• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیقہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,600
پوائنٹ
791
اگر لڑکے کا عقیقہ کے دن انتقال ہو جائے تو کیا اس لڑکے جا عقیقہ کیا جائے گا یا نہیں.
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
محترم بھائی !
فوت ہوجانے والے بچے کا عقیقہ بھی کرنا چاہیئے ؛
درج ذیل فتوی میں اس کے متعلق بتایا گیا ہے :

وذهب الشافعية والحنابلة إلى أنَّه يُعقُّ عنه، وهو الراجح؛ واستدلُّوا بحديث سَمُرة رضي الله عنه عن النبي صلَّى الله عليه وسلَّم أنَّه قال: "كلُّ غلام مُرْتَهِن بعقيقته، تُذبَح عنه يومَ سابعه، ويُحْلَق رأسُه، ويُسمَّى" (رواه أحمد والأربعة، وصحَّحه الترمذي، قال أحمد: إسناده جيد كما في المغني).
یعنی شافعیہ اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ فوت ہوجانے والے بچے کی طرف سے عقیقہ کیا جائے۔ اور انہوں اسکی دلیل یہ دی ہے کہ جابر بن سمرہ کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :ہر بچہ عقیقہ کے بدلے رہن ہے ،تو ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے،۔ اور اس کا سر مونڈا جائے ،اور اس کا نام رکھا جائے۔
(اس حدیث میں لفظ گروی ہے کا معنی ہے کہ وہ والدین کیلئے روز محشر شفیع نہیں بن سکتا جب تک اس کا عقیقہ کرکے اس کو رہن سے چھڑایا نہ جائے ۔)
قال النوويُّ في "المجموع": "لو مات المولود بعدَ اليوم السابع بعدَ التمكُّن من الذَّبْح، فوجهان حكاهما الرافعي، أصحُّهما: يُستحبُّ أن يعقَّ عنه، والثاني: يسقط بالموت".
علامہ نووی فرماتے ہیں :کہ بچہ اگر ساتویں دن کے بعد فوت ہو تو دو قول ہیں ایک یہ کہ اس کا عقیقہ مستحب ہے ،اور دوسرا قول یہ کہ اس کی طرف سے عقیقہ ساقط ہے ‘‘
وقال الشيخ العثيمين في "سلسلة لقاءات الباب المفتوح": "إذا تُوفي الطفل ساعة ولادته، فإنه يعق عنه في اليوم السابع؛ وذلك لأن الطفل إذا نفخت فيه الروح، فإنه يبعث يوم القيامة، ومن فوائد العقيقة أن الطفل يشفع لوالديه، وقال بعض العلماء: إذا مات قبل اليوم السابع سقطت العقيقة؛ لأن العقيقة إنما تسن يوم السابع لمن كان حياً، وأما إن مات قبل السابع، فإنها تسقط؛ فمن كان قد أغناه الله وتيسرت له، فالأفضل أن يذبحها، ومن لم يكن كذلك فلا داعي له".
علامہ ابن عثیمین فرماتے ہیں: اگربچہ ولادت کے وقت بھی فوت ہو جائے تو ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے ،کیونکہ جب اس میں روح ڈال دی گئی تھی تو وہ حشر کے روز زندہ ہوگا ،اور اس کے عقیقہ کا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح وہ والدین کی شفاعت کرے گا ،
لیکن کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اگر ساتویں دن سے قبل فوت ہو تو اس کا عقیقہ ساقط ہو جاتا ہے ،کیونکہ عقیقہ اس کی طرف سے مسنون ہے جو ساتویں دن تک زندہ ہو،
لیکن اگر کسی کو عقیقہ کی طاقت ہو تو افضل یہی ہے کہ اس بچہ کا عقیقہ کیا جائے ۔
درجذیل فتوی میں بھی اسی طرح کی بات ہے
وسُئلت اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء: حصلت العقيقة بعد وفاة الطفلة، وكان عمرها وقت الوفاة سنة ونصف، هل أدى العقيقة على طبيعتها أم لا؟ وهل هذه الطفلة تنفع والديها في الآخرة؟

فأجابت: "نعم تجزئ، ولكن تأخيرها عن اليوم السابع من الولادة خلاف السنة، وكل طفل أو طفلة مات صغيرًا، ينفع الله به من صبر من والديه المؤمنين".

