• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ سعیدی کی خشیتِ الٰہی اور علمی انکسار

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
ابن اَنْعُمْ نے کہا :'': ہر چیز کے لیے ایک آفت ہوتی ہے جو اسے برباد کردیتی ہے ،پس عبادت کی آفت ریا ہے ، علم کی آفت نسیان ہے اور عقل کی آفت عُجب یعنی اپنی ہی بات کوحرف ِ آخر سمجھنا ہے ،(الزہد والرقائق : 829)‘‘، اسی بات کو حدیثِ پاک میں اس سے ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اس کو علم کے باوجود گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ،(الجاثیہ : 23)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ محض علم ہدایت کا ضامن نہیں بن سکتا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامِلِ حال نہ ہو ۔ اسی طرح کسی بھی ایسے مسئلے میں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کی طرف سے منصوص نہیں ہے بلکہ اجتہادی ہے تو اس میں اپنے آپ کو حرفِ آخر سمجھنا عقل کے لیے آفت ہے اور بربادی کا سبب ہے ۔ علامہ غلام رسول سعیدی کو اللہ تعالیٰ نے دینی مسائل کے اجتہاد میں بے پناہ قوتِ حافظہ اور اجتہادی ملکہ و مہارت سے فیضیاب فرمایا تھا ، لیکن وہ خشیتِ الٰہی، عجز و انکسار اور تواضع کا پیکر تھے ۔وہ تحقیقی مسائل میں دلائل کا انبار لگا دیتے ،مگر اس کے باوجود وہ اپنی رائے کو حرفِ آخر نہیں سمجھتے تھے ،تاہم وہ کسی آیتِ قرآنی یا حدیث کی تشریح میں ناموسِ الوہیت جلَّ شانہ اور ناموسِ رسالت مآب ﷺ اور ناموسِ انبیائے کرام کا بہت پاس رکھتے تھے۔ تحقیقی بحث کے آخر میں جوکلمات تحریر فرماتے ، اس کی چند مثالیں ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں :
''غیر کفومیں نکاح‘‘کے تحت علمائے کرام کا ایک طبقہ سیدہ کے غیرِ سید سے نکاح کو جائز نہیں سمجھتا۔ علامہ غلام رسول سعیدی دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں اس کے جواز کے قائل تھے اور فقہِ حنفی کا مختار موقف یہی ہے۔ اس مسئلے پر آپ نے شرح صحیح مسلم میں نہایت مدلل و مفصل بحث کی ہے ، اس معرکۃ الآراء بحث کے آخر میں آپ لکھتے ہیں:''میں نے حتی الامکان اس مسئلے پر غوروخوض سے لکھا ہے ،تاہم یہ واضح رہے کہ اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو یا کوئی سہوو تسامح ہوگیا ہو یا کتابت کی کوئی غلطی رہ گئی ہو تو انسان اور بشر ہونے کے ناتے ہم معذور ہیں،بہر حال اس تحریر میں جو حُسن ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ہے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی عنایت سے ہے ،اور جو قُبح ہے وہ میری کوتاہی،کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے ہے،( ج: 6، ص :1092تا 1106)‘‘۔
