• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عربوں کے بغیر جزیرہ نما عرب!

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
عربوں کے بغیر جزیرہ نما عرب!
پیر 2 نومبر 2015م
کالم: عبدالرحمان الراشد

حالیہ سائنسی مطالعات کے مطابق آئیندہ ساٹھ سال کے دوران ہمارے خطے میں درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کا تناسب 70 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا اور جزیرہ نما عرب میں رہنا ناممکن ہوجائے گا۔


درحقیقت تیل کے ذخائر کی موجودگی اور ائیرکنڈیشننگ ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ آج دنیا دو ہزار سال قبل سے یکسر مختلف ہو چکی ہے۔ تیل کی دریافت سے قبل جزیرہ نما عرب میں زرعی ماحول کی وجہ سے زندگی بالکل نہیں تھی۔ قحط سالی سے بچنے کے لیے لوگ شام اور مشرقی افریقا کی جانب مسلسل نقل مکانی کے عادی تھے۔ وہ سخت جان جنگجو کے طور پر مشہور تھے، وہ غیرملکیوں کی جارحیتوں کے باوجود زندہ رہنے کے فن سے آشنا تھے۔ وہ شمالی یورپ سے آنے والے ٹڈی دل لشکروں، وسط ایشیا سے آنے والے منگولوں اور آج کے القاعدہ کے جنگجوؤں کے مقابلے میں بھی زندہ رہے تھے اور ہیں۔

جزیرہ نما عرب کے قبائل اسلام سے قبل اور اس کے مابعد ''جنگجو قبائل'' کی شہرت کے ساتھ سیکڑوں سال تک ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے تھے۔ وہ اس طرح یورپ اور مشرقی ایشیا تک پہنچ گئے تھے۔ عرب ظہور اسلام کے بعد بھی جزیرہ نما عرب میں ٹِک کے نہیں بیٹھے تھے۔ بنوامیہ اور خلافت عثمانیہ کے دور میں کوئی بھی خلیفہ جزیرہ نما عرب میں نہیں رہا تھا۔ وہ سب جزیرہ نما عرب کو چھوڑ کر بغداد ، دمشق ، قاہرہ ، غرناطہ اور استنبول کی جانب منتقل ہو گئے اور تیرہ سو سال تک حکمرانی کرتے رہے تھے۔

اس صحرا میں آج بھی زندگی بہت کٹھن ہے اور جزیرہ نما عرب کے بعض علاقوں میں قریب قریب ناممکن ہے جیسا کہ الربع الخالی کا ریگستانی صحرا ہے۔ یہ دنیا میں ریت کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ اس کے بیشتر حصے آج بھی بے آباد ہیں۔ البتہ چند ایک حصوں میں خانہ بدوش رہ رہے ہیں اور دوسرے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تیل کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔

سخت منظرنامہ

سعودی دارالحکومت الریاض میں مکینوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس وقت الریاض کی آبادی ساٹھ لاکھ نفوس تک پہنچ چکی ہے اور ایک تخمینے کے مطابق صرف پچاس سال میں ایک کروڑ دس لاکھ تک پہنچ جائے گی حالانکہ یہ شہر پانی کے کم ہوتے اپنے وسائل کے پیش نظر مزید دس لاکھ نفوس کا بوجھ سہارنے کی سکت بھی نہیں رکھتا ہے۔


الریاض کے مکینوں کو دستیاب ہونے والے مصفیٰ سمندری پانی کے کل مصارف کا صرف پانچ فی صد ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ باقی پچانوے فی صد اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے۔

ماہرین کے نزدیک تیل کی پیدوار سے حاصل ہونے والی آمدن کے بغیر الریاض اور باقی خطہ درجہ حرارت بڑھنے کی صورت میں مہنگے پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے مصارف برداشت نہیں کر سکے گا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت بڑھتا ہی چلا جائے گا اور اس صدی کے آخر تک بالکل ناقابل برداشت ہو جائے گا۔

گرم اور خشک درجہ حرارت کے حامل ان شہروں میں آبادی میں اضافے سے ان کے قدرتی وسائل بھی کم پڑجائیں گے۔ یہ تو دراصل پوری دنیا کا ایک عمومی مسئلہ ہے کہ آبادی کے مقابلے میں قدرتی وسائل کم پڑ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر لاس ویگاس ، فونیکس ، سان ڈیاگو اور لاس اینجلس کو کولوراڈو دریا سے پینے کا پانی مہیا کیا جاتا ہے اور ایسا سات امریکی ریاستوں کے درمیان طے شدہ ایک سمجھوتے کےتحت کیا جا رہا ہے۔

لیکن جزیرہ نما عرب کی آبادی کے لیے صورت حال ہرسال درجہ حرارت میں اضافے اور ریت کے طوفانوں کی شدت کی وجہ سے بہت ہی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسپتالوں کے ایمرجنسی کمرے دمے اور سانس کی دوسری بیماریوں کا شکار ہونے والے مریضوں سے اٹے پڑے ہیں۔ یہ لوگ فارمیسیوں اور دواخانوں کے رحم وکرم پر ہیں جو سانس میں معاونت کے لیے استعمال ہونے والے آلات اور ادویہ کو مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔

اس صحرا کے مکینوں کے لیے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بحر منجمد شمالی اور قدیم دور میں رہنے والے عربوں نے اپنے مسائل کا حل تلاش کیا تھا۔

میں اس وقت ابوظبی کے آیندہ منصوبے مصدر شہر کی خبر کو ملاحظہ کر رہا ہوں۔ اس شہر کی توانائی کی ضروریات کو شمسی اور قابل تجدید توانائی کے دوسرے ذرائع سے پورا کیا جائے گا۔اس شہر کو بسانے کے پیچھے یہ نظریہ کارفرما ہے کہ اس کو کاربن ڈائی آکسائیڈ ، کاروں یا فضائی فضلات سے بالکل پاک تعمیر کیا جائے کیونکہ یہی چیزیں خطے میں درجہ حرارت میں اضافے کا سبب ہیں۔

مجھے ان سائنسی اور کمپنیوں کی خبروں میں دلچسپی ہے جو پانی اورآب پاشی کے مسائل کے حل کی تلاش میں ہیں اور جو اس بات کی خواہاں ہیں کہ پانی کی کم مقدار سے زراعت کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

سائنس دان یہ توقع کر رہے ہیں کہ ساٹھ سال کے بعد درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کا تناسب ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گا لیکن ہم پہلے ہی یہ بات جانتے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ پانی کی بہم رسانی میں کمی کے ساتھ ہی زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

اب ہمارے پاس سائنسی تحقیق اور مقامی ماحول کے مطالعے پر توجہ مرکوز کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔ کیلی فورنیا میں جامعات اپنے طلبہ کو یہ تعلیم دے رہی ہیں کہ عربوں کے قدیم تعمیراتی نظام کے تحت گرم پانیوں والے شہروں کو کیسے ڈیزائن کیا جا سکتا ہے جہاں شاہراہیں اور گلیاں تنگ ہوں اور روزمرہ زندگی میں کم سے کم کاروں کی موجودگی درکار ہو۔ شاید ایک دن ہمارے خطے کی جامعات بھی مسائل کے ایسے حل تلاش کرنے کا فیصلہ کر لیں جو ہمارے لیے نہایت مناسب ہوں۔
ح
------------------------------------
(عبدالرحمان الراشد العربیہ نیوز چینل کے سابق جنرل مینجر ہیں۔ان کے نقطہ نظر سے العربیہ ڈاٹ نیٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں)
 
Top