لنک فتوی
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,142
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
محترم بھائی !
فوت ہوجانے والے بچے کا عقیقہ بھی کرنا چاہیئے ؛
درج ذیل فتوی میں اس کے متعلق بتایا گیا ہے :

وذهب الشافعية والحنابلة إلى أنَّه يُعقُّ عنه، وهو الراجح؛ واستدلُّوا بحديث سَمُرة رضي الله عنه عن النبي صلَّى الله عليه وسلَّم أنَّه قال: "كلُّ غلام مُرْتَهِن بعقيقته، تُذبَح عنه يومَ سابعه، ويُحْلَق رأسُه، ويُسمَّى" (رواه أحمد والأربعة، وصحَّحه الترمذي، قال أحمد: إسناده جيد كما في المغني).
یعنی شافعیہ اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ فوت ہوجانے والے بچے کی طرف سے عقیقہ کیا جائے۔ اور انہوں اسکی دلیل یہ دی ہے کہ جابر بن سمرہ کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :ہر بچہ عقیقہ کے بدلے رہن ہے ،تو ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے،۔ اور اس کا سر مونڈا جائے ،اور اس کا نام رکھا جائے۔
(اس حدیث میں لفظ گروی ہے کا معنی ہے کہ وہ والدین کیلئے روز محشر شفیع نہیں بن سکتا جب تک اس کا عقیقہ کرکے اس کو رہن سے چھڑایا نہ جائے ۔)
قال النوويُّ في "المجموع": "لو مات المولود بعدَ اليوم السابع بعدَ التمكُّن من الذَّبْح، فوجهان حكاهما الرافعي، أصحُّهما: يُستحبُّ أن يعقَّ عنه، والثاني: يسقط بالموت".
علامہ نووی فرماتے ہیں :کہ بچہ اگر ساتویں دن کے بعد فوت ہو تو دو قول ہیں ایک یہ کہ اس کا عقیقہ مستحب ہے ،اور دوسرا قول یہ کہ اس کی طرف سے عقیقہ ساقط ہے ‘‘
وقال الشيخ العثيمين في "سلسلة لقاءات الباب المفتوح": "إذا تُوفي الطفل ساعة ولادته، فإنه يعق عنه في اليوم السابع؛ وذلك لأن الطفل إذا نفخت فيه الروح، فإنه يبعث يوم القيامة، ومن فوائد العقيقة أن الطفل يشفع لوالديه، وقال بعض العلماء: إذا مات قبل اليوم السابع سقطت العقيقة؛ لأن العقيقة إنما تسن يوم السابع لمن كان حياً، وأما إن مات قبل السابع، فإنها تسقط؛ فمن كان قد أغناه الله وتيسرت له، فالأفضل أن يذبحها، ومن لم يكن كذلك فلا داعي له".
علامہ ابن عثیمین فرماتے ہیں: اگربچہ ولادت کے وقت بھی فوت ہو جائے تو ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے ،کیونکہ جب اس میں روح ڈال دی گئی تھی تو وہ حشر کے روز زندہ ہوگا ،اور اس کے عقیقہ کا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح وہ والدین کی شفاعت کرے گا ،
لیکن کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اگر ساتویں دن سے قبل فوت ہو تو اس کا عقیقہ ساقط ہو جاتا ہے ،کیونکہ عقیقہ اس کی طرف سے مسنون ہے جو ساتویں دن تک زندہ ہو،
لیکن اگر کسی کو عقیقہ کی طاقت ہو تو افضل یہی ہے کہ اس بچہ کا عقیقہ کیا جائے ۔
درجذیل فتوی میں بھی اسی طرح کی بات ہے
وسُئلت اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء: حصلت العقيقة بعد وفاة الطفلة، وكان عمرها وقت الوفاة سنة ونصف، هل أدى العقيقة على طبيعتها أم لا؟ وهل هذه الطفلة تنفع والديها في الآخرة؟

فأجابت: "نعم تجزئ، ولكن تأخيرها عن اليوم السابع من الولادة خلاف السنة، وكل طفل أو طفلة مات صغيرًا، ينفع الله به من صبر من والديه المؤمنين".

