makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
ابن اَنْعُمْ نے کہا :'': ہر چیز کے لیے ایک آفت ہوتی ہے جو اسے برباد کردیتی ہے ،پس عبادت کی آفت ریا ہے ، علم کی آفت نسیان ہے اور عقل کی آفت عُجب یعنی اپنی ہی بات کوحرف ِ آخر سمجھنا ہے ،(الزہد والرقائق : 829)‘‘، اسی بات کو حدیثِ پاک میں اس سے ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اس کو علم کے باوجود گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ،(الجاثیہ : 23)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ محض علم ہدایت کا ضامن نہیں بن سکتا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامِلِ حال نہ ہو ۔ اسی طرح کسی بھی ایسے مسئلے میں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کی طرف سے منصوص نہیں ہے بلکہ اجتہادی ہے تو اس میں اپنے آپ کو حرفِ آخر سمجھنا عقل کے لیے آفت ہے اور بربادی کا سبب ہے ۔ علامہ غلام رسول سعیدی کو اللہ تعالیٰ نے دینی مسائل کے اجتہاد میں بے پناہ قوتِ حافظہ اور اجتہادی ملکہ و مہارت سے فیضیاب فرمایا تھا ، لیکن وہ خشیتِ الٰہی، عجز و انکسار اور تواضع کا پیکر تھے ۔وہ تحقیقی مسائل میں دلائل کا انبار لگا دیتے ،مگر اس کے باوجود وہ اپنی رائے کو حرفِ آخر نہیں سمجھتے تھے ،تاہم وہ کسی آیتِ قرآنی یا حدیث کی تشریح میں ناموسِ الوہیت جلَّ شانہ اور ناموسِ رسالت مآب ﷺ اور ناموسِ انبیائے کرام کا بہت پاس رکھتے تھے۔ تحقیقی بحث کے آخر میں جوکلمات تحریر فرماتے ، اس کی چند مثالیں ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں :
''غیر کفومیں نکاح‘‘کے تحت علمائے کرام کا ایک طبقہ سیدہ کے غیرِ سید سے نکاح کو جائز نہیں سمجھتا۔ علامہ غلام رسول سعیدی دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں اس کے جواز کے قائل تھے اور فقہِ حنفی کا مختار موقف یہی ہے۔ اس مسئلے پر آپ نے شرح صحیح مسلم میں نہایت مدلل و مفصل بحث کی ہے ، اس معرکۃ الآراء بحث کے آخر میں آپ لکھتے ہیں:''میں نے حتی الامکان اس مسئلے پر غوروخوض سے لکھا ہے ،تاہم یہ واضح رہے کہ اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو یا کوئی سہوو تسامح ہوگیا ہو یا کتابت کی کوئی غلطی رہ گئی ہو تو انسان اور بشر ہونے کے ناتے ہم معذور ہیں،بہر حال اس تحریر میں جو حُسن ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ہے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی عنایت سے ہے ،اور جو قُبح ہے وہ میری کوتاہی،کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے ہے،( ج: 6، ص :1092تا 1106)‘‘۔
تفسیرِ''تبیان القرآن‘‘میںسورۃ الحج آیت :52کے تحت ایک روایت کا تعلق چونکہ وحی ِ ربانی کی عصمت سے ہے اور آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے مفسرین و مترجمین نے لفظِ ''تَمَنّٰی‘‘ کا ترجمہ کسی نے '' پڑھنا ‘‘کیا ہے اور کسی نے ''آرزو ‘‘ کا کیا ہے ، علامہ صاحب نے دوسرا معنی اختیار کیا ہے ۔ اس کی تفسیر میں ''تِلْکَ الْغَرَانِیقُ الْعُلٰی‘‘سے متعلق ایک روایت کی رو سے کسی کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ آیا شیطان وحی کے کلمات میں دخل اندازی کر سکتا ہے ؟لہٰذا آپ نے اس پر مفصل و مدلل بحث کی تاکہ وحی کی حقانیت ہر شک و شبے سے بالا تر ہو ، آخر میں آپ لکھتے ہیں :
