میرب فاطمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 06، 2012
- پیغامات
- 195
- ری ایکشن اسکور
- 218
- پوائنٹ
- 107
عقیقہ ایک ایسی سنت ہے جو آج کل بہت سے مسلمانوں کے ہاں سے تقریبا مٹ چکی ہے۔عقیقہ حکم رسولﷺاور سنت ابراہیمی ہونے کے ساتھ ساتھ اولاد جیسی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی عملی صورت بھی ہے۔ مسلمان شاید اب اس حکم کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو کہ دیئے جانے کا حق تھا۔
٭٭٭عقیقہ کہا کسے جاتا ہے؟٭٭٭
اس کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں۔ بعض بچے کے ولادت کے وقت اگے ہوئے بالوں کو اور بعض ولادت کی خوشی میں قربان کی جانے والی قربانی کو کہتے ہیں مگر سب سے بہترین قول امام شوکانی رحمہ اللہ کا ہے جسے میں یہاں نقل کر رہی ہوں۔ وہ فرماتے ہیں:
عقیقہ وہ ذبیحہ ہے، جو نو مولود کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔ اصل میں عَقَّ کا معنی پھاڑنا اور کاٹنا ہے اور عقیقہ کو عقیقہ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ذبح کے وقت ذبیحہ کا حلق کاٹا جاتا ہے، نیز کبھی عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں پر بھی ہوتا ہے۔
نیل الأوطار : ۵؍۱۴۰
یہاں یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ لفظ'عقیقہ" بولے جان پر مختلف آراء ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک عقیقہ کے بجائے نسیکہ یا ذبیحہ بولا جانا چاہئے اور انکی دلیل حدیث رسولﷺ کے یہ الفاظ لَا یُحِبُّ اللهُ الْعُقُوْق (سنن ابو داؤد: ۲۸۴۲؛ سنن نسائی: ۴۲۱۷) ہیں۔ کہ اللہ عقوق پسند نہیں کرتا۔(عقوق سے مراد نافرمانی ہے۔عقیقہ اور عقوق کا مادہ ایک ہی ہے شاید اسی وجہ سے ایسی رائے قائم کی گئی۔ واللہ اعلم)۔ اور جن کے نزدیک 'عقیقہ' لفظ بولنے میں کوئی کراہت نہیں ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں رسول اللہﷺ نے خود لفظ 'عقیقہ' بولا ہے۔اس لئے علماء کا تیسرا اعتدال پسند گروہ اس بات کا قائل ہے کہ 'عقیقہ'کہنے میں کوئی کراہت نہیں مگر 'نسیکہ یا ذبیحہ'کہنا زیادہ بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭عقیقہ کا حکم٭٭٭٭٭
مشروعیت سے سوائے فقہائے احناف کے اور کسی کو انکار نہیں اور احناف کے دوسرے قول کے مطابق عقیقہ بس ایک نفلی عبادت ہے۔مگر اختلاف سنت اور واجب ہونے پر ہے۔حسن بصری رحمہ اللہ اور اہل ظاہر عقیقہ کے وجوب کے قائل ہیں۔اور جمہور کے نزدیک سنت۔لیکن دلائل کی موجودگی میں وجوب کا حکم ہی صحیح ہے۔وجوب کےدلائل درج ذیل ہیں:
رسول اللہﷺنےفرمایا:
کُلُّ غُلاَمٍ رَهِیْنَةٌ بِعَقِیْقَةِ، تُذْبَحُ عَنْهُ یَوْمَ سَابِعِهِ وَیُحْلَقُ وَ یُسَمَّی
ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے۔اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے اور(بچے کا)نام رکھا جائے۔
(رواہ ابوداؤدوترمذی وغیرھما وسندہ صحیح)
اس حکم رسولﷺسے معلوم ہوا کہ عقیقہ اسی طرح لازم ہے جیسے گروی چیز حاصل کرنے کے لیے قرض خواہ کو قرض لوٹانا لازم ہے۔
نیز صحیح بخاری،جلد سوم ،حدیث450 میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَعَ الْغُلاَمِ عَقِیْقَةٌ فَأَهْرِیقُوَا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِیْطُوْا عَنْهُ الْأَذَی