لنک فتوی
شیخ عقیقہ کی کوئ دعا ھے؟
ذبح کرتے وقت کچھ پڑھتے ھیں؟
ایک روایت ملی ھے:
عقیقہ کا جانور مولود کا نام لے کر ذبح کرنا مستحب ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''اذبحوا علی اسمه فقولوا، بسم اللہ اللھم لك وإلیك ھٰذہ عقیقة فلان'' iii
''(مولود) کے نام پر ذبح کرو او ریہ دعا پڑھو۔''
''بسم اللہ اللھم لك وإلیك ھٰذا عقیقة فلان''
(فلاں کی جگہ مولود کا نام لیا جائے)''
رواہ ابن المنذر و کذا في حصن حصین لابن الجزري

کیا یہ صحیح ھے؟۔
جزاکم اللہ خیر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,600
پوائنٹ
791
ذبح کرتے وقت کچھ پڑھتے ھیں؟
ایک روایت ملی ھے:
عقیقہ کا جانور مولود کا نام لے کر ذبح کرنا مستحب ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''اذبحوا علی اسمه فقولوا، بسم اللہ اللھم لك وإلیك ھٰذہ عقیقة فلان'' iii
''(مولود) کے نام پر ذبح کرو او ریہ دعا پڑھو۔''
''بسم اللہ اللھم لك وإلیك ھٰذا عقیقة فلان''
(فلاں کی جگہ مولود کا نام لیا جائے)''
رواہ ابن المنذر و کذا في حصن حصین لابن الجزري
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی آپ نے جس روایت کے متعلق سوال کیا ہے ،وہ مسند ابی یعلی ،اور السنن الکبری بیہقی اور مصنف عبد الرزاق میں موجود ہے ،
مسند ابی یعلی میں درج ذیل سند و متن کے ساتھ ہے :
عن ابن جريج، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة ، عن عائشة قالت: يعق عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة قالت عائشة: " فعق رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحسن والحسين شاتين شاتين يوم السابع، وأمر أن يماط عن رأسه الأذى. وقال: " اذبحوا على اسمه وقولوا: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ هَذِهِ عَقِيقَةُ فُلَانٍ "
[حكم حسين سليم أسد] : إسناده صحيح

مسند کی تحقیق میں علامہ حسین سلیم اسد لکھتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’ تحفة المودود بأحكام المولود ‘‘
میں بھی اسے نقل فرمایا ہے
تحفة المودود بأحكام المولود 2.gif
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,142
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی آپ نے جس روایت کے متعلق سوال کیا ہے ،وہ مسند ابی یعلی ،اور السنن الکبری بیہقی اور مصنف عبد الرزاق میں موجود ہے ،
مسند ابی یعلی میں درج ذیل سند و متن کے ساتھ ہے :
عن ابن جريج، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة ، عن عائشة قالت: يعق عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة قالت عائشة: " فعق رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحسن والحسين شاتين شاتين يوم السابع، وأمر أن يماط عن رأسه الأذى. وقال: " اذبحوا على اسمه وقولوا: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ هَذِهِ عَقِيقَةُ فُلَانٍ "
[حكم حسين سليم أسد] : إسناده صحيح

مسند کی تحقیق میں علامہ حسین سلیم اسد لکھتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’ تحفة المودود بأحكام المولود ‘‘
میں بھی اسے نقل فرمایا ہے
15801 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
جزاک اللہ شیخ۔
کیا یہ دعا پڑھنا ضروری ھے؟
کیا اسکی جگہ قربانی والی دعا پڑھنا صحیح ھوگا؟
اور شیخ عام جانور جیسے مرغ وغیرہ ذبح کرتے وقت بھی دعا پڑھنا چاھیۓ؟ اور کونسی دعا؟ کیا قربانی کی دعا؟
براہ کرم رھنمائ فرمایۓ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,600
پوائنٹ
791
جزاک اللہ شیخ۔
کیا یہ دعا پڑھنا ضروری ھے؟
کیا اسکی جگہ قربانی والی دعا پڑھنا صحیح ھوگا؟
اور شیخ عام جانور جیسے مرغ وغیرہ ذبح کرتے وقت بھی دعا پڑھنا چاھیۓ؟ اور کونسی دعا؟ کیا قربانی کی دعا؟
دیکھئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے جانور کو ذبح کرتے وقت یہ دعاء منقول ہے :
بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ هَذِهِ عَقِيقَةُ فُلَانٍ "
اس میں بسم اللہ واللہ اکبر تو بوقت ذبح بہر صورت پڑھنا ہوگا ،
دوسرا جملہ کہ یہ فلاں کی طرف سے عقیقہ کیا جارہا ہے ، کوئی مشکل تو نہیں
اور اگر عربی کی بجائے اپنی زبان میں کہہ دے تو بھی کام چل جائے گا ۔ان شاء اللہ۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
371
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
۔

