کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
اللہ تعالى ہر شے سے واقف ہے ؟ علت العلل کیا ہے ؟
[SUP]13/01/13 محمد رفیق طاہر[/SUP]
[SUP]السؤال كامل
مقالات محدث گوندلوی رحمہ اللہ جلد اول کے مطالعے کے دوران اسلام کی دوسری کتاب میں اس عبارت کی وضاحت درکار ہے اللہ تعالیٰ ہر شے سے واقف ہے: اللہ تعالیٰ کا فعل ارادی ہے۔ کیونکہ اضطراری ماننے سے جہان میں کسی حادث کا موجود ہونا محال ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جو علت العلل ہو گا، وہ قدیم ہے۔ اور علت کے قدیم ہونے سے معلول قدیم ہوتا ہے، لہذا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فعل ارادی ہو، اور ارادی فعل کے لیے علم کا ہونا ضروری ہے بلکہ جہان اللہ تعالیٰ کے علم کے ظاہر ہونے کا نام ہے۔ اس عبارت کو آسان الفاظ میں کھول کر بیان فرما دیں۔ اس کے بعد یہ بھی بیان فرما دیں کہ اللہ کا چاہنا اور جو چاہنا وہ کرنا ، فعل کے ارادی ہونے سے کیسے ثابت ہوتا ہے؟[/SUP]
[SUP]جواب السؤال
الجواب بعون الوهاب ومنه الصدق والصواب وإليه المرجع والمآب[/SUP]
ہمارے داد استاذ جامع المعقولات والمنقولات ‘ متکلم اسلام ‘ محدث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی یہ عبارت علم کلام پر انکی کڑی گرفت اور افلاطون و ارسطو کے نظریہ علل اربعہ (یعنی علت فاعلیہ , علت مادیہ , علت صوریہ , علت غائیہ ) سے ہی انکے افکار وعقائد باطلہ کی بیخ کنی پر مہارت تامہ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
اور اس قسم کی عبارتوں کو سمجھنے کے لیے بہتر ہے کہ پہلے علم منطق اور پھر اسکے بعد علم فلسفہ کی کسی کتاب کا بغور مطالعہ کر لیا جائے ۔ کیونکہ یہاں ساری گفتگو ہی فن کی زبان میں ہے ۔ اور بہت سی مصطلحات استعمال کی گئی ہیں مثلا :
حادث ‘ قدیم ‘ علت ‘ معلول ‘ علت العلل ۔
جب تک ان مصطلحات کا معنى معلوم نہ ہو اس وقت تک اس عبارت کو کما حقہ نہیں سمجھا جاسکتا ۔
بہر حال مختصرا میں اس عبارت کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں آپ بھی سمجھنے کی کاوش فرمائیں :
اس عبارت کو سمجھنے سے قبل فلسفہء علل اربعہ کو اجمالا سمجھ لیں
سب سے پہلے ارسطو نے یہ فلسفہ پیش کیا تھا اور آج تک اسی فلسفہ کا دنیا پر راج ہے حتى کہ کتاب وسنت پر بلا واسطہ علم پیرا ہونے والوں کے علاوہ دنیا کا ہر مذہب بلکہ عصر رواں کی جدید سائنس بھی اسی علل اربعہ کے فلسفہ کی ہی معتقد ہے ۔
علل اربعہ یعنی چار وجوہات جن کی بناء پر کوئی بھی چیز عدم سے وجود میں آتی ہے ۔ اور اگر ان میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو کوئی بھی چیز معرض وجود میں نہیں آسکتی ۔
اسکی مثال آپ یوں سمجھیں کہ جیسے ایک کرسی ہے
اسکی تیاری کے لیے ایک عدد بڑھی درکار ہے جو اسے بنائے درخت سے خودبخود کرسی نہیں تیار ہوسکتی
اسی طرح کرسی کی تیاری کے لیے مادہ یعنی لکڑی وغیرہ درکار ہے ہوا میں ہاتھ پاؤں مارنے سے کرسی نہیں بنے گی ۔
