• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدۂ تکمیلِ دین

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
عقیدۂ تکمیلِ دین

امت محمدیہ پر امتوں کا سلسلہ مکمل ہوا ۔

اپنی امت کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

’’ تم نے ستر امتوں کو پورا کردیا ہے‘ تم ان میں سب سے آخری امت ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والے ہو‘‘۔ (سنن دارمی‘ سنن ترمذی‘ مسند احمد‘ سنن ابن ماجہ)

اوراللہ تعالٰی کا آپ ﷺ کے بارے میں فرمان ہے:

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾ سورة الأحزاب
’’(لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ‘‘۔

اسی طرح آپ ﷺ کا اپنے بارے میں ارشاد ہے:

’’ بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے بہت اچھے طریقے سے ایک گھر بنایا اور اسے ہر طرح سے مزین کیا، سوائے اس کے کہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوڑ دی) پھر لوگ اس کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور (خوشی کے ساتھ) تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ یہاں کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پس میں وہ (نبیوں کے سلسلے کی) آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری: 3535، صحیح مسلم: 22/ 2286، دارالسلام: 5961،بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیّین)

یعنی اس آخری امت پر امت کا سلسلہ مکمل‘ نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل اور آسمانی صحائف کے نزول کا سلسلہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔

الحمد للہ ! ہم سب مسلمان ہیں۔
ہم یہ تو مانتے ہیں کہ ہم آخری اُمت ہیں۔
ختم نبوت و رسالت پر ہمارا عقیدہ بھی غیر متزلزل ہے۔
ہمارا یہ دعویٰ بھی ہے کہ قرآن اللہ کی ہدایت، نصیحت‘ خیر خواہی اور نعمتوں کو مکمل کرنے والی آخری کتاب ہے۔
اور ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ہم سب جس دین اسلام پر ہیں اس دین کو اللہ تعالٰی نے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی مکمل کر دیا ہے۔​
جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ ۔۔۔۔۔ سورة المائدة ۔۔۔ آیت ۳

’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘

اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ہر وہ چیز جو جنت سے قریب کرے اور جہنم سے دور کرے وہ تمہارے سامنے بیان کر دی گئی ہے‘‘۔ ( الطبرانی الکبیر: ۲/۱۵۶)

اور صحابہ کرامؓ نے اس بات کا اقرار بھی کیا‘ جب آپ ﷺ نے حجتہ لاوداع کے موقعے پر دریافت کیا: ’’ تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟
صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آ پﷺنے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔


یہ سن کر آ پﷺنے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا‘ اے اللہ گواہ رہنا‘ اے اللہ گواہ رہنا ۔‘‘ (الرحیق المختوم: ص ۷۳۳)
  • لہذا اللہ تعالٰی نے تکمیل دین کا اعلان کر دیا‘
  • اللہ کے رسولﷺ نے اس مکمل دین کو لوگوں تک پہنچا دیا‘
  • اور اللہ تبارک و تعالٰی نے اس دین رحمت‘ کتاب عزیز اور رسول رحمت ﷺ کے اقوال و افعال کو قیامت تک کیلئے محفوظ کر دیا۔
یعنی صدیوں سے دین اسلام مکمل اور محفوظ ہے ۔ اس میں کوئی ردوبدل کی گنجائش نہیں‘ نہ ہی اس دین میں کوئی کمی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی اضافہ کی گنجائش ہے۔ قیامت تک ہر زمان و مکان کیلئے یہ دین یوں ہی رہے گا جس طرح اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے اسے تکمیل کو پہنچایا اور محفوظ حالت میں رکھا ہوا ہے۔ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ ۔۔۔۔۔ سورة المائدة ۔۔۔ آیت ۳

لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ خود کو آخری اُمت کہنے والی‘ قرآن کو آخری کتاب ماننے والی اور ختم بنوت کا عقیدہ کا رکھنے والی اس اُمت کی اکثریت تکمیلِ دین کا عقیدہ نہیں رکھتی یا اگر رکھتی بھی ہے تو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ خاتم المرسلین ﷺ دین کی ہر خیر اور ہر شر سے اُمت کو آگاہ کر گئے ہیں بلکہ اپنی طرف سے اضافی خیر (بدعات) دین میں شامل کرتی رہی ہے جو خیر نہیں بلکہ شر ہوتا ہے جس کے وجہ کر سنتیں چھوٹتی ہیں اور فرقے جنم لیتے ہیں۔

اگر یہ لوگ تکمیلِ دین کا عقیدہ رکھتے ہیں تو دین میں یہ کمی بیشی کیوں کر تے ہیں؟

یہ عام قاعدہ ہے کہ کسی بھی تکمیل سدہ شے میں کمی بیشی کرنا اس میں نقص اور بگاڑ پیدا کرتا ہے اور کوئی بھی اپنی کسی مکمل سدہ شے میں کسی کو ردوبدل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر جو لوگ اللہ کی مکمل کی ہوئی دین میں کمی بیشی کرتے ہیں وہ کتنی بڑی جسارت کے مرتکب ہیں‘ وہ اللہ کے مقابلے میں کیسے بے باک اور کتنے بے خوف ہیں ؟

کیا آپ ﷺ نے متنبہ نہیں کیا کہ:

فَاِنَّ اَصْدَقَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہَ وَ اَحْسَنَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْاُمُورِ مُحْدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَة وَ کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٍ وَ کُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ۔۔۔( سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ عیدین سے متعلقہ احادیث کی کتاب ۔ حدیث 1583)
’’ یقیناً بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہےاور بدترین کام (دین میں) نئی باتیں (بدعت) نکالنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ (میں لے جانے والی) ہے‘‘۔

اور کیا اللہ تعالٰی نے نہیں کہا:

وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٥٣﴾ سورۃ الانعام

’’ اور یہی میری صراط مستقیم ہے، سو اسی پر چلو، اور دوسری راہوں پر مت چلو، کہ وہ راہیں تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی، اس بات کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔

کاش ایسے لوگوں میں تقویٰ ہوتا اور تکمیلِ دین کا پختہ عقیدہ ہوتا تو دین میں نئی نئی راہیں (بدعات) نہیں نکالتے اور امت فرقوں میں تقسیم ہونے سے بچ جاتی‘ امت یوں زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی۔

اب بھی وقت ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت کی طرح عقیدۂ تکمیلِ دین کو بھی اجاگر کیجئے۔
قرآن و سنت سے ٹکرانے والی ہر بات اور ہر بدعت کو دین سے نکال دیجئے۔
دین کو خالص کیجئے اس امت کیلئے‘ آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے‘ اپنی دنیا اور آخرت کیلئے۔​

یا اللہ! بدعات و خرافات سے پاک کرکے قرآن و سنت والی اپنی خالص دین کو ساری دنیا میں غلبہ عطا فرما اور ہمیں‘ ہمارے اہل و عیال اور تمام مسلمانوں کو اسی خالص دین پر چلنے کی توفیق عطا فرما جسے تو نے اپنے محبوب نبی ﷺ کے ذریعے تکمیل کو پہنچایا اور محفوظ کیا ہوا ہے۔ آمین ۔۔۔ تحریر : محمد اجمل خان
!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ہر وہ چیز جو جنت سے قریب کرے اور جہنم سے دور کرے وہ تمہارے سامنے بیان کر دی گئی ہے‘‘۔ ( الطبرانی الکبیر: ۲/۱۵۶)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ
بالا روایت کا عربی متن درکار ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ہر وہ چیز جو جنت سے قریب کرے اور جہنم سے دور کرے وہ تمہارے سامنے بیان کر دی گئی ہے‘‘۔ ( الطبرانی الکبیر: ۲/۱۵۶)
اس روایت کا عربی متن درکار ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛
محترم بھائی !
یہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ اور شرح السنۃ میں مروی ہے :
مصنف ابن ابی شیبہؒ کی روایت درج ذیل ہے :
محمد بن بشر، قال: حدثنا، إسماعيل بن أبي خالد، عن، عبد الملك بن عمير، قال: أخبرت، أن ابن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيها الناس , إنه ليس من شيء يقربكم من الجنة ويبعدكم من النار إلا قد أمرتكم به , وليس شيء يقربكم من النار ويبعدكم من الجنة إلا قد نهيتكم عنه , وإن الروح الأمين نفث في روعي أنه ليس من نفس تموت حتى تستوفي رزقها , فاتقوا الله وأجملوا في الطلب , ولا يحملكم استبطاء الرزق على أن تطلبوه بمعاصي الله، فإنه لا ينال ما عنده إلا بطاعته»
مصنف ۳۴۳۳۲
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر وہ چیز جو تمہیں جنت کے قریب کر دے اور تمہیں جہنم سے دور کر دے اور جو چیزتمہیں جہنم کے قریب اورجنت سے دور کر سکتی ہے، میں نے تمہیں اس سے منع کر دیا ہے۔ روح قدس (یعنی جبریل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے: کسی جان اپنے حصہ کا مکمل رزق (اس دنیا میں )حاصل کئے بغیر موت نہیں آئے گی ، نہیں ، پس تم اللہ تعالی سے ڈرو اور اعتدال کے ساتھ مانگا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو رزق کا مؤخر ہونا تمہیں اس بات پر اکسا دے کہ تم اللہ تعالی کی نافرمانیاں کر کے رزق کی تلاش میں پڑ جاؤ (یاد رکھو!) جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے اس کی اطاعت کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔“

اور مشکوٰۃ المصابیح میں یہ روایت اس طرح ہے ؛
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّهَا النَّاسُ لَيْسَ مِنْ شَيْءٍ يُقَرِّبُكُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ وَلَيْسَ شَيْءٌ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ النَّارِ وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا قَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ وَإِنَّ الرُّوحَ الْأَمِينَ - وَفِي روايةٍ: وإِن رُوحَ الْقُدُسِ - نَفَثَ فِي رُوعِي أَنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّى تَسْتَكْمِلَ رِزْقَهَا أَلَا فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ وَلَا يَحْمِلَنَّكُمُ اسْتِبْطَاءُ الرِّزْقِ أَنْ تَطْلُبُوهُ بِمَعَاصِي اللَّهِ فَإِنَّهُ لَا يُدْرَكُ مَا عِنْدَ اللَّهِ إِلَّا بِطَاعَتِهِ «. رَوَاهُ فِي» شرح السّنة «وَالْبَيْهَقِيّ فِي» شعب الإِيمان إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ: «وَإِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ»
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ لوگو ! ہر وہ چیز جو تمہیں جنت کے قریب کر دے اور تمہیں جہنم سے دور کر دے میں اس کے متعلق تمہیں حکم دے چکا ہوں ، اور ہر وہ چیز جو تمہیں جہنم کے قریب کر دے اور تمہیں جنت سے دور کر دے میں اس سے تمہیں منع کر چکا ہوں ، بے شک روح الامین ، (اور ایک دوسری روایت میں ہے ) بے شک روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ کوئی نفس اپنا رزق پورا کیے بغیر فوت نہیں ہو گا ، سن لو ! اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے رزق تلاش کرو اور رزق کی تاخیر تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اللہ کی نافرمانی کے ساتھ اسے طلب کرو ، کیونکہ اللہ کے ہاں جو (انعامات) ہیں وہ تو محض اس کی اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔‘‘ شرح السنہ ، بیہقی فی شعب الایمان ، البتہ امام بیہقی نے ’’وَاِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ‘‘ کا ذکر نہیں کیا ۔
رواہ فی شرح السنہ و البیھقی فی شعب الایمان ۔
اس روایت کو علامہ البانیؒ نے ’’صحيح الجامع الصغیر 2085 میں صحیح قرار دیا ہے ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح مسلم میں ایک طویل حدیث میں یہی بات دوسرے الفاظ سے موجود ہے :
عن عبد الرحمن بن عبد رب الكعبة ، قال:‏‏‏‏ دخلت المسجد، ‏‏‏‏‏‏فإذا عبد الله بن عمرو بن العاص جالس في ظل الكعبة، ‏‏‏‏‏‏والناس مجتمعون عليه، ‏‏‏‏‏‏فاتيتهم فجلست إليه، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ " كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، ‏‏‏‏‏‏فنزلنا منزلا فمنا من يصلح خباءه، ‏‏‏‏‏‏ومنا من ينتضل، ‏‏‏‏‏‏ومنا من هو في جشره إذ نادى منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة جامعة، ‏‏‏‏‏‏فاجتمعنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه ان يدل امته على خير ما يعلمه لهم، ‏‏‏‏‏‏وينذرهم شر ما يعلمه لهم،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
(صحیح مسلم ،کتاب الامارۃ ،باب باب الْوَفَاءِ بِبَيْعَةِ الْخُلَفَاءِ الأَوَّلِ )
ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(مجھ سے پہلے کوئی نبی بھی نہیں گزرا مگر یہ اس پر واجب تھا کہ وہ اپنی امت کو ہروہ خیر بتلا دے جو وہ ان کے لئے جانتا ہے اور ہر اس شر سے انہیں خبردار کردے جو وہ ان کے لئے جانتا ہے)۔

''اے لوگو،مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس پر یہ لازم نہ رہا ہو کہ وہ اپنی قوم کی رہنمائی ان کے بھلے کی طرف کرے، اور ان کے بُرے سے انھیں متنبہ کر دے۔ (میں بھی تمھیں اچھے اور بُرے سے آگاہ کرنے آیا ہوں) ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top