''میرے نزدیک چونکہ یہ روایت بارگاہِ رسالت کی عظمتوں کے منافی تھی، اس لیے میں نے اس کے رَد اور اِبطال میں کافی تفصیل اور تحقیق سے گفتگو کی ہے،کیونکہ میں اس پر بہت عرصہ سے غوروفکر کرتا رہا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی اِتباع میں بعض جیّد علماء نے بھی اس موضوع روایت کو اُس باطل تاویل کے سہارے اختیار کرلیا ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔تاہم یہ علماء صحیح العقیدہ ہیں اور ان کی نیت فاسدنہیں ہے، صرف روایت پرستی کے روگ کی وجہ سے انہوں نے اس روایت کو اُس باطل تاویل کے ساتھ اپنی تصانیف میں درج کردیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور مصنف کے دل میں محبت رسول کو اور زیادہ کردے۔اے اللہ!تو گواہ ہے ،میں شخصیت پرست نہیں ہوں، اللہ اور اس کے رسول کی حرمت سے بڑھ کر مجھے کسی کی حرمت عزیز نہیں ہے ۔میں نے جو یہ سعی کی ہے وہ صرف اور صرف مقامِ رسول کے تحفظ کی خاطر کی ہے۔اے اللہ!اس کوشش کو قبول فرمااور اس کو مصنف کے لیے توشۂ آخرت، مغفرت اور رحمت کا ذریعہ بنادے ، (ج:9، ص: 781-88)‘‘۔
''نبی ﷺ پر جادو کیے جانے کے بعداپنا نقطۂ نظر، مصنف کا نظریہ‘‘کے عنوان سے بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:''جن احادیث میں یہ جملے مذکور ہیں کہ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے یہ بات کہہ دی ہے حالانکہ آپ نے نہیں کہی تھی یا آپ کو یہ خیال ہوتا تھا کہ آپ نے یہ کام کرلیا ہے اور آپ نے وہ کام نہیں کیا تھا،اسی طرح کی اور دوسری خرافات بیان کی ہیں۔ یہ سب کسی بے دین راوی کا اضافہ ہیں اور حضرت اُمُّ المومنین پر بہتان ہے۔یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا ہے اور اس سال رسول اللہ ﷺ نے تبلیغی، تعلیمی اور فتوحات کے اعتبار سے بہت مصروف سال گزارا ہے،اگرجادو کے اثر سے آپ کے حواس اور قُوٰی ایک سال تک معطل رہے ہوتے ،تو اس سال یہ تمام کام کس طرح انجام دیے جاسکتے تھے۔حدیث کی صحت کی تحقیق کرنے میں امام بخاری اور امام مسلم کی شخصیت مسلم ہے، لیکن وہ بہر حال انسان ہیں نبی یا فرشتے نہیں ہیں،یہ ہوسکتا ہے کہ راویوں کی چھان پھٹک میں بعض اوقات اُن سے کوئی سہو ہوگیاہواور کسی ایک آدھ جگہ سہو ہوجانے سے ان کی عظمت اور مہارت میں کوئی کمی نہیں آئے گی،(نعمۃ الباری ، ج:6 ، ص:185-88)‘‘۔
رسول اللہ ﷺکی عقل تو بہر حال معصوم تھی ، لیکن جسمانی طور پر آپ پر جادو ہو سکتا ہے یا نہیں اور یہ کہ جادو ہونے کا نظریہ مقامِ نبوت کے منافی تو نہیں ہے ، اسے آپ نے مقامِ نبوت کے منافی سمجھتے ہوئے مذکورہ بالا عبارت میں رَد کیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ۔ لیکن آپ نے اس مسئلے پر غور وفکر کا سلسلہ جاری رکھا اورآخرِ کار اپنی آخری تصنیف ''تبیان الفرقان ‘‘ میں اپنے سابقہ تحقیق سے رجو ع کر لیا اور لکھا :
''اب تک میں نے دلائل سے یہی سمجھا ہے کہ یہود رسول اللہ ﷺ پر جادو کا اثر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور یہ غلط ہے کہ چالیس راتوں یا چھ ماہ یا ایک سال تک آپ پر جادو کا اثر رہا۔ لیکن چونکہ علمائے امت کی عظیم اکثریت کا یہ مذہب ہے کہ آپ پر جادو کا اثر ہوا تھا ، تو میں یہ سوچتا ہوں کہ علمائے امت کی عظیم اکثریت کے مقابلے میں میری منفرد رائے کیا حیثیت رکھتی ہے ، ہو سکتا ہے یہاں پر ایسے دلائل ہوں جو مجھ پر منکشف نہ ہوئے ہوں اور ان دلائل کے اعتبار سے آپ پر جادو کا اثر ہوا ہو ، سواگر واقع میں ایسا ہے تو میں اپنی تحقیق سے رجوع کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ میرے مطالعہ میں کمی ہو اور میری فکر میں نقص ہو اور میں اس معاملے کی حقیقت تک نہ پہنچ سکا ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے ، میں نے وہی لکھا جو میں نے رسول اللہ ﷺ کے منصبِ نبوت کی عظت کے مطابق سمجھا ، لیکن میں بہت گنہگار انسان ہوں اور میری فکر اور عقل بھی نا رسا ہے ، ہو سکتا ہے جس طرح جمہور علماء نے کہا ہے، اسی میں رسول اللہ ﷺ کی شان اور آپ کی عظمت ہو اور میں اس کی حقیقت تک نہ پہنچ سکا ہوں ، سو اگر ایسا ہے تو میں اپنی سابقہ تحقیق سے رجوع کرتا ہوں ،(تبیان الفرقان ، ج:3ص: 754)‘‘۔
پرفیسر ڈاکٹر شکیل اوج مرحوم کالج کے زمانے میں میرے شاگر د رہے ہیں۔ لیکن وہ دینی مسلمات کے حوالے سے آزاد خیا ل ہو چکے تھے اور اپنے تفرّدات اور من پسند اجتہادات سے بھی ہمیں آگاہ کرتے رہتے تھے ، علامہ غلام رسول سعیدی سے بھی ان کی ملاقات کا سلسلہ رہتا تھا۔ ان کے من جملہ تفردات میں سے یہ تھا کہ ''مسلمان عورت کا اہلِ کتاب مرد کے ساتھ نکاح جائز ہے ‘‘۔علامہ صاحب نے اپنی دوسری تفسیر تبیان الفرقان میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی اور اس کا مدلل رد کیا ، آخر میں وہ لکھتے ہیں :
''قرآنِ مجید ،مستند حدیث ،آثارِ صحابہ وفقہاء، تابعین اور ہر مذہب ومسلک کے مفسرین اور علماء اسلام کے اِجماع کے حوالہ جات سے آفتاب سے روشن تر ثابت ہوگیا کہ مسلمان عورتوں کا اہلِ کتاب مردوں کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے ،لہٰذا میں ڈاکٹر محمد شکیل اوج سے دل سوزی کے ساتھ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے اس مؤقف سے کہ ''مسلمان عورت کا اہلِ کتاب مرد کے ساتھ نکاح جائز ہے‘‘، رجوع کرلیں۔کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ قرآن مجید کی اس وعید میں داخل ہوجائیں:''اور جو کوئی راہِ ہدایت کھل جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنین کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے کی پیروی کرے گا ،تو ہم اُسے اس طرف پھیر دیں گے ،جسے اُس نے اختیار کیاہے اور ہم اسے جہنّم میں جھونک دیں گے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے‘‘، وما علینا الا البلاغ المبین ، جلد:1،ص :493-98 )‘‘۔مفتی منیب الر حمن کا ایک کالم۔
''غیر کفومیں نکاح‘‘کے تحت علمائے کرام کا ایک طبقہ سیدہ کے غیرِ سید سے نکاح کو جائز نہیں سمجھتا۔ علامہ غلام رسول سعیدی دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں اس کے جواز کے قائل تھے اور فقہِ حنفی کا مختار موقف یہی ہے۔ اس مسئلے پر آپ نے شرح صحیح مسلم میں نہایت مدلل و مفصل بحث کی ہے ، اس معرکۃ الآراء بحث کے آخر میں آپ لکھتے ہیں:''میں نے حتی الامکان اس مسئلے پر غوروخوض سے لکھا ہے ،تاہم یہ واضح رہے کہ اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو یا کوئی سہوو تسامح ہوگیا ہو یا کتابت کی کوئی غلطی رہ گئی ہو تو انسان اور بشر ہونے کے ناتے ہم معذور ہیں،بہر حال اس تحریر میں جو حُسن ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ہے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی عنایت سے ہے ،اور جو قُبح ہے وہ میری کوتاہی،کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے ہے،( ج: 6، ص :1092تا 1106)‘‘۔
