lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
عقیدہ توحید
اللہ تعالی کا بے حدود بے شمار شکر ہے جس نے اپنے بے باہاں فضل وکرم سے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ عقیدہ توحید اور شرک کے باب میں شکوک وشبہات اور پیدا کردہ الجھنوں کا حل پیش کیا جاسکے۔
دین اسلام میں عقیدہ توحید پہلا اور بنیادی رکن ہے اسلامی نظریہ حیات اسی تصور کو انسان کے رگ و پے میں اتارنے اور اس کے قلب وباطن میں جاگزیں کرنے سے متحقق ہوتا ہے تصور توحید کی اساس تمام مصوران باطلہ کی نفیب اور ایک خدائے لم یزل کے اثبات پر ہے عقیدہ توحید پر ہی ملت اسلامیہ کے قیام، بقاء اور ارتقاء کا انحصار ہے۔
یہی توحید امت مسلمہ کی قوت، علامت کاسرچشمہ اور اسلامی معاشرے کی روح رواں ہے یہ توحید ہی تھی جس نے ملت اسلامیہ کو ایک لڑی میں پرو کر ناقابل تسخیر قوت بنا دیا تھا۔ یہی توحید سلطان و سیر کی قوت و شوکت اور مرد فقیر کی ہیبت وسطوت تھی اس دور زوال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ملت اسلامیہ جو سو دورں سے خالی ہو چکی ہے اس کے دل میں عقیدہ توحید کا صحیح تصور قرآن وسنت کی روشنی میں از سر نو اجاگر کیا جائے تاکہ مرد مومن پھر لا اور إلا کی تیغ دو دم سے مسلح ہو کر یہ باطل استعماری قوت کا مقابلہ کر سکے۔
توحید معنی ومفہوم
اللہ تعالی اپنی ذات اور صفات میں واحد اور لاثانی ہے اس کی صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں تمام کائنات ایک ذات کی پیدا کردہ ہے۔ اس کے سامنے ساری مخلوق اور دنیا کی طاقتیں ہیچ ہیں۔ موت وزندگی ، صحت وبیماریب ، نفع ونقصان سب اس کے اختیار میں ہے۔ کسی مخلوق کو دخل نہیں اس کی اجازت کےبغیر کوئی شخص خواہ وہ نبی یا ولی سفارش كی جرأت کر سکے۔
توحید کے معنی ومفہوم:
توحید معنی:
توحید کا لفظ وحدت سے نکلا ہے اس کا مادہ و، ح،د ہے اور اس کا لغوی معنی ہیں واحد ماننا، ایک ٹھہر انا، تنہا اور یکتا قرار دینا۔
المنجد میں توحید کے مصدر کے اعتبار سے یہ معنی بیان کیے گئے ہیں۔
التوحید۔ اعتقاد وحدانیته تعالی
(تیز فاعل یعنی موحد کے مندرجہ ذیل معنی بیان کیئے گئے ہیں۔
الموحد: من یعتقد وحدانية الله(لولس معلوف المنجد فی اللغۃ : ص 891)
مفردات القرآن میں توحید کے معنی اس طرح بیان ہوئے ہیں:
الوحدۃ کے معنی یگانگت کے ہیں اور واحد درحقیقت وہ چیز ہے جس کا قطعا کوئی جز نہ ہو پھر اس کا اطلاق موجود پر ہوتا ہے۔(مفردات القرآن از امام راغب اصفہانی : ص959)
توحید کا شرعی و اصطلاحی مفہوم:
شریعت کی اصطلاح میں یہ عقیدہ رکھنا کہ توحید ہے کہ ’’ اللہ تعای اپنی ذات و صفات اور جملہ اوصاف و کمالات میں یکتا وبے مثال ہے، اس کا کوئی ساجھی یا شریک نہیں اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔
امام ابو جعفر الطحاوی رحمہ اللہ عقیدہ توحید کی تشریح کرتے ہوئے اس کےشرعی و اصطلاحی مفہوم کو درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’ نقول فی توحید الله معتقدین بتوفیق الله: إن الله واحد، لا شریك له ولاشئ مثله ولا شئ یعجزه ولا إله غیره، قدیم بلا ابتداء، دائم بلا إنتهاء لا یفنی ولایبید ولا یکون إلا ما یرید لا تبلغه الأوهام ولانذركه الأفهام ولا یشبهه الأنام، حي لا یموت، قیوم لا ینام، خالق بلا حاجة، رازق بلا مئونة، ممیت بلا مخافة ، باعث بلا مشقة، مازال بصفاته، قد يما قبل خلقه لم یزدد بکونهم شیئا لم یکن قبهلم من صفته و کما کان بصفاته ازلیا کذالك لا یزال عليها أبدیاً، لیس بعد خلق الخلق استفاد اسم الخالق ولا بأحداثہ البرية استفاد اسم الباری۔
