• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ اہل سنت والجماعت

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
دولت الاسلامیہ کا عقیدہ و منہج، ترجمہ انصار اللہ اردو
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہمارا عقیدہ

ہم اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے اور اُس سے مدد طلب کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں:

  • ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ بلند وبرتر اور عظیم ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ کوئی اس کا ہمسر نہیں۔ توحید کا کلمہ جس چیز کو ثابت کرتا ہے، ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے اُس کا اثبات کرتے ہیں۔ ہم اُس کے ساتھ شرک کی نفی کرتے ہیں۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ یہی دین کی ابتدا اور انتہا ہے اور یہی دین کا ظاہر اور باطن ہے۔ جس نے اس کلمے کا اقرار کیا، اس کی شرائط کی پابندی کی اور اس کا حق ادا کیا، وہی مسلمان ہے۔ جس نے اس کی شروط کی بجاآوری نہیں کی، یا اس کے نواقض (اسلام کو ڈھانے والے اُمور) میں سے کسی ایک بھی ناقض کا ارتکاب کیا، وہ کافر ہے، خواہ وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا رہے۔

  • ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق اور مدبر ہے۔ اسی کے لیے ساری بادشاہت ہے۔ اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ وہ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے۔ وہی اول وآخر اور ظاہر وباطن ہے۔

{لَیْسَ کَمِثْلِهٖ شَیْءٌ وَّهُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ}

’’نہیں ہے اس جیسی کوئی چیز۔ اور وہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ (الشوری: ۱۱)

  • ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اسماء اور اُس کی صفات کے معاملے میں کج روی اختیار نہیں کرتے۔ ہم ان کو اس کے لیے بالکل اسی طرح ثابت مانتے ہیں جیساکہ وہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں مذکور ہیں، بغیر تکییف (کیفیت بیان کرنے)، تمثیل (مخلوق جیسی مثالیں دینے)، تاویل (ظاہری معنی کو چھوڑ کر خودساختہ معنی مراد لینے) اور تعطیل (انکار کرنے ) کے۔

  • ہم ایمان لاتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انس وجن سب کی طرف اللہ کے رسول ہیں۔ جس چیز کا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، اُس کی اتباع واجب اور اُس کی تعمیل ضروری ہے۔ اور جن چیزوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے، اُن کی تصدیق کرنا اور اُن کے آگے سرتسلیم خم کرنا لازم ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل فرمان پر کاربند ہیں:

{فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتَّى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِىْ أَ نْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا}

’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ کے رب کی قسم! وہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر آپ کے کیے ہوئے فیصلے پر ان کے دلوں میں کوئی تنگی نہ آنے پائے اور وہ اسے دل و جان سے مان لیں۔‘‘ (النساء: ٦۵)

  • ہم اللہ تعالیٰ کے معزز فرشتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو جو حکم دیتا ہے، وہ اُس میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے، اُس کو بجالاتے ہیں۔ اُن کی محبت ایمان کا حصہ ہے اور اُن سے بغض کفر میں شامل ہے۔

  • ہم ایمان لاتے ہیں کہ قرآن مجید اپنے حروف ومعانی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، نیز وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے، مخلوق نہیں۔ اس کی تعظیم واجب ہے۔ اس کی اتباع لازم ہے اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا فرض ہے۔

  • ہم اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء اور رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے سیدنا آدم ہیں اور سب سے آخری محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ انبیائے کرام باہم محبت کرنے والے بھائی ہیں جن کو رب العالمین کی توحید پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیا۔

  • ہم ایمان لاتے ہیں کہ سنت وحی کی دوسری قسم ہے جو قرآن کی وضاحت اور اس کی تفسیر کرتی ہے۔ جو سنت صحیح اور ثابت ہے، ہم کسی بھی شخص کے قول کی وجہ سے اس سے اعراض نہیں کرتے۔ ہم چھوٹی بڑی ہر قسم کی بدعات سے اجتناب کرتے ہیں۔

  • ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایک فریضہ اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ آپ سے بغض رکھنا کفر ونفاق ہے۔ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی بنیاد پر آپ کے اہل بیت سے محبت کرتے ہیں، اُن کی عزت وتوقیر کرتے ہیں اور ان کے معاملے میں افراط وتفریط سے کام نہیں لیتے۔

  • ہم تمام صحابہ کرام سے راضی ہیں۔ وہ سب کے سب عادل ہیں۔ ہم اُن کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ اُن کی محبت ہمارے لیے واجب ہے اور اُن سے بغض ہمارے ہاں نفاق ہے۔ ہم اُن کے آپس کے اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ وہ سب اس معاملے میں متاوّل تھے اور بہترین لوگ تھے۔