تفسیرِ''تبیان القرآن‘‘میںسورۃ الحج آیت :52کے تحت ایک روایت کا تعلق چونکہ وحی ِ ربانی کی عصمت سے ہے اور آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے مفسرین و مترجمین نے لفظِ ''تَمَنّٰی‘‘ کا ترجمہ کسی نے '' پڑھنا ‘‘کیا ہے اور کسی نے ''آرزو ‘‘ کا کیا ہے ، علامہ صاحب نے دوسرا معنی اختیار کیا ہے ۔ اس کی تفسیر میں ''تِلْکَ الْغَرَانِیقُ الْعُلٰی‘‘سے متعلق ایک روایت کی رو سے کسی کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ آیا شیطان وحی کے کلمات میں دخل اندازی کر سکتا ہے ؟لہٰذا آپ نے اس پر مفصل و مدلل بحث کی تاکہ وحی کی حقانیت ہر شک و شبے سے بالا تر ہو ، آخر میں آپ لکھتے ہیں :
''میرے نزدیک چونکہ یہ روایت بارگاہِ رسالت کی عظمتوں کے منافی تھی، اس لیے میں نے اس کے رَد اور اِبطال میں کافی تفصیل اور تحقیق سے گفتگو کی ہے،کیونکہ میں اس پر بہت عرصہ سے غوروفکر کرتا رہا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی اِتباع میں بعض جیّد علماء نے بھی اس موضوع روایت کو اُس باطل تاویل کے سہارے اختیار کرلیا ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔تاہم یہ علماء صحیح العقیدہ ہیں اور ان کی نیت فاسدنہیں ہے، صرف روایت پرستی کے روگ کی وجہ سے انہوں نے اس روایت کو اُس باطل تاویل کے ساتھ اپنی تصانیف میں درج کردیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور مصنف کے دل میں محبت رسول کو اور زیادہ کردے۔اے اللہ!تو گواہ ہے ،میں شخصیت پرست نہیں ہوں، اللہ اور اس کے رسول کی حرمت سے بڑھ کر مجھے کسی کی حرمت عزیز نہیں ہے ۔میں نے جو یہ سعی کی ہے وہ صرف اور صرف مقامِ رسول کے تحفظ کی خاطر کی ہے۔اے اللہ!اس کوشش کو قبول فرمااور اس کو مصنف کے لیے توشۂ آخرت، مغفرت اور رحمت کا ذریعہ بنادے ، (ج:9، ص: 781-88)‘‘۔
''نبی ﷺ پر جادو کیے جانے کے بعداپنا نقطۂ نظر، مصنف کا نظریہ‘‘کے عنوان سے بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:''جن احادیث میں یہ جملے مذکور ہیں کہ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے یہ بات کہہ دی ہے حالانکہ آپ نے نہیں کہی تھی یا آپ کو یہ خیال ہوتا تھا کہ آپ نے یہ کام کرلیا ہے اور آپ نے وہ کام نہیں کیا تھا،اسی طرح کی اور دوسری خرافات بیان کی ہیں۔ یہ سب کسی بے دین راوی کا اضافہ ہیں اور حضرت اُمُّ المومنین پر بہتان ہے۔یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا ہے اور اس سال رسول اللہ ﷺ نے تبلیغی، تعلیمی اور فتوحات کے اعتبار سے بہت مصروف سال گزارا ہے،اگرجادو کے اثر سے آپ کے حواس اور قُوٰی ایک سال تک معطل رہے ہوتے ،تو اس سال یہ تمام کام کس طرح انجام دیے جاسکتے تھے۔حدیث کی صحت کی تحقیق کرنے میں امام بخاری اور امام مسلم کی شخصیت مسلم ہے، لیکن وہ بہر حال انسان ہیں نبی یا فرشتے نہیں ہیں،یہ ہوسکتا ہے کہ راویوں کی چھان پھٹک میں بعض اوقات اُن سے کوئی سہو ہوگیاہواور کسی ایک آدھ جگہ سہو ہوجانے سے ان کی عظمت اور مہارت میں کوئی کمی نہیں آئے گی،(نعمۃ الباری ، ج:6 ، ص:185-88)‘‘۔
رسول اللہ ﷺکی عقل تو بہر حال معصوم تھی ، لیکن جسمانی طور پر آپ پر جادو ہو سکتا ہے یا نہیں اور یہ کہ جادو ہونے کا نظریہ مقامِ نبوت کے منافی تو نہیں ہے ، اسے آپ نے مقامِ نبوت کے منافی سمجھتے ہوئے مذکورہ بالا عبارت میں رَد کیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ۔ لیکن آپ نے اس مسئلے پر غور وفکر کا سلسلہ جاری رکھا اورآخرِ کار اپنی آخری تصنیف ''تبیان الفرقان ‘‘ میں اپنے سابقہ تحقیق سے رجو ع کر لیا اور لکھا :