ذبح کرنے کی دعا


سوال :

کیاقربانی کاجانور ذبح کرنے وقت کی دعا پڑھنی اوربسم اللہ اوراللہ اکبر کہنا اورجن لوگوں کی طرف سے قربانی کی جائے ان کانام لینا ضروری ہےیامحض نیت کرلینی کافی ہے؟


جواب :

بہتر یہ ہے کہ قربانی کرنے والا اپنا جانور ہاتھ سےذبح کرے اوراگر دوسرے ذبح کرائے توبہتر یہ ہے کہ وہاں حاضر اورموجود رہے۔

وان ذبحها بيده كان افضل بيده لان النبى صلى الله عليه وسلم ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ، وَسَمَّى وَكَبَّرَ، وَوَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا. وَنَحَرَ الْبَدَنَاتِ السِّتَّ بِيَدِهِ. وَنَحَرَ مِنْ الْبُدْنِ الَّتِي سَاقَهَا فِي حِجَّتِهِ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بَدَنَةً بِيَدِهِ. وَلِأَنَّ فِعْلَهُ قُرْبَةٌ، وَفِعْلُ الْقُرْبَةِ أَوْلَى مِنْ اسْتِنَابَتِهِ فِيهَا فَإِنْ اسْتَنَابَ فِيهَا، جَازَ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - اسْتَنَابَ مَنْ نَحَرَ بَاقِيَ بُدْنِهِ بَعْدَ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ. وَهَذَا لَا شَكَّ فِيهِ.

وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يَحْضُرَ ذَبْحَهَا؛ لِأَنَّ فِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ الطَّوِيلِ " وَاحْضُرُوهَا إذَا ذَبَحْتُمْ فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكُمْ عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ مِنْ دَمِهَا ". وَرُوِيَ «أَنَّ النَّبِيَّ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ لِفَاطِمَةَ: اُحْضُرِي أُضْحِيَّتَك، يُغْفَرْ لَك بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ مِنْ دَمِهَا.
(المغتى13/389/390)

وامرابو موسى الاشعرى بناته ان يضحين بايديهن ۔
(بخاري)

ذبح کے وقت بسم اللہ کہنافرض ہے۔اگر قصد دیدہ دانستہ چھوڑدیا تو وہ ذبیحہ حرام ہوگا بھول کی وجہ سےنہیں کہہ سکا تو بلاشک وشبہ حلال ہوگا:

وَأَمَّا الذَّبِيحَةُ فَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ أَحْمَدَ، أَنَّهَا شَرْطٌ مَعَ الذِّكْرِ، وَتَسْقُطُ بِالسَّهْوِ. وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ، وَالثَّوْرِيُّ، وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَإِسْحَاقُ.

وَمِمَّنْ أَبَاحَ مَا نَسِيَتْ التَّسْمِيَةُ عَلَيْهِ، عَطَاءٌ، وَطَاوُسٌ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَالْحَسَنُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، وَجَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَرَبِيعَةُ، وَعَنْ أَحْمَدَ، أَنَّهَا مُسْتَحَبَّةٌ غَيْرُ وَاجِبَةٍ فِي عَمْدٍ وَلَا سَهْوٍ. وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ؛ لِمَا ذَكَرْنَا فِي الصَّيْدِ قَالَ أَحْمَدُ: إنَّمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَلا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ} [الأنعام: 121] . يَعْنِي الْمَيْتَةَ.