تفسیرِ''تبیان القرآن‘‘میںسورۃ الحج آیت :52کے تحت ایک روایت کا تعلق چونکہ وحی ِ ربانی کی عصمت سے ہے اور آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے مفسرین و مترجمین نے لفظِ ''تَمَنّٰی‘‘ کا ترجمہ کسی نے '' پڑھنا ‘‘کیا ہے اور کسی نے ''آرزو ‘‘ کا کیا ہے ، علامہ صاحب نے دوسرا معنی اختیار کیا ہے ۔ اس کی تفسیر میں ''تِلْکَ الْغَرَانِیقُ الْعُلٰی‘‘سے متعلق ایک روایت کی رو سے کسی کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ آیا شیطان وحی کے کلمات میں دخل اندازی کر سکتا ہے ؟لہٰذا آپ نے اس پر مفصل و مدلل بحث کی تاکہ وحی کی حقانیت ہر شک و شبے سے بالا تر ہو ، آخر میں آپ لکھتے ہیں :
''میرے نزدیک چونکہ یہ روایت بارگاہِ رسالت کی عظمتوں کے منافی تھی، اس لیے میں نے اس کے رَد اور اِبطال میں کافی تفصیل اور تحقیق سے گفتگو کی ہے،کیونکہ میں اس پر بہت عرصہ سے غوروفکر کرتا رہا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی اِتباع میں بعض جیّد علماء نے بھی اس موضوع روایت کو اُس باطل تاویل کے سہارے اختیار کرلیا ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔تاہم یہ علماء صحیح العقیدہ ہیں اور ان کی نیت فاسدنہیں ہے، صرف روایت پرستی کے روگ کی وجہ سے انہوں نے اس روایت کو اُس باطل تاویل کے ساتھ اپنی تصانیف میں درج کردیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور مصنف کے دل میں محبت رسول کو اور زیادہ کردے۔اے اللہ!تو گواہ ہے ،میں شخصیت پرست نہیں ہوں، اللہ اور اس کے رسول کی حرمت سے بڑھ کر مجھے کسی کی حرمت عزیز نہیں ہے ۔میں نے جو یہ سعی کی ہے وہ صرف اور صرف مقامِ رسول کے تحفظ کی خاطر کی ہے۔اے اللہ!اس کوشش کو قبول فرمااور اس کو مصنف کے لیے توشۂ آخرت، مغفرت اور رحمت کا ذریعہ بنادے ، (ج:9، ص: 781-88)‘‘۔
''نبی ﷺ پر جادو کیے جانے کے بعداپنا نقطۂ نظر، مصنف کا نظریہ‘‘کے عنوان سے بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:''جن احادیث میں یہ جملے مذکور ہیں کہ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے یہ بات کہہ دی ہے حالانکہ آپ نے نہیں کہی تھی یا آپ کو یہ خیال ہوتا تھا کہ آپ نے یہ کام کرلیا ہے اور آپ نے وہ کام نہیں کیا تھا،اسی طرح کی اور دوسری خرافات بیان کی ہیں۔ یہ سب کسی بے دین راوی کا اضافہ ہیں اور حضرت اُمُّ المومنین پر بہتان ہے۔یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا ہے اور اس سال رسول اللہ ﷺ نے تبلیغی، تعلیمی اور فتوحات کے اعتبار سے بہت مصروف سال گزارا ہے،اگرجادو کے اثر سے آپ کے حواس اور قُوٰی ایک سال تک معطل رہے ہوتے ،تو اس سال یہ تمام کام کس طرح انجام دیے جاسکتے تھے۔حدیث کی صحت کی تحقیق کرنے میں امام بخاری اور امام مسلم کی شخصیت مسلم ہے، لیکن وہ بہر حال انسان ہیں نبی یا فرشتے نہیں ہیں،یہ ہوسکتا ہے کہ راویوں کی چھان پھٹک میں بعض اوقات اُن سے کوئی سہو ہوگیاہواور کسی ایک آدھ جگہ سہو ہوجانے سے ان کی عظمت اور مہارت میں کوئی کمی نہیں آئے گی،(نعمۃ الباری ، ج:6 ، ص:185-88)‘‘۔