ہر بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، سو اس کی طرف سے خون بہاؤ (عقیقہ کرو) اور اس سے گندگی مٹادو۔( یعنی سر کے بال مونڈھ دواور لڑکا ہوتو ختنہ کر دو)۔
یہ حدیث بھی لزوم کا ہی فائدہ دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح احادیث کی روشنی میں لڑکے کی طرف سے دو جبکہ لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کیا جائے۔
جامع ترمذی : ۱۵۱۳سنن ابن ماجہ : ۳۱۶۳
عقیقہ میں بکری یا مینڈھا قربان کرنا ہی مشروع ہے۔ اونٹ،گائے یا بیل وغیرہ قربان کرنے کی حدیث من گھڑت موضوع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربانی کے بجائے جانور کی قیمت صدقہ کرنا یا جانور کے وزن کے برابر گوشت صدقہ کرنا ہرگز جائز نہیں کیونکہ یہ خلاف سنت ،بغیر دلیل اور دین میں اپنی رائے پر عمل کرنا شمار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقیقہ ساتویں دن کرنا ،نام رکھنااور بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرناسنت رسولﷺہے۔جیسا کہ ثابت ہےلیکن اگر کسی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہ کر پائے تو علماء کے نزدیک عمر بھر میں جب بھی چاہے کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقیقہ کا جانور بھی قربانی کے جانور کی طرح بےعیب اور تندرست ہونا چاہئے۔اس کا گوشت بھی قربانی کے جانور کی طرح کھائے،جمع کرے اور صدقہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی عید قربان کے لئے ایک سے زائد جانور لے آئے تو جس کا عقیقہ نہیں ہوا اس کے عقیقے کی نیت زائد بکرے یا مینڈھے میں کر لی جائے تو عقیقہ ادا ہوجائے گا۔کیونکہ قربانی کے لئے حدیث رسولﷺکی رو سے ایک بکری تمام گھر والوں کو کفایت کر جائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
٭٭٭عقیقہ کہا کسے جاتا ہے؟٭٭٭
اس کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں۔ بعض بچے کے ولادت کے وقت اگے ہوئے بالوں کو اور بعض ولادت کی خوشی میں قربان کی جانے والی قربانی کو کہتے ہیں مگر سب سے بہترین قول امام شوکانی رحمہ اللہ کا ہے جسے میں یہاں نقل کر رہی ہوں۔ وہ فرماتے ہیں:
عقیقہ وہ ذبیحہ ہے، جو نو مولود کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔ اصل میں عَقَّ کا معنی پھاڑنا اور کاٹنا ہے اور عقیقہ کو عقیقہ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ذبح کے وقت ذبیحہ کا حلق کاٹا جاتا ہے، نیز کبھی عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں پر بھی ہوتا ہے۔
نیل الأوطار : ۵؍۱۴۰
یہاں یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ لفظ'عقیقہ" بولے جان پر مختلف آراء ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک عقیقہ کے بجائے نسیکہ یا ذبیحہ بولا جانا چاہئے اور انکی دلیل حدیث رسولﷺ کے یہ الفاظ لَا یُحِبُّ اللهُ الْعُقُوْق (سنن ابو داؤد: ۲۸۴۲؛ سنن نسائی: ۴۲۱۷) ہیں۔ کہ اللہ عقوق پسند نہیں کرتا۔(عقوق سے مراد نافرمانی ہے۔عقیقہ اور عقوق کا مادہ ایک ہی ہے شاید اسی وجہ سے ایسی رائے قائم کی گئی۔ واللہ اعلم)۔ اور جن کے نزدیک 'عقیقہ' لفظ بولنے میں کوئی کراہت نہیں ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں رسول اللہﷺ نے خود لفظ 'عقیقہ' بولا ہے۔اس لئے علماء کا تیسرا اعتدال پسند گروہ اس بات کا قائل ہے کہ 'عقیقہ'کہنے میں کوئی کراہت نہیں مگر 'نسیکہ یا ذبیحہ'کہنا زیادہ بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭عقیقہ کا حکم٭٭٭٭٭
مشروعیت سے سوائے فقہائے احناف کے اور کسی کو انکار نہیں اور احناف کے دوسرے قول کے مطابق عقیقہ بس ایک نفلی عبادت ہے۔مگر اختلاف سنت اور واجب ہونے پر ہے۔حسن بصری رحمہ اللہ اور اہل ظاہر عقیقہ کے وجوب کے قائل ہیں۔اور جمہور کے نزدیک سنت۔لیکن دلائل کی موجودگی میں وجوب کا حکم ہی صحیح ہے۔وجوب کےدلائل درج ذیل ہیں:
رسول اللہﷺنےفرمایا:
کُلُّ غُلاَمٍ رَهِیْنَةٌ بِعَقِیْقَةِ، تُذْبَحُ عَنْهُ یَوْمَ سَابِعِهِ وَیُحْلَقُ وَ یُسَمَّی
ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے۔اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے اور(بچے کا)نام رکھا جائے۔
(رواہ ابوداؤدوترمذی وغیرھما وسندہ صحیح)
اس حکم رسولﷺسے معلوم ہوا کہ عقیقہ اسی طرح لازم ہے جیسے گروی چیز حاصل کرنے کے لیے قرض خواہ کو قرض لوٹانا لازم ہے۔
نیز صحیح بخاری،جلد سوم ،حدیث450 میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَعَ الْغُلاَمِ عَقِیْقَةٌ فَأَهْرِیقُوَا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِیْطُوْا عَنْهُ الْأَذَی
ہر بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، سو اس کی طرف سے خون بہاؤ (عقیقہ کرو) اور اس سے گندگی مٹادو۔( یعنی سر کے بال مونڈھ دواور لڑکا ہوتو ختنہ کر دو)۔
یہ حدیث بھی لزوم کا ہی فائدہ دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح احادیث کی روشنی میں لڑکے کی طرف سے دو جبکہ لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کیا جائے۔
جامع ترمذی : ۱۵۱۳سنن ابن ماجہ : ۳۱۶۳
عقیقہ میں بکری یا مینڈھا قربان کرنا ہی مشروع ہے۔ اونٹ،گائے یا بیل وغیرہ قربان کرنے کی حدیث من گھڑت موضوع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربانی کے بجائے جانور کی قیمت صدقہ کرنا یا جانور کے وزن کے برابر گوشت صدقہ کرنا ہرگز جائز نہیں کیونکہ یہ خلاف سنت ،بغیر دلیل اور دین میں اپنی رائے پر عمل کرنا شمار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقیقہ ساتویں دن کرنا ،نام رکھنااور بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرناسنت رسولﷺہے۔جیسا کہ ثابت ہےلیکن اگر کسی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہ کر پائے تو علماء کے نزدیک عمر بھر میں جب بھی چاہے کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقیقہ کا جانور بھی قربانی کے جانور کی طرح بےعیب اور تندرست ہونا چاہئے۔اس کا گوشت بھی قربانی کے جانور کی طرح کھائے،جمع کرے اور صدقہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی عید قربان کے لئے ایک سے زائد جانور لے آئے تو جس کا عقیقہ نہیں ہوا اس کے عقیقے کی نیت زائد بکرے یا مینڈھے میں کر لی جائے تو عقیقہ ادا ہوجائے گا۔کیونکہ قربانی کے لئے حدیث رسولﷺکی رو سے ایک بکری تمام گھر والوں کو کفایت کر جائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب