محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
عقیدۂ تکمیلِ دین
امت محمدیہ پر امتوں کا سلسلہ مکمل ہوا ۔
اپنی امت کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ تم نے ستر امتوں کو پورا کردیا ہے‘ تم ان میں سب سے آخری امت ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والے ہو‘‘۔ (سنن دارمی‘ سنن ترمذی‘ مسند احمد‘ سنن ابن ماجہ)
اوراللہ تعالٰی کا آپ ﷺ کے بارے میں فرمان ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾ سورة الأحزاب
’’(لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ‘‘۔
اسی طرح آپ ﷺ کا اپنے بارے میں ارشاد ہے:
’’ بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے بہت اچھے طریقے سے ایک گھر بنایا اور اسے ہر طرح سے مزین کیا، سوائے اس کے کہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوڑ دی) پھر لوگ اس کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور (خوشی کے ساتھ) تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ یہاں کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پس میں وہ (نبیوں کے سلسلے کی) آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری: 3535، صحیح مسلم: 22/ 2286، دارالسلام: 5961،بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیّین)
یعنی اس آخری امت پر امت کا سلسلہ مکمل‘ نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل اور آسمانی صحائف کے نزول کا سلسلہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ ۔۔۔۔۔ سورة المائدة ۔۔۔ آیت ۳
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ہر وہ چیز جو جنت سے قریب کرے اور جہنم سے دور کرے وہ تمہارے سامنے بیان کر دی گئی ہے‘‘۔ ( الطبرانی الکبیر: ۲/۱۵۶)
اور صحابہ کرامؓ نے اس بات کا اقرار بھی کیا‘ جب آپ ﷺ نے حجتہ لاوداع کے موقعے پر دریافت کیا: ’’ تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟
صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آ پﷺنے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔
یہ سن کر آ پﷺنے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا‘ اے اللہ گواہ رہنا‘ اے اللہ گواہ رہنا ۔‘‘ (الرحیق المختوم: ص ۷۳۳)
لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ خود کو آخری اُمت کہنے والی‘ قرآن کو آخری کتاب ماننے والی اور ختم بنوت کا عقیدہ کا رکھنے والی اس اُمت کی اکثریت تکمیلِ دین کا عقیدہ نہیں رکھتی یا اگر رکھتی بھی ہے تو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ خاتم المرسلین ﷺ دین کی ہر خیر اور ہر شر سے اُمت کو آگاہ کر گئے ہیں بلکہ اپنی طرف سے اضافی خیر (بدعات) دین میں شامل کرتی رہی ہے جو خیر نہیں بلکہ شر ہوتا ہے جس کے وجہ کر سنتیں چھوٹتی ہیں اور فرقے جنم لیتے ہیں۔
اگر یہ لوگ تکمیلِ دین کا عقیدہ رکھتے ہیں تو دین میں یہ کمی بیشی کیوں کر تے ہیں؟
یہ عام قاعدہ ہے کہ کسی بھی تکمیل سدہ شے میں کمی بیشی کرنا اس میں نقص اور بگاڑ پیدا کرتا ہے اور کوئی بھی اپنی کسی مکمل سدہ شے میں کسی کو ردوبدل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر جو لوگ اللہ کی مکمل کی ہوئی دین میں کمی بیشی کرتے ہیں وہ کتنی بڑی جسارت کے مرتکب ہیں‘ وہ اللہ کے مقابلے میں کیسے بے باک اور کتنے بے خوف ہیں ؟
کیا آپ ﷺ نے متنبہ نہیں کیا کہ:
فَاِنَّ اَصْدَقَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہَ وَ اَحْسَنَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْاُمُورِ مُحْدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَة وَ کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٍ وَ کُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ۔۔۔( سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ عیدین سے متعلقہ احادیث کی کتاب ۔ حدیث 1583)
’’ یقیناً بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہےاور بدترین کام (دین میں) نئی باتیں (بدعت) نکالنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ (میں لے جانے والی) ہے‘‘۔
اور کیا اللہ تعالٰی نے نہیں کہا:
وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٥٣﴾ سورۃ الانعام
’’ اور یہی میری صراط مستقیم ہے، سو اسی پر چلو، اور دوسری راہوں پر مت چلو، کہ وہ راہیں تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی، اس بات کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔
کاش ایسے لوگوں میں تقویٰ ہوتا اور تکمیلِ دین کا پختہ عقیدہ ہوتا تو دین میں نئی نئی راہیں (بدعات) نہیں نکالتے اور امت فرقوں میں تقسیم ہونے سے بچ جاتی‘ امت یوں زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی۔
یا اللہ! بدعات و خرافات سے پاک کرکے قرآن و سنت والی اپنی خالص دین کو ساری دنیا میں غلبہ عطا فرما اور ہمیں‘ ہمارے اہل و عیال اور تمام مسلمانوں کو اسی خالص دین پر چلنے کی توفیق عطا فرما جسے تو نے اپنے محبوب نبی ﷺ کے ذریعے تکمیل کو پہنچایا اور محفوظ کیا ہوا ہے۔ آمین ۔۔۔ تحریر : محمد اجمل خان
!
امت محمدیہ پر امتوں کا سلسلہ مکمل ہوا ۔
اپنی امت کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ تم نے ستر امتوں کو پورا کردیا ہے‘ تم ان میں سب سے آخری امت ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والے ہو‘‘۔ (سنن دارمی‘ سنن ترمذی‘ مسند احمد‘ سنن ابن ماجہ)
اوراللہ تعالٰی کا آپ ﷺ کے بارے میں فرمان ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾ سورة الأحزاب
’’(لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ‘‘۔
اسی طرح آپ ﷺ کا اپنے بارے میں ارشاد ہے:
’’ بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے بہت اچھے طریقے سے ایک گھر بنایا اور اسے ہر طرح سے مزین کیا، سوائے اس کے کہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوڑ دی) پھر لوگ اس کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور (خوشی کے ساتھ) تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ یہاں کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پس میں وہ (نبیوں کے سلسلے کی) آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری: 3535، صحیح مسلم: 22/ 2286، دارالسلام: 5961،بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیّین)
یعنی اس آخری امت پر امت کا سلسلہ مکمل‘ نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل اور آسمانی صحائف کے نزول کا سلسلہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔
الحمد للہ ! ہم سب مسلمان ہیں۔
ہم یہ تو مانتے ہیں کہ ہم آخری اُمت ہیں۔
ختم نبوت و رسالت پر ہمارا عقیدہ بھی غیر متزلزل ہے۔
ہمارا یہ دعویٰ بھی ہے کہ قرآن اللہ کی ہدایت، نصیحت‘ خیر خواہی اور نعمتوں کو مکمل کرنے والی آخری کتاب ہے۔
اور ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ہم سب جس دین اسلام پر ہیں اس دین کو اللہ تعالٰی نے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی مکمل کر دیا ہے۔
جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:ہم یہ تو مانتے ہیں کہ ہم آخری اُمت ہیں۔
ختم نبوت و رسالت پر ہمارا عقیدہ بھی غیر متزلزل ہے۔
ہمارا یہ دعویٰ بھی ہے کہ قرآن اللہ کی ہدایت، نصیحت‘ خیر خواہی اور نعمتوں کو مکمل کرنے والی آخری کتاب ہے۔
اور ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ہم سب جس دین اسلام پر ہیں اس دین کو اللہ تعالٰی نے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی مکمل کر دیا ہے۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ ۔۔۔۔۔ سورة المائدة ۔۔۔ آیت ۳
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ہر وہ چیز جو جنت سے قریب کرے اور جہنم سے دور کرے وہ تمہارے سامنے بیان کر دی گئی ہے‘‘۔ ( الطبرانی الکبیر: ۲/۱۵۶)
اور صحابہ کرامؓ نے اس بات کا اقرار بھی کیا‘ جب آپ ﷺ نے حجتہ لاوداع کے موقعے پر دریافت کیا: ’’ تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟
صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آ پﷺنے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔
یہ سن کر آ پﷺنے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا‘ اے اللہ گواہ رہنا‘ اے اللہ گواہ رہنا ۔‘‘ (الرحیق المختوم: ص ۷۳۳)
- لہذا اللہ تعالٰی نے تکمیل دین کا اعلان کر دیا‘
- اللہ کے رسولﷺ نے اس مکمل دین کو لوگوں تک پہنچا دیا‘
- اور اللہ تبارک و تعالٰی نے اس دین رحمت‘ کتاب عزیز اور رسول رحمت ﷺ کے اقوال و افعال کو قیامت تک کیلئے محفوظ کر دیا۔
لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ خود کو آخری اُمت کہنے والی‘ قرآن کو آخری کتاب ماننے والی اور ختم بنوت کا عقیدہ کا رکھنے والی اس اُمت کی اکثریت تکمیلِ دین کا عقیدہ نہیں رکھتی یا اگر رکھتی بھی ہے تو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ خاتم المرسلین ﷺ دین کی ہر خیر اور ہر شر سے اُمت کو آگاہ کر گئے ہیں بلکہ اپنی طرف سے اضافی خیر (بدعات) دین میں شامل کرتی رہی ہے جو خیر نہیں بلکہ شر ہوتا ہے جس کے وجہ کر سنتیں چھوٹتی ہیں اور فرقے جنم لیتے ہیں۔
اگر یہ لوگ تکمیلِ دین کا عقیدہ رکھتے ہیں تو دین میں یہ کمی بیشی کیوں کر تے ہیں؟
یہ عام قاعدہ ہے کہ کسی بھی تکمیل سدہ شے میں کمی بیشی کرنا اس میں نقص اور بگاڑ پیدا کرتا ہے اور کوئی بھی اپنی کسی مکمل سدہ شے میں کسی کو ردوبدل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر جو لوگ اللہ کی مکمل کی ہوئی دین میں کمی بیشی کرتے ہیں وہ کتنی بڑی جسارت کے مرتکب ہیں‘ وہ اللہ کے مقابلے میں کیسے بے باک اور کتنے بے خوف ہیں ؟
کیا آپ ﷺ نے متنبہ نہیں کیا کہ:
فَاِنَّ اَصْدَقَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہَ وَ اَحْسَنَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْاُمُورِ مُحْدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَة وَ کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٍ وَ کُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ۔۔۔( سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ عیدین سے متعلقہ احادیث کی کتاب ۔ حدیث 1583)
’’ یقیناً بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہےاور بدترین کام (دین میں) نئی باتیں (بدعت) نکالنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ (میں لے جانے والی) ہے‘‘۔
اور کیا اللہ تعالٰی نے نہیں کہا:
وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٥٣﴾ سورۃ الانعام
’’ اور یہی میری صراط مستقیم ہے، سو اسی پر چلو، اور دوسری راہوں پر مت چلو، کہ وہ راہیں تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی، اس بات کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔
کاش ایسے لوگوں میں تقویٰ ہوتا اور تکمیلِ دین کا پختہ عقیدہ ہوتا تو دین میں نئی نئی راہیں (بدعات) نہیں نکالتے اور امت فرقوں میں تقسیم ہونے سے بچ جاتی‘ امت یوں زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی۔
اب بھی وقت ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت کی طرح عقیدۂ تکمیلِ دین کو بھی اجاگر کیجئے۔
قرآن و سنت سے ٹکرانے والی ہر بات اور ہر بدعت کو دین سے نکال دیجئے۔
دین کو خالص کیجئے اس امت کیلئے‘ آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے‘ اپنی دنیا اور آخرت کیلئے۔
عقیدۂ ختم نبوت کی طرح عقیدۂ تکمیلِ دین کو بھی اجاگر کیجئے۔
قرآن و سنت سے ٹکرانے والی ہر بات اور ہر بدعت کو دین سے نکال دیجئے۔
دین کو خالص کیجئے اس امت کیلئے‘ آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے‘ اپنی دنیا اور آخرت کیلئے۔
یا اللہ! بدعات و خرافات سے پاک کرکے قرآن و سنت والی اپنی خالص دین کو ساری دنیا میں غلبہ عطا فرما اور ہمیں‘ ہمارے اہل و عیال اور تمام مسلمانوں کو اسی خالص دین پر چلنے کی توفیق عطا فرما جسے تو نے اپنے محبوب نبی ﷺ کے ذریعے تکمیل کو پہنچایا اور محفوظ کیا ہوا ہے۔ آمین ۔۔۔ تحریر : محمد اجمل خان
!