  • ہم تقدیر پر ایمان لاتے ہیں۔ اُس میں موجود خیروشر سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عام مشیت اور مطلق ارادہ (کتاب وسنت سے ثابت) ہے۔ جو اللہ چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا، وہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے اور اُس کے حکم کے بعد ہی بندوں کو اپنے افعال میں اختیار حاصل ہے۔ اللہ سبحانہ کی قضا وقدر اُس کی رحمت، فضل اور عدل سے خارج نہیں۔

  • ہم ایمان لاتے ہیں کہ قبر کا عذاب اور اس کی نعمتیں برحق ہیں، اگر اللہ نے چاہا تو وہ اس کے مستحق کو عذاب دے گا اور چاہے گا تو معاف کردے گا۔ منکرونکیر کے مسئلے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذکر کردہ احادیث سے جو کچھ ثابت ہے، ہم اس پر بھی ایمان لاتے ہیں، جیسا کہ اس کے متعلق درج ذیل فرمانِ الٰہی بھی ہے:

{يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِى الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِى الْآخِرَةِ وَ يُضِلُّ اللهُ الظَّالِمِيْنَ وَ يَفْعَلُ اللهُ مَا يَشَاءُ}

’’اللہ ایمان والوں کو قولِ ثابت (کلمہ توحید) سے دنیا کی زندگی اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے اور اللہ ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘ (ابراہیم: ۲۷)

  • ہم موت کے بعد زندہ ہونے پر، یوم آخرت پر، اعمال اور لوگوں کے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے پر، روزِ حساب اور میزان پر، حوض کوثر اور پل صراط پر اور جنت وجہنم کے برحق ہونے پر ایمان لاتے ہیں۔

  • ہم قیامت کی نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں مذکور ہیں۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا ہے، اس وقت سے لے کر روزِ قیامت تک سب سے عظیم فتنہ مسیح دجال کا فتنہ ہے۔ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ عیسیٰ عدل و انصاف قائم کرنے والے بن کر نازل ہوں گے۔ ہم نبوی طریقے کے مطابق خلافت راشدہ کی واپسی پر ایمان لاتے ہیں۔

  • ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہل توحید کو شافعین کی سفارش پر آگ سے خلاصی دے گا۔ یہ شفاعت حق ہے اُس کے لیے جسے اللہ اجازت دے اور اس کی بات کو پسند کرے۔

  • ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر ایمان لاتے ہیں اور یہ کہ روزِ قیامت اُنھی کو مقامِ محمود عطا ہوگا۔

  • ایمان قول، عمل اور نیت کا نام ہے۔ ایمان دل سے اعتقاد، زبان سے اقرار اور اعضاء وجوارح سے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ تینوں چیزیں لازم وملزوم ہیں اور ان میں سے ایک دوسری سے کفایت نہیں کرتی۔

  1. دل کا اعتقاد: اُس کا قول اورعمل ہے۔
  2. دل کے قول سے مراد یہ ہے: اُس کی معرفت یا اُس کا علم اور اُس کی تصدیق۔
  3. دل کے اعمال میں سے یہ چیزیں ہیں: محبت، خوف اور اُمید۔۔۔۔۔ الخ

  • ایمان اطاعت و فرمانبرداری سے بڑھتا ہے اور گناہ ونافرمانی سے گھٹتا ہے۔ اس کی مختلف شاخیں ہیں جیساکہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ ان میں سب سے اعلیٰ شاخ ”لا الٰہ الا اللہ“ اور سب سے ادنیٰ شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ ایمان کی بعض شاخیں وہ ہیں جو اصل (بنیاد) ہیں جن کے زائل ہونے سے ایمان زائل ہوجاتا ہے، جیسے توحید (لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ)، نماز اور اس طرح کے دیگر امور کی شاخیں جن کے متعلق شارع نے صراحت کی ہے کہ ان کو ترک کرنے سے ایمان کی اصل زائل ہوجاتی ہے اور ایمان جاتا رہتا ہے۔

  • ان میں سے کچھ چیزیں ایمان کے واجبات میں سے ہیں۔ ان کے زائل ہونے سے واجبی ایمان گھٹ جاتا ہے، مثال کے طور پر زنا، شراب نوشی، چوری وغیرہ۔

