڈ
سید عاصم محمود اتوار 23 اگست 2015

مخصوص مذہبی نظریات رکھنے والے جنگجو نوجوانوں میں اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے جلد ہی زرقاوی نے نظریہ تکفیر اپنا لیا: فوٹو : فائل

یہ جنوری 2014ء کی بات ہے‘ شام کے شہر تل رفعت میں دو جنگجو تنظیموں، داعش اور شہدا سوریا کے مابین تصادم ہوا۔ اس لڑائی میں طرفین کے چند کمانڈو مارے گئے ۔ شہدا سوریا کے ہاتھ ایک مخالف جنگجو کی لاش لگی جو انہوں نے کوڑے میں پھینک دی۔ وہ کسی مناسب وقت اسے دفنانا چاہتے تھے۔لیکن چند گھنٹوں بعد انہیں اپنے ذرائع سے پتا چلا کہ داعش کے علاقوں میں بہت ہلچل ہے۔ تنظیم کے رہنما ایک دوسرے سے رابطہ کرتے چیخ چلا رہے ہیں۔

انہیں بڑا تجسس ہوا کہ معاملہ کیا ہے۔ چھان بین کے بعد انکشاف ہوا کہ انہوں نے داعش کی تزو یراتی (اسٹرٹیجک) پالیسیاں تشکیل دینے والی ملٹری کونسل کے لیڈر، کرنل سمیر عبد محمد خلاوی کو مار ڈالا ہے۔ یہ شخص تل رفعت میں ’’حاجی بکر‘‘ کے عرف سے مشہور اور پوشیدہ طور پہ زندگی گذار رہا تھا۔ اسے معمولی شخصیت نہ سمجھئے، اس نے عراق وشام میں ’’اسلامی ریاست‘‘ کے قیام میں نہایت اہم حصہ لیا۔
٭٭٭

اس انوکھی ریاست کی داستان اردن کے ایک نوجوان‘ ابومعصب زرقاوی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ لڑکپن میں غلط صحبت میں پڑ کر چوری چکاری کرنے لگا۔ بعدازاں ایک عالم دین نے اسے سمجھایا کہ وہ گناہ کی زندگی گزار رہا ہے اور اسے سیدھی راہ دکھانے کی کوششیں کیں۔1989ء میں تیس سالہ زرقاوی اپنے گناہ دھونے افغانستان جا پہنچا۔ وہ روسیوں کے خلاف جہاد میں حصہ لینا چاہتا تھا۔ تاہم روسی رخصت ہو چکے تھے۔ چناں چہ اس نے اسامہ بن لادن سے سرمایہ لے کر ہرات میں ایک عسکری تربیتی کیمپ بنایا اور وہاں اردنی و دیگر عرب نوجوانوں کو فوجی تربیت دینے لگا۔ وہ اردن کی شاہی حکومت کو غیر اسلامی سمجھتا اور اسے ختم کرنے کی تمنا رکھتا تھا۔

مخصوص مذہبی نظریات رکھنے والے جنگجو نوجوانوں میں اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے جلد ہی زرقاوی نے نظریہ تکفیر اپنا لیا… وہ ان مسلمانوں کو کافر گویا واجب القتل سمجھنے لگا جو اس کی تنظیم کے نظریات سے اتفاق نہ کرتے یا مغربی تہذیب وثقافت اپنائے ہوئے تھے۔عسکری تیاریوں کے بعد اس نے 1999ء میں اپنی جنگجو تنظیم‘ جماعت التوحید والجہاد کی بنیاد رکھی۔وہ اپنی تنظیم مستحکم کر رہا تھا کہ 2001ء میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ زرقاوی ایک لڑائی میں زخمی ہوا‘ تو اپنے ساتھیوں سمیت ایران چلا گیا۔ تندرست ہونے کے بعد اس نے عراق کو اپنا مسکن بنا لیا۔ صدام حکومت نے اسے اپنی جنگجویانہ سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔

مارچ 2003ء میںامریکا نے عراق پر بھی حملہ کر دیا۔ زرقاوی امریکیوں کا شدید مخالف تھا‘ لہٰذا وہ ساتھیوں سمیت ان سے نبردآزما ہو گیا۔اسامہ بن لادن کے مانند اسے بھی پورے عالم اسلام میں پذیرائی ملی کیونکہ امریکیوں کو استعمار اور مسلم دشمن طاقت سمجھا جاتا ہے۔ اپنی شدت آمیز کارروائیوں کی وجہ سے زرقاوی اور جماعت التوحید والجہاد کا نام جلد پوری دنیا میں مشہور ہو گیا۔