وکلهم ینقلبون فی شيئته بین فضله وعدله وهو مثقال عن الأضداد وإلا نداد، لااراد لقضائه ولا معقب لحکمه ولا غالب لأمره، آمنا بذالك كله وایقنا ان کلا من عندہ (العقيدة الطحاوية لأبو جعفر الطحاوی : ص 9۔11)
’’ ہم اللہ رب العزت کی توحید پر اعتقاد رکھتے ہوئے اسی کی توفیق سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات یکتا و قادر ہے اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں کوئی شے اس کے مثل نہیں او رکوئی چیز اللہ تعالی کو کمزور اور عاجز نہیں کر سکتی۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ قدیم ہے جس کے وجود کے لئے کوئی ابتداء نہیں وہ زندہ جاوید ہے جس کے وجود کے لئے کوئی انتہاء نہیں اس کی ذات کو فنا اور زوال نہیں اس کے ارادے کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس کی حقیقت فکر انسانی رسائی سے بلند تر ہے اور انسانی عقل و فہم اس کے ادراک سے قامہ ہے اس کی مخلوق کےساتھ کوئی مشابہت نہیں وہ ازل سے زندہ سے جس پر کبھی موت وارد نہیں ہو گی اور ہمیشہ سے قائم رہنے والا ہے جو نیند سے پاک ہے وہ بغیر کسی حاجت کے خالق وہ بغیر کسی محنت کے رازق ہے ہے بغیر کسی مشقت کے دوبارہ زندہ کرنے والا ہے اللہ تعالی مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل ہی اپنی صفات کاملہ سے متصف تھا۔ اس نے مخلوق کے وجود سے کوئی ایسی صفت حاصل نہیں کی جو اسے پہلے سے حاصل نہ تھی جس طرح ازل میں وہ صفات الوہیت سے متصف تھا ۔
تمام لوگ اس کے مثبت کے انداز اس کے فضل اور بدل کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں نہ کوئی اس کے مد مقابل ہے اور نہ کوئی شریک اءس کے فیصلہ کو کوئی رد کرنے والا نہیں اس کے حکم کے آگے کوئی پس وپیش کرنے والا نہیں اور کوئی اس کے امر پر غالب آنے والا نہیں ہم ان تمام باتوں پر ایمان لا چکے ہیں۔ اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس کی طرف سے ہے۔
امام عمر بن محمد النفی (537ھ) مفہوم توحید کے بیان میں لکھتے ہیں:
’’ والمحدث للعام هو الله تعالی الواحد القدیم الحي القادر العلیم السمع البصیر الشائی المرید لیس یعرض ولا جسم، ولا جوهر ولا مصور ، ولا محدود ، ولا معدود ولا متبعض ، ولا متعجز، ولا مترکب ولا مثناه، ولا یوصف بالمناهية ولا بالكيفية ، ولا يتمكن في مكان يجري إليه زمان ولا يشبهه شیئ ولایخرج عن علمه وقدرته شیئ
وله صفات أزلية قائمة بذاته وهي لا هو ولا غيره (العقدالنسفية لإمام عمر بن محمد النسفی : ص 2 )
’’ عالم کو سب سے پہلے وجود عطا کرنے والی ذات اللہ تبارک وتعالی کی ہے جو کہ واحد ہے، قدیم ہے، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے قدرت رکھنے والا ہے ، جاننے والا ہے، سننے والا ہے ، دیکھنے والا ہے ، چاہنے والا ہے، ارادہ کرنے والا ہے ، وہ عرض نہیں نہ جسم، نہ جو ہر ہے نہ اس کی شکل و صورت نہ محدود ہے نہ معدود نہ حصوں کی شکل میں ہے نہ جزء کی صورت میں نہ مرکب ہے نہ متناہی نہ ؟؟ بیان کیا جاتا ہے نہ ہی کیفیت کےساتھ وہ نہ کسی کے مکان میں متمکن ہے نہ ہی کوئی زمانہ اس پر حاوی ہے کوئی چیز بھی اس سے مشابہت نہیں رکھتی اور کوئی چیز بھی اس کی قدرت اور اس کے علم سے خارج نہیں۔