اسی طرح کرسی بنانے کے لیے کرسی کی شکل وصورت کا دماغ میں ہونا ضروری ہے وگرنہ کوئی ڈنڈے کو کرسی سمجھ بیٹھے گا ۔
اسی طرح کرسی کا نقشہ ڈیزائن کرنے یا کرسی تیار کرنے کا کوئی نہ کوئی مقصد و ضرورت بھی پیش نظر ہونا ضروری ہے ۔ وگرنہ بے مقصد اور غرض وغایت سے بے نیاز کوئی چیز بھی نہیں تیار ہوسکتی ۔
پہلی چیز یعنی بڑھی کو فلسفہ کی اصطلاح میں علت فاعلیہ کہتے ہیں اور اسی کا نام علت العلل بھی ہے ۔
دوسری چیز یعنی مادہ (لکڑی وغیرہ) کو علت مادیہ کہا جاتا ہے
تیسری چیز یعنی نقشہ کو علت صوریہ کہتے ہیں
اور چوتھی چیز یعنی مقصد کو علت غائیہ کہتے ہیں ۔
تنبیہ بلیغ : اہل فلسفہ اور انکی پیروی میں تمام تر مذاہب وادیان نے اللہ تعالى کے لیے بھی ان چاروں علتوں کو لازم قرار دیا ہے جسکی بناء پر یہود اور نصارى نے اللہ تعالى کے لیے اولاد اور والدین کو ثابت کیا اور عصر حاضر کے بدعتیوں نے نور من نور اللہ کا عقیدہ اپنایا اور قادیانیوں اور بہائیوں نے ختم نبوت کا انکار کیا ۔ اس باطل نظریہ کا زہر بہت دور تک پھیلا ہوا ہے جسے بیان کرنے کا یہ محل نہیں ہے ۔
لیکن اہل ایمان نے اللہ تعالى کے لیے ان علتوں کو لازم قرار نہیں دیا ۔ بلکہ اللہ تعالى کو ان علتوں کے احتیاج سے پاک مانا ہے ۔ کیونکہ اللہ نے اپنا نام باریء رکھا ہے جو کہ علت مادیہ کے انکار کو مستلزم ہے اسی طرح اللہ نے اپنے تعارف میں اپنا وصف فاطر بھی ذکر فرمایا ہے جو کہ علت صوریہ سے اللہ کو منزہ قرار دیتا ہے ۔ اور " فمن خلق اللہ " کے سوال کو شیطانی وسوسہ قرار دیکر اہل فلسفہ کی نظریہ کی دھجیاں بکھیر کر علت فاعلیہ سے بھی اللہ کو پاک قرار دیا گیا ہے ۔ اور جب اللہ کے لیے علت فاعلیہ ہی ثابت نہ ہو تو باقی تمام تر علل خود ہی اپنی موت مر جاتی ہیں ۔ اور پھر اللہ تعالى بھی کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانے کے لیے کسی علت صوریہ یا علت مادیہ کا محتاج نہیں ۔ سبحانہ وتعالى عما یقولون علوا کبیرا ......
یعنی اللہ تعالى خود علت العلل ہے یعنی فاعل ہے لیکن کسی دوسری چیز کا محتاج نہیں !
اس مقدمہ کو سمجھنے کے بعد اب چلتے ہیں عبارت کے حل کی طرف :
اللہ تعالى کا فعل ارادی ہے
یعنی اللہ تعالى جو کچھ بھی کرتے ہیں اپنے ذاتی ارادے سے کرتے ہیں کسی دوسرے کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا
کیونکہ اضطراری ماننے سے جہان میں کسی حادث کا موجود ہونا محال ہو جاتا ہے
یعنی اگر یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالى کا فعل ارادی نہیں ہے بلکہ اضطراری ہے یعنی اللہ تعالى جو عمل سر انجام دیتے ہیں وہ کسی سے مجبور ہو کر سر انجام دیتے ہیں تو اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالى کو کوئی مجبور کرنے والا ہے ! اور پھر اس مجبور کرنے والے کے لیے بھی یہی سوال پیدا ہوگا کہ اسے مجبور کرنے پر کس نے مجبور کیا ہے ؟؟؟ اسی طرح اس سے قبل بھی یہ سوال پیدا ہوگا اور یہ لا متناہی سلسلہ چلتا جائے گا جسے علم کلام کی اصطلاح میں " تسلسل قبلی" کہتے ہیں جو کہ ممتنع ہے !