  • ہم موحدین میں سے کسی بھی شخص کی اور جو مسلمانوں کے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے، اس کی گناہوں (جیسے زنا، شراب نوشی اور چوری) کی وجہ سے تکفیر نہیں کرتے، جب تک کہ وہ اُسے حلال نہ سمجھے۔

  • ایمان کے معاملے میں ہمارا قول غالی خوارج اور تفریط کا شکار اہلِ ارجاء کے بین بین ہے۔

  • کفر، اکبر اور اصغر ہوتا ہے۔ اس کا حکم اس کا ارتکاب کرنے والے پر اعتقادی یا قولی یا فعلی طور پر لاگو ہوتا ہے لیکن اُن میں سے ایک معین شخص کی تکفیر اور اُس کے ہمیشہ آگ میں رہنے کا حکم تکفیر کی شروط کے ثابت ہونے اور موانع تکفیر کی عدم موجودگی پر موقوف ہے۔ ہم وعدہ، وعید، تکفیر اور تفسیق کے متعلق وارد نصوص کو مطلق ہی رکھتے ہیں اور کسی معین فرد کے اس عموم میں داخل ہونے کا حکم نہیں لگاتے یہاں تک کہ اس کے اندر کوئی ایسی چیز پائی جائے جو تکفیرِ معین کا تقاضا کرتی ہو اور جس کا معارض بھی کوئی نہ ہو۔ ہم محض گمان اور کسی بات کے انجام اور نتیجہ خیزی کی بنا پر کسی کو کافر قرار نہیں دیتے۔

  • ہم اُس کی تکفیر کرتے ہیں جس کی اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تکفیر کی ہے۔ جس نے بھی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیارکیا، خواہ اُس کے پاس دلیل پہنچی یا نہیں، وہ کافر ہے، البتہ آخرت کے عذاب کا وہی مستحق ہوگا جس تک دلیل پہنچ گئی ہوگی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

{
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا} (الإسراء : ۱۵)

’’اور ہم اس وقت تک کسی کو عذاب نہیں دیتے جب تک کوئی پیغمبر نہ بھیج لیں۔‘‘ (بنی اسرائیل : ۱۵)

  • جو شہادتین کا اقرار کرے، ہمارے سامنے اسلام ظاہر کرے اور نواقضِ اسلام میں سے کسی بھی ناقض کا ارتکاب نہ کرے، ہم اُس کے ساتھ مسلمانوں والا معاملہ کرتے ہیں اور اس کا باطن اللہ کے سپرد کرتے ہیں، اس لیے کہ جب کوئی ہمارے سامنے شعائر دین کا اظہار کرتا ہے تو اُس پر اُسی کے احکامات لاگو ہوتے ہیں۔ پس لوگوں کے معاملات ظاہر پر محمول ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی پوشیدہ باتوں کا نگہبان ہے۔

  • رافضی گروہ ہمارے ہاں مشرک اور مرتد ہے۔

  • ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ جب کسی ملک پر کفریہ قوانین چھا جائیں اور وہاں اسلامی احکام کے بجائے کفریہ احکام کا غلبہ ہو تو وہ دار الکفر ہے۔ اسلامی حکومت کے نہ ہونے، مرتدین کے غالب آجانے اور ان کے اسلامی مملکت کی باگ ڈوریں سنبھالنے کی وجہ سے وہاں کے باشندوں کی تکفیر لازم نہیں آتی۔ ہم غالی افراد کی طرح یہ نہیں کہتے: (الأصل فی الناس الکفرُ مطلقاً )“ اصل یہ ہے کہ تمام لوگ مطلق طور پر کافر ہیں۔‘‘

بلکہ سب کے سب لوگ اپنی اپنی حالت کے مطابق شمار ہونگے۔ اُن میں مسلمان بھی ہیں اور کافر بھی۔

  • ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ سیکولرازم اپنے مختلف جھنڈوں اور مذاہب، جیساکہ قومیت، وطنیت، کمیونسٹ اور بعثیت سمیت واضح اور کھلم کھلا کفر ہے جو اسلام کے منافی اور ملت سے خارج کردینے والا ہے۔


ہمارا منہج

  • ہمارے ہاں استدلال کے اصول؛ کتاب وسنت اور بہترین ابتدائی تین صدیوں کے سلف صالح کا فہم ہے۔

  • ہم ہر نیک، فاجر اور مسلمانوں میں سے جو مستور الحال ہو، اُس کے پیچھے نماز کو جائز سمجھتے ہیں۔