اس گروہ نے خودکش حملوں اور کاربموں کے ذریعے امریکیوںکو نشانہ بنایا۔ پھر امریکی و یورپی ٹھیکے داروں کو اغوا کر کے انہیں بہیمانہ انداز میں قتل کرنے لگا۔ اسی موقع پر ویڈیو بنا کر میڈیا کو جاری کی جاتی۔ سرعام قتل کے بھیانک مناظر دیکھنے والے کے جسم میں تھرتھری پیدا کر دیتے۔بعض علما نے قتل کے خوفناک طریق کار کو غیر اسلامی قرار دیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ اسلامی دنیا میں تنظیم کے خلاف آواز بلند ہوئی۔

اس کے بعد عراقی حکومت کے اہلکار بھی جماعت التوحید والجہاد کا نشانہ بننے لگے کیونکہ وہ امریکیوں کے ساتھی بن کر واجب القتل قرار پائے۔ کچھ عرصے بعد شیعہ و کرد مذہبی رہنماؤں اور ان کی عبادت گاہوں پر بھی حملے کرنے لگے۔یوں جیسے اُسامہ سعودی حکومت سے نبردآزما تھے،جماعت التوحید والجہاد نے بھی ان کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے ہم مذہبوں کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔مگر اس امر نے جماعت کو عالم اسلام میں متنازع بنا دیا۔اکتوبر2004ء میں زرقاوی نے اسامہ بن لادن کی بیعت کر لی۔ چنانچہ اس کا گروہ ’’عراقی القاعدہ‘‘ کہلانے لگا۔ یہی وہ وقت ہے جب کرنل سمیر بھی تنظیم کا حصہ بنا ۔

عوام و خواص میں خوف و دہشت پھیلا کر حکومت کرنا آمر صدام حسین کا خاص ہتھیار تھا۔ صدام کی تمنا تھی کہ سبھی پر اس کا رعب بیٹھا رہے تاکہ کوئی اس کی حکومت کا بال بیکا نہ کر سکے۔ دہشت پھیلانے کی خاطر صدام نے انٹیلی جنس کا بڑا مربوط نظام تشکیل دیا جو حکومت میں شامل جرنیلوں سے لے کر چپڑاسیوں تک، سب پر نظر رکھتا ۔ کرنل سمیر بھی اسی انٹیلی جنس کی پیداوار تھا جس کا بنیادی کام دوسروں کو ہردم اس خوف میں مبتلا رکھنا تھاکہ باس انہیں دیکھ رہا ہے اور ان کی نگرانی ہو رہی ہے۔

مئی 2003ء میں امریکی حکومت نے یک جنبش قلم صدام کی افواج ختم کر دیں۔ یوں سیکڑوں تجربے کار اور تربیت یافتہ فوجی افسر و جوان بیروزگار ہو گئے۔ جب اکثر کو نئی ملازمت نہ ملی‘ تو وہ امریکیوں سے نفرت کرنے لگے۔ نفرت اتنی شدید تھی کہ وہ نظریاتی بُعد رکھنے کے باوجود زرقاوی کی جماعت التوحید والجہاد میں شامل ہوکر امریکیوں سے لڑنے لگے۔انہی میں سے ایک کرنل سمیر تھا۔اس نے تنظیم کا حصہ بن کر جنگجوؤں کو چھاپہ مار جنگ لڑنے کے گر بتائے۔ انہیں بتایا کہ ہدف کی جاسوسی کیسے کی جاتی ہے۔ یوں وہ گوریلوں کا تربیت کار بن گیا۔

2005ء میں مغربی عراق میں بعض سنی قبائل نے عراقی القاعدہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ انہیں تنظیم کی شدت پسند سرگرمیوں پر شدید اعتراض تھا۔ ان سنی قبائل کو ساتھ ملانے کی خاطر زرقاوی نے مختلف اقدامات کیے۔ مثلاً مختلف جنگجو تنظیموں کے ادغام سے ’’مجاہدین شوری کونسل‘‘ تشکیل دی تاکہ وہ سنّیوں میں اتحاد کرا سکیں۔ ان اقدامات نے مغربی عراق میں عراقی القاعدہ کو مضبوط کر دیا اور وہ علاقے کی سب سے بڑی سیاسی و عسکری قوت بن گئی۔ اس کا تنظیمی ڈھانچہ بھی مربوط و جامع ہو گیا۔

جون2006ء میں ابو معصب زرقاوی امریکی طیاروں کی بمباری سے مارا گیا۔تاہم عراقی القاعدہ اب مغربی عراق میں قدم جما چکی تھی لہذا اس نے جنگجویانہ کارروائیاں جاری رکھیں۔ ابو ایوب المصری اس کا نیا قائد مقرر ہوا۔ اکتوبر 2006ء میں تمام جنگجو تنظیموں نے مغربی عراق کے چھ صوبوں میں اپنی ریاست ’’دولت العراق الاسلامیہ‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا۔وہ سُنی ریاست کا قیام چاہتے تھے۔اس کا سربراہ ایک جنگجو رہنما،ابو عبداللہ الراشد البغدا دی کو بنایا گیا۔

تاہم یہ ریاست کبھی مضبوط نہ ہو سکی،امریکا اور عراق کی افواج جنگجو تنظیموں پر پل پڑیں اور ان کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کیے گئے۔ آپریشنوں کے ذریعے کئی جنگجو گرفتار ہوئے جن میں کرنل سمیر بھی شامل تھا۔ اسے لجن بوکا نامی نظر بندی کیمپ میں رکھا گیا۔ بعدازاں وہ ابو غریب جیل میں بھی رہا۔اواخر 2006ء تا وسط 2008ء تک دوران اسیری کرنل سمیر کی ملاقات دولت عراق اسلامیہ کے کئی جنگجو رہنماؤں سے ہوئی۔ ان میں صدام کی افواج کے سابق فوجی افسر بھی شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ کرنل سمیر سمیت تقریباً سابقہ فوجی افسر سیکولر تھے،انھیںمذہبی نظریات سے کوئی سروکار نہ تھا، مگر امریکیوں سے شدید نفرت نے انہیں شدت پسند مسلمانوں کا ساتھ دینے پر مجبور کر دیا۔

جب کرنل سمیر رہا ہوا‘ تو جلد ہی دولت عراق اسلامیہ کی جنگجویانہ کارروائیوں میں پھر حصہ لینے لگا۔ کرشماتی طور پر وہ امریکی و عراقی فوجیوں کے حملوں کی زد سے محفوظ رہا اور مختلف مقامات پر چھپتا پھرتا۔ اسی دوران اسے اور دیگر سابقہ فوجی افسروں کو اپنی ذہانت اور دلیری کے باعث تنظیم میں اہم رہنماؤں کا درجہ مل گیا۔اپریل2010ء میں ایک امریکی حملے نے دولت عراق اسلامیہ کے دونوں لیڈر‘ ابو عبداللہ بغدادی اور ابو ایوب مصری ہلاک کر دیئے۔ یوں یہ خطرہ پید ا ہو گیا کہ اب تنظیم صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے۔ اس وقت امریکا کے موجودہ چیف آف سٹاف، جنرل ریمنڈ اوڈیرنو عراق میں امریکی فوج کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے بیان دیا:

’’دولت اسلامیہ عراق کے چوٹی کے 42 لیڈروں میں سے ’’اسّی فیصد‘‘ ہلاک یا گرفتار ہو چکے۔ تنظیم کو سرمایہ اور افرادی قوت دینے والے بھی نہیں رہے۔ چناںچہ یہ اب دم توڑ رہی ہے۔‘‘

لیکن تنظیم کے نیم مردہ تن میں شام کی خانہ جنگی نے نئی جان ڈال دی۔ ہوا یہ کہ گرفتاری سے بچ جانے والے تنظیم کے آٹھ اہم رہنماؤں میں سے کم از کم پانچ …کرنل سمیر‘ کرنل ابو مسلم ترکمانی‘ کرنل ابو ایمن عراقی‘ میجر ابو احمد عولانی اور کیپٹن ابوعبدالرحمن بلاوی صدام فوج کے سابق فوجی تھے۔ انہوں نے ہی متفقہ طور پر تنظیم کے ایک غیر معروف رہنما، ابوبکر البغدادی کو نیا سربراہ بنا دیا۔دراصل انھیں یقین تھا کہ ایک عالم دین کے قائد بننے سے تنظیم کو نئے جنگجو ملنے میں آسانی رہے گی۔ان کا خیال ایسا غلط بھی نہ تھا۔جلد ہی تنظیم کو نئے کارکن مل گئے اور مخالفین پہ حملوں کا نیا سلسلہ جاری ہو گیا۔

1971ء میں جنم لینے والے ابوبکر بغدادی کا تعلق ایک غریب عراقی گھرانے سے تھا۔ انہوں نے ہوش سنبھالا تو ایک مدرسے میں تعلیم پانے لگے ۔کہا جاتا ہے کہ ابوبکر بغدادی نے بغداد کی اسلامی یونیورسٹی سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ واللہ اعلم!جب امریکی عراق پر حملہ آور ہوئے، تو بغدادی ان کے خلاف میدان عمل میں اتر آئے۔ انہوں نے ایک جہادی تنظیم، جماعت جیش اہل سنت و اہل جماعت کے قیام میں حصہ لیا۔ وہ تنظیم کی شرعی کمیٹی کے سربراہ تھے۔ 2006ء میں یہ تنظیم ’’مجاہدین شوری کونسل‘‘ کا حصہ بن گئی۔ ابوبکر بغدادی اس کی شرعی کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ جب انہیں دولت اسلامیہ عراق کا امیر بنایا گیا تو وہ شرعی کمیٹی کے سربراہ بن چکے تھے۔