اور پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کائنات میں کوئی بھی حادث نہیں بلکہ سب کچھ ہی قدیم ہے جبکہ یہ بات غیر معقول ومردود بالمشاہدہ ہے !!!
کیونکہ اللہ تعالیٰ جو علت العلل ہو گا، وہ قدیم ہے
یعنی اللہ تعالى علت العلل ہے تو اسکے لیے قدیم ہونا ضروری ہے کیونکہ حادث کبھی حقیقتا علت العلل نہیں ہوسکتا ۔ اور جب علت العلل کے لیے قدیم ہونا ضروری ہے تو اسے اضطرار سے پاک ماننا اس سے بھی ضروری ہے وگرنہ وہی تسلسل لازم آئے گا !
اور علت کے قدیم ہونے سے معلول قدیم ہوتا ہے،
یہ ایک بدیہی سے بات ہے کہ جب علت قدیم ہوتی ہے تو معلول کا قدیم ہونا بھی لازم آتا ہے وگرنہ علت بدون معلول کا فاسد نظریہ پیدا ہو گا ۔
اسکے بعد اگلی عبارت میں اس مقدمہ کا نتیجہ محدث گوندلوی نے آسان اور واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہے کہ ان ساری باتوں پر غور کرنے سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالى کے افعال ارادی ہیں اور جب کوئی فعل اردۃ سر انجام دیا جاتا ہے وہ اچانک بے ساختہ یا اضطراراُ سرزد نہیں ہوتا تو اسکا علم بلکہ اسکے ما لہ اور ما علیہ کا بھی علم ہوتا ہے ۔ وگرنہ وہ فعل ارادی نہیں ہوسکتا اور پھر حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمۃ نے مزید وضاحت فرماتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ سارا جہاں جسے اللہ تعالى پیدا فرمایا ہے یہ اللہ تعالى کے علم ظاہری کا ثبوت ہے!
[SUP]13/01/13 محمد رفیق طاہر[/SUP]
[SUP]السؤال كامل
مقالات محدث گوندلوی رحمہ اللہ جلد اول کے مطالعے کے دوران اسلام کی دوسری کتاب میں اس عبارت کی وضاحت درکار ہے اللہ تعالیٰ ہر شے سے واقف ہے: اللہ تعالیٰ کا فعل ارادی ہے۔ کیونکہ اضطراری ماننے سے جہان میں کسی حادث کا موجود ہونا محال ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جو علت العلل ہو گا، وہ قدیم ہے۔ اور علت کے قدیم ہونے سے معلول قدیم ہوتا ہے، لہذا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فعل ارادی ہو، اور ارادی فعل کے لیے علم کا ہونا ضروری ہے بلکہ جہان اللہ تعالیٰ کے علم کے ظاہر ہونے کا نام ہے۔ اس عبارت کو آسان الفاظ میں کھول کر بیان فرما دیں۔ اس کے بعد یہ بھی بیان فرما دیں کہ اللہ کا چاہنا اور جو چاہنا وہ کرنا ، فعل کے ارادی ہونے سے کیسے ثابت ہوتا ہے؟[/SUP]
[SUP]جواب السؤال
الجواب بعون الوهاب ومنه الصدق والصواب وإليه المرجع والمآب[/SUP]
ہمارے داد استاذ جامع المعقولات والمنقولات ‘ متکلم اسلام ‘ محدث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی یہ عبارت علم کلام پر انکی کڑی گرفت اور افلاطون و ارسطو کے نظریہ علل اربعہ (یعنی علت فاعلیہ , علت مادیہ , علت صوریہ , علت غائیہ ) سے ہی انکے افکار وعقائد باطلہ کی بیخ کنی پر مہارت تامہ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
اور اس قسم کی عبارتوں کو سمجھنے کے لیے بہتر ہے کہ پہلے علم منطق اور پھر اسکے بعد علم فلسفہ کی کسی کتاب کا بغور مطالعہ کر لیا جائے ۔ کیونکہ یہاں ساری گفتگو ہی فن کی زبان میں ہے ۔ اور بہت سی مصطلحات استعمال کی گئی ہیں مثلا :
