ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 577
- ری ایکشن اسکور
- 185
- پوائنٹ
- 77
علماء اور طلباء کے مطلوبہ اوصاف
━════﷽════━
❍ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (۱۹۸ھ) بطور تنبیہ ونصیحت بیان کرتے ہیں کہ:
’’إذا كانَ نَهارِي نَهارَ سَفِيهٍ، ولَيْلِي لَيْلَ جاهِلٍ، فَما أصْنَعُ بِالعِلْمِ الَّذِي كَتَبْتُ؟‘‘.
اگر میرا دن بیوقوفوں جیسا گزرے اور میری رات جاہلوں جیسی رات ہو‘ تو مجھے اُس علم سے کیا فائدہ حاصل ہوا‘ جسے میں نے لکھ پڑھ رکھا ہے؟
[أخلاق العلماء للآجري: ۷۱، حلیۃ الأولیاء: ۷؍ ۲۷۱]
❐ چنانچہ جو علماء کے اوصاف سے متصف ہونا چاہتا ہے وہ اللہ عزوجل کے اس فرمان پر عمل کرے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا • وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا • وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا﴾ [الاسراء: ۱۰۷، ۱۰۹]
جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعدہ بلاشک وشبہ پورا ہو کر رہنے والا ہی ہے، وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے۔
❍ اور مذکورہ آیت کی تفسیر کو حسن بصری رحمہ اللہ کے اِس فرمان سے سمجھیں، آپ نے فرمایا:
’’إنْ كانَ الرَّجُلُ إذا طَلَبَ العِلْمَ؛ لَمْ يَلْبَثْ أنْ يُرى ذَلِكَ فِي تَخَشُّعِهِ وبَصَرِهِ ولِسانِهِ ويَدِهِ [وصَلاتِهِ، وحَدِيثِهِ] وزُهْدِهِ، وإنْ كانَ الرَّجُلُ لَيَطْلُبُ البابَ مِن أبْوابِ العِلْمِ، فَيَعْمَلُ بِهِ، فَيَكُونُ خَيْرًا لَهُ مِنَ الدُّنْيا وما فِيها لَوْ كانَتْ لَهُ، فَجَعَلَها فِي الآخِرَة‘‘.
آدمی جب علم کی جستجو میں مشغول ہو تو بلا تاخیر اس علم کا اثر‘ اس کے خشوع میں، اس کی نگاہ میں، اس کی زبان میں، اس کے ہاتھ میں، اس کی نماز میں، اس کی گفتگو میں اور اس کے زہد میں ظاہر ہونا چاہئے۔ اگر آدمی علم کا کوئی باب (کچھ حصہ) سیکھ لے اور اس پر عمل کرلے‘ تو یہ بات اُس کے حق میں اِس سے کہیں بہتر ہے کہ دنیا اور دنیا کا سب ساز وسامان اسے حاصل ہو، اور وہ سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالے۔
[الزھد والرقائق لابن المبارک:رقم: ۷۲، أخلاق العلماء للآجری: ۷۱]
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•