رانا ذیشان سلفی
مبتدی
- شمولیت
- مئی 21، 2012
- پیغامات
- 68
- ری ایکشن اسکور
- 331
- پوائنٹ
- 0
بسم اللہ الرحمن الرحيم
علامہ ابن القيم رحمہ اللہ كا مختصر تعارف
تحرير: سعيد احمد قمر الزمان الندوي
علامہ ابن القيم رحمہ اللہ كا مختصر تعارف
تحرير: سعيد احمد قمر الزمان الندوي
امام ابن القيم كى سوانح عمرى يا تعارف كے ليے چند اوراق ناكافى ہیں، تاہم يہاں طوالت سے صرف نظر كرتے ہوئے مختصرا آپ كى حيات مباركہ کے چند روشن اوراق پيش كرنے كى كوشش كرتے ہیں۔
آپ كا پورا نام محمد بن ابوبكر بن ايوب بن سعد حريز الزرعي الدمشقي شمس الدين المعروف بابن قيم الجوزيہ ہے۔ جوزيہ ايك مدرسہ كا نام تھا ، جو امام جوزى كا قائم كردہ تھا اس ميں آپ كے والد ماجد قيم يعنى نگران اور ناظم تھے اور علامہ ابن القيم بھی اس سے ايك عرصہ منسلك رہے۔
علامہ ابن القيم 691 ھ میں پيدا ہوئے اور علم وفضل اور ادب واخلاق كے گہوارے ميں پرورش پائى ، آپ نے مذكورہ مدرسہ ميں علوم وفنون كى تعليم وتربيت حاصل كى ، نيز دوسرے علماء سے استفادہ كيا جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ كا نام گرامى سب سے اہم اورقابل ذكر ہے۔ ان كے شاگرد رشي كى حيثيت سے زندگی بھر رفيق صادق ، قيد خانہ کے ساتھی، ميدان جہاد ميں ان کے دوش بدوش اور استاذ كے بعد ان كے علوم كو نہايت قيمتى اضافہ کے ساتھ بہترين اسلوب پر شائع كرنے والے تھے۔
متاخرين ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ كے بعد ابن القيم كے پائے كا كوئى محقق نہیں گزرا، آپ فن تفسير ميں اپنا جواب آپ تھے ۔حديث وفقہ ميں نہايت گہرى نظر ركھتے تھے، استنباط واستخراج مسائل ميں يكتائے روزگار تھے، آداب سحر گاہی سے آشنا اور نہايت عبادت گزار تھے ، مصيبتوں اور ابتلاؤں كو خندہ پيشانى سے برداشت كرتے تھے، صبر وشكر كے زيور سے آراستہ و پيراستہ تھے ، شعرو ادب كا اعلى اور عمدہ مذاق ركھتے تھے۔ آپ ايك ماہر طبيب بھی تھے۔
علمائے طب كا بيان ہے كہ علامہ موصوف نے اپنی كتاب "طب نبوى" ميں جو طبى فوائد، نادر تجربات اور بيش بہا نسخے پیش كيے ہیں ، وہ طبى دنيا ميں ان كى طرف سے ايك ايسا اضافہ ہیں کہ طب كى تاريخ ميں ہمیشہ ياد ركھے جائيں گے۔
قاضى برہان الدين كا بيان ہے كہ : " اس آسمان كے نیچے كوئى بھی ان سے زيادہ وسيع العلم نہ تھا ۔ "
علامہ کے رفيق درس حافظ ابن كثير رحمة اللہ عليہ فرماتے ہیں:
" ابن القيم رحمة اللہ عليہ نے حديث كى سماعت كى اور زندگی بھر علمى مشغلہ ميں مصروف رہے۔ انہیں متعدد علوم ميں كمال حاصل تھا ۔ خاص طور پر علم تفسير اور حديث وغيرہ ميں غير معمولى دستگاہ تھی ، چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ ميں يگانہ روزگار بن گئے ، وہ اللہ كى عبادت وانابت كى صفت سے اس قدر متصف تھے كہ شايد ہی ان دور ميں ان سے زيادہ كوئى عبادت گزار رہا ہو ۔استاذ محترم شيخ الاسلام ابن تيميہ كے علوم كے صحيح وارث اور ان كى مسند تدريس كے كما حقہ جانشين تھے۔"
چنانچہ علامہ موصوف نے اپنے استاذ گرامى كى علمى خدمات اور علمى كارناموں كى توسيع واشاعت ميں غير معمولى حصہ ليا، ان كى طرف دعوت ودفاع كا فريضہ سرانجام ديا اور اس كى تائيد كے ليے تحقيق و تنقيح كى پورى كوشش كى ، ان كى فقہی تحقيقات اور ان كے فتاوى و اصول كو بڑی عرق ريزى سے جمع كيا ، بلكہ مزيد تحقيق و محنت سے قرآن وسنت كے دلائل سے مدلل كيا۔
اس طرح علامہ محترم نے بہت بڑا علمى ذخيرہ چھوڑا ہے جو ايك طرف علامہ ابن تيميہ كے علم كا خلاصہ ہے اور دوسرى طرف استاذ كى تحقيقات كے نتائج وثمرات ميں علمى توجيہات كا بہترين لب لباب بھی۔ انہوں نے مختلف فنون و علوم پر قابل قدر كتابيں تصنيف كى ہیں جن ميں فكر كى گہرائى ، قوت استدلال ، حسن ترتيب، ار جوش بيان پورے طور پر نماياں ہے، ان كتابوں ميں كتاب وسنت كا نور اور سلف كى حكمت و بصيرت موجود ہے۔
ايك پہلو جو خاص طور پر ان کے كتابوں کے مطالعہ سے ان كى شخصيت اور عقيدے كے متعلق واضح ہوتا ہے ، وہ ہے سنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے ان كى محبت ، شيفتگی اور بدعت كى سخت مخالفت ، جو چيز انہیں سنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے مطابق نظر آتى ہے، اسے دل وجان سے قبول كر ليتے ہیں ، جو چيز سنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے خلاف نظر آتى ہے اسے جڑ سے اکھاڑ ڈالنے ميں اپنی پورى توانائى صرف كر ديتے ہیں۔ اس سلسلہ ميں وہ نہ كسى كے ساتھ رعايت كرتے ہیں، نہ مصالحت اور نہ روادارى ، ان كا دل حب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے سرشار تھا ليكن ان كى محبت حدود سے تجاوز نہیں كرتى تھی ۔ وہ كسى صورت اور كسى حيثيت ميں بھی حب رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو جذبہ توحيد سے متصادم نہیں ہونے ديتے تھے۔ ان كى توحيد اتنى خالص اور واضح تھی کہ ان كے دشمنوں نے انہیں ہدف ستم بنانے ميں كوئى دقيقہ اٹھا نہیں رکھا تھا ، انہيں طرح طرح سے تكليفيں دیں گئیں، ان پر ناروا پابندياں عائد كى گئیں، نظر بندى و جلا وطنى كے مصائب سے دوچار كيا گيا، انہيں قيد و بند كى صعوبتوں سے گزارا گيا ليكن ان كے عزم واستقامت ميں ذرہ برابر فرق نہیں آيا۔
علامہ كى چند مشہور و مقبول تصانيف يہ ہیں:
1- تہذيب سنن ابي داود
2- اعلام الموقعين
3- مدارج السالكين
4- زاد المعاد
5- عدة الصابرين و ذخيرة الشاكرين
6- مفتاح السعادة
7- الفوائد
8- الوابل الصيب
9- تحفة المودود في احكام المولود
10- الصواعق المنزلة على الجهمية و المعطلة
11- حادي الأفراح
12- الصراط المستقيم
13- جلاء الأفہام في ذكر الصلاة و السلام على خير الأنام
14- شفاء العليل
ان كے علاوہ بھی كئى ايك گرانقدر تصنيفات ہیں جو زيور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔
آپ كى وفات 13 رجب 751 ھ ميں ہوئی اور دمشق كے باب صغير كے مقبرہ میں اپنے والد كے پہلو ميں دفن كئے گئے۔ اللہ تعالى آپ كو درجات عاليہ اور رحمت ابدى سے نوازے۔ آمين۔