الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
خدام پر لکھنے سے پہلے کچھ ایسی باتوں کا ذکر ہو جائے جس سے گلف پر ہر موضوع کو سمجھنا آساں ہو جائے گا۔
عریبین گلف میں داخلہ پر دو وزارتوں کا کردار بہت اہم ھے ایک "وزارۃ العمل" اور دوسری "الجوازات الجنسية الھجرہ، الاقامہ (وزارۃ داخلیہ)"
وزارۃ العمل: دکان، کمپنی، انڈسٹری، ہر قسم کا ذاتی و شراکتی کاروبار پر جتنی بھی غیر ممالک ورکرز کی ضرورت ہوتی ھے اس پر سب سے پہلے وزارۃ العمل سے اجازت حاصل کرنی پڑتی ھے، پھر اس اجازت نامہ کی کاپی سے الجوازات سے ویزہ حاصل ہوتا ھے۔ ورکرز اس ملک میں پہنچنے کے بعد اس کا بطاقہ وزارۃ العمل جاری کرتا ھے۔
الجوازات الجنسية الھجرہ، الاقامہ (وزارۃ داخلیہ): حکومۃ و نیم حکومۃ اداروں میں ورکز کے ویزہ حاصل کرنے کا تعلق ڈائریکٹ الجوازات الجنسية الھجرہ، الاقامہ (وزارۃ داخلیہ) سے ہوتا ھے، ان کا وزارۃ العمل سے کوئی کنکشن نہیں، اسے حکومی ویزہ کہتے ہیں۔ اور جو بھی حکومتی ادارہ ھے وہ اپنا بطاقہ جاری کرتا ھے۔
عرب نیشنل (مواطن) جو شادی شدہ ہو اس کو اپنے گھر کے لئے 4 مختلف اقسام میں ملازموں کی ضرورت ہوتی ھے ڈرائیور، مالی، خادمہ، خاتون خانساماں یہ 4 کیٹگری میں ویزہ حاصل کرنے کے مجاز ہیں۔
کچھ تو اپنے گھر میں چاروں کیٹگری کو اپنی ضرورت کے لئے رکھتے ہیں اور کچھ ڈرائیور اور خادمہ کم خانساماں۔ اس کا تعین گھر کے افراد سے منحصر ھے، جیسے چھوٹا گھرانہ اور بڑا گھرانہ۔
عرب نیشنل کے گھر میں کام کرنے والے ورکرز کا ویزہ بھی حکومی ویزہ ہوتا ھے۔ اس کا ویزہ اور بطاقہ دونوں "الجوازات الجنسية الھجرہ، الاقامہ (وزارۃ داخلیہ)" جاری کرتا ھے۔
کسی بھی نئے ویزہ پر اس پراسیس کو مکمل ہونے تک کم از کم ڈھائی ہزار ریال تک خرچہ آتا ھے، اس وقت ہو سکتا ھے زیادہ ہو گیا ھے۔
جب کسی ملازم یا ملازمہ کا ریلیز کیا جائے یا کسی وجہ سے ویزہ کینسل کیا جائے تو اسے 6 مہینے تک اس کیٹگری میں ویزہ نہیں مل سکتا۔
وقت ملنے تک جاری ھے اس لئے گزارش ھے کہ ختم ہونے تک کوئی مراسلہ نہ لگایا جائے شکریہ!
جو مواطن ہر روز بیوٹی پارلر سے اپنی سجی سنوری بیوی سے راضی نہیں اس کے لئے خادمہ ہی رہ گئی ھے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ھے کہ ایک چھوٹی فیملی کے پاس ایک ڈرائیور اور ایک خادمہ ضروری ھے اور اگر بڑی فیملی ھے تو پھر خانساماں اور مزید پر مالی۔
عرب ممالک میں خادمہ جن بھی ممالک سے اس جاب کے لئے آتی ہیں ان کی ریکروٹمنٹ انہی کے ممالک سے لائسنسیز ریکروٹنگ ایجنسیوں سے ہوتی ھے۔ جس پر ایک بھاری رقم یہ ایجنٹ ان سے ہتھیاتے ہیں۔
خادمہ میں اکثریت طلاق یافتہ کی ہوتی ھے اور کچھ بہت تعلیم یافتہ ہوتی ہیں جن کو وہاں جانے کے لئے ایک محفوظ راستہ چاہے ہوتا ھے کہ وہاں جا کر بعد میں کوئی آفس جائن کر لیں گی، مگر وہ اس سے باخبر ہوتی ہیں کہ ایسا ہوتا نہیں کیونکہ ریکروٹنگ ایجنسیوں سے حاصل کئے گئے ویزوں پر نقل کفالہ نہیں ہوتا۔ کچھ اس خیال میں ہوتی ہیں کہ وہاں شادی سے خود میں تبدیلی لا سکیں گی، مگر اس پر اگر وہ کامیاب ہو بھی جائیں تو وہ شادی وقتی ہوتی ھے۔
ڈرائیور اور خادمہ ان کو عرب نیشنل کے ہاں رہائش اور کھانا ملتا ھے دونوں وہاں کسی کو باہر نہیں مل سکتے، ہاں ڈرائیور کو دو ہفتہ یا ایک مہینہ بعد اجازت مل جاتی ھے کہ اپنے کسی عزیز کو کچھ وقت کے لئے مل سکتے ہیں۔ جس طرح خادمہ سے عرب نیشنل پر کہانیاں بنی ہوئی ہیں اسطرح ڈرائیور بھی اپنے ملنے والوں میں ان کی عورتوں پر کہانیاں بنا کر اپنے ملنے والے دوستوں کو سناتے ہیں، مگر حقیقت کچھ اور ھے۔
بے شمار خادمہ و خانساماں وہاں کام کر رہی ہیں مگر ایسا کچھ نہیں جیسا پیش کیا جاتا ھے، ہاں کچھ خادمہ جن کا کریکٹر لوز ہوتا ھے وہ جب پکڑی جاتی ہیں تو انہیں اور جن کے ساتھ ان کا تعلق ہوتا ھے انہیں ان کے کفیل ڈپورٹ کروا دیتے ہیں اور کچھ پیشہ ور لڑکوں کو بےوقوف بنا کر ان کو بلیک میل کر کے پیسے ہتھیاتی رہتی ہیں۔ کچھ ان لڑکوں کو یہ کہہ کے کہ مجھے کچھ ہو گیا ھے اور میں نے اپنے ملک جا کر اسے ختم کرنا ھے اور مجھے 2، 3 ہزار دو میری مالکن کو مجھ پر شک ہو گیا ھے اگر اسے کنفرم ہو گیا تو وہ مجھے اور تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے، کچھ لڑکے دوائی حاصل کرنے پر مجھ جیسوں کے پاس بھی پہنچ جاتے ہیں کہ فیملی والا ھے دوائی دلوا دے گا مگر ہونے کے بعد والی دوائی نہیں ملتی اسطرح ایک دن وہ کسی طرح پکڑی ہی جاتی ہیں۔ ان کا طریقہ واردات کچھ اسطرح ہوتا ھے کہ یہ بقالہ، نائی، کارپنٹر، ایلو مینیم، شاپس پر کام کرنے والے ورکرز کو اپنے جال میں پھانستی ہیں۔ جب یہ نئی آتی ہیں تو جب باہر گھر کا سامان لینے جاتی ہیں تو وہاں کسی بھی کھڑے ہوئے لڑکوں کو اپنا دکھ سناتی ہیں اسی طرح سلسلہ آگے بڑھتا ھے اور ایسی خادمائیں چند مہینوں تک ہی وہاں نکالتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ ایک سال کیونکہ ان کی گیم زیادہ دیر تک نہیں چلتی کفیل مالک یا اس کی بیوی کو ان کی حرکتوں سے یا جب کچھ ہو جائے تو انہیں علم ہو ہی جاتا ھے اور پھر وہ انہیں اسی کے ساتھ ڈپورٹ کروا دیتے ہیں۔
ایسے کچھ واقعات
ایک کارپنٹر نے اپنے بیٹے کو بلایا چند ہی مہینوں بعد اس کا ایک خادمہ سے تعلق بنا اسے قریبی دوست سمجھاتے رہے، کچھ عرصہ بعد خادمہ نے اسے کہا کہ کچھ ہوا ھے اس لئے وہ اپنے ملک جا کر اس مسئلہ کو حل کر کے آئے گی جس پر مجھے ٹکٹ کے پیسے چاہئیں ورنہ اربابنی کو اس پر علم ہو گیا تو میں تو پکڑی جاؤں گی میرے ساتھ تم بھی نقصان میں رہو گے، لڑکا اس بات پر پسیرئس نہیں تھا، وقت زیادہ قریب ہونے پر پھر ایک دن خادمہ کی غلطی ظاہر ہو گئی جس پر خادمہ اور اس لڑکے کو پکڑوا کر خارج الدولۃ کر دیا گیا۔