اس کی صفات ازلی ہیں جو اس کی ذات سے قائم ہیں اور یہ صفات نہ ہی وہ (ذات باری تعالی) ہے اور نہ ہی اسی کا غیر ہیں۔‘‘
توحید کے فضیلت
قیامت کے روز انسان کی نجات کا انحصار دو باتوں پر ہو گا۔
1.ایمان
2.عمل صالح
ایمان سے مراد اللہ تعالی کی ذات پر ایمان، رسالت اور آخرت پر ایمان او رفرشتوں پر ایمان، اچھی یا بری تقدیر پر ایمان۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
’’ ایمان کی 70 سے زیادہ شاخیں ہیں ان میں سے سب سے افضل لا إله إلا الله کہنا ہے۔(صحیح بخاری ، کتاب الإیمان ،باب امور الإیمان )
یعنی ایمان کی بنیاد کلمہ توحید ہے۔
اعمال صالحہ سے مراد وہ اعمال ہیں جو سنت کے مطابق ہوں۔ بلاشبہ نجات اخروی کے لئے اعمال صالحہ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن عقیدہ توحید اور اعمال صالح دونوں میں سے عقیدہ توحید کی اہمیت کہیں زیادہ ہے ۔
محمد اقبال کیلانی اپنی تصنیف ’’ کتاب التوحید‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ قیامت کے روز عقیدہ توحید کی موجودگی میں اعمال کی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافی تو ہو سکتی ہے لیکن عقیدے میں بگاڑ، کافرانہ، مشرکانہ) یا توحیج میں شرک کی آمیزش) کی صورت میں زمین وآسمان کی وسعتوں کے برابر صالح اعمال بھی بے کار و عبث ہوں گے۔(کتاب التوحید از محمد اقبال کیلانی : ص10)
ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الأرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ ﴾(سورة آل عمران 3:91)
’’ جن لوگو ں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں مرے ان میں سے کوئی اگر ( اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لئے) روئے زمین بھر کہ بھی سونا فدیہ میں دے دے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کوئی مددگار نہ ہو گا۔‘‘
ارشاد ربانی ہے:
﴿ الَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُوْلَئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴾(سورة الأنعام:82)
’’ جو لوگ ایمان لائے ٰاور انہوں نے اپنے ( ایمان کو ظلم ) شرک سے آلودہ نہیں کیا، ان ہی کے لئے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘
عقیدہ توحید کی فضیلت میں رسول اللہﷺسے ایک حدیث مروی ہے:
« مَنْ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَكَلِمَتُهُ ، أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ ، وَرُوحٌ مِنْهُ ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنَ الْعَمَلِ »(صحیح بخاری ، کتاب أحادیث الأنبیاء ،باب قول الله تعالي (يأهل الكتاب لا تغلوا في دينكم):3435)