وَذُكِرَ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَلَنَا، قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ: مَنْ نَسِيَ التَّسْمِيَةَ فَلَا بَأْسَ. وَرَوَى سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، بِإِسْنَادِهِ عَنْ رَاشِدِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «ذَبِيحَةُ الْمُسْلِمِ حَلَالٌ وَإِنْ لَمْ يُسَمِّ، إذَا لَمْ يَتَعَمَّدْ» . وَلِأَنَّهُ قَوْلُ مَنْ سَمَّيْنَا، وَلَمْ نَعْرِفْ لَهُمْ فِي الصَّحَابَةِ مُخَالِفًا.

وقَوْله تَعَالَى ﴿وَلا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ﴾..الأنعام: 121. مَحْمُولٌ عَلَى مَا تُرِكَتْ التَّسْمِيَةُ عَلَيْهِ عَمْدًا، بِدَلِيلِ قَوْلِهِ: ﴿وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ﴾...الأنعام: 121 . وَالْأَكْلُ مِمَّا نُسِيَتْ التَّسْمِيَةُ عَلَيْهِ لَيْسَ بِفِسْقٍ.
(المغنى13/49)


قربانی کی دعا:
وَجَّهْت وَجْهِي لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ الخ

پڑھنی سنت اورمستحب ہے ضروری اورلازم نہیں۔حضرت جابر کی حدیث(ابوداود ابن ماجہہ بیہقی)سےصرف استحباب وسنیت کاثبوت ہوتاہے پس اگر کوئی اس دعا کوچھوڑدے گا تومحض تارک سنت ہوگا۔قربانی کایہ ذبیحہ بلاشک وشبہ حلال ہوگا قال الشوکانی فی النیل(5/212)فی شرح حديث جابر :فيه استحباب تلاوة هذه الاية عند توجيه الذبيحه للذبحز


اللہ اکبر کہنا بھی ضروری نہیں۔

ثَبَتَ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «كَانَ إذَا ذَبَحَ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ» وَفِي حَدِيثِ أَنَسٌ: وَسَمَّى وَكَبَّرَ. وَكَذَلِكَ كَانَ يَقُولُ ابْنُ عُمَرَ. وَبِهِ يَقُولُ أَصْحَابُ الرَّأْيِ، وَلَا نَعْلَمُ فِي اسْتِحْبَابِ هَذَا خِلَافًا، وَلَا فِي أَنَّ التَّسْمِيَةَ مُجْزِئَةٌ. وَإِنْ نَسِيَ التَّسْمِيَةَ، أَجْزَأَهُ، عَلَى مَا ذَكَرْنَا فِي الذَّبَائِحِ. وَإِنْ زَادَ فَقَالَ: اللَّهُمَّ هَذَا مِنْك وَلَك، اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّي، أَوْ مِنْ فُلَانٍ. فَحَسَنٌ. وَبِهِ قَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ۔
(المغی 13/390)

ذبح کرنے کرنے کےوقت ان لوگوں کانام بولنا ضروری نہیں ہےجن کی طرف سےقربانی کی جانی ہوصرف ان کی نیت کافی ہے۔

قال الخرقى فى مختصره: وليس عليه يقول عند الذبح عمن لان النية تجزى انتهى قال ابن قدامه:لااعلم خلافا ان النية تجزئى وان ذكر من يضحى عنه فحسن لماروينا من الحديث قالحسن:يقول بسم الله والله اكبر هذا منك ولك تقبل من فلان(المغنى 13/391)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری ،
جلد نمبر 2 ، کتاب الأضاحی والذبائح ،
صفحہ نمبر 392 ۔

۔
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
371
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
۔

قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت کی مسنون دعاء


سوال :

قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت کی مسنون دعا ذکر فرمائیں۔
(محمد صدیق تلیاں، ایبٹ آباد)(۱۸ جون۱۹۹۹ء)


جواب :

جانور ذبح کرنے کی مسنون دعا :

’ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰه اَکْبَر ‘ ۔

(متفق علیه، سنن ابن ماجه،بَابٌ فِی الشَّاةِ یُضَحَّی بِهَا عَنْ جَمَاعَةٍ،رقم:۲۸۱۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3 ، کتاب الصوم ، صفحہ : 365 ۔

۔
 
Top