ایک فوٹر گرافر نے مجھے کہا کہ اسے اپنے کسی دوست کے لئے خادمہ سے ناجائز تعلق پر اس مسئلہ کو ختم کرنے پر میڈیسن چاہئیں کہ وہ فیملی والوں کو مل جاتی ہیں، میں نے اسے کہا کہ ابتدائی مراحل پر میڈیسن ملتی ھے ختم کرنے پر نہیں، بعد میں علم ہوا کہ دونوں ڈپورٹ۔
ایک ایلومنیم دکان کا پارٹنر خادمہ سے تعلق پھر اپنی اہلیہ کا ویزہ نکلوا کے اسے وہاں بلایا، خادمہ سے تعلق ختم اور پیسے بھی بند، اس نے اس کی بیوی کو بتا دیا، ایک دھمال ہوا پھر ارباب کو علم ہوا اسی رات اچانک ایلومینیم پارٹنر اپنی بھرا ہوا کاروبار چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے ملک بھاگ گئے پھر دوبارہ وہاں کہیں نہیں دیکھے گئے۔
فائن آرٹ پر ایک لڑکا سائن بورڈ میکر تھا، خادمہ سے تعلق، خادمہ دن سن بعد ملک چھوڑ کے جا رہی تھی اس کے پاس آئی اور ایک سونے کا لاکٹ جس کی قیمت 800 تھی اس رقم کی ڈیمانڈ کی، لڑکے کو علم ہوا کہ یہ تو اب ملک چھوڑ کر جا رہی ھے پیسے دینے سے انکار کیا، وہ خادمہ نے پولیس میں رپورٹ کی کی فلاں لڑکے نے راستہ میں میرا بیگ چھین کر 800 درھم نکال لئے ہیں، پولیس اس دکان پر آئی اس لڑکے کو ہتھکڑیاں لگائیں، فائن آرٹ کا مالک شیشے سے دیکھ رہا تھا اس نے پولیس کو اندر بلوایا وجہ پوچھی اور 800 درھم کا چیک خادمہ کو دے دیا، اور شرطوں کو کہا کہ اب اسے چھوڑ دیں، شرطوں نے کہا کہ یہ پیسے تو اسے دینے ہی تھے جو آپ نے دے دئے، چوری پر رپورٹ ہوئی ھے جرم کیا ھے اس لئے کورٹ فیصلہ کرے گی، وہ لڑکا ڈپورٹ ہوا، خادمہ ویسے ہی ملک چھوڑ کے جا رہی تھی۔
اسی دکان پر ایک ڈرائیور جس کو کے ساتھ ایک خادمہ باہر سے نکاح پر اس کے ساتھ تعلق تھا، ایک دن حالت زیادہ خراب ہونے پر ہسپتال جانا پڑا اس کے بغیر دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا، ہسپتال سے ہی دونوں پکڑے گئے، خارج الدولۃ
ایک خادمہ جو بڑی باپردہ تھی جس پر شک کرنا درست نہیں تھا، ایک دن مجھے پوچھا کہ کچھ معلومات حاصل کرنی ہیں کہ میں طلاق یافتہ ہوں اور میری ملک میں ایک لڑکی ھے جسے میں اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر آئی ہوئی ہوں، فلاں والا نائی میرے ان حالات سے واقف ھے اور وہ مجھے سہارہ دینا چاہتا ھے جس سے وہ مجھے سے شادی کرنا چاہتا ھے کیا آپ مجھے اس نائی کی بیک گراؤنڈ معلوم کر کے بتا سکتے ہیں، خیر پہلے میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا تعلق اس سے کس طرح کا ھے اس نے کہا کہ ہم نے چند دن پہلے منگنی کی ھے اور یہ اس نے مجھے چھلا پہنایا ھے اور میں نے اسے انگوٹھی پہنائی تھی اور اب شادی کرنا باقی ھے بس یہی تعلق ھے۔
اس خادمہ کو میں نے کہا کہ اس نائی کی 7 سو درھم تنخواہ ھے شادی کسی بھی طرح ممکن نہیں، اگر تم شادی کر بھی لو تو تمہارا ویزہ نہیں بدلا جا سکتا پھر تم کسی اور ملک سے اور وہ کسی اور ملک سے کسی بھی طرح اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ دوسرا وہ نائی چند مہینوں تک اپنے ملک شادی کرنے جا رہا ھے، اس پر اس خادمہ نے نائی کو اس کا چھلہ دے دیا اور اپنی انگوٹھی نہیں لی اور تعلق ختم اس کے بعد جب تک میں وہاں رہا یہ دونوں بھی وہیں رہے ان کا معاملہ ایسا نہیں تھا وہاں سے نکلنا پڑتا۔
اتنے ہی واقعات کافی ہیں یہ حقیقی ہیں اگر اس پر کوئی جھوٹ بولا ہو تو اللہ سبحان تعالی کی لعنت۔
عرب علاقہ بی یاس میں قریباً 3 سال تک ایک فیلا میں رہا ہوں اور بے شمار خادمہ میرے گھر میں آیا کرتی تھیں جو میری اہلیہ کی دوست تھیں، کبھی کسی خادمہ سے ایسی بات سننے کو سامنے نہیں آئی نہ ان کے گھر والوں سے اور نہ باہر۔
میرے لئے مواطن اور خادمہ کا تعلق بےبنیاد ہیں اگر کسی کے لئے درست ہیں تو وہ ان کا نقطہ نظر ھے مجھے کسی سے اختلاف نہیں میں نے جو لکھا یہ اخباری نہیں بلکہ حقیقی ہیں۔
پیلس کے حوالہ سے ان کی اندر جو جابز ایشئین کے لئے ہیں وہ ڈرائیور، مالی اور ان کے جانوروں کی دیکھ بال کے ساتھ ان کی صاف صفائی کی ہوتی ھے۔
پیلس کی مینٹیننس کے لئے ایک ادارہ جس کا نام "دائرہ الخاصہ" ھے جو وہاں اندر کی مینٹیننس کرتا ھے، مرکزی مینٹیننس کی ذمہ داری امرجینسی میں کسی بھی ملٹری فورس کے ھندسہ سے سٹاف لیا جاتا ھے، اس کے علاوہ رائل شیخ کی بھی ذاتی کمپنیاں ہوتی ہیں جو ضرورت پڑنے پر اس پر کام کرتی ہیں۔ الالبوابہ الرئیسی دو طرح کی سکیورٹی فورسیز ہوتی ہیں۔ ملٹری میں کو بھی اگر کسی کام جانا ہو تو جی ایچ کیو کے لیٹر کے بغیر وہاں نہیں جا سکتا۔
بادشاہوں کے سفر کے لئے مطار العسکری استعمال میں لائے جاتے ہیں اور وہاں دو قسم کے لانج ہوتے ہیں ایک وی آئی پی اور دوسرا وی آئی پی کبیر۔
وی آئی پی لانج ان کی فیملیوں کے لئے اور وی آئی پی کبیر وقت بادشاہ کے لئے،
یہاں کنگ کے گرد جو حصار ہوتا ھے وہ سپیشل سول باڈی گارڈ ہوتے ہیں ان کے علاوہ کسی بھی فورس کو یہاں داخلہ کی اجازت نہیں ہوتی باقی فورسیز بلڈنگ کو گھیرے میں لئے ہوتی ہیں، پولیس ائربیس کے باہر ہوتی ھے۔ سکیورٹی ریزن کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنا ہی کافی ھے۔
باقی اگر کسی کا کوئی جاننے والا یہ کہے کہ اس نے کنگ سے ملاقات کی تو یہ کہنا مذاق ہو گا۔
اتنی " محنت " کے لیے شکریہ محترم بھائی۔لیکن یہاں موضوع سعودی معاشرہ کے متعلق ہے نہ کہ تمام عرب ممالک اور دبئی کے مواطن کے بارے میں۔اور یہاں رہنے والے لوگ اخباری باتوں پر نہیں بلکہ آنکھوں دیکھے حال سے واقف ہیں ، جو کہ حقیقی ہیں!
رفیک، سدیک، علی عوض، ابو صرہ، ابو فسییہ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے عرب ملکوں میں عموما اور سعودی عرب میں خصوصیت کے ساتھ لوگوں کو پکارا جاتا ہے۔ یہ اُن لوگوں کے نام نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کی توہین، سخریہ اور استہزاء کیلئے اُن کو بلانے کے طریقے ہیں۔
ایسا نا سمجھیں کہ مجھے اتنی املا بھی نہیں آتی کہ رفیک کو ٹھیک کر کے رفیق لکھوں یا سدیک کو صدیق لکھ کر۔ عربوں کے ملک میں ویسے تو ہر غیر ملکی کو فرداً فرداً اجنبی اور مجموعی طور پر اجانب کہہ کر بلایا جایا جاتا ہے چاہے یہ اجنبی کسی بھی حیثیت کا ہو اور ہر مقامی شہری کو مواطن کہا جاتا ہے چاہے وہی کسی درجے اور کسی حیثیت کا ہی کیوں نا ہو۔ اور یہی مواطن اصل میں اس خطے میں پایا جانے والا حقیقی معنوں میں انسان ہوتا ہے۔ اٹلی، جرمنی، سپین اور جاپان وغیرہ میں رہنے والوں کو میرے اس مضمون کی سمجھ اُسی وقت ہی آ سکتی ہے اگر وہ خود اس خطے میں رہ چکے ہو یا اُن کا کوئی عزیز اس خطے میں رہتا ہو۔ یہ مضمون پڑھنا جاری رکھیئے تاکہ آپ میری بات کو سمجھ سکیں۔ امید ہے اب آپ کو اب پتہ چل گیا ہو گا کہ رفیق اور صدیق جس اعلی، ارفع اور نفیس درجے کے الفاظ ہیں مگر اس خطے میں وہ اس لہجے میں نہیں سموئے جا سکتے جس نظریئے میں بولے جاتے ہیں
خاوند نیند سے جاگا، بیوی سے پوچھا میرا رومال کدھر ہے؟ بیوی نے بتایا خادمہ نے استری کرتے ہوئے جلا دیا ہے۔ کہا ٹھیک ہے ذرا استری کو گرم کرو۔ جا کر خادمہ کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لایا، بائیں گال کو استری والی میز پر رکھا اور داہنے گال کو استری سے جلا دیا۔ کیسا ظلم ہے یہ اور کیسی حیوانیت ہے یہ۔ دینی تعلیمات اور مذہبی رواداری تو بعد کی بات ہے، اس آدمی کے دل میں ذرا سی انسانیت بھی ہے کیا؟ کیا ایک رومال کے جل جانے کی سزا کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا اس کے پاس؟ تنخواہ سے رومال کے پیسے کاٹ سکتے تھے۔ کیا گال جلا دینے سے رومال ٹھیک ہو گیا ان صاحب کا؟ حد ہوتی ہے ظلم کی بھی۔
سڑک پر کوئی ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، استاد ہے، بڑا ہے، چھوٹا ہے مگر یہاں بد زبانی سے کوئی بھی محفوظ نہیں محض اس لئے کہ وہ اجنبی ہے۔ اس کے بر عکس اگر کوئی مواطن ہے تو چاہے کسی بڑی سے بڑی زیادتی کرنے کا مرتکب ہو جائے، اکثر حالات میں اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف کوئی شکایت درج کرانا یا اس شکایت پر عمل درآمد کروا لینا تو بہت بعد کی بات ہوتی ہے۔
بیوی کو شک گزرا کہ جب وہ ملازمت پر جاتی ہے تو اُس کا خاوند گھر کی خادمہ کے ساتھ دست درازی کرتا رہتا ہے۔ خاوند سے بات کی تو اُس نے کہا ہاں جب تم نہیں ہوتی تو یہ مجھے ورغلاتی رہتی ہے۔ نتیجہ: خادمہ کی پٹائی، چہرے کو بگاڑ دیا، بال کاٹ ڈالے۔ لیجیئے، کیسی ذلت ہے یہ؟ یعنی خاوند اپنی بات میں اتنا سچا ٹھہرا؟ نوکری سے نکال دو اُسے، زیادہ غصہ ہے تو اُسے ملک بدر کروا دو مگر ایسا بھی کیا کہ ظلم کی حد کردو؟ کس لئے؟
دونوں ایک شادی کی تقریب میں ملے۔ ان صاحب کی ایک شخص سے ملاقات ہوئی، مزاج ملے، دوستی ہوئی، روزانہ ملنے لگے اور کبھی کبھار تو ایک دن میں دو دو ملاقاتیں بھی ہو جاتیں۔ پھر ایک دن ان کا ایک اور دوست ملنے کیلئے آیا۔ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا۔ باتوں باتوں میں اُس دوست کا بھی ذکر ہوا تو پتہ چلا کہ اُس کے حالات اچھے نہیں ہیں اور اجنبی ہونے کی وجہ سے وہ کچھ مشکلات کا شکار ہے۔ ان کو جھٹکا لگا، اچھا تو وہ اجنبی ہے؟ ہاں وہ اجنبی ہے، مگر پھر کیا ہوا؟ نہیں بس ایسے ہی، کوئی خاص بات نہیں ہے۔ دوستی ختم، ملاقاتیں ختم،۔ کیوں بس اس لئے کہ وہ اجنبی ہے ناں۔ سبحان اللہ۔
تنخواہ 800 ریال، پیشہ بہت چھوٹا سا (مزدور)، سال بھر کی تنخواہ 9600 ریال۔
اقامہ کی تجدید 750 ریال، تامین 1500 ریال، مکتب عمل کی فیس اور رسوم 2500 ریال۔
روزانہ تین وقت کا کھانا 15 ریال اور ماہانہ 450 ریال، رہائش کا کرایہ 300 ریال ماہانہ یا 3600 ریال سالانہ۔
کل ملا کر دیکھا جائے تو سال بھر کا خرچہ آمدنی سے زیادہ ہے۔
اس نے ملازمت کے بعد ادھر اُدھر سے کچھ کام ڈھوڈھنے اور کرنے کا سلسلہ شروع کیا، کام کیا ہوتے تھے بس قلی گیری، پورٹر، کاروں کی دھلائی، ورکشاپ میں کام، صفائی کا کام، بجلی کی مرمت وغیرہ۔ مقصد محض اتنا سا کہ کچھ بچت ہوجائے تو پیچھے گھر والوں کو بھی کچھ بھیج دیا کرے۔ اللہ پاک نے کرم کیا، کئی مہینوں کی محنت اور مشقت رنگ لائی اور وہ کچھ پیسے اپنےخاندان کو بھجوانے کے قابل ہوگیا۔ بنک گیا، اتنے پیسے کہاں سے آئے کی وجہ سے پوچھ گچھ کیلئے روک لیا گیا۔ اقامہ مزدور پیشہ کا اور پیسے گھر بھجواتا ہے اتنے سارے! پولیش آئی، پکڑا، جیل میں ڈالا، اور کیا فیصلہ ہونا تھا کچھ دنوں کے بعد خروج لگا کر واپس بھیج دیا گیا۔
سپیڈ پوسٹ بھیجنے کیلئے ڈاک خانے گیا، کاؤنٹر سے ایک فارم اُٹھایا، پُر کیا اور لا کر کاؤنٹر پر بیٹھے صاحب کو دیا کہ اُس کا پارسل بھجوا دے۔ صاحب نے فارم پھاڑ کر منہ پر مارا کہ یہاں سے بغیر پوچھے اُٹھایا کیسے تھا، اب پہلے مجھ سے فارم مانگو، پھر جا کر پُر کرو اور مجھے لا کر دو۔ بات تو ٹھیک ہے کہ ایک سعودی مواطن (انسان) کے سامنے سے تم اجنبی (کیا مناسب لکھوں ذہن میں نہیں آ رہا) اُس کی اجازت کے بغیر ایک فارم اُٹھا لو؟
اجنبی۔۔۔ اللہ کی لعنت ہو ان پر۔۔۔۔ اللہ ان کو برباد کرے۔۔۔ اللہ ان کو آگ لگائے۔۔۔ ہمارا جینا دو بھر کر کے رکھا ہوا ہے ان لوگوں نے۔۔۔ ہمارے رزق پر ڈاکہ ڈالا ہوا ہے انہوں نے۔۔۔
اچھا یہ تو بتائیں یہ اجنبی ہیں کون؟ کوڑا کرکٹ اُٹھانے والے، ورکشاپ کے مکینک، عمارتوں پر رنگ کرنے والے، دکان دار، دھوبی، چوکیدار، پلمبر، بیکری بٹھیوں پر ملازم، پنکچر لگانے والے، نالیاں گٹر صاف کرنے والے، کاریں دھونے والے۔