''اب تک میں نے دلائل سے یہی سمجھا ہے کہ یہود رسول اللہ ﷺ پر جادو کا اثر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور یہ غلط ہے کہ چالیس راتوں یا چھ ماہ یا ایک سال تک آپ پر جادو کا اثر رہا۔ لیکن چونکہ علمائے امت کی عظیم اکثریت کا یہ مذہب ہے کہ آپ پر جادو کا اثر ہوا تھا ، تو میں یہ سوچتا ہوں کہ علمائے امت کی عظیم اکثریت کے مقابلے میں میری منفرد رائے کیا حیثیت رکھتی ہے ، ہو سکتا ہے یہاں پر ایسے دلائل ہوں جو مجھ پر منکشف نہ ہوئے ہوں اور ان دلائل کے اعتبار سے آپ پر جادو کا اثر ہوا ہو ، سواگر واقع میں ایسا ہے تو میں اپنی تحقیق سے رجوع کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ میرے مطالعہ میں کمی ہو اور میری فکر میں نقص ہو اور میں اس معاملے کی حقیقت تک نہ پہنچ سکا ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے ، میں نے وہی لکھا جو میں نے رسول اللہ ﷺ کے منصبِ نبوت کی عظت کے مطابق سمجھا ، لیکن میں بہت گنہگار انسان ہوں اور میری فکر اور عقل بھی نا رسا ہے ، ہو سکتا ہے جس طرح جمہور علماء نے کہا ہے، اسی میں رسول اللہ ﷺ کی شان اور آپ کی عظمت ہو اور میں اس کی حقیقت تک نہ پہنچ سکا ہوں ، سو اگر ایسا ہے تو میں اپنی سابقہ تحقیق سے رجوع کرتا ہوں ،(تبیان الفرقان ، ج:3ص: 754)‘‘۔
پرفیسر ڈاکٹر شکیل اوج مرحوم کالج کے زمانے میں میرے شاگر د رہے ہیں۔ لیکن وہ دینی مسلمات کے حوالے سے آزاد خیا ل ہو چکے تھے اور اپنے تفرّدات اور من پسند اجتہادات سے بھی ہمیں آگاہ کرتے رہتے تھے ، علامہ غلام رسول سعیدی سے بھی ان کی ملاقات کا سلسلہ رہتا تھا۔ ان کے من جملہ تفردات میں سے یہ تھا کہ ''مسلمان عورت کا اہلِ کتاب مرد کے ساتھ نکاح جائز ہے ‘‘۔علامہ صاحب نے اپنی دوسری تفسیر تبیان الفرقان میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی اور اس کا مدلل رد کیا ، آخر میں وہ لکھتے ہیں :
''قرآنِ مجید ،مستند حدیث ،آثارِ صحابہ وفقہاء، تابعین اور ہر مذہب ومسلک کے مفسرین اور علماء اسلام کے اِجماع کے حوالہ جات سے آفتاب سے روشن تر ثابت ہوگیا کہ مسلمان عورتوں کا اہلِ کتاب مردوں کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے ،لہٰذا میں ڈاکٹر محمد شکیل اوج سے دل سوزی کے ساتھ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے اس مؤقف سے کہ ''مسلمان عورت کا اہلِ کتاب مرد کے ساتھ نکاح جائز ہے‘‘، رجوع کرلیں۔کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ قرآن مجید کی اس وعید میں داخل ہوجائیں:''اور جو کوئی راہِ ہدایت کھل جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنین کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے کی پیروی کرے گا ،تو ہم اُسے اس طرف پھیر دیں گے ،جسے اُس نے اختیار کیاہے اور ہم اسے جہنّم میں جھونک دیں گے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے‘‘، وما علینا الا البلاغ المبین ، جلد:1،ص :493-98 )‘‘۔مفتی منیب الر حمن کا ایک کالم۔​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