2010ء میں امریکی و مغربی اس تنظیم کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے تھے۔ عراقی حکومت کا دعوی تھا کہ یہ مجرموںکا گروہ ہے جو امیر عراقیوں کو اغوا برائے تاوان کا نشانہ بناتے، آئل ٹینکر لوٹتے اور کاریں اٹھاتے ہیں۔ انہی سرگرمیوں کے ذریعے تنظیم کو ہر ماہ بیس کروڑ روپے آمدن ہوتی۔ (بیرون ممالک میں جو مخیر سمجھتے کہ دولت عراق اسلامیہ والے جہاد کررہے ہیں، وہ بھی انہیں معقول رقم بطور چندہ دیتے) مذید براں بہت سے مسلمان شدت پسندی کی وجہ سے تنظیم کو ’’خارجی‘‘ قرار دیتے اور اس کے کارندوں کو راہ حق سے ہٹے مسلمان سمجھتے۔ لیکن دولت اسلامیہ عراق کا یہی دعویٰ تھا کہ انہیں اقتدار کی ہوس نہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا نظام کرۂ ارض پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ چناں چہ تنظیم کا میڈیا اس امر کو خوب نمایاں کرتا کہ وہ ایک مقدس مشن کی تکمیل کررہے ہیں۔

ابوبکر بغدادی کو سابقہ فوجی افسروں نے تنظیم کا لیڈر بنوایا تھا۔ اس نے احسان کا بدلہ یوں چکایا کہ بیشتر اہم انتظامی عہدے فوجی افسروں کو سونپ دیئے۔ چناں چہ جنگی آپریشن، افرادی قوت کی فراہمی، اسلحے کی خریداری، مقامی حکومت کے عہدے اور خزانہ کے شعبے ان افسروں کو مل گئے۔ ابوبکر نے ایک ملٹری کونسل بھی تشکیل دی جس کا سربراہ کرنل سمیر مقرر ہوا۔ اس کونسل میں بھی چار سابق فوجی افسر شامل تھے۔یوں تنظیم گوریلوں اور فوجی افسروں کا انوکھا امتزاج بن گئی۔ ان افسروں نے جنگجوؤں کی صفوں میں نظم و ضبط اور اتحاد پیدا کیا۔ انہیں لڑنے کے عسکری آداب و قواعد سکھائے۔ دوسری طرف جنگجو بھی طویل عرصہ امریکیوں اور عراقی فوج سے لڑ کر گوریلا جنگ میں ماہر ہوچکے تھے۔ اب باقاعدہ عسکری تعلیم و تربیت نے انہیں خطرناک لڑاکوں کی صورت ڈھال دیا۔

تاہم دولت اسلامیہ عراق کے جنگجو بدستور گوریلا جنگ ہی لڑتے رہے۔ خودکش حملے اور بم دھماکے اب بھی ان کے بنیادی ہتھیار تھے۔ مگر شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد حالات تیزی سے تبدیل ہوگئے۔ مارچ 2011ء سے خانہ جنگی شروع ہوئی۔ اواخر 2012ء تک شمالی شام میں کئی جنگ جو تنظیموں نے اپنی ا پنی چھوٹی سلطنتیں قائم کرلیں۔شام کے ناگفتہ حالات دیکھ کر دولت اسلامیہ عراق سے منسلک فوجی افسروں کے ذہن میں ایک انوکھے منصوبے نے جنم لیا… یہ کہ شمالی شام پر قبضہ کرکے وہاں مستحکم اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جائے۔ بعدازاں اس ریاست کی فوج عراق پر حملہ کردے۔ یہ منصوبہ اتفاق رائے سے منظور ہوگیا۔

منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر افسروں نے کام آپس میں بانٹ لیے۔ سب سے اہم ذمے داری کرنل سمیر کو سونپی گئی۔ اس نے نئی اسلامی ریاست کا ڈھانچہ تیار اور امیر سے لے کر عام شہری تک ہر کسی کی ذمے داریوں کا تعین کرنا تھا۔اوائل 2013ء سے منصوبے پر عمل شروع ہوا۔ دولت اسلامیہ عراق کے کارکن شمالی شام کے مختلف شہروں اور قصبوں میں اپنے دفاتر کھولنے لگے۔ شامی جنگجو تنظیموں کو ان عراقیوں سے کوئی سروکار نہ تھا، اسی لیے انہیں نے کارکنوں کی سرگرمیوں سے تعرض نہ کیا۔ ان عراقی کارکنوں کا دعویٰ تھا کہ وہ شامی حکومت کے خلاف جہاد میں جہادی شامیوں کا ساتھ دینے آئے ہیں۔

شام میں جمتے قدم
عام لوگوں کا خیال تھا کہ ان عراقیوں کا تعلق کسی سماجی تنظیم سے ہے، چناں چہ انہیں نظر انداز کردیا گیا۔دولت اسلامیہ عراق کے یہ کارکن شہری لباس میں ملبوس ہوتے۔ منصوبے کے مطابق انہیں اسلحہ تھامنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ کارکن پھر خصوصاً شام میں موجودغیر ملکی جنگجوؤں… تیونسی،سعودی،ازبک، چیچن، اردنی اور یورپیوں کو بھرتی کرنے لگے۔ منصوبہ یہ تھا کہ شام میں ایسے غیر ملکی جنگجوؤں کی فوج تیارکی جائے جس کی قیادت عراقی کمانڈر کرسکیں۔

رفتہ رفتہ یہ فوج تیار ہونے لگی۔ دولت اسلامیہ عراق نے شمالی شام کے مختلف شہروں مثلاً رقہ، منجیب، ال باب، الحریب وغیرہ میں فلیٹ و مکان کرائے پر لے لیے۔ وہاں نہ صرف اپنے جنگجوؤں کو ٹھہرایا بلکہ اسلحہ بھی ذخیرہ کرنے لگے۔جب بھی کسی شہر، قصبے یا گاؤں میں تنظیم کے پاس مناسب کارکن جمع ہوتے ،وہ فوراً اس پر قبضہ کرلیتے۔ سڑکوں پر فوجی چوکیاں بن جاتیں اور عمارات پر ان کے سیاہ جھنڈے لہرانے لگتے۔

شروع میں جہاں انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، تو وہ خاموشی سے پسپا ہوجاتے۔ دولت اسلامیہ عراق نے شامی جنگجو تنظیموں کے ساتھ لڑائی سے پرہیز کیا اور چپکے چپکے اپنی طاقت بڑھانے میں لگی رہی۔ تب تنظیم کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ اپنے مخالفین کو اغوا کرتی اور انہیں ٹھکانے لگادیتی۔ پھر شامی تنظیموں سے یہ جھوٹ بولا جاتا کہ اس کا قتل میں کوئی ہاتھ نہیں۔

یہ یاد رہے کہ اواخر 2011ء سے شام میں القاعدہ سے وابستہ ایک جنگجو تنظیم ،جبہتہ النصرہ شامی فوج سے لڑرہی تھی۔ ابو محمد الجولانی اس کا لیڈر تھا۔ دولت اسلامیہ عراق نے القاعدہ کا حصہ ہونے کے باوجود اپنے جنگجوؤں کو جبہتہ النصرہ سے الگ تھلگ رکھا۔ ویسے بھی یہ تنظیم مغربی شام میں مصروف عمل تھی، جبکہ دولت اسلامیہ عراق کی سرگرمیاں شمالی شام تک محدود رہیں۔

شامی جنگجو گروہوں نے شروع میں اس نئی تنظیم کو منہ نہیں لگایا۔ وجہ یہی کہ وہ نیا محاذ نہیں کھولنا چاہتے تھے۔ مزید براںدولت اسلامیہ عراق کا شامی گروپ مختلف ممالک کے جنگجوؤں پر مشتمل تھا۔ انہیں دو ماہ سخت عسکری تربیت دے کر یونٹوں میں تقسیم کردیا جاتا۔شروع میں تو خاصی بدنظمی رہی، مگر رفتہ رفتہ دولت اسلامیہ عراق کا گروہ طاقتور ہونے لگا۔ اس کے سبھی جنگجو مرکزی کمان کے انتہائی وفادار تھے اور حکم پر جان دینے پر آمادہ! دوسری طرف شامی تنظیموں سے وابستہ جنگجو اب صرف اپنے علاقوں کا دفاع کررہے تھے۔ انہیں اپنے اہل خانہ کا بھی خیال رکھنا پڑتا۔