ہے کوئی تمہارا مواطن یہ سب چھوٹے اور کم تر کام کرنے والا۔ اگر نہیں ہے تو کس کے بارے میں باتیں کرتے ہو کہ انہوں نے تمہارا دم گٹھا رکھا ہے۔ سبحان اللہ، اب تم اتنے گٹھیا سے کام کرنے والوں سے بھی حسد کرنے لگے ہو؟
بیٹے کی عمر 18 سال ہو گئی ہے۔ اب تم سب لوگوں کا اقامہ تجدید نہیں ہو سکتا۔ کیوں؟
پہلے اپنے اس بیٹے کو اپنے ملک واپس بھیجو پھر تمہارا اور تمہارے باقی خاندان کا اقامہ تجدید ہو سکے گا۔
کس ملک کی بات کر رہے ہو تم؟ میرا بیٹا کیا میں خود بھی تمہارے اسی ملک میں پیدا ہوا ہوں۔ میرا باپ یہاں پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے رہ رہا ہے۔ میرا بیٹا تمہاری فٹ بال کی ٹیم کا عاشق ہے اُس کے جیتنے پر وہ جشن مناتا ہے۔ تمہارے ملک کا قومی ترانہ وہ پڑھتا اور گاتا ہے۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا بیٹا تو کیا مجھے اپنے ملک کا قومی ترانہ یاد نہیں ہے۔ کہاں جائے گا اور کس کے پاس جائے گا میرا بیٹا؟ کون تمہیں بتائے کہ تم نے جو قانون بنا رکھے ہیں وہ ظلم کے زمرے میں آتے ہیں۔
رات کو گھوم پھر رہے ہیں کہ اچانک پولیس سے سامنا ہو جاتا ہے جنہوں نے ایک سڑک کو بند کر کے اُس پر ایک نقطہ تفتیش بنا رکھا ہے۔ سب کو پکڑ کر بٹھا لیا جاتا ہے۔ مواطن یا اجانب سب کے بیانات لیئے جاتے ہیں۔ مواطن کی انگلیوں کے نشانات لیکر گھر جانے دیا جاتا ہے اور اجانب کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تین سال کے بعد (راتوں کو آوارہ گردی کرنے کے) کیس کا فیصلہ آتا ہے اور اجانب کو اُن کے ملک بدر کر دیا جاتا ہے اور مواطن کو کیس سے بری۔ اگر اس جرم کی سزا اتنی ہی سخت ہے تو یہ بھی تو بتا دیا کرو کہ سعودی مواطن کیا تحفیظ قرآن کی کلاس سے واپس آرہے تھے؟
ماموں (ماں کا بھائی، نصیب مٰیں سعودی کا سالا بننا لکھا ہوا تھا) عمر 19 سال۔ بھانجا عمر 18 سال۔
ماموں محض مقیم ہے یا دوسرے معنوں میں ایک اجنبی ہے۔ بھانجا ایک مواطن ہے یا دوسرے معنوں میں ایک انسان ہے۔
ایک دن گھر بیٹھے کسی بات پر توتکار ہوئی۔ بات بڑھی تو بھانجے نے اُٹھ کر ماموں کے منہ پر ایک تھپڑ جڑ دیا۔ ماموں نے بھی واپسی بھانجے کو ایک تھپڑ ٹکا دیا۔ بہن درمیان میں کودی، کچھ بیٹے کو کہا تو کچھ بھائی کو سنائیں اور اس طرح بات ختم ہو گئی۔
شیطان نے آگ لگائی، بھانجا باہر جا کر اپنے جیسے دوستوں میں بیٹھا۔ مشورہ ملا کہ ایسے کیسے چپ کر لے گا تو؟ بالکل ہی معاف نہیں کرنا تو نے، مت چھوڑ اسے ایسے۔ بھانجا پولیس کے پاس پہنچا، شکایت کی۔ ماموں پکڑا گیا، ترحیل میں دو دن، چار دن اور پھر وہی پرانا فیصلہ ملک بدری کا۔ کیا کہنے ہیں اس انصاف کے۔
حضرات، یہ مضمون میری طبیعت سے میل نہیں کھاتا کیونکہ میں پسند نا ہو تو کھانا چھوڑ دیتا ہوں مگر شکایت زبان پر نہیں لایا کرتا۔ جس درخت کے نیچے بیٹھوں اس کی پھلنے پھولنے اور بڑھنے کی دعائیں کرتا ہوں اس کی جڑیں نہیں کاٹتا۔ پچھلے دنوں یاسر بھائی نے عربوں پر کچھ بات کی اور ڈاکٹر جواد بھائی نے اُن کی تائید کی تو میں نے اس پر اپنا بھرپور مؤقف دیکر اعتراض کیا۔ تو اب پھر اچانک ایسی کیا بات ہو گئی ہے جو یہ مضمون لکھ ڈالا ہے میں بتاتا ہوں۔
ڈاکٹر سلمان العودہ صاحب سعودی عرب کے ایسے عالم ہیں جو مذہب کی تشریح حالات حاضرہ کے واقعات اور حقائق کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ امت کو ایک فکر دیتے ہیں اور نئی نئی جہتیں دکھاتے ہیں نا کہ پرانے افکار کو متشدد طریقے سے لاگو کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نا تو سید قطب کے ہم عصر ہیں اور نا ہی مولانا مودودی صاحب کے رفقاء کار مگر اپنے افکار میں انہیں کے ہم مدرسہ ضرور لگتے ہیں۔ اگر حق کہنے کی جرات رکھتے ہیں تو سچ سننے اور کہنے کا حوصلہ بھی۔ کلمہ حق کہنے والے اس جری شخص کا نام تاریخ عزت و احترام کے ساتھ سنہری حرفوں میں لکھے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دیں۔ سعودیہ میں رہ کر سعودی نظام کے خلاف بلا خوف بات کرنے والے ان حضرت کا مضمون (انسان غیر) مجھے تپ چڑھانے اور زبان کھولنے کا سبب اور اس مضمون کو لکھے جانے کی وجہ تسمیہ بنا۔
بشکریہ محمد سلیم کا بلاگ
۔رفیک، سدیک، علی عوض، ابو صرہ، ابو فسییہ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے عرب ملکوں میں عموما اور سعودی عرب میں خصوصیت کے ساتھ لوگوں کو پکارا جاتا ہے۔ یہ اُن لوگوں کے نام نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کی توہین، سخریہ اور استہزاء کیلئے اُن کو بلانے کے طریقے ہیں۔
ایسا نا سمجھیں کہ مجھے اتنی املا بھی نہیں آتی کہ رفیک کو ٹھیک کر کے رفیق لکھوں یا سدیک کو صدیق لکھ کر۔ عربوں کے ملک میں ویسے تو ہر غیر ملکی کو فرداً فرداً اجنبی اور مجموعی طور پر اجانب کہہ کر بلایا جایا جاتا ہے چاہے یہ اجنبی کسی بھی حیثیت کا ہو اور ہر مقامی شہری کو مواطن کہا جاتا ہے چاہے وہی کسی درجے اور کسی حیثیت کا ہی کیوں نا ہو۔ اور یہی مواطن اصل میں اس خطے میں پایا جانے والا حقیقی معنوں میں انسان ہوتا ہے۔ اٹلی، جرمنی، سپین اور جاپان وغیرہ میں رہنے والوں کو میرے اس مضمون کی سمجھ اُسی وقت ہی آ سکتی ہے اگر وہ خود اس خطے میں رہ چکے ہو یا اُن کا کوئی عزیز اس خطے میں رہتا ہو۔ یہ مضمون پڑھنا جاری رکھیئے تاکہ آپ میری بات کو سمجھ سکیں۔ امید ہے اب آپ کو اب پتہ چل گیا ہو گا کہ رفیق اور صدیق جس اعلی، ارفع اور نفیس درجے کے الفاظ ہیں مگر اس خطے میں وہ اس لہجے میں نہیں سموئے جا سکتے جس نظریئے میں بولے جاتے ہیں