رسول اللہ ﷺکی عقل تو بہر حال معصوم تھی ، لیکن جسمانی طور پر آپ پر جادو ہو سکتا ہے یا نہیں اور یہ کہ جادو ہونے کا نظریہ مقامِ نبوت کے منافی تو نہیں ہے ، اسے آپ نے مقامِ نبوت کے منافی سمجھتے ہوئے مذکورہ بالا عبارت میں رَد کیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ۔ لیکن آپ نے اس مسئلے پر غور وفکر کا سلسلہ جاری رکھا اورآخرِ کار اپنی آخری تصنیف ''تبیان الفرقان ‘‘ میں اپنے سابقہ تحقیق سے رجو ع کر لیا اور لکھا :
''اب تک میں نے دلائل سے یہی سمجھا ہے کہ یہود رسول اللہ ﷺ پر جادو کا اثر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور یہ غلط ہے کہ چالیس راتوں یا چھ ماہ یا ایک سال تک آپ پر جادو کا اثر رہا۔ لیکن چونکہ علمائے امت کی عظیم اکثریت کا یہ مذہب ہے کہ آپ پر جادو کا اثر ہوا تھا ، تو میں یہ سوچتا ہوں کہ علمائے امت کی عظیم اکثریت کے مقابلے میں میری منفرد رائے کیا حیثیت رکھتی ہے ، ہو سکتا ہے یہاں پر ایسے دلائل ہوں جو مجھ پر منکشف نہ ہوئے ہوں اور ان دلائل کے اعتبار سے آپ پر جادو کا اثر ہوا ہو ، سواگر واقع میں ایسا ہے تو میں اپنی تحقیق سے رجوع کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ میرے مطالعہ میں کمی ہو اور میری فکر میں نقص ہو اور میں اس معاملے کی حقیقت تک نہ پہنچ سکا ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے ، میں نے وہی لکھا جو میں نے رسول اللہ ﷺ کے منصبِ نبوت کی عظت کے مطابق سمجھا ، لیکن میں بہت گنہگار انسان ہوں اور میری فکر اور عقل بھی نا رسا ہے ، ہو سکتا ہے جس طرح جمہور علماء نے کہا ہے، اسی میں رسول اللہ ﷺ کی شان اور آپ کی عظمت ہو اور میں اس کی حقیقت تک نہ پہنچ سکا ہوں ، سو اگر ایسا ہے تو میں اپنی سابقہ تحقیق سے رجوع کرتا ہوں ،(تبیان الفرقان ، ج:3ص: 754)‘‘۔
پرفیسر ڈاکٹر شکیل اوج مرحوم کالج کے زمانے میں میرے شاگر د رہے ہیں۔ لیکن وہ دینی مسلمات کے حوالے سے آزاد خیا ل ہو چکے تھے اور اپنے تفرّدات اور من پسند اجتہادات سے بھی ہمیں آگاہ کرتے رہتے تھے ، علامہ غلام رسول سعیدی سے بھی ان کی ملاقات کا سلسلہ رہتا تھا۔ ان کے من جملہ تفردات میں سے یہ تھا کہ ''مسلمان عورت کا اہلِ کتاب مرد کے ساتھ نکاح جائز ہے ‘‘۔علامہ صاحب نے اپنی دوسری تفسیر تبیان الفرقان میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی اور اس کا مدلل رد کیا ، آخر میں وہ لکھتے ہیں :
''قرآنِ مجید ،مستند حدیث ،آثارِ صحابہ وفقہاء، تابعین اور ہر مذہب ومسلک کے مفسرین اور علماء اسلام کے اِجماع کے حوالہ جات سے آفتاب سے روشن تر ثابت ہوگیا کہ مسلمان عورتوں کا اہلِ کتاب مردوں کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے ،لہٰذا میں ڈاکٹر محمد شکیل اوج سے دل سوزی کے ساتھ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے اس مؤقف سے کہ ''مسلمان عورت کا اہلِ کتاب مرد کے ساتھ نکاح جائز ہے‘‘، رجوع کرلیں۔کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ قرآن مجید کی اس وعید میں داخل ہوجائیں:''اور جو کوئی راہِ ہدایت کھل جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنین کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے کی پیروی کرے گا ،تو ہم اُسے اس طرف پھیر دیں گے ،جسے اُس نے اختیار کیاہے اور ہم اسے جہنّم میں جھونک دیں گے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے‘‘، وما علینا الا البلاغ المبین ، جلد:1،ص :493-98 )‘‘۔مفتی منیب الر حمن کا ایک کالم۔
Last edited by a moderator: