علماء کے القاب
ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، طبی اور اسی طرح ابن خلکان، فیروز آبادی، شوکانی، صنعانی اور نفطویہ، آلوسی وغیرہ ایسے نام ہیں کہ جن کو سننے کے بعد ہر طلاب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ یہ کیا نام ہیں اور ان کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟؟ اسی قسم کے ایک سوال نے مجھے اس بات پر ابھارا کہ ایسے اسامی کو ایک تحریر میں بیان کردیا جائے ۔ معاونت کے طور پر ملتقی اہل الحدیث (انٹرنیٹ فورم) پر ایک مشارکہ "اتحاف النبلاء ببیان تسمیۃ العلماء" کے نام سے میں ملاحظہ کیا جسے دیکھ کر یہ خواہش اور راسخ ہوئی اور بالآخر نشتر قلم کو رخ قرطاس پر مسلط کردیا۔
1۔ ابن تیمیہ:۔
اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ کے دادا جان حج کرنے کے لیے گئے ۔ جب وہ "تیماء" کے مقام پر پہنچے تو ایک خوبصورت چہرے والی بچی کو دیکھا۔ اور جب وہ واپس پہنچے تو ان کی بیوی نے ایک بچہ جنم دیا جو اسی لڑکی سے مشابہت رکھتا تھا تو دیکھتے ہی کہتے لگے: یا تیمیہ! یا تیمیہ! یعنی تشبیہ دی، تو اسی وجہ سے ان کا نام تیمیہ پڑگیا۔ (اعجام الاعلام لمحمود مصطفی)
2۔ ابن قیم:۔
یہ اس مدرسہ کی طرف نسبت ہے جسے محی الدین ابو المحاسن یوسف بن عبدالرحمن بن علی بن الجوزی المتوفی 656ھ نے بنایا تھا ۔ سبب یہ ہے کہ ان کے والد اس مدرسہ کے "قیم" (مدیر/متولی )تھے۔ (زاد المعاد)
ملحوظہ:۔ عموماً بعض لوگ جب ابن القیم کا نام لیتے ہیں تو ابن القیم الجوزیہ کہہ دیتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ درست یوں بنے گا "ابن قیم الجوزیہ" کیونکہ "قیم" کو عرف حاضر میں "مدیر" کہا جاتا ہے، تو ابن المدیر المدرسہ کہنا ہرگز درست نہیں ، بلکہ ابن مدیر المدرسہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
3۔ ابن رجب الحنبلی:۔
الامام الحافظ زین العابدین عبدالرحمن بن احمدبن عبدالرحمن بن الحسن بن محمد بن ابی البرکات مسعود السلامی البغدادی ثم الدمشقی الحنبلی المشہور ابن رجب ۔ "ابن رجب" ان کے دادا عبدالرحمن کا لقب تھا۔ (مقدمہ جامع العلوم والحکم بتحقیق شعیب الارنؤوط)
4۔ ابن کثیر:۔
اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن کثیر بن درع القرشی بنی حصلۃ سے تعلق رکھتے ہیں اور "ابن کثیر" اپنے دادا کثیر بن ضوء کی طرف منسوب ہیں۔ (اتحاف البنلاء ببیان تسمیۃ العلماء للمسیطر)
5۔ ابن راھویہ:۔
ابو یعقوب اسحاق بن ابی الحسن التمیمی محدث بھی تھے او فقیہ بھی۔ اور "ابن راھویہ" ان کے والد کا لقب تھا۔ یہ لقب اس وجہ سے پڑا کیونکہ وہ مکہ کے راستہ میں پیدا ہوئے اور راستہ کو فارسی میں راہ کہتے ہیں اور "ویہ" بمعنی "وجد" ہے۔ (اسی طرح ابن خلکان نے کہا ہے) (اتحاف النبلاء)
6۔ ابن الماجشون:۔
عبدالملک بن عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمۃ، ابو مروان الماجشون؛ "ماجشون" سرخ وسفید رنگت والے کو کہتے ہیں، چہرے کی سرخی کی وجہ سے یہ نام پڑگیا۔ (ترتیب المدارک 3/133، الدیباج المذھب 1/153)
احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ ان کا لقب ماجشون کیسے پڑگیا تو فرمانے لگے: ایک فارسی کلمہ کی بنا پر، کیونکہ یہ جب بھی کسی آدمی کو ملتے تو کہتے "شونی شونی: تو ان کا لقب ماجشون پڑگیا۔ ابرہیم الحربی کہتے ہیں ماجشون فارسی کا لفظ اور ان لقب اس وجہ سے پڑا کہ ان کے رخسار سرخ تھے۔ (سیر اعلام النبلاء 9/310، التاریخ الصغیر 8/259)، القاب الصحابہ والتابعین لابی علی الحسین بن محمد الجیانی الاندلسی)
7۔ الاوزاعی:۔
یہ اوزاع کی طرف نسبت ہے اور اوزاع قبیلہ ذی الکلاع کا ایک یمنی خاندان اور ایک قول یہ ہے کہ اوزاع دمشق کی ایک بستی ہے ملک شام میں۔
8۔ الآجری:۔
بغداد کی ایک بستی کی طرف نسبت ہے جس کا نام آجر ہے۔
9۔ الپ ارسلان:۔
ابو شجاع ملقب ب عضد الدولۃ۔ یہ ترکی زبان کا لفظ ہے ،اس کا معنی ہے: بہادر شیر، الپ بمعنی شجاع اور ارسلان بمعنی شیر۔
10۔ ابن خلِّکان:۔
احمدبن محمد بن ابراہیم بن ابی بکر بن خلکان البرمکی الاربلی ابو العباس صاحب وفیات الاعیان (608ھ۔681)، خلِّکان دو فعلوں خَلِّ (امر از خلی بمعنی ترک) اور کان (ناقصہ) سے مرکب ہے۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اکثر کہا کرتے تھے : "کان والدی کذا، کان جدی کذا، تو ان کو کہا گیا خَلِّ کانَ (کان والدی، کان جدی۔۔۔ کہنا چھوڑ دو) تو یہ ان کے نام کے ساتھ نتھی ہوگیا۔ (النور السافر عن اخبار القرن العاشر/ العید روس المتوفی 1038ھ)
11۔ الطبری:۔
ابو جعفر محمد بن جریری الطبری صاحب التفسیر المعروف ب تفسیر طبری و تفسیر ابن جریر؛ یہ طبرستان کی طرف نسبت ہے۔
ملحوظہ:۔ عموماً بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ تفیسر طبری اور تفسیر ابن جریر دو الگ الگ چیزیں ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہی تفسیر کے دو نام ہیں۔
12۔ الطحاوی:۔
احمد بن محمد بن سلامۃ بن سلمۃ بن عبدالملک الازدی الطحاوی؛ بستی "طحا' کی طرف نسبت ہے جو کہ مصر میں ہے۔
13۔ الشوکانی:۔
محمد بن علی بن محمد بن عبداللہ الشوکانی؛ شوکان کی طرف نسبت ہے جو کہ سجامیہ کی بستیوں میں سے ایک بستی ہے اور یہ صنعاء سے ایک دن کی مسافت پر ہے۔
14۔ الصنعانی :۔
محمد بن اسماعیل بن صلاح بن محمد بن علی الکحلانی الصنعانی؛ یمن کی ایک بستی "صنعاء" کی طرف نسبت ہے۔
15۔ القالبسی:۔
ابو الحسن علی بن محمد بن خلف المعافری؛ صاحب الملخص للمؤطا۔ "قالبس" طرابلس اور سفاقس کے درمیان ایک بستی ہے (معجم البلدان4/289) انھیں قالبسی اس وجہ سے کہا جاتا تھا کیونکہ ان کے چچا ان کی پگڑی اہل قالبس کی طرح سخت باندھتے تھے (تذکرۃ الحفاظ 3/1079، سیر اعلام النبلاء 17/161) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قالبس شہر کی طرف نسبت ہے جو کہ افریقہ میں ہے ۔ (الرسالۃ المستطرفۃ 1/14، معجم المؤلفین للکحالۃ)
16۔ الفراء البغوی:۔
ابو محمد الحسین بن مسعود الفراء البغوی۔ خراسان میں مرو اور ھراۃ کے درمیان ایک شہر بغشور ہے ، یہ اس کی طرف نسبت ہے۔
17۔ البیہقی:۔
بیہق کی طرف نسبت ہے جو کہ نسