• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاضر کا اہم ترین تقاضہ امربالمعروف ونہی عن المنکر

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
عصر حاضر کا اہم ترین تقاضہ امربالمعروف ونہی عن المنکر
[HR][/HR]
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
عزیز دوستو!۔ عام طور پر مسلمانوں نے تبلیغ کو علماء کے ساتھ مختص کر رکھا ہے حالانکہ ہر وہ شخص جس کے سامنے کوئی برا کام یا کوئی منکر بات ہورہی ہو اور وہ اس کے روکنے پر قادر ہو یا روکنے کے اسباب پیدا کرسکتا ہو یہ اُس پر واجب ہے کے اُس کو روکے یہ ذمہ داری صرف علماء پر ڈال کر یا اُن کی کوتاہی بتا کر کوئی بھی مسلمان بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ ہر مسلمان پر یہ عمل واجب ہے کے وہ صدق دل سے اس فرض کو نبھانے کی کوشش کرے۔۔۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے تعلق سے قرآن کریم میں بےشمار آیات قرآنیہ و احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم وارد ہوئی ہیں۔۔۔

اللہ وحدہ لاشریک فرماتا ہے۔۔۔
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو(آل عمران)۔۔۔

اس آیت کریمہ میں اُمت محمدیہ کو خیر اُمت کا لقب عطا کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی علت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔۔۔

مفسرین نے لکھا ہے اس آیت کریمہ میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو ایمان سے پہلے ذکر فرمایا حالانکہ ایمان سب چیزوں کی اصل ہے بغیر ایمان کے کوئی بھی نیکی معتبر نہیں اس کی وجہ یہ ہے کے ایمان میں تو اور امم سابقہ میں شریک تھیں یہ خصوصیت جس کی وجہ سے تمام انبیاء علیھم الصلاہ والسلام کے متبعین سے اُمت محمدیہ کو تفوق ہے وہ یہی امر باالمعروف ونہی عن المنکر ہے جو اس اُمت کا تمغہ امتیاز ہے اور چونکہ بغیر ایمان کے کوئی عمل معتبر نہیں اسلئے ساتھ ہی بطور قید کے اس کو بھی ذکر فرمادیا ورنہ اصل مقصود اس آیت کریمہ میں اسی کا ذکر فرمانا ہے اور چونکہ وہی اس جگہ مقصود بالذکر ہے اسلئے اس کو مقدم فرمایا اس اُمت کیلئے تمغہ امتیاز ہونے کا مطلب یہ ہے کے اس کا مخصوص اہتمام کیا جائے ورنہ کہیں چلتے پھرتے تبلیغ کردینا اس میں کافی نہیں اسلئے یہ یہ امر پہلی اُمتوں میں بھی پایا جاتا تھا۔۔۔

جیسا کے ارشاد ہوا۔۔۔
فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ
پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو فراموش کردیا جو ان سے کی گئی تھی (الانعام)۔۔۔

امتیاز مخصوص اہتمام کا ہے کے اس کو مستقل کام سمجھ کر دین کے اور کاموں کی طرح اس میں مشغول ہوں۔۔۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو جہاں امر بالمعروف کا فریضہ انجام دینے کا حکم دیتا ہے اور اُمت پر اسے لازم قرار دیتا ہے وہاں اُن پر نہی عن المنکر کی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے جب محنت دو طرفہ ہوگی یعنی ایک طرف نیکیوں کی اشاعت وترویج اور دوسری طرف برائیوں کا استحصال تو اسی صورت میں معاشرہ اسلامی رنگ میں ڈھلے گا اور نیکیاں پروان چڑھیں گی۔۔۔

اللہ وحدہ لاشریک نے ارشاد فرمایا۔۔۔
لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ كَانُواْ لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا انہیں داؤد اور عیسٰی ابن مریم (علیھما السلام) کی زبان پر (سے) لعنت کی جا چکی (ہے)۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے (اور اس لعنت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ) وہ جو برا کام کرتے تھے ایک دوسرے کو اس سے منع نہیں کرتے تھے۔ بیشک وہ کام برے تھے جنہیں وہ انجام دیتے تھے(المائدہ)۔۔۔

بنی اسرائیل کے ایسے پیروں اور عالموں پر لعنت کی گئی ہے جو یہ فریضہ انجام نہیں دیتے تھے یا اس میں کوتاہی کرتے تھے جب بنی اسرائیل کے عمومی فساد کو روکنے کے لئے ان کے ربانیوں اور احبار نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تو یہ فساد مزید پھیلا اور ان پر تباہی نازل ہوئی اس کوتاہی پر نکیر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرمایا۔۔۔

لَوْلاَ يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَصْنَعُونَ
بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بلاشبہ وہ بھی برا کرتے ہیں (المائدہ)۔۔۔

ایک اور جگہ اللہ وحدہ لاشریک نے ارشاد فرمایا۔۔۔
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں(آل عمران)۔۔۔

اس آیت کریمہ میں ایک اہم مضمون کا حکم فرمایا گیا ہے اور وہ یہ کے اُمت میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے مخصوص ہو کے وہ اسلام کی طرف لوگوں کو تبلیغ کیا کرے یہ حکم مسلمانوں کیلئے تھا مگر افسوس کے اس اصل کو ہم نے بالکلیہ ترک کردیا ہے اور دوسری اقوام نے نہایت اہتمام سے پکڑ لیا ہے نصارٰی کی مستقل جماعتیں دنیا میں تبلیغ کیلئے مخصوص ہیں اور اسی طرح دیگر مذاہب میں اس کیلئے کارکن مخصوص ہیں۔۔۔ اللہ رب العزت ہمیں عقل اور سمجھ عطاء فرمائے آمین۔۔۔

اب ہم قرآن کریم سے نظر ہٹا کر احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر توجہ دیں تو ہمیں معلوم ہوگا کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمان کو اسی عمل کی تعلیم دی۔۔۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔۔۔
تم میں سے جب کوئی شخص برائی کو دیکھے تو چاہئے کے اس کو اپنے ہاتھوں سے دور کرے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (اس کو براجانے) اور یہ آخری صورت ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے (رواہ مسلم)۔۔۔

سوچنے والی بات یہ ہے کے جس معاشرے میں اللہ تعالٰی کے احکامات اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی ونافرمانی عام ہوجائے اور دینی حس رکھنے والے اس سے منع نہ کریں اور اس سے بیزاری کا اظہار نہ کریں تو اس نافرمانی کے نتیجہ میں جب عذاب الٰہی آئے گا تو سب اس عذاب میں مبتلا ہوں گے۔۔۔

یہ بات ذہن نشین کرنے والی ہے کے دین اسلام اصل میں مجاہدوں، غازیوں، شہیدوں، اور داعیوں کا دین ہے یہ راہبوں، جوگیوں اور صرف اپنی ذات کے گرد گھومنے والے زاہدوں کا دین نہیں اس میں انفرادی اور اجتماعی اصلاح اور معاشرتی اصلاح ساتھ ساتھ جاری رہتی ہیں۔۔۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر ہر اُس شخص پر واجب ہے جو عاقل، بالغ، اور مسلمان ہو اور قدرت رکھتا ہو چنانچہ مجنون، نابالغ، اور کافر وعاجز پر واجب نہیں اس وجوب میں عورت، غلام اور فاسق بھی داخل ہیں باشعور لڑکے کے لئے جائز ہے کے وہ برائی سے منع کرے جس طرح وہ نماز وامامت کا اہل ہے اسی طرح منکر سے بھی روکنے کا اہل ہے۔۔۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کے۔۔۔
اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تمہارے لئے لازم ہے کے معروف کا حکم دو اور برائی سے لوگوں کو منع کرو اور بدکار کا ہاتھ پکڑو اور اسے حق کی طرف موڑ دو ورنہ اللہ تعالٰی بدکاروں کے دلوں کا زنگ معصیب حق پرستی کے دعویداروں کے دلوں پر چرھا دے گا یا تم بھی اس طرح لعنت کردے گا جس طرح یہودیوں پر کی (ابن کثیر جلد دوم صفحہ ٨٣، تفسیر المائدہ آیت ٧٨-٧٩)۔۔۔

حاصل کلام۔۔۔
قبل اس کے کہ رب کائنات کے روبرو پیشی اور جواب دہی کا وقت کسی لمحہ اچانک سامنے آجائے اپنی کتاب زندگی اور کارنامہ حیات پر قرآن وسنت کی روشنی میں نظر ڈال کر دیکھ لینا چاہئے کے جس غرض کیلئے اللہ تعالٰی نے قرآن مجید کو نازل اور اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کام ہم مسلمانوں کو اُمت وسط اور خیر اُمت بنا کر ہمارے سپرد کیا تھا اس کو انجام دینے کی ہم نے کیا اور کہاں تک فکر کی ہے قرآن وسنت سے یہ بات بہرحال روز روشن کی طرح واضح ہے کے اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے صرف زبانی اقرار یا انفرادی تقوٰی ودینداری ہی کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ اپنی قوم کے علاوہ بھی جہاں تک پہنچانا ممکن ہو تمام لوگوں کی اصلاح وہدایت اب ہم پیروان خاتم البنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ہے اور اگر ہم نے یہ کام نہ کیا یا اس میں کوتاہی برتی تو اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں غفلت برتنے کے ہم خود ذمہ دار ہونگے اس کام میں غفلت کے بارے میں ہمیں اللہ تعالٰی کے روبرو اسی طرح جواب دہی کرنی ہوگی جس طرح کے نماز، روزے، اور دوسرے فرائض میں کوتاہی کے لئے کرنی ہے اس کے علاوہ یہ بھی اس دنیا کی مسلمہ حقیقت ہے کے جو قوم اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے وہ بہت جلد صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔۔۔

وما علینا الالبلاغ۔
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

آپ نے ایک ساتھ اتنے تھریڈز بنا کے لگا دئے اس پر ایک مشورہ ھے کہ ایسے معلوماتی دھاگے ایک دن میں ایک لگایا کریں، تاکہ اس کا مطالعہ کے وقت اسے ذہن نشیں رکھا جائے۔ اوپر نئے دھاگوں اور مراسلوں کی وجہ سے یہ سارے ایک ساتھ نیچے چلے گئے ہیں۔ انتسامہ

والسلام
 
Top