حادث ‘ قدیم ‘ علت ‘ معلول ‘ علت العلل ۔
جب تک ان مصطلحات کا معنى معلوم نہ ہو اس وقت تک اس عبارت کو کما حقہ نہیں سمجھا جاسکتا ۔
بہر حال مختصرا میں اس عبارت کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں آپ بھی سمجھنے کی کاوش فرمائیں :
اس عبارت کو سمجھنے سے قبل فلسفہء علل اربعہ کو اجمالا سمجھ لیں
سب سے پہلے ارسطو نے یہ فلسفہ پیش کیا تھا اور آج تک اسی فلسفہ کا دنیا پر راج ہے حتى کہ کتاب وسنت پر بلا واسطہ علم پیرا ہونے والوں کے علاوہ دنیا کا ہر مذہب بلکہ عصر رواں کی جدید سائنس بھی اسی علل اربعہ کے فلسفہ کی ہی معتقد ہے ۔
علل اربعہ یعنی چار وجوہات جن کی بناء پر کوئی بھی چیز عدم سے وجود میں آتی ہے ۔ اور اگر ان میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو کوئی بھی چیز معرض وجود میں نہیں آسکتی ۔
اسکی مثال آپ یوں سمجھیں کہ جیسے ایک کرسی ہے
اسکی تیاری کے لیے ایک عدد بڑھی درکار ہے جو اسے بنائے درخت سے خودبخود کرسی نہیں تیار ہوسکتی
اسی طرح کرسی کی تیاری کے لیے مادہ یعنی لکڑی وغیرہ درکار ہے ہوا میں ہاتھ پاؤں مارنے سے کرسی نہیں بنے گی ۔
اسی طرح کرسی بنانے کے لیے کرسی کی شکل وصورت کا دماغ میں ہونا ضروری ہے وگرنہ کوئی ڈنڈے کو کرسی سمجھ بیٹھے گا ۔
اسی طرح کرسی کا نقشہ ڈیزائن کرنے یا کرسی تیار کرنے کا کوئی نہ کوئی مقصد و ضرورت بھی پیش نظر ہونا ضروری ہے ۔ وگرنہ بے مقصد اور غرض وغایت سے بے نیاز کوئی چیز بھی نہیں تیار ہوسکتی ۔
پہلی چیز یعنی بڑھی کو فلسفہ کی اصطلاح میں علت فاعلیہ کہتے ہیں اور اسی کا نام علت العلل بھی ہے ۔
دوسری چیز یعنی مادہ (لکڑی وغیرہ) کو علت مادیہ کہا جاتا ہے
تیسری چیز یعنی نقشہ کو علت صوریہ کہتے ہیں
اور چوتھی چیز یعنی مقصد کو علت غائیہ کہتے ہیں ۔
تنبیہ بلیغ : اہل فلسفہ اور انکی پیروی میں تمام تر مذاہب وادیان نے اللہ تعالى کے لیے بھی ان چاروں علتوں کو لازم قرار دیا ہے جسکی بناء پر یہود اور نصارى نے اللہ تعالى کے لیے اولاد اور والدین کو ثابت کیا اور عصر حاضر کے بدعتیوں نے نور من نور اللہ کا عقیدہ اپنایا اور قادیانیوں اور بہائیوں نے ختم نبوت کا انکار کیا ۔ اس باطل نظریہ کا زہر بہت دور تک پھیلا ہوا ہے جسے بیان کرنے کا یہ محل نہیں ہے ۔
لیکن اہل ایمان نے اللہ تعالى کے لیے ان علتوں کو لازم قرار نہیں دیا ۔ بلکہ اللہ تعالى کو ان علتوں کے احتیاج سے پاک مانا ہے ۔ کیونکہ اللہ نے اپنا نام باریء رکھا ہے جو کہ علت مادیہ کے انکار کو مستلزم ہے اسی طرح اللہ نے اپنے تعارف میں اپنا وصف فاطر بھی ذکر فرمایا ہے جو کہ علت صوریہ سے اللہ کو منزہ قرار دیتا ہے ۔ اور " فمن خلق اللہ " کے سوال کو شیطانی وسوسہ قرار دیکر اہل فلسفہ کی نظریہ کی دھجیاں بکھیر کر علت فاعلیہ سے بھی اللہ کو پاک قرار دیا گیا ہے ۔ اور جب اللہ کے لیے علت فاعلیہ ہی ثابت نہ ہو تو باقی تمام تر علل خود ہی اپنی موت مر جاتی ہیں ۔ اور پھر اللہ تعالى بھی کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانے کے لیے کسی علت صوریہ یا علت مادیہ کا محتاج نہیں ۔ سبحانہ وتعالى عما یقولون علوا کبیرا ......