علاوہ ازیں یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ دولت اسلامیہ عراق کے شامی گروہ میں کتنے جنگجو ہیں۔ وہ ہمیشہ سیاہ نقاب اوڑھے رکھتے۔ اس کی وجہ سے وہ نہ صرف خطرناک نظر آتے، بلکہ دوسروں کے لیے یہ جاننا مسئلہ بن جاتا کہ ان کی صحیح تعداد کیا ہے۔ یوں ایک چھوٹی سی چال چل کر دولت اسلامیہ عراق نے خود کو شام میں اہم عسکری قوت کی حیثیت سے منوالیا۔

2013ء کے موسم بہار سے تنظیم کے جنگ جو شامی شہروں پر حملے کرنے لگے۔ مارچ میں انہوں نے شام کے چھٹے بڑے شہر، رقّہ پر قبضہ کرلیا۔ جلد ہی شامی صوبوں، دیرالزور، الرقہ، حمص، حما، حلب اور ادلیب کے کئی شہروں اور قصبوں پر دولت اسلامیہ عراق کے جنگ جوؤں نے قبضہ کرلیا۔ یوں تنظیم سے منسلک سابق فوجی افسروں نے جو منصوبہ بنایا تھا، وہ بڑی حد تک کامیاب ہوگیا۔8 اپریل 2013ء کو ابوبکر البغدادی نے نئی ریاست’’ دولت اسلامیہ فی عراق و شام‘‘ یا ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ کے قیام کا اعلان کیا۔ درج بالا عربی الفاظ کا مخفف ’’داعش‘‘ کہلاتا ہے۔ بغدادی نے جبہتہ النصرہ کو بھی اپنے لشکر میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔

مگر دوسرے ہی دن جبہتہ النصرہ کے لیڈر، الجولانی نے بیان دیا کہ شام میں القاعدہ کی اصل شاخ انہی کی جماعت ہے۔ یوں دونوں لیڈروں کے مابین اختلافات نے جنم لیا۔ القاعدہ لیڈر، ایمن الظواہری نے ابو بکر البغدادی کو حکم دیا کہ وہ شام کے معاملات میں دخل نہ دیں، مگر انہوں نے انکار کردیا۔ آٹھ ماہ تک گفت و شنید جاری رہی۔ جب اختلافات نہ سلجھ سکے، تو فروری 2014ء میں القاعدہ نے داعش سے ناتا توڑ لیا۔ یوں یہ عراق کی ایک الگ تھلگ جنگجو تنظیم بن گئی۔

اس دوران جبہتہ النصرہ کے کئی جنگ جو داعش میں شامل ہوگئے جس سے تنظیم کو تقویت پہنچی۔ اُدھر عراق میں ایک عجوبہ اسے مضبوط کرنے کا باعث بن گیا۔ جب امریکی عراق پر قابض ہوئے، تو وہ انگریزوں کی طرح ’’لڑاؤ اور خود حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگئے۔ انہوں نے حکومت میں شیعہ رہنماؤں کو زیادہ عہدے دیئے۔ حتیٰ کہ آنے والے انتخابات کے ذریعے بھی شیعہ وزیراعظم ہی حکومت سنبھالتے رہے۔ سنی قبائل کادعویٰ ہے کہ ان حکومتوں نے سنیوں کے علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں کرائے اور نہ ہی انہیں تعلیم، روزگار اور صحت کی سہولتیں دیں۔ غرض مغربی عراق میں آباد سنیوں میں نفرت و انتقام کے جذبات پلنے لگے۔

سنی عراقی جنگجو تنظیموں نے انہی جذبات سے فائدہ اٹھایا اور نوجوان عراقیوں کو اپنی صفوں میں لاتی رہیں۔ جب داعش نے شام میں قدم جمالیے تو منصوبے کا اگلا مرحلہ شروع ہوا۔اب تنظیم مغربی اور شمالی عراق کے سنی علاقوں میں قدم جمانا چاہتی تھی۔داعش کے لیڈر اب سنی قبائل کے سرداروں سے رابطہ کرنے لگے۔ یہ سردار شام میں داعش کی کامیابیوں سے بہت متاثر تھے۔ انہیں یقین ہوگیا کہ یہی تنظیم سنیوں کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ لہٰذا ’’ڈائمنو اثر‘‘ کی طرح تمام سنی قبائل ایک ایک کرکے داعش کی جھولی میں جاگرے۔ ان کی شمولیت سے تنظیم کی طاقت کئی گنا بڑھ گئی۔

جنوری 2014ء میں داعش کے جنگجو عراقی شہروں پرحملہ کرنے لگے۔ مقامی قبائل کے تعاون سے انہوں نے بہت جلد عراقی فوج کو شکست دی اور شہروں و قصبوں پر قابض ہوتے چلے گئے۔ اب تک وہ عراقی صوبوں… نینوا، انبار اور صلاح الدین کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرچکے۔ان کامیابیوں کے بعد 29 جون 2014ء کو ابوبکر بغدادی نے ’’اسلامی ریاست‘‘ اور اپنی خلافت کے قیام کا اعلان کردیا۔موصوف پورے عالم اسلام کا خلیفہ بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