’’ جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں او رمحمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اور عیسی علیہ السلام بھی اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور اس کا کلمہ میں اس نے سیدہ مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا تھا اور وہ اسی کی بھیجی ہوئی روح ہیں اور یہ جنت برحق ہے اور جہنم بھی برحق ہے تو ایسے شخص کو اللہ جنت میں داخل کرے خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں۔‘‘
توحيد كی اقسام
(توحیداللہ)تواس کامطلب ہوتاہے انسان کاتمام اعمال میں ،جوبالواسطہ یابلاواسطہ اللہ سے متعلق ہوں ،اللہ کی وحدانیت کی سمجھ رکھنااوراسے قائم رکھنا۔یہ اس پرایمان ہےکہ اللہ ایک ہے،اس کی بادشاہی میں اوراس کے کاموں میں اس کاکوئی ساتھی نہیں (ربوبیت)،اس کی ذات جیسی اورصفات جیسی کوئی ہستی نہیں (اسماءالصفات)،اوراس کی خدائی اورعبادت میں کوئی اس کامدمقابل نہیں (الوہیت/عبادت)۔یہ تین پہلوان اقسام کی بنیادہیں جن میں علم توحیدکی عام طورپردرجہ بندی کی جاتی ہے ۔یہ تینوں پہلوایک دوسرے سے منسلک ہیں اوراس حدتک لازم وملزوم ہیں کہ اگرکوئی ان میں سے کسی ایک پہلوکوبھی نظراندازکرتاہے تووہ توحیدکے تقاضے پوراکرنے میں ناکام رہتاہے ۔مندرجہ بالاپہلوؤں میں سے کسی ایک کوچھوڑدیناشرک کہلاتاہے یعنی اللہ کے ساتھ دوسروں کوشریک کرنا،جوکہ اسلام کےنقطہ نظرسےاصل میں بت پرستی ہی ہے۔توحیدان تینوں پہلوؤں کوعام طورپرمندرجہ ذیل عنوانات کے ذریعے بیان کیاجاتاہے :
1.توحیدالٰربوبیت (اللہ کے حاکم اعلیٰ اوررب ہونے کی یکتائی کوقائم رکھنا)
2.توحیدالاسماء والصفات (اللہ تعالی کے ناموں اورصفات کی یکتائی کوقائم رکھنا)
3. توحیدالعبادت(اللہ تعالی کی عبادت کی یکتائی قائم رکھنا) (شرح عقیدة الطحاوية لإبن ابن ابی العزالحفی: 78)
توحیدکی اس کے جزیات میں درجہ بندی پیغمبر نے نہیں فرمائی اورنہ ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کی ،کیونکہ ایمان کے اس بنیادی اصول کااس طریقے سے تجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔تاہم اس درجہ بندی کے بنیادی ستونوں کی طرف اشارے قرآن کی آیات میں موجودہیں اورحضور اکرم کی احادیث مبارکہ اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بتائی ہوئی تفاصیل سے عیاں ہیں ،جیساکہ پڑھنے والے پرظاہرہوگاجب ہرایک درجہ بندی اس باب میں تفصیل سے بیان کی جائے گی۔
اصول توحیدکاتجزیہ اورتشریح کرنے کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب اسلام مصر،بازنطین ،فارس اورہندوستان تک پھیل گیااوران علاقوں کی ثقافت کوجذب کرلیا۔یہ توقع کرناقدرتی بات ہے کہ ان علاقوں کے جولوگ مسلمان ہوئے ،اپنے پہلے اعتقادات کے کچھ بچے کچھے اثرات ان کے ساتھ باقی رہے ۔جب ان نئے مسلمانوں میں سے بعض نے تقریراورتحریرمیں اللہ تعالی کے تصورکےمتعلق اپنے اپنے فلسفے بیان کرناشروع کئے توایک الجھن پیداہوگئی ،جس میں اللہ کی وحدانیت کے صاف ستھرے اورسادہ اسلامی اعتقادکوخطرہ لاحق ہوا،کچھ ایسے لوگ بھی تھے جواپنے آپ کومسلمان ظاہرکرتے تھے مگراندرہی اندراسلام کےخلاف عمل پیراتھےاوراسلام کواندرونی سازشوں سے ختم کرناچاہتے تھے ،کیونکہ وہ عسکری طورپرایسا کرنے کے اہل نہیں تھے ۔اس قسم کے لوگوں نے دانستہ اورعملی طورپراللہ کے متعلق لوگوں میں گمراہ کن غلط فہمیاں پھیلاناشروع کیں تاکہ ایمان کےپہلے ستون کوڈھادیاجائے اوراس کے ساتھ ہی اسلام کوبھی ۔
