کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
علماء کرام اور سود زدہ ٹیکس کا نظام
کالم: ڈاکٹر اکرام الحقجب آپ میں اخلاقی اقدار کی کمی ہو تو آپ دوسروں کو قائل کرنے کے لیے اُن کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں ۔ ورنہ آپ اُن سے احتراز کرتے ہیں، کیونکہ جن افراد سے واسطہ پڑتا ہے وہ بہتر تو جان لیتے ہیں کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔ ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ اُس نے اپنی صفوں سے بدعنوانی کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا ہے۔ اس کی ویب سائٹس پر یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ اٹھارہ مئی 2015 کو مشہور عالمِ دین مولانا طارق جمیل نے ایف بی آر کے افسران کو عوامی خدمت اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کا درس دیا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ سول سروس خدا کی طرف سے انسانوں کو دیا گیا اختیار ہے۔ درس کے اختتام پر مولانا نے نہایت پر اثر دعا کرائی۔
ایف بی آر کے مطابق مولانا صاحب کا درس اور دعا چیئرمین، طارق باجوہ کی طرف سے محکمے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے بہت سے انقلابی اقدامات میں سے ایک تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ بہتر حکمتِ عملی اور فعالیت کی بجائے محض وعظ و ہدایت کے ذریعے محصولات کے حجم میں اضافہ ممکن ہے .... سبحان ﷲ! اس سے یہ تصدیق بھی ہوتی ہے کہ ایف بی آر میں سنگین پیشہ ور بداخلاقی، جیسا کہ بدعنوانی، جبر، ٹیکس گزاروں کو ڈرانا دھمکانا اور انتہائی غیر مہذب رویے اور رکھائی سے پیش آنا، کا دوردورہ تھا (ہے)، اور ایک اچھا اخلاقی خطبہ ان برائیوں کو چشم زدن میں جڑ سے اکھاڑ پھینک سکتا ہے۔ نعوذ باﷲ مولانا کی شان میں گستاخی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے درس کے اثر میں کوئی شبہ ہے لیکن اگر محصولات کے نظام میں رشد وہدایت کی ہی کمی رہ گئی تھی تو مولانا طارق جمیل کو ہی چیئرمین ایف بی آر بنا لیں۔ ہمیں یقینی طور پر ٹیکسز کا حجم بڑھانے کی ضرورت ہے اور اگر دعا سے ایسا ہو سکے تو اور کیا چاہیے؟
ایف بی آر کے چیئرمین نے غالباً مولانا صاحب کو نہیں بتایا ہو گا کہ وہ ایسے قوانین کے تحت ٹیکس جمع کرنے کے لیے کوشاں (اور ان سے دعا کے طالب) ہیں جس کی بہت سی شقیں سود کے زمرے میں آتی ہیں اور سود کو ﷲ اور ﷲ کے رسول ﷺ نے اپنے خلاف کھلی جنگ قرار دیا ہے۔ قرآنِ پاک کا حکم اس سلسلے میں بہت واضح ہے۔
یوں تو ٹیکس قوانین میں بہت سی شقیں قرآن و سنت کے منافی ہیں، لیکن انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی شق13(7) اس کی بدترین مثال ہے۔ یہ قانون بلاسود آسان قرضہ جات ، جو کوئی ملازم اپنے مالک سے حاصل کرتا ہے ، پر سود عائد کرتا ہے۔ اس کے مطابق 500,000 روپے سے تجاوز کرنے والا نفع نقصان کی شرط کے بغیر قرضہ جو کوئی ملازم اپنے مالک سے حاصل کرتا ہے ، یا اُس میں نفع نقصان کی شرح پانچ فیصد سے کم ہے تو اس میں ہر سال ایک فیصد کا اضافہ کر کے پانچ فیصد میں جمع کیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی ملازم نے گھر خریدنے کے لیے 2012 میں پچاس لاکھ قرض لیا تھا تو وہ اب تک ہزاروں روپے سود کی مدد میں ادا کرچکا ہو گا۔
کسی نے بھی اس کی نشاندہی نہیں کی ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی شق13(7) ﷲ کے احکامات اور پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ پارلیمنٹ ایسا قانون منظور کرنے کی مجاز نہیں جو کتاب ﷲ اور سنت کی صریحاً خلاف ورزی کرتا ہو اور جو آئین کے بنیادی تصور سے متصادم ہو۔ یقیناً ریاست اپنے شہریوں پر ٹیکس عائد کرنے کا حق رکھتی ہے لیکن یہ ٹیکسیشن امتیازی، جابرانہ اور آئین کے آرٹیکلز 8 سے 28 تک سے متصادم نہ ہو۔ یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ہر قسم کے استیصال کا خاتمہ کرتے ہوئے آرٹیکل 3 میں بیان کردہ بنیادی اصولوں کی پاسداری یقینی بنائے۔
انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں اس اصول کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے کہ اگر کوئی تنخواہ دار شخص اپنے مالک سے سود سے پاک قرضہ حاصل کرتا ہے تو بھی اس سے سود کی رقم وصول کی جاتی ہے۔ افسوس مولانا طارق جمیل اس ستم سے آگاہ نہ تھے ورنہ وہ ایف بی آر کے افسران کی سرزنش فرماتے ۔ یہ شق قرآنِ پاک کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 25 کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے ۔ اس کے مطابق ...