گو انھیں لیبیا، مصر، سعودی عرب، یمن، الجزائر، افغانستان، پاکستان اورکوہ قاف میں بعض اسلامی تنظیموں کی حمایت حاصل ہوچکی، مگر مغربی ممالک کے علاوہ کئی اسلامی ممالک مثلاً سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا، مصر، یو اے ای وغیرہ اسے غیر قانونی اور داعش تنظیم کو دہشت گرد قرار دے چکے۔افغان طالبان کی طرح داعش نے بھی بہ سرعت کامیابیاں پائیں اور شام و عراق کے وسیع علاقے پر قبضہ جمالیا۔ مگر ان دونوں کے مابین ایک بڑا فرق ہے۔

ملا عمر کی قیادت میں طالبان نے منتشر افغانوں کو متحد کردیا تھا۔ اگر وہ شمالی اتحاد کے ساتھ بھی مفاہمت کرلیتے، تو ان کا جہاد مثالی اور تاریخی قرار پاتا۔لیکن داعش نے مشرق وسطیٰ میں جاری خانہ جنگی کی آگ کو ہوا دی اور فرقہ ورانہ اختلافات کے نئے بیج بودیئے۔ داعش کے لیڈر افہام و تفہیم سے مسائل حل کرنے کے بجائے عموماً گولی اور تشدد کی بولی بولتے ہیں۔ افغان طالبان اور داعش میں یہی بنیادی فرق ہے کہ اول الذکر کے حقیقی جہاد سے ملک میں امن و امان اور انصاف کا دور دورہ ہوا، جبکہ داعش کے جہاد سے اپنے پرائے، سبھی نالاںہیں۔

جس نے آئی ایس آئی ایس کا ڈھانچہ بنایا
داعش کی بنیاد ابو معصب زرقاوی نے رکھی تھی۔ 2003ء تا 2010ء صدام حسین کی فوج کے سابق فوجی افسر بھی بڑی تعداد میں اس کا حصہ بنے۔ جب شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی، تو وہ داعش کے اہم عہدوں پر قبضہ جماچکے تھے۔ انہی فوجی افسروں نے نہ صرف داعش کے جوشیلے جنگ جوؤں کو نظم و ضبط اور ڈسپلن سکھا کر منظم کیا بلکہ جنگی چالیں چل کے اسلامی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کردی۔انہی کی وجہ سے القاعدہ کو بھی داعش سے ناتا توڑنا پڑا کیونکہ افسروں نے ایمن الظواہری کو اپنا لیڈر ماننے سے انکار کر دیا۔

شام کے سنی علاقوں پر قبضہ جمانے کے منصوبے کو عملی شکل دینے کی خاطر اواخر 2012ء میں کرنل سمیر المعروف حاجی بکر تل رفعت پہنچا۔ وہاں اس نے ساتھیوں کی مدد سے اسلامی ریاست کے قیام کا پورا تنظیمی ڈھانچہ ترتیب دیا۔اس ڈھانچے میں امیرِ ریاست سے لے کر عام کارکن تک، سبھی کے حقوق و فرائض متعین کیے گئے۔ یوں مجوزہ مملکت میں ’’چین آف کمانڈ‘‘ وجود میں آگئی۔یہ ممکن ہے کہ اس سوشلسٹ فوجی افسر نے دانستہ داعش میں شدت پسند نظریات متعارف کرائے تاکہ اسلام بدنام ہو سکے۔

منصوبے کے پہلے مرحلے میں شامی شہروں میں داعش نے ’’مراکز دعوت و تبلیغ‘‘ کھول دیئے۔ ان مراکز میں نوجوانوں کو اسلامی زندگی کے بارے میں لیکچر دیئے جاتے۔ جو نوجوان باقاعدگی سے لیکچروں میں آتے اور جوش و خروش دکھاتے، تنظیم انہیں بطور کارکن بھرتی کرلیتی۔

یہ کارکن پھر داعش کے جاسوس بن جاتے۔ وہ تنظیم کو اپنے علاقے اور وہاں مقیم ہر شخص کے بارے میں معلومات دیتے۔ مثلاً یہ کہ علاقے میں امیر و بااثر خاندان کون سے ہیں، ان کی آمدن کے کیا ذرائع ہیں، ان کے دشمن کون ہیں اور دوست کون۔ یوں ان جاسوسوں کی مدد سے داعش کو ایک ایک شہری علاقے، قصبے یا گاؤں کی بنیادی معلومات حاصل ہوگئیں۔