مسلم تاریخ دانوں کےمطابق سب سے پہلامسلمان جس نے انسانی خواہشات کی آزادی اورتقدیرکی نفی کاپرچارکیاوہ عراق کاایک عیسائی نومسلم سوسن تھا۔سوسن بعدمیں پھرعیسائی ہوگیاتھالیکن اس سےپہلے وہ اپنے شاگردمعبدابن خالدالجہنی جوبصرہ کارہنے والا تھا،میں یہ جراثیم داخل کرچکاتھا۔معبداپنے استادکی تعلیمات کاپرچارکرتارہا،یہاں تک کہ اموی خلیفہ عبدالملک ابن مروان (685تا705ء)نے 700ء میں اسے پکڑواکرقتل کروادیا۔(تهذیب التهذیب لإبن حجر: 10/ 22)نوجوان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جواس زمانے میں موجودتھے مثلاً حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ (متوفی 694ء)اورحضرت عبداللہ ابن ابی اوفیٰ رحمہ اللہ (متوفی 705ء)انہوں نے لوگوں کومشورہ دیاکہ وہ ا ن لوگوں سے جوتقدیرپرایمان نہیں رکھتے لیک سلیک نہ رکھیں اوران میں سے جوفوت ہوں ان کاجنازہ بھی نہ پڑھیں ۔مطلب یہ کہ انہیں وہ صحابہ رضی اللہ عنہم مرتدسمجھتے تھے۔(الفرق بین الفرق لعبدالقادرابن طاہرالبغدادی:ص 19۔20)تاہم آزادی طبع کے نظریے کے حق میں عیسائی فلسفیانہ دلائل کونئے ہمدردملتے رہے۔غیلان ابن مسلم جودمشق کارہنے والا تھا،معبدکاشاگردتھااورآزاد ی طبع یاتقدیرکی نفی کاپرچارکرتاتھا،حتی کہ اسے خلیفہ عمرابن عبدالعزیز(717تا720ء)کے سامنے پیش کیاگیا۔اس نے سب لوگوں کے سامنے اپنے اعتقادات سے توبہ کی۔تاہم خلیفہ کی وفات کے بعدوہ پھرآزادی طبع کے فلسفے کاپرچارکرنے لگا۔اگلے خلیفہ ہشام ابن عبدالملک (724تا743ء)نے اسے گرفتارکیا،اس پرمقدمہ چلااورقتل کروادیاگیا۔(الملل والنحل لمحمدابن عبدالکریم الشهرستانی: 1/ 30)اس سلسلے کاایک اورمشہورشخص الجعدابن درہم تھا۔وہ نہ صرف آزادی طبع کے فلسفے کاحامی تھابلکہ اس نے قرآن کی آیات کوجن میں اللہ تعالی کی صفات کاذکرہے نئے رنگ کے نوافلاطونی فلسفے کے مطابق ،نئے معنی دینے کی بھی کوشش کی ۔الجعدایک وقت اموی شہزادہ مروان ابن محمدجوبعدمیں چودھواں خلیفہ بنا(744تا750ء)کااستادبھی رہاتھا۔دمشق میں اپنی تقریروں میں اس نے اللہ تعالی کی صفات مثلا دیکھنے والا،سننے والا کااعلانیہ انکارکیا،جس پراموی گورنرنےاسے دمشق سےنکال دیا۔(الردعلی الجهمية لأحمد ابن حنبل :ص 41۔43)وہ بھاگ کرکوفہ چلاگیاجہاں وہ اپنے خیالات کاپرچارکرکے اپنے مریداکھٹے کرتارہا،یہاں تک کہ اس کے ملحدانہ خیالات بہت مشہورہوگئے اوراموی گورنرخالدابن عبداللہ نے 732ء میں اسے سرعام پھانسی دے دی ۔تاہم اس کے خاص شاگردجہم ابن صفوان نےاپنے استادکاکام جاری رکھااورترمذاوربلخ کےفلسفیوں کے حلقوں میں اپنے استادکے نظریات کادفاع کرتارہا۔جب اس کی پھیلائی ہوئی ملحدانہ باتیں عام ہوئیں تواموی گورنرنصرابن سیارنے 743ء میں اسے قتل کروادیا۔(الملل والنحل لمحمدابن عبدالکریم الشهرستانی: 1/ 46)