یعنی اللہ تعالى خود علت العلل ہے یعنی فاعل ہے لیکن کسی دوسری چیز کا محتاج نہیں !
اس مقدمہ کو سمجھنے کے بعد اب چلتے ہیں عبارت کے حل کی طرف :
اللہ تعالى کا فعل ارادی ہے
یعنی اللہ تعالى جو کچھ بھی کرتے ہیں اپنے ذاتی ارادے سے کرتے ہیں کسی دوسرے کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا
کیونکہ اضطراری ماننے سے جہان میں کسی حادث کا موجود ہونا محال ہو جاتا ہے
یعنی اگر یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالى کا فعل ارادی نہیں ہے بلکہ اضطراری ہے یعنی اللہ تعالى جو عمل سر انجام دیتے ہیں وہ کسی سے مجبور ہو کر سر انجام دیتے ہیں تو اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالى کو کوئی مجبور کرنے والا ہے ! اور پھر اس مجبور کرنے والے کے لیے بھی یہی سوال پیدا ہوگا کہ اسے مجبور کرنے پر کس نے مجبور کیا ہے ؟؟؟ اسی طرح اس سے قبل بھی یہ سوال پیدا ہوگا اور یہ لا متناہی سلسلہ چلتا جائے گا جسے علم کلام کی اصطلاح میں " تسلسل قبلی" کہتے ہیں جو کہ ممتنع ہے !
اور پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کائنات میں کوئی بھی حادث نہیں بلکہ سب کچھ ہی قدیم ہے جبکہ یہ بات غیر معقول ومردود بالمشاہدہ ہے !!!
کیونکہ اللہ تعالیٰ جو علت العلل ہو گا، وہ قدیم ہے
یعنی اللہ تعالى علت العلل ہے تو اسکے لیے قدیم ہونا ضروری ہے کیونکہ حادث کبھی حقیقتا علت العلل نہیں ہوسکتا ۔ اور جب علت العلل کے لیے قدیم ہونا ضروری ہے تو اسے اضطرار سے پاک ماننا اس سے بھی ضروری ہے وگرنہ وہی تسلسل لازم آئے گا !
اور علت کے قدیم ہونے سے معلول قدیم ہوتا ہے،
یہ ایک بدیہی سے بات ہے کہ جب علت قدیم ہوتی ہے تو معلول کا قدیم ہونا بھی لازم آتا ہے وگرنہ علت بدون معلول کا فاسد نظریہ پیدا ہو گا ۔
اسکے بعد اگلی عبارت میں اس مقدمہ کا نتیجہ محدث گوندلوی نے آسان اور واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہے کہ ان ساری باتوں پر غور کرنے سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالى کے افعال ارادی ہیں اور جب کوئی فعل اردۃ سر انجام دیا جاتا ہے وہ اچانک بے ساختہ یا اضطراراُ سرزد نہیں ہوتا تو اسکا علم بلکہ اسکے ما لہ اور ما علیہ کا بھی علم ہوتا ہے ۔ وگرنہ وہ فعل ارادی نہیں ہوسکتا اور پھر حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمۃ نے مزید وضاحت فرماتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ سارا جہاں جسے اللہ تعالى پیدا فرمایا ہے یہ اللہ تعالى کے علم ظاہری کا ثبوت ہے!