جو انسان شرک و بدعات کے سمندر میں غرق ہو، وہ انسان تقوی اور خشیت الہی سے کوسوں دور ہوتا ہے، خشیت الہی کا پہلا اور بنیادی اصول ہے اللہ رب العزت کی وحدانیت کو پہچاننا، وگرنہ تو ایسی خشیت الہی مشرکین مکہ میں بھی تھی، جو کعبہ کا غلاف پکڑ پکڑ کر اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹا ہے تو تو اپنا عذاب نازل فرما دے۔
یہ غلام رسول سعیدی مسلک بریلوی کا اک داعی ہے جو سوائے گالی گلوچ کرنے کے کچھ نہیں۔ رحیم یار خان میں فضیلۃ الشیخ بشیر احمد حسیم رحمۃ اللہ علیہ کے اک رسالہ "آٹھ رکعات تراویح کی تحقیق اور بیس رکعات تراویح کے دلائیل کا جائیزہ" کے جواب میں غلام رسول سعیدی نے وہ گالی گلوچ کی کہ اللہ کی پناہ اور اتنے صفحے بھرنے کے بعد دلائیل وہی پکڑے جن کی بے بنیاد حقیقت کا جائیزہ پہلے سے ہی اس رسالہ میں دے دیا گیا تھا۔
اللہ ایسے مشرک لوگوں سے اس امت کو نجات دلادے۔
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
جو انسان شرک و بدعات کے سمندر میں غرق ہو، وہ انسان تقوی اور خشیت الہی سے کوسوں دور ہوتا ہے، خشیت الہی کا پہلا اور بنیادی اصول ہے اللہ رب العزت کی وحدانیت کو پہچاننا، وگرنہ تو ایسی خشیت الہی مشرکین مکہ میں بھی تھی، جو کعبہ کا غلاف پکڑ پکڑ کر اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹا ہے تو تو اپنا عذاب نازل فرما دے۔
یہ غلام رسول سعیدی مسلک بریلوی کا اک داعی ہے جو سوائے گالی گلوچ کرنے کے کچھ نہیں۔ رحیم یار خان میں فضیلۃ الشیخ بشیر احمد حسیم رحمۃ اللہ علیہ کے اک رسالہ "آٹھ رکعات تراویح کی تحقیق اور بیس رکعات تراویح کے دلائیل کا جائیزہ" کے جواب میں غلام رسول سعیدی نے وہ گالی گلوچ کی کہ اللہ کی پناہ اور اتنے صفحے بھرنے کے بعد دلائیل وہی پکڑے جن کی بے بنیاد حقیقت کا جائیزہ پہلے سے ہی اس رسالہ میں دے دیا گیا تھا۔
اللہ ایسے مشرک لوگوں سے اس امت کو نجات دلادے۔
محترم : جناب مولانا غلام رسول سعیدی صاحب سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اس بات سے بندہ کو اتفاق نہیں ہے کہ وہ گالی گلوچ کی زبان استمال کرتے تھے اپنی تحاریر میں ۔ آپ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے برائے مہربانی اس میں سے چند باتیں ایسی نقل کریں جنہیں " گالیاں " کہا جاسکے ۔ صرف گالیاں نقل کریں
سعیدی صاحب نے بریلوی ہونے کے باوجود اپنی تفسیر میں کئی جگہ بریلویت کا خوب رد کیا ہے ۔ اور کئی جگہ تاویلات بھی کی ہیں ۔ بہر حال بریلوں میں معتدل عالم تھے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
وہ خشیتِ الٰہی، عجز و انکسار اور تواضع کا پیکر تھے ۔وہ تحقیقی مسائل میں دلائل کا انبار لگا دیتے ،مگر اس کے باوجود وہ اپنی رائے کو حرفِ آخر نہیں سمجھتے تھے
کہاں کی خشیت ،اور عجز ؟؟
جو مثالیں دی گئی ہیں ،ان میں منکسرانہ لہجہ صرف اہل بریلی میں اپنی عزت و مقام بچانے کیلئے ہے
ورنہ یہ حضرت ’’ خشیت الہی ‘‘ کے کس مقام پر تھے اس کو جاننے کیلئے ۔۔محترم و مکرم فاضل ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ کی درج ذیل پوسٹ میں دیئے گئے اشارے پیش نظر رہنے چاہئیں :
  1. شرح صحیح مسلم از غلام رسول سعیدی بریلوی پر تعاقب
    بریلوی مکتبہ فکر کے ہاں ’’محدث اعظم ‘‘غلام رسول سعیدی بریلوی نے صحیح مسلم پر ایک شرح لکھی ہے ۔
    ١:اس میں جا بجا بدعات و خرافات کو فروغ دیا گیاہے۔
    ٢:احمد رضا بریلوی کے نظریات کا پرچار کیا ہے ۔
    ٣:تحریف حدیث معنوی کا ارتکاب بہت زیادہ کیا ہے اپنے مطلب کا ترجمہ کیا ہے اور صحیح ترجمہ سے انحراف کیاہے ۔
    ٤: موضوع اور بے اصل روایات سے پوری شرح بھری ہوئی ہے ۔
    ٥:مقلد جب بھی حدیث پر کام کرتا ہے اس کا مقصد کوئی دین کی خدمت نہیں ہوتا نہ ہی وہ دفاع حدیث کا کام کرتا ہے بس حدیث کو اپنے غلط مقاصد کے تحت لانا مقصود ہوتا ہے ۔

    اہل تقلید کے دونوں گروپوں (بریلوی و دیوبندی )کی طرف سے مخصوص مقاصد کے لئے کتب ستہ کے تراجم بھی دھڑا دھڑ شائع ہو رہے ہیں ،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بالخصوص نوجوان نسل ان تراجم پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال کر حفاظت سنت کا حق ادا کرے ،اللہ کرے کوئی اس فرض کوادا کرے ،ان تمام تراجم پر نقد کرنا ہمارا موضوع نہیں ۔چند غلط تراجم کی نشان دہی بطور نمونہ پیش خدمت ہے ،جو مطلب برآری اور حنفیت کے دفاع کے لئے حدیث نبوی میں معنوی تحریات کی گئی ہیں :
    (١)و مسح بناصیتہ وعلی العمامۃ ،پیشانی کی مقدار سر پر مسح کیا ۔(شرح صحیح مسلم ،ص٩٤٦،ج١،للمولوی غلام رسول سعیدی بریلوی ۔طبع فرید بک سٹال١٩٩٥ء)۔
    (٢)فدعا بماء فرشہ ،پانی منگا کر کپڑے پر بہا دیا ۔(ایضا ص٩٦٦ج١)
    یہ تو صرف دو مثالیں ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی معنوی تحریفات سے یہ ترجمہ بھرا پڑا ہے ،خاکسار نے ١٩٩٦ء کے ابتداء میں اس کی صرف پہلی جلد (جس میں فقط ١٠٦٢ احادیث کا ترجمہ ہے )پر نقد کیا تو چار سو چھبیس اغلاط فاش کا ضخیم مسودہ تیار ہو گیا ،اسی پر ہی باقی تراجم احناف کو قیاس کر لیا جائے ۔(قرآن و حدیث میں تحریف پر تقریظ از شیخ ابو صحیب محمد داود ارشد حفظہ اللہ ص:٢٩٣۔٢٩٣)
    یہ بات بالکل درست ہے کہ مقلدین جب بھی کسی حدیث کی کتاب پر کام کریں گے تو اس سے ان کا مقصد حدیث کی اہمیت کو اجاگر کرنا یا دفاع حدیث نہیں ہوتا بلکہ صرف تقلید امام کو حدیث رسول سے ترجیح دینا ہوتا ہے ،اس کی خاطر انھیں جو مرضی کرنا پڑے وہ کرتے ہیں ۔ان میں ایک تحریف بھی ہے خواہ لفظی ہو یا معنوی ۔


    اس شرح کا تعاقب راقم اپنی صحیح مسلم کی شرح میں مفصل لکھ رہا ہے والحمدللہ ۔پہلی جلد زیر طبع ہے،قارئین سے خصوصی دعاوں کی گزارش ہے کہ اللہ تعالی اس کی تکمیل میں ہماری مدد فرمائے ۔آمین ۔
    شرح صحیح مسلم کا قسط قسط وار مطالعہ کرنے کے لئے اس لنک کا مطالعہ کریں
    www.sadiqeen.com :: فورم ملاحظہ کیجیے - علوم حدیث

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں نے مولانا سعیدی صاحب کو باقاعدہ پڑھا نہیں ، لیکن ابھی تک موافق مخالف سے ان کے بارےمیں جو کچھ سنا ہے ، اس سے ایک سنجیدہ علمی شخصیت ، متقی پرہیز گار اور علمی وسعتوں سے مالا مال شخصیت کا تصور ابھرتا ہے ۔
منہج کی خرابی بالکل الگ معاملہ ہے ، تعامل ایک دوسری چیز ہے ۔
بہت سارے درست منہج والے تعامل میں غلطی کر رہے ہیں ، اور بہت سارے غلط منہج والے حسن تعامل کی نعمت سے مالا مال ہوتے ہیں ۔
و الکمال للہ وحدہ ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اس شرح کا تعاقب راقم اپنی صحیح مسلم کی شرح میں مفصل لکھ رہا ہے والحمدللہ ۔پہلی جلد زیر طبع ہے،قارئین سے خصوصی دعاوں کی گزارش ہے کہ اللہ تعالی اس کی تکمیل میں ہماری مدد فرمائے ۔آمین ۔
شرح صحیح مسلم کا قسط قسط وار مطالعہ کرنے کے لئے اس لنک کا مطالعہ کریں
یہ ابن بشیرالحسینوی کون صاحب ہیں بھائی!ان کا کوئی بھی تھریڈ پڑھو ،یہی نظر آتاہے کہ میں فلاں کے خلاف کتاب لکھ رہاہوں، میں فلاں موضوع پر ایک پروجکٹ تیارکررہاہوں میں فلاں کی غلط تحریروںکا مکمل جائزہ لے رہاہوں وغیرذلک اورایک دوقسطوں کے بعد سارامعاملہ ٹھنڈے بستے میں چلاجاتاہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہ ابن بشیرالحسینوی کون صاحب ہیں بھائی!ان کا کوئی بھی تھریڈ پڑھو ،یہی نظر آتاہے کہ میں فلاں کے خلاف کتاب لکھ رہاہوں، میں فلاں موضوع پر ایک پروجکٹ تیارکررہاہوں میں فلاں کی غلط تحریروںکا مکمل جائزہ لے رہاہوں وغیرذلک اورایک دوقسطوں کے بعد سارامعاملہ ٹھنڈے بستے میں چلاجاتاہے۔
صحیح مسلم پر ان کے حواشی غالبا طبع ہو چکے ہیں ، اس کے علاوہ کئی ایک کتابیں طبع ہو چکی ہیں ، اور بہت سارا علمی کام انٹرنیٹ پر ادھر ادھر موجود ہے ۔
اگر فرصت ملے تو یہ انٹرویو بھی پڑھ لیں ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
انٹرویو بھی ان کےتھریڈ جیساہی ہے۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
علامہ غلام رسول سعیدیؒ صاحب کو زیادہ نہیں پڑھا ۔
انسان اپنی عمر میں مختلف مراحل سے گزرتا ہے ۔ جوانی میں جزبات کچھ اور ہوتے ہیں ۔ پختہ عمر میں کچھ اور ۔ ان کے نظریات بلاشبہ بریلویت والے تھے کہ شروع سے وہ خاندانی اور تعلیمی طور پہ بریلوی ہوں گے ۔
لیکن بحرحال پاکستان ہندوستان میں بریلوی علما میں سب سے وسیع النظر عالم وہی تھے ۔ جیسے کہ مفتی منیب الرحمان بھی اسی مدرسے کے ہیں ۔
نوجوانی میں یہ عمر اچھروی ایک بریلوی مناظر گزرے ہیں ان کی تقریریں سنتے تھے ۔ وہ بہت کٹر تھے ۔ تو ظاہر ہے ان پر بھی اثر ہونا تھا ۔ پھر دیوبندی عالم مولانا سرفراز صفدرؒ سے ان کی بحث ہوتی رہی۔
بحرحال آخر عمر میں چونکہ وہ محقق عالم تھے ۔ اپنے بعض بریلوی مسائل کی حمایت میں معزور تھے ۔لیکن اعتدال کی طرف گامزن تھے ۔ کوئی بریلوی مولانا احمد رضاؒ پر تنقید نہیں کرسکتا ۔انہوں نے کی ہے ۔
بھائی کچھ تو ان کو مارجن دیں ۔
 
Top