خاوند نیند سے جاگا، بیوی سے پوچھا میرا رومال کدھر ہے؟ بیوی نے بتایا خادمہ نے استری کرتے ہوئے جلا دیا ہے۔ کہا ٹھیک ہے ذرا استری کو گرم کرو۔ جا کر خادمہ کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لایا، بائیں گال کو استری والی میز پر رکھا اور داہنے گال کو استری سے جلا دیا۔ کیسا ظلم ہے یہ اور کیسی حیوانیت ہے یہ۔ دینی تعلیمات اور مذہبی رواداری تو بعد کی بات ہے، اس آدمی کے دل میں ذرا سی انسانیت بھی ہے کیا؟ کیا ایک رومال کے جل جانے کی سزا کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا اس کے پاس؟ تنخواہ سے رومال کے پیسے کاٹ سکتے تھے۔ کیا گال جلا دینے سے رومال ٹھیک ہو گیا ان صاحب کا؟ حد ہوتی ہے ظلم کی بھی۔
سڑک پر کوئی ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، استاد ہے، بڑا ہے، چھوٹا ہے مگر یہاں بد زبانی سے کوئی بھی محفوظ نہیں محض اس لئے کہ وہ اجنبی ہے۔ اس کے بر عکس اگر کوئی مواطن ہے تو چاہے کسی بڑی سے بڑی زیادتی کرنے کا مرتکب ہو جائے، اکثر حالات میں اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف کوئی شکایت درج کرانا یا اس شکایت پر عمل درآمد کروا لینا تو بہت بعد کی بات ہوتی ہے۔
بیوی کو شک گزرا کہ جب وہ ملازمت پر جاتی ہے تو اُس کا خاوند گھر کی خادمہ کے ساتھ دست درازی کرتا رہتا ہے۔ خاوند سے بات کی تو اُس نے کہا ہاں جب تم نہیں ہوتی تو یہ مجھے ورغلاتی رہتی ہے۔ نتیجہ: خادمہ کی پٹائی، چہرے کو بگاڑ دیا، بال کاٹ ڈالے۔ لیجیئے، کیسی ذلت ہے یہ؟ یعنی خاوند اپنی بات میں اتنا سچا ٹھہرا؟ نوکری سے نکال دو اُسے، زیادہ غصہ ہے تو اُسے ملک بدر کروا دو مگر ایسا بھی کیا کہ ظلم کی حد کردو؟ کس لئے؟
دونوں ایک شادی کی تقریب میں ملے۔ ان صاحب کی ایک شخص سے ملاقات ہوئی، مزاج ملے، دوستی ہوئی، روزانہ ملنے لگے اور کبھی کبھار تو ایک دن میں دو دو ملاقاتیں بھی ہو جاتیں۔ پھر ایک دن ان کا ایک اور دوست ملنے کیلئے آیا۔ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا۔ باتوں باتوں میں اُس دوست کا بھی ذکر ہوا تو پتہ چلا کہ اُس کے حالات اچھے نہیں ہیں اور اجنبی ہونے کی وجہ سے وہ کچھ مشکلات کا شکار ہے۔ ان کو جھٹکا لگا، اچھا تو وہ اجنبی ہے؟ ہاں وہ اجنبی ہے، مگر پھر کیا ہوا؟ نہیں بس ایسے ہی، کوئی خاص بات نہیں ہے۔ دوستی ختم، ملاقاتیں ختم،۔ کیوں بس اس لئے کہ وہ اجنبی ہے ناں۔ سبحان اللہ۔
تنخواہ 800 ریال، پیشہ بہت چھوٹا سا (مزدور)، سال بھر کی تنخواہ 9600 ریال۔
اقامہ کی تجدید 750 ریال، تامین 1500 ریال، مکتب عمل کی فیس اور رسوم 2500 ریال۔
روزانہ تین وقت کا کھانا 15 ریال اور ماہانہ 450 ریال، رہائش کا کرایہ 300 ریال ماہانہ یا 3600 ریال سالانہ۔
کل ملا کر دیکھا جائے تو سال بھر کا خرچہ آمدنی سے زیادہ ہے۔
اس نے ملازمت کے بعد ادھر اُدھر سے کچھ کام ڈھوڈھنے اور کرنے کا سلسلہ شروع کیا، کام کیا ہوتے تھے بس قلی گیری، پورٹر، کاروں کی دھلائی، ورکشاپ میں کام، صفائی کا کام، بجلی کی مرمت وغیرہ۔ مقصد محض اتنا سا کہ کچھ بچت ہوجائے تو پیچھے گھر والوں کو بھی کچھ بھیج دیا کرے۔ اللہ پاک نے کرم کیا، کئی مہینوں کی محنت اور مشقت رنگ لائی اور وہ کچھ پیسے اپنےخاندان کو بھجوانے کے قابل ہوگیا۔ بنک گیا، اتنے پیسے کہاں سے آئے کی وجہ سے پوچھ گچھ کیلئے روک لیا گیا۔ اقامہ مزدور پیشہ کا اور پیسے گھر بھجواتا ہے اتنے سارے! پولیش آئی، پکڑا، جیل میں ڈالا، اور کیا فیصلہ ہونا تھا کچھ دنوں کے بعد خروج لگا کر واپس بھیج دیا گیا۔
سپیڈ پوسٹ بھیجنے کیلئے ڈاک خانے گیا، کاؤنٹر سے ایک فارم اُٹھایا، پُر کیا اور لا کر کاؤنٹر پر بیٹھے صاحب کو دیا کہ اُس کا پارسل بھجوا دے۔ صاحب نے فارم پھاڑ کر منہ پر مارا کہ یہاں سے بغیر پوچھے اُٹھایا کیسے تھا، اب پہلے مجھ سے فارم مانگو، پھر جا کر پُر کرو اور مجھے لا کر دو۔ بات تو ٹھیک ہے کہ ایک سعودی مواطن (انسان) کے سامنے سے تم اجنبی (کیا مناسب لکھوں ذہن میں نہیں آ رہا) اُس کی اجازت کے بغیر ایک فارم اُٹھا لو؟
اجنبی۔۔۔ اللہ کی لعنت ہو ان پر۔۔۔۔ اللہ ان کو برباد کرے۔۔۔ اللہ ان کو آگ لگائے۔۔۔ ہمارا جینا دو بھر کر کے رکھا ہوا ہے ان لوگوں نے۔۔۔ ہمارے رزق پر ڈاکہ ڈالا ہوا ہے انہوں نے۔۔۔
اچھا یہ تو بتائیں یہ اجنبی ہیں کون؟ کوڑا کرکٹ اُٹھانے والے، ورکشاپ کے مکینک، عمارتوں پر رنگ کرنے والے، دکان دار، دھوبی، چوکیدار، پلمبر، بیکری بٹھیوں پر ملازم، پنکچر لگانے والے، نالیاں گٹر صاف کرنے والے، کاریں دھونے والے۔
ہے کوئی تمہارا مواطن یہ سب چھوٹے اور کم تر کام کرنے والا۔ اگر نہیں ہے تو کس کے بارے میں باتیں کرتے ہو کہ انہوں نے تمہارا دم گٹھا رکھا ہے۔ سبحان اللہ، اب تم اتنے گٹھیا سے کام کرنے والوں سے بھی حسد کرنے لگے ہو؟
بیٹے کی عمر 18 سال ہو گئی ہے۔ اب تم سب لوگوں کا اقامہ تجدید نہیں ہو سکتا۔ کیوں؟
پہلے اپنے اس بیٹے کو اپنے ملک واپس بھیجو پھر تمہارا اور تمہارے باقی خاندان کا اقامہ تجدید ہو سکے گا۔
کس ملک کی بات کر رہے ہو تم؟ میرا بیٹا کیا میں خود بھی تمہارے اسی ملک میں پیدا ہوا ہوں۔ میرا باپ یہاں پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے رہ رہا ہے۔ میرا بیٹا تمہاری فٹ بال کی ٹیم کا عاشق ہے اُس کے جیتنے پر وہ جشن مناتا ہے۔ تمہارے ملک کا قومی ترانہ وہ پڑھتا اور گاتا ہے۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا بیٹا تو کیا مجھے اپنے ملک کا قومی ترانہ یاد نہیں ہے۔ کہاں جائے گا اور کس کے پاس جائے گا میرا بیٹا؟ کون تمہیں بتائے کہ تم نے جو قانون بنا رکھے ہیں وہ ظلم کے زمرے میں آتے ہیں۔
رات کو گھوم پھر رہے ہیں کہ اچانک پولیس سے سامنا ہو جاتا ہے جنہوں نے ایک سڑک کو بند کر کے اُس پر ایک نقطہ تفتیش بنا رکھا ہے۔ سب کو پکڑ کر بٹھا لیا جاتا ہے۔ مواطن یا اجانب سب کے بیانات لیئے جاتے ہیں۔ مواطن کی انگلیوں کے نشانات لیکر گھر جانے دیا جاتا ہے اور اجانب کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تین سال کے بعد (راتوں کو آوارہ گردی کرنے کے) کیس کا فیصلہ آتا ہے اور اجانب کو اُن کے ملک بدر کر دیا جاتا ہے اور مواطن کو کیس سے بری۔ اگر اس جرم کی سزا اتنی ہی سخت ہے تو یہ بھی تو بتا دیا کرو کہ سعودی مواطن کیا تحفیظ قرآن کی کلاس سے واپس آرہے تھے؟
ماموں (ماں کا بھائی، نصیب مٰیں سعودی کا سالا بننا لکھا ہوا تھا) عمر 19 سال۔ بھانجا عمر 18 سال۔
ماموں محض مقیم ہے یا دوسرے معنوں میں ایک اجنبی ہے۔ بھانجا ایک مواطن ہے یا دوسرے معنوں میں ایک انسان ہے۔
ایک دن گھر بیٹھے کسی بات پر توتکار ہوئی۔ بات بڑھی تو بھانجے نے اُٹھ کر ماموں کے منہ پر ایک تھپڑ جڑ دیا۔ ماموں نے بھی واپسی بھانجے کو ایک تھپڑ ٹکا دیا۔ بہن درمیان میں کودی، کچھ بیٹے کو کہا تو کچھ بھائی کو سنائیں اور اس طرح بات ختم ہو گئی۔
شیطان نے آگ لگائی، بھانجا باہر جا کر اپنے جیسے دوستوں میں بیٹھا۔ مشورہ ملا کہ ایسے کیسے چپ کر لے گا تو؟ بالکل ہی معاف نہیں کرنا تو نے، مت چھوڑ اسے ایسے۔ بھانجا پولیس کے پاس پہنچا، شکایت کی۔ ماموں پکڑا گیا، ترحیل میں دو دن، چار دن اور پھر وہی پرانا فیصلہ ملک بدری کا۔ کیا کہنے ہیں اس انصاف کے۔
حضرات، یہ مضمون میری طبیعت سے میل نہیں کھاتا کیونکہ میں پسند نا ہو تو کھانا چھوڑ دیتا ہوں مگر شکایت زبان پر نہیں لایا کرتا۔ جس درخت کے نیچے بیٹھوں اس کی پھلنے پھولنے اور بڑھنے کی دعائیں کرتا ہوں اس کی جڑیں نہیں کاٹتا۔ پچھلے دنوں یاسر بھائی نے عربوں پر کچھ بات کی اور ڈاکٹر جواد بھائی نے اُن کی تائید کی تو میں نے اس پر اپنا بھرپور مؤقف دیکر اعتراض کیا۔ تو اب پھر اچانک ایسی کیا بات ہو گئی ہے جو یہ مضمون لکھ ڈالا ہے میں بتاتا ہوں۔
ڈاکٹر سلمان العودہ صاحب سعودی عرب کے ایسے عالم ہیں جو مذہب کی تشریح حالات حاضرہ کے واقعات اور حقائق کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ امت کو ایک فکر دیتے ہیں اور نئی نئی جہتیں دکھاتے ہیں نا کہ پرانے افکار کو متشدد طریقے سے لاگو کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نا تو سید قطب کے ہم عصر ہیں اور نا ہی مولانا مودودی صاحب کے رفقاء کار مگر اپنے افکار میں انہیں کے ہم مدرسہ ضرور لگتے ہیں۔ اگر حق کہنے کی جرات رکھتے ہیں تو سچ سننے اور کہنے کا حوصلہ بھی۔ کلمہ حق کہنے والے اس جری شخص کا نام تاریخ عزت و احترام کے ساتھ سنہری حرفوں میں لکھے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دیں۔ سعودیہ میں رہ کر سعودی نظام کے خلاف بلا خوف بات کرنے والے ان حضرت کا مضمون (انسان غیر) مجھے تپ چڑھانے اور زبان کھولنے کا سبب اور اس مضمون کو لکھے جانے کی وجہ تسمیہ بنا۔
بشکریہ محمد سلیم کا بلاگ
لولی اور محترمہ دعا آپ شائد وہیں ہیں اور آپ کی اس پر کیا رائے ھے پہلے وہ جان لی جائے، سلیم صاحب نے جو لکھا وہ سب درست ھے، آپ اس سے متفق ہیں انتظار رہے گا۔
ہر معاشرہ میں اچھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ھے اور چند ایک جو اچھے نہیں سمجھے جاتے وقت کے ساتھ اچھے ہو جاتے ہیں یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ھے، جس معاشرہ پر برائیوں میں آپ کو خوشی محسوس ہو رہی ھے آپ بھی اسی سعودی معاشرہ کا حصہ ہیں، خود کو اچھا بنائیں دوسرے خودبخود اچھے لگنے لگیں گے۔
سلیم صاحب نہ جانے کونسے عرب ملک میں رہے ہیں اور اپنا تجزیہ کس انداز میں پیش کر رہے ہیں بحرکیف یہ ان کی سوچ سے ذاتی رائے ھے یہ ایک طرف!
رفیک، سدیک، علی عوض، ابو صرہ، ابو فسییہ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے عرب ملکوں میں عموما اور سعودی عرب میں خصوصیت کے ساتھ لوگوں کو پکارا جاتا ہے۔ یہ اُن لوگوں کے نام نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کی توہین، سخریہ اور استہزاء کیلئے اُن کو بلانے کے طریقے ہیں۔
عربوں کے ملک میں ویسے تو ہر غیر ملکی کو فرداً فرداً اجنبی اور مجموعی طور پر اجانب کہہ کر بلایا جایا جاتا ہے چاہے یہ اجنبی کسی بھی حیثیت کا ہو اور ہر مقامی شہری کو مواطن کہا جاتا ہے چاہے وہی کسی درجے اور کسی حیثیت کا ہی کیوں نا ہو۔ اور یہی مواطن اصل میں اس خطے میں پایا جانے والا حقیقی معنوں میں انسان ہوتا ہے۔
سڑک پر کوئی ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، استاد ہے، بڑا ہے، چھوٹا ہے مگر یہاں بد زبانی سے کوئی بھی محفوظ نہیں محض اس لئے کہ وہ اجنبی ہے۔ اس کے بر عکس اگر کوئی مواطن ہے تو چاہے کسی بڑی سے بڑی زیادتی کرنے کا مرتکب ہو جائے، اکثر حالات میں اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف کوئی شکایت درج کرانا یا اس شکایت پر عمل درآمد کروا لینا تو بہت بعد کی بات ہوتی ہے۔
زیادہ تر پبلک سیکٹر میں جب کسی کا نام نہ معلوم ہو تو اسے پاکستان میں بھی، سر جی، جناب، پا جی وغیرہ سے بلایا جاتا ھے "اوئے" کہہ کر بلانا درست نہیں۔
گلف میں بھی رفیق، صدیق، محمد، نفر، رجال، عزت سے ہی بلائے جانے والے الفاظ ہیں وہاں رہنے والے احباب ان سب سے اچھی طرح واقف ہیں۔
آپ کسی بھی ملک میں ہوں کسی بھی کام پر استعمال میں لانے کے لئے وہاں کے مقامی کو نیشنل، شہری مواطن ہی کہیں گے۔ سلیم صاحب کے پاس اگر سپین کی سیٹیزن شپ ھے تو انہیں وہاں نیشنل یا موطن نہیں بلکہ پاکستانی نژاد سپینش مواطن کہا جائے گا۔
باقی خدامہ پر اخبار سے کسی خبر پر اپنی عجیب رائے قائم کی گئی ھے اس پر کوئی تبصرہ نہیں میں اس پر پہلے ہی لکھ چکا ہوں اگر ان کے پاس یا کسی کے پاس ذاتی تجربہ ہو تو شیئر کریں۔
پاکستان میں تو وسیع پیمانے پر کوئی غیرمواطن جاب یا کاروبار سے کم ہی ہیں اس لئے وہاں ہر کسی کو ان باتوں کا اندازہ نہیں لیکن وہیں اگر کسی بڑے شہر میں کوئی گاؤں کا رہنے والا کام کے سلسلے میں آئے تو اسے کچھ لوگ مشکوک سے رویہ سے نظرانداز کرتے ہیں۔
گلف میں شکایت درج کروانے پر کاروائی کی جاتی ھے مگر درج کروانے والے بہت کم ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کسی الجھن میں پڑیں، میرے ایک سولین دوست نے ایک نیشنل میجر کے خلاف رپورٹ کروائی تھی جس پر اسے کورٹ نے میجر سے کمپنسیشن دلوائی تھی، میں خود بہت سے پاکستانیوں کو جو ڈرنے والے نہیں تھے ان کو ان کے حق دولوائے ہوئے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لئے مشکل ھے جو عربی زبان سے ناواقف ہیں رپورٹ کرنے کے لئے آپکو زبان کا معلوم ہونا بھی بہت ضروری ھے۔
اگر کسی کوئی عزیز و بھائی گلف سے ویزہ خریدتا ھے تو اس پر ایک ہی کیٹگری ہوتی ھے "عامل عام" ویزہ۔ ٹکنیشن ویزہ اور ایگزیکٹو ویزے کم ہی ملتے ہیں کیونکہ اس پر وہاں بڑی کمپنیاں تجربہ کار ورکرز وہیں سے حاصل کرتی ہیں جس پر ان کی کفالت بدلی جاتی ھے۔
ٹکنیشن اور ایگزیکٹو پوسٹ پر کچھ کمپنیاں دوسرے ممالک سے ورکرز حاصل کرتی ہیں جس پر ان کے تعلقات ان ممالک میں اورسیز ایجنسیز سے ہوتے ہیں، مگر یہ ایک گیم بھی ھے اس پر پھر کبھی ۔۔۔۔۔
عامل عام ویزہ پر بھائی صاحب کو پہلے بتا دیا جاتا ھے کہ اس ویزہ پر کام ملے گا یا بغیر کام کے ویزہ ھے، اس پر دھوکہ میں نہیں رکھا جاتا۔ اگر اس ویزہ پر کام ملے گا تو پھر آگے بڑھتے ہیں
تنخواہ 800 ریال، پیشہ بہت چھوٹا سا (مزدور)، سال بھر کی تنخواہ 9600 ریال۔
اقامہ کی تجدید 750 ریال، تامین 1500 ریال، مکتب عمل کی فیس اور رسوم 2500 ریال۔
روزانہ تین وقت کا کھانا 15 ریال اور ماہانہ 450 ریال، رہائش کا کرایہ 300 ریال ماہانہ یا 3600 ریال سالانہ۔
کل ملا کر دیکھا جائے تو سال بھر کا خرچہ آمدنی سے زیادہ ہے۔
وزارۃ العمل کی جانب سے ہر جاب کیٹگری پر ماہانہ تنخواہ پر نیشنل ریٹ ہوتا ھے کوئی بھی کمپنی اپنی ورکز پر اس نیشنل ریٹ سے کم کا ایگریمنٹ نہیں بنا سکتی سلیم صاحب نے یہ تنخواہ کونسے سال سے حاصل کی ھے اسی حوالہ سے بات کرتے ہیں۔ المھنہ "عام عام" میں ہر قسم کا مزدور طبقہ آ جاتا ھے۔
المھنہ: عامل عام
ماہانہ تنخواہ نیشنل ریٹ: 800 ریال
یومیہ کام کے اوقات: 8 گھنٹے (ٹوٹل 9 ہوتے ہیں ایک گھنٹہ کھانے کا وقفہ)
2 سال بعد ائر ٹکٹ
ٹرانسپورٹ، میڈیکل، رہائش فری
یاد رکھیں آپ نے گلف میں جانے سے پہلے پاکستانی حکومت کو پروٹیکٹر پر فیس کی صورت میں ایک بھاری رقم بھی دی ہوتی ھے، یہ رقم حکومت آپ کو وہاں آنے والی مشکلات میں مدد کے لئے لیتی ھے جسے انشورنس بھی کہہ سکتے ہیں اور اس پر آپ کے پاسپورٹ پر سرٹفکیٹ مہر بھی ہوتی ھے ریفرینس نمبر کے ساتھ۔ کسی بھی مشکل میں سفارۃ پاکستانی آپ کی مدد کرتا ھے۔
رہائش: کمپنی کے کام پر ھے کہ کس نوعیت کا ھے اس پر رہائش کیمپ بھی ہوتے ہیں اور جہاں دور کام چل رہے ہوں وہاں بھی پلائیوں سے یا کھلی جگہ پر سو جاتے ہیں۔
ٹرانسپورٹ: رہائشی کیمپ سے کام کی جگہ جانے اور واپسی کی ہوتی ھے۔
میڈیکل: اکثر بڑی کمپنیوں نے اپنا ایک ڈاکٹر بھی رکھا ہوتا ھے جو لیبر کو بوقت ضرورت چیک کر کے میڈیسن فراہم کرتے ہیں، امرجینسی کی صورت میں سرکاری ہسپتال کی سہولت ہوتی ھے۔
ائر ٹکٹ: یہ دو سال کام کرنے کے بعد ہی دی جاتی ھے۔
کھانا: پر ذاتی طور پر خرچہ ھے جسے گروپ وائز مل کر آپس میں شیئر کیا جاتا ھے جس سے خرچہ بہت کم ہوتا ھے۔ لیبر میں ایک اکیلا برداشت نہیں کر سکتا۔
کام کے اوقات: 9 گھنٹے جس پر ایک گھنٹہ کھانے کا وقفہ اور کچھ کمپنیوں میں 3 گھنٹہ اوور ٹائم بھی ساتھ ہوتا ھے۔
اس ایگریمنٹ کی ایک کاپی ورکر کو بھی دی جاتی ھے اور وہ اس پر راضی ہوتا ھے۔ یہ ایگریمنٹ ایک لیگل ورکرز کے لئے ھے۔
اب بھائی صاحب نے ایک ایسا ویزہ خرید لیا جس پر صرف ویزہ ہی ھے کام نہیں تو اسے پاکستان نادان "آزاد ویزہ" کہتے ہیں، آزاد ویزہ حکومت کی جانب سے کوئی کیٹگری نہیں بلکہ یہ لوگوں کا دیا ہوا نام ھے اور یہ ایک رسکی ویزہ ھے اس پر کسی بھی قسم کے انسیڈنٹ پر بھائی قصور وار ہو گا حکومت نہیں۔
اس نے ملازمت کے بعد ادھر اُدھر سے کچھ کام ڈھوڈھنے اور کرنے کا سلسلہ شروع کیا، کام کیا ہوتے تھے بس قلی گیری، پورٹر، کاروں کی دھلائی، ورکشاپ میں کام، صفائی کا کام، بجلی کی مرمت وغیرہ۔ مقصد محض اتنا سا کہ کچھ بچت ہو جائے تو پیچھے گھر والوں کو بھی کچھ بھیج دیا کرے۔ اللہ پاک نے کرم کیا، کئی مہینوں کی محنت اور مشقت رنگ لائی اور وہ کچھ پیسے اپنےخاندان کو بھجوانے کے قابل ہوگیا۔ بنک گیا، اتنے پیسے کہاں سے آئے کی وجہ سے پوچھ گچھ کیلئے روک لیا گیا۔ اقامہ مزدور پیشہ کا اور پیسے گھر بھجواتا ہے اتنے سارے! پولیش آئی، پکڑا، جیل میں ڈالا، اور کیا فیصلہ ہونا تھا کچھ دنوں کے بعد خروج لگا کر واپس بھیج دیا گیا۔
ایسا ممکن نہیں اس پر ڈپورٹ ہونے کی وجہ کچھ اور ھے وہ بھی بتاتے ہیں آپکو اوپر والا حصہ پڑھنے کے بعد آسانی سے معلوم ہو جائے گا اس پر بھی۔
کسی کے پاکستان پیسے بھجوانے پر بینک کی یہ جاب نہیں کہ اتنے پیسے کہاں سے آئے اس نے ڈرافٹ کی فیس لینی ھے اور رقم حاصل کرنے کے بعد رسید فراہم کرنی ھے پھر بینک پر جب سے ایک قانون بنا ھے منی لانڈرنگ اس پر بھی ایک لمٹ ھے اس سے زیادہ ایک مہینہ میں رقم نہیں بھجوا سکتے چاہے وہ لیبر ہو یا ڈائریکٹر، خیر اس پر طریقہ کار بھی ہیں اس پر بھی ابھی بات نہیں۔
جو بھائی لوگ وہاں سے دکان کا ویزہ حاصل کرتے ہیں اگر وہاں پر کام بھی ملتا ھے تو اس پر ان کے ساتھ بعد میں کیا ہو سکتا ھے اس کی ذمہ داری بھائی کی ھے کسی بھی انسیڈنٹ پر وہی اس پر قصور وار ہو گا نہ کہ ویزہ دینے والا۔
جو بھائی لوگ آزاد ویزہ حاصل کرتے ہیں اس پر دوسری جگہ کام کی اجازت نہیں اگر کہیں کام کے دوران پکڑے گئے تو ڈپورٹ ہونے کی صورت میں انہی کی ذمہ داری ھے ویزہ دینے والے کی نہیں۔
اگر بھائی نے کام کا ویزہ حاصل کیا اور وہاں تنخواہ کم ہونے کے وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے کام چھوڑ کا بھاگ گیا اور کسی دوسری جگہ کام کرنے لگ گیا تو اس کا کفیل وزارۃ العمل میں اس کی رپورٹ کرتا ھے اور شرطہ میں بھی، جس پر اس کا پاسپورٹ بھی جمع کروانا ہوتا ھے جس سے وہ اپنے ورکرز کے کہیں پکڑے جانے پر جرمانہ سے بچ جاتا ھے، اور بھاگنے والے کو اگر کسی بھی وجہ سے کہیں کچھ ہو جائے تو اس کی ذمہ داری بھی اس پر نہیں آتی۔ ورنہ بھاگنے والا وزارۃ العمل میں اس پر اتنے مہینوں کی تنخواہ کلیم کر سکتا ھے وغیرہ وغیرہ۔
لیبر پاکستان میں بھی بہت ھے مگر وہ اپنی ضروریات اپنی تنخواہ سے ہی پوری کرتے ہیں، سرکاری ملازم بھی پاکستان میں ہیں جن میں سے بہت سے اپنی تنخواہ سے ہی گزارہ کرتے ہیں اور کچھ کے ہاتھ رشوت سے رنگے ہوئے ہیں۔
سپیڈ پوسٹ بھیجنے کیلئے ڈاک خانے گیا، کاؤنٹر سے ایک فارم اُٹھایا، پُر کیا اور لا کر کاؤنٹر پر بیٹھے صاحب کو دیا کہ اُس کا پارسل بھجوا دے۔ صاحب نے فارم پھاڑ کر منہ پر مارا کہ یہاں سے بغیر پوچھے اُٹھایا کیسے تھا، اب پہلے مجھ سے فارم مانگو، پھر جا کر پُر کرو اور مجھے لا کر دو۔ بات تو ٹھیک ہے کہ ایک سعودی مواطن (انسان) کے سامنے سے تم اجنبی (کیا مناسب لکھوں ذہن میں نہیں آ رہا) اُس کی اجازت کے بغیر ایک فارم اُٹھا لو؟
اجنبی۔۔۔ اللہ کی لعنت ہو ان پر۔۔۔۔ اللہ ان کو برباد کرے۔۔۔ اللہ ان کو آگ لگائے۔۔۔ ہمارا جینا دو بھر کر کے رکھا ہوا ہے ان لوگوں نے۔۔۔ ہمارے رزق پر ڈاکہ ڈالا ہوا ہے انہوں نے۔۔۔
اچھا یہ تو بتائیں یہ اجنبی ہیں کون؟ کوڑا کرکٹ اُٹھانے والے، ورکشاپ کے مکینک، عمارتوں پر رنگ کرنے والے، دکان دار، دھوبی، چوکیدار، پلمبر، بیکری بٹھیوں پر ملازم، پنکچر لگانے والے، نالیاں گٹر صاف کرنے والے، کاریں دھونے والے۔
مکتب البرید پر اس پر جو وہاں ہیں وہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ وہاں فارم کہاں پڑے ہوتے جہاں سے کوئی اٹھا کر اگر ایسا کرے تو اس کے ٹکرے کر کے اس کے منہ پر مار دیا جاتا ھے۔ الامارات ڈاک خانوں میں تو فارم کاؤنٹر سے ریکویسٹ سے ہی حاصل کیا جاتا ھے، برطانیہ میں تمام فارمز باہر شیلفوں میں پڑے ہوتے ہیں اگر کوئی فارم شیلف میں موجود نہ ہو تو کاؤنٹر سے حاصل کیا جا سکت ھے۔
بیٹے کی عمر 18 سال ہو گئی ہے۔ اب تم سب لوگوں کا اقامہ تجدید نہیں ہو سکتا۔ کیوں؟
پہلے اپنے اس بیٹے کو اپنے ملک واپس بھیجو پھر تمہارا اور تمہارے باقی خاندان کا اقامہ تجدید ہو سکے گا۔
کس ملک کی بات کر رہے ہو تم؟ میرا بیٹا کیا میں خود بھی تمہارے اسی ملک میں پیدا ہوا ہوں۔ میرا باپ یہاں پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے رہ رہا ہے۔ میرا بیٹا تمہاری فٹ بال کی ٹیم کا عاشق ہے اُس کے جیتنے پر وہ جشن مناتا ہے۔ تمہارے ملک کا قومی ترانہ وہ پڑھتا اور گاتا ہے۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا بیٹا تو کیا مجھے اپنے ملک کا قومی ترانہ یاد نہیں ہے۔ کہاں جائے گا اور کس کے پاس جائے گا میرا بیٹا؟ کون تمہیں بتائے کہ تم نے جو قانون بنا رکھے ہیں وہ ظلم کے زمرے میں آتے ہیں۔
وہاں پاکستانی سکول و کالج میں تعلیم انٹرمیڈیٹ تک ہی ھے جو 18 سال کی عمر سے پہلے مکمل ہو جاتی ھے اگر کسی وجہ سے تعلیم 18 سال کی عمر تک باقی ھے تو اس پر اسے مکمل کرنے تک ایکسٹنشن مل جاتی ھے۔ جو پاکستانی بڑی پوسٹوں پر ہیں اور وہ اپنے بچہ کو وہیں آگے تعلیم دلوانا چاہتے ہیں انہیں بھی ایکسٹنشن ملتی رہتی ھے۔
جو پاکستانی اپنے بیٹے کو مزید آگے پڑھانے سے قاصر ہیں اور پاکستان میں بھی نہیں پڑھا سکتے تو پھر انہیں اپنے بیٹے کا ویزہ سٹیٹس بدلنا پڑے گا، یہ لیگل ھے اس پر اپنے بیٹے کو یا تو وہاں جاب دلوائیں یا پاکستان اس پر حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ ایسا یورپ و برطانیہ میں بھی ھے اس پر پھر کبھی!
بیٹیوں کو تب تک ویزہ ملتا رہتا ھے جب تک ان کی شادی نہیں ہو جاتی اس کے بعد اگر بیٹی کی شادی سعودی عرب میں کسی پاکستانی سے ہو تو پھر اس کا ویزہ خاوند پر ٹرانسفر ہو جاتا ھے اور اگر پاکستان میں ہو تو پھر ۔۔۔۔۔۔
رات کو گھوم پھر رہے ہیں کہ اچانک پولیس سے سامنا ہو جاتا ہے جنہوں نے ایک سڑک کو بند کر کے اُس پر ایک نقطہ تفتیش بنا رکھا ہے۔ سب کو پکڑ کر بٹھا لیا جاتا ہے۔ مواطن یا اجانب سب کے بیانات لیئے جاتے ہیں۔ مواطن کی انگلیوں کے نشانات لیکر گھر جانے دیا جاتا ہے اور اجانب کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تین سال کے بعد (راتوں کو آوارہ گردی کرنے کے) کیس کا فیصلہ آتا ہے اور اجانب کو اُن کے ملک بدر کر دیا جاتا ہے اور مواطن کو کیس سے بری۔ اگر اس جرم کی سزا اتنی ہی سخت ہے تو یہ بھی تو بتا دیا کرو کہ سعودی مواطن کیا تحفیظ قرآن کی کلاس سے واپس آرہے تھے؟
800 تنخواہ لینے والوں میں سے بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں برائی کے راستے تلاش کرتے ہیں اور رات کو کیا دن کو بھی آوارہ گردی کرنے پر دھڑ لئے جاتے ہیں اس لئے جس بھی ملک میں رہیں اس کے قوانین کا احترام کرنا ہر شہری اور غیر شہری پر فرض ہیں، قوانین کی خلاف وردی پر پکڑے جانے سے سزا کا حقدار ھے وہ، اس پر کوئی رعایت نہیں اور نہ ہی اس پر کسی ملک پر لعنت کی جا سکتی ھے اور نہ ہی اسے برا بھلا کہا جا سکتا ھے۔ سزا وہاں کے قوانین پر جو ھے وہی ملے گی اگر ڈپورٹ کیا جاتا ھے تو اسے سوچنا چاہئے تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا جس کی اجازت نہیں۔ پاکستان میں بھی جب کسی غلط حرکت کی وجہ سے پکڑے جائیں تو گناہ کے مطابق ہی سزا بھی سنائی جاتی ھے اگر چھوٹی غلطی ہو جو آفیسر اور ملزم کے مابین ہو تو اسے معاف بھی کر دیا جاتا ھے۔