  • جہاد امام (حاکم) کی موجودگی، عدم موجودگی اور اُس کے ظلم وانصاف کے باوجود تاقیامت جاری رہے گا۔ اگر امام موجود نہ ہو تب بھی جہاد مؤخر نہیں ہوتا کیونکہ جہاد کی مصلحت اس کی تاخیر کے باعث فوت ہوجاتی ہے۔ اگر مالِ غنیمت مجاہدین کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اسے شریعت کے مطابق تقسیم کریں گے۔

  • ہر مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں سے جہاد کرے، اگرچہ وہ تنہارہ جائے۔

  • مسلمانوں کا خون، اُن کی عزت وآبرو اور اُن کے اموال ہمارے نزدیک حرام ہیں۔ ان میں سے صرف وہی جائز و مباح ہے جسے شریعت نے جائز قرار دیا ہو اور جس کا خون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رائیگاں ٹھہرایا ہو۔

  • اگر حملہ آور کافر مسلمانوں کی حرمات و مقدسات پر چڑھائی کردے تو اس وقت جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے کسی شرط کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہر ممکن حد تک اس دشمن کو دور کرنا ضروری ہے، پس حملہ آور دشمن جو دین ودنیا کو تباہ وبرباد کردے، ایمان کے بعد اس کو مار بھگانے سے زیادہ کوئی چیز واجب نہیں۔

  • ارتداد کا کفر بالاجماع کفر اصلی سے زیادہ سخت ہے، اس لیے مرتدین سے قتال ہمارے نزدیک اصلی کافر کے قتال سے اولیٰ اور زیادہ ضروری ہے۔

  • منصب امامت (حکمرانی) کسی کافر کے لیے منعقد (وقوع پذیر) نہیں ہوتا اور جب امام کفر کا مرتکب ہو تو وہ اقتدار کے حکم سے خارج ہوجاتا ہے اور اُس کی اطاعت ساقط ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں مسلمانوں پر واجب ہوجاتا ہے کہ وہ اُس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور اُسے معزول کردیں۔ نیز اگر ان کے بس میں ہو تو اُس کی جگہ عادل امام کو منصبِ امامت پر فائز کریں۔

  • دین کے قیام کا ذریعہ قرآن ہے جو سیدھی راہ دکھاتا ہے اور تلوار ہے جو مدد فراہم کرتی ہے، پس ہمارا جہاد سیف وسنان (تلوار ونیزے) اور حجت وبیان کے ساتھ ہوتا ہے۔

  • جس نے اسلام کے سوا کسی اور چیز کی دعوت دی، یا ہمارے دین میں طعن وتشنیع کی، یا ہم پر تلوار اٹھائی تو وہ ہم سے جنگ کرنے والا (محارب) ہے۔

  • ہم فرقہ بندی اور باہمی اختلاف کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور اتحاد واتفاق کی دعوت دیتے ہیں۔

  • ہم اجتہادی مسائل میں کسی بھی مسلمان کو نہ تو گناہ گار قرار دیتے ہیں اور نہ اس سے قطع تعلقی کرتے ہیں۔

  • ہم امت بالخصوص مجاہدین کے ایک پرچم تلے جمع ہونے کو واجب سمجھتے ہیں۔

  • مسلمان ایک اُمت ہیں۔ ان میں سے کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ۔ مسلمانوں کے خون آپس میں برابر ہیں۔ ان کا ادنیٰ آدمی بھی معاہدے کی ذمہ داری اٹھاسکتا ہے اور کسی کو امان دے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جو نام رکھے ہیں، ہم ان سے انحراف نہیں کرتے۔

  • ہم اللہ تعالیٰ کے دوستوں سے دوستی کرتے اور اُن کی نصرت وحمایت کر تے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم کتاب وسنت کی شاہراہ پر گامزن ہو کر اور بدعت و گمراہی کی راہوں سے اجتناب کرتے ہوئے ملتِ اسلام کے سوا ہر ملت ومذہب سے علیحدگی اور بیزاری اختیار کرتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں۔

یہی ہماراعقیدہ اور منہج ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمارا دین اور ہمارا شِعار ہیں۔ اسی پر ہم یکجاہیں اور اسی کی خاطر ہم جہاد کررہے ہیں۔

ہم اللہ تعالیٰ سے مرتے دم تک ہدایت، ثابت قدمی اور اس عقیدہ ومنہج پر مضبوطی کے ساتھ کاربند رہنے کی دعا کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ملکوں کو فتح کرنے، توحید وسنت کا علم بلند کرنے اور شرک وبدعت سے جنگ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

وَصَلَّى اللهُ عَلٰى نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِيْنَ

’’اللہ تعالی کا درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد پر آپ کے آل پر اور آپ کے تمام ساتھیوں پر۔‘‘
 
Top