• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عربی سے اردو ترجمہ کر دیں

حمزہ

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2014
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
28
اسلام علیکم
تفسیر رازی کا اردو ترجمہ باوجود کئی گھنٹے کی انٹرنیٹ گردی کے نہیں مل سکا، تفسیر رازی کے ایک پیراگراف کا اردو ترجمہ کر دیں۔
أما قوله تعالى : ( وورث سليمان داود ) فقد اختلفوا فيه ، فقال الحسن : المال ؛ لأن النبوة عطية مبتدأة ولا تورث ، وقال غيره : بل النبوة ، وقال آخرون : بل الملك والسياسة ، ولو تأمل الحسن لعلم أن المال إذا ورثه الولد فهو أيضا عطية مبتدأة من الله تعالى ، ولذلك يرث الولد إذا كان مؤمنا ولا يرث إذا كان كافرا أو قاتلا ، لكن الله تعالى جعل سبب الإرث فيمن يرث الموت على شرائط ، وليس كذلك النبوة لأن الموت لا يكون سببا لنبوة الولد فمن هذا الوجه يفترقان ، وذلك لا يمنع من أن يوصف بأنه ورث النبوة لما قام به عند موته ، كما يرث الولد المال إذا قام به عند موته ؛ ومما يبين ما قلناه أنه تعالى لو فصل فقال : وورث سليمان داود ماله لم يكن لقوله : ( وقال ياأيها الناس علمنا منطق الطير ) معنى ، وإذا قلنا وورث مقامه من النبوة والملك حسن ذلك لأن تعليم منطق الطير يكون داخلا في جملة ما ورثه ، وكذلك قوله تعالى : ( وأوتينا من كل شيء ) لأن وارث الملك يجمع ذلك ووارث المال لا يجمعه وقوله : ( إن هذا لهو الفضل المبين ) لا يليق أيضا إلا بما ذكرنا دون المال الذي قد يحصل للكامل والناقص ، وما ذكره الله تعالى من جنود سليمان بعده لا يليق إلا بما ذكرناه ، فبطل بما ذكرنا قول من زعم أنه لم يرث إلا المال ، فأما إذا قيل : ورث المال والملك معا فهذا لا يبطل بالوجوه التي ذكرناها ، بل بظاهر قوله عليه السلام : " نحن معاشر الأنبياء لا نورث''
جزاک اللہ
 
Last edited:

حمزہ

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2014
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
28
بھائی اس لنک پر جا کر خود ترجمہ کرلیں۔یہ گوگل ترجمہ کی سائٹ ہے۔
ترجمہ کریں
جواب کے لیے شکریہ۔
ان ٹرانسلیٹرز کا ترجمہ بہت ہی خراب ہوتا ہے اور سمجھ سے ہی باہر ہوتا ہے۔ میں نے اس تحریر کا ترجمہ حاصل کر لیا تھا۔ میں لکھ دیتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان "وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ" "اور داود کے وارث سلیمان ہوئے" اس کی تفسیر میں اختلاف ہے، حسن بصری فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مال ہے کیونکہ نبوت محض عطائی ہوتی ہے وراثت میں نہیں ملتی، اوروں نے کہا بلکہ اس سے مراد نبوت ہے بعض نے کہا اس سے مراد حکومت اور سیاست ہے، حسن بصری غور فرماتے تو جان لیتے کہ اگر اولاد مال کی وارث بنتی ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہوتی ہے اسی لیے اولاد اگر مسلمان ہو تو وارث بنتی ہے، کافر یا قاتل ہو تو وارث نہیں بنتی، مگر اللہ تعالیٰ نے موت کے سبب وارث بننے کو کچھ باتوں سے مشروط کر دیا جبکہ نبوت کا معاملہ ایسا نہیں کیونکہ موت اولاد کی نبوت کا سبب نہیں بنتی اس لحاظ سے دونوں میں فرق ہوا، مگر جب بیٹا والد کی موت کے بعد اس کے قائم مقام ہو تو پھر یہ کہنے مین کوئی ممانعت نہیں کہ وہ نبوت کا وارث بنا جیسا کہ اولاد مال کی وارث بنتی ہے جب وہ موت کے وقت اس کی ذمہ دار بنتی ہے۔ ہمارے دعوے کی مزید وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے "وورث سليمان داود ماله" کہ "سلیمان مال میں داود کے وارث بنے" تو پھر یہ بات بے معنی ہوتی کہ "وَقَالَ يَاأَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ" " اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے" مگر اگر یہ کہا جائے کہ مقامِ نبوت اور حکومت مین وارث بنے تو یہ مناسب معنی ہوتا کیونکہ پرندوں کی بولی سیکھنا بھی اس میں شامل ہوتا جو ان کو وراثت میں ملا، اسی کے مثل اللہ کا فرمان "وَأُوتِينَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ" "اور ہمیں ہر چیز عطا فرمائی گئی ہے" ہے۔ کیونکہ وارثِ حکومت کو یہ سب کچھ حاصل ہے جبکہ وارثِ مال کو نہیں اور اللہ کا فرمان "إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ" "بلاشبہ یہ کھلا ہوا فضل ہے۔" بھی اسی کے مناسب ہے جو ہم نے بیان کیا نہ کہ مال جو کسی بھی کامل یا ناقص کو حاصل ہو سکتا ہے، پس اس توضیح سے محض وراثتِ مال کے دعویدار کا قول باطل ثابت ہوا، ہاں اگر یہ کہا جائے کہ مال وسلطنت دونوں کے وارث بنے تو یہ ان وجوہات کی بنا پر تو باطل نہ ہوگا جو ہم نے بیان کیں مگر یہ حدیث "ہم انبیاء کی جماعت کا کوئی وارث نہیں ہوتا" کے ظاہری مفہوم کی بنا پر باطل ہے۔
یہ قول "مگر جب بیٹا والد کی موت کے بعد اس کے قائم مقام ہو تو پھر یہ کہنے مین کوئی ممانعت نہیں کہ وہ نبوت کا وارث بنا جیسا کہ اولاد مال کی وارث بنتی ہے جب وہ موت کے وقت اس کی ذمہ دار بنتی ہے"
اسی لیے بعض تراجم میں ورث کا معنی قائم مقام بنے ہے، علامہ رازی کی مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے ہو کہ بیٹا نبوت اور سلطنت میں والد کا قائم مقام بنے گا تو پھر اس طرح کہنے مین کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کا وارث بنا جیسا کہ اولاد والد کی موت کے بعد مال میں اس کے قائم مقام ہوتی ہے۔ جیسا کہ سورہ مریم کی آیت "يرثني ويرث من آل يعقوب" کی تفسیر میں علامہ رازی نے زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا۔
 
Top