’’قانون کی نظر میں تمام شہری برابر اور قانون کے یکساں تحفظ کے حقدار ہیں‘‘،
لیکن ملازمین ہی ہر قانون کی زد میں کیوں آجاتے ہیں؟ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر کسی قانون کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا؟
یقیناً ایف بی آر کے صاحبِ اختیار نے محترم مولانا طارق جمیل کو یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ سود سے پاک یا پانچ فیصد سے کم شرح پر ملازمین کو ملنے والے قرضوں پر غیر اسلامی اور غیر آئینی ٹیکس کا نفاذ کرتے ہیں جبکہ آئین کا آرٹیکل 37(ف) تقاضا کرتا ہے کہ ریاست جتنی جلدی ہو سکے سود کا خاتمہ کرے۔
مولانا طارق جمیل اور دوسرے جید علما حضرات کو چاہیے کہ ریاست کو سود کے خاتمے کے اقدامات اٹھانے پر مجبور کریں تاکہ ﷲ کے حکم کی بجاآوری ہو سکے۔
شریت کورٹ ربا کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے مگر سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا ([PLD 2000 SC 225 & PLD 2002 SC 800])۔
مولانا صاحب اور دیگر علماء حضرات سے گزارش ہے کہ دعائیں ضرور کرائیں لیکن عدالت میں جا کر اس فیصلے کے خلاف دلائل بھی دیں، تاکہ ملک میں اسلامی معیشت کے خدوخال واضح ہو سکیں۔ ہمارے زیادہ تر قانون سازشریعت کی بنیاد پر ٹیکسیز کے نظام سے ناآشنا ہیں۔ شاید ایف بی آر نے کبھی قرآن اور سنت کے اصولوں کے مطابق ٹیکس کے نظام کو وضح کرنے کے لیے کوئی ریسرچ ورک نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر ایک خود سر اور منہ زور ادارہ بن چکا ہے جو انسانی حقوق کا خیال کیے بغیر جابرانہ طریقے سے عوام کی جیب سے رقم نکلواتا ہے، لیکن جن دولت مند افراد سے انکم ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے، وہ اسے دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ شاید وقت آ گیا ہے جب پارلیمنٹ میں ٹیکس پالیسی کو زیرِ بحث لایا جائے اور ماہرین سے تجاویز طلب کی جائیں۔ اس عمل میں علماء کرام کو بھی شامل کیا جائے تاکہ وہ اس کے اسلامی پہلو اجاگر کرسکیں۔ پوری دنیا میں (اس میں اسلامی دنیا شامل نہیں) میں یونیورسٹیاں ایسے موضوعات پر ریسرچ کرتی ہیں لیکن پاکستان میں شاید ایسی کوئی یونیورسٹی یا دینی مدرسہ نہیں جہاں اسلام کے محصولات کے نظام پر کوئی کام کیا گیا ہو۔ امید ہے مولانا طارق جمیل اور دیگر علماء اس طرف توجہ دیں گے۔
ح