داعش پھر آہستہ آہستہ ہم خیال شامی خاندانوں کو اپنے ساتھ ملانے لگی۔ اسے ہر علاقے میں طاقتور ساتھی مل گئے جو اس کا ساتھ دینے کو تیار تھے۔ ان کی مدد سے داعش کا شام میں پھیلاؤ شروع ہوا اور آخر وہ جنگجوؤں کی سب سے بڑی تنظیم بن گئی۔جب 2014ء میں حاجی بکر قتل ہوا، تو داعش کی مجوزہ اسلامی ریاست کا تنظیمی ڈھانچا تشکیل پاچکا تھا۔ اسی لیے ماسٹر مائنڈ کی موت سے زیادہ فرق نہیں پڑا اور منصوبے پر عملدرآمد جاری رہا۔

ریاست کے قوانین
داعش کے رہنما عالم اسلام میں خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اس دعویٰ سے خصوصاً بہت سے نوجوان برطانوی و فرانسیسی نژاد لڑکے لڑکیاں بھی متاثر ہوئے اور اسلامی ریاست میں جاپہنچے۔ مگر لیڈرانِ داعش کے اعمال سے لگتا ہے کہ وہ دعوت و تبلیغ کے بجائے تلوار کی مدد سے اشاعت اسلام چاہتے ہیں۔

حقیقتاً ان کے بہت سے عمل روایتی اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں۔

مثال کے طور پر قرآن و سنت میں غیر مسلم قیدیوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر داعش نے مسلمان قیدیوں کے ساتھ بھی لرزہ خیز اور خوفناک سلوک کیا۔ پھر انہوں نے اپنے علاقوں میں اقلیتوں پر جو ظلم ڈھائے، وہ بھی ڈھکے چھپے نہیں۔داعش والے عسکری کامیابی کی خاطر جھوٹ بولنے، دھوکا دینے اور عیاری اپنانے کو جائز سمجھتے ہیں۔ یہ بھی اسلامی جنگی اصولوں کے خلاف طریق کار ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ داعش کی سرگرمیوں اور کارروائیوں نے دنیا بھر میں یہ تاثر ابھارنے کی کوشش کی کہ اسلام متشددانہ اور شدت پسند مذہب ہے۔ اسی لیے بہت سے مسلمان داعش کے لیڈروں کو اسرائیل اور امریکا کا ایجنٹ کہتے ہیں۔ بنظر غائر دیکھا جائے، تو اس الزام میں کچھ وزن تو نظر آتا ہے۔مثال کے طور پر پہلے شام اسرائیل کے لیے بڑا خطرہ تھا۔ مگر داعش نے شام میں خانہ جنگی کا الاؤ مزید بھڑکا دیا اور اب یہ اسلامی ملک پہلے کی طرح طاقتور نہیں رہا۔ اسی طرح پہلے عراق بھی اسرائیل کا طاقتور مخالف تھا۔ لیکن امریکا اور اسرائیل نے حملہ کرکے اسے بھی ختم کر ڈالا۔

ایک حیرت انگیز بات یہ کہ داعش کے جنگجو چند توپوں اور ٹینکوں کے علاوہ بنیادی طور پہ چھوٹا اسلحہ ہی رکھتے ہیں۔ لیکن سپرپاور امریکا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔

حالانکہ پہلی اور دوسری خلیجی جنگ اور افغان جنگ میں امریکیوں نے فضائی بمباری کے ذریعے ہی فتح پائی تھی۔ امریکی فضائی بم باری نے عراقی و طالبان فوج کے اسلحے کے ڈپو اور عسکری تنصیبات تباہ کر ڈالی تھیں۔ امریکا اور اتحادی ممالک اب بھی داعش کے ٹھکانوں پر طویل عرصے سے بمباری کررہے ہیں، مگر تنظیم کو خاص نقصان نہیں پہنچا۔ یہ امر دال میں کچھ کالا ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔

عراق کے سنی علاقوں میں داعش خاصی مقبول ہے اور وہاں اُسے ہزارہا جنگ جو میسر ہیں۔ مگر عراقی افواج چاہیں، تو اپنے جدید ترین اسلحے کے بل بوتے پر وہاں آسانی سے قبضہ کرسکتی ہیں۔ مگر اپنی حکومت کے احکامات پر عراقی افواج محض دفاع کررہی ہیں۔ یہ حکمت عملی واضح کرتی ہے کہ شاید عراق کو تین (شیعہ، سنی اور کرد) ریاستوں میں تقسیم کرنے کا خفیہ منصوبہ تشکیل پاچکا۔
 
Top