شروع کے خلفائے وقت اوران کے گورنراسلامی اصولوں کے زیادہ قریب تھے اورعوام کابھی دینی شعوربلندتھاکیونکہ کچھ صحابہ کرام اوران کے شاگردتابعین رحمہم اللہ ابھی موجودتھے،چنانچہ اعلانیہ ملحدوں اورمرتدوں کوختم کرنے کے تقاضے کوحکمران فوری طورپرپوراکردیتے تھے۔برخلاف اس کے بعدآنے والے اموی خلفاء زیادہ خراب ہوگئےاس لیے انہوں نے ایسے دینی امورکی طرف بالکل توجہ نہیں دی ۔خودعوام کے اسلامی شعورمیں بھی کمی آگئی لہذاوہ اب خلاف دین نظریات سے زیادہ متاثرہوسکتے تھے۔جب اورزیادہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اوربہت سی مفتوح اقوام کے علوم جذب کرلیے گئے توملحدوں اورمرتدوں کوپھانسی دے کربے دینی کی لہرکوروکنے کارواج نہیں رہا۔چنانچہ بے دینی کی لہرکوروکنے کاکام وقت کے علماء کے کاندھوں پرآن پڑاجوعلم ودانش سے اس چیلنج کامقابلہ کرنے کےلیے میدان میں آگئے ۔انہوں نے باقاعدہ طورپرغیراسلامی فلسفوں اوراعتقادات کی درجہ بندی کرکے قرآن اورسنت کے وضع کیے ہوئے اصولوں سےترتیب واران کامقابلہ کیا۔اس دفاع کی بدولت علم توحید اپنی بالکل درست اورواضح درجہ بندی اورجزیات کے ساتھ سامنے آیا۔اسی کے ساتھ اسلامی علم کے دوسرے حصوں پربھی تحقیق اورتخصیص حاصل کرنے کاکام شروع ہوگیا،جیساکہ آج کل غیرمذہبی علوم میں ہوتاہے ۔چنانچہ جب توحید کےمختلف درجوں کوعلیحدہ علیحدہ اورگہرائی میں تحقیق کی جائے تویہ ہرگزنہیں بھولناچاہیے کہ یہ سب ایک ہی کامل عضویاتی نظام کے حصے ہیں جوکہ خودایک بڑے نظام دین اسلام کی بنیادہے۔
توحیدالربوبیت: (اللہ تعالی کےحاکم اعلی اوررب ہونے کی یکتائی کوقائم رکھنا)
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی تصنیف ’’ التوحید‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’ یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ سبحانہ وتعالی بندوں کا خالق ورازق ہے اور ان کو زندہ کرنے والا اور مارنے والا ہے یا ہم اللہ کو اس کے افعال میں اکیلا سمجھیں یعنی یہ عقیدہ رکھیں کہ صرف اکیلا اللہ خالق ہے اور رازق ہے۔(کتاب التوحید لإبن حجر العسقلانی: 19- 181)
توحیدکےاس درجے میں یہ بنیادی تصورہے کہ اللہ تعالی ہی سب چیزوں کاعدم سےوجودمیں لایا،اس سے پہلے کچھ نہیں تھا۔وہ ہی اپنی تخلیق کوقائم رکھے ہوئے ہے ،اوروہ ہی اس کوچلارہاہے ،بغیران کی یاان سے اپنی کسی ضرورت کے،اوروہ بلاشرکت غیرےاس کائنات کااوراس میں رہنے والوں کامالک وحاکم اوررب ہے،اوراس کی بادشاہی کوحقیقتاً کوئی چیلنج کرنے والا نہیں۔عربی زبان میں پیداکرنے والے اورقائم رکھنےوالے کے لیے جولفظ استعمال کیاجاتاہے وہ ’’ربوبیۃ‘‘ہے (اردومیں ربوبیت)جوبنیادی لفظ رب سے اخذکیاگیاہے ۔اس درجے کے مطابق چونکہ اللہ ہی کی ذات حقیقی طاقت ہے ،اس لیے مختلف چیزوں میں حرکت اورتغیروتبدل کی قوت بھی اسی کی دی ہوئی ہے ۔اس کائنات میں کچھ نہیں ہوتاسوائے اس کے جس کی وہ اجازت دے۔ اس حقیقت کومانتے ہوئے پیغمبرخداحضرت محمد اکثراونچی آواز میں یہ کلمات باربارکہاکرتے تھے: ’’لاحول ولاقوة إلا بالله ‘‘(کوئی حرکت نہیں اورکوئی قوت نہیں ماسوائے اللہ کےحکم اوراجازت سے)۔
ربوبیت کے تصورکی بنیادمختلف قرآنی آیات سے ملتی ہے ۔مثلاً اللہ نے فرمایا ہے :
﴿اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ﴾ (سورة الزمر39:62)
’’اللہ ہی خالق ہے ہرچیزکااوروہی ہے ہرچیزپرنگران‘‘
﴿وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى﴾(سورة أنفال 8:17)
’’اورنہیں پھینکی تھی تم نے (وہ ریت ان پر)جب پھینکی تھی تم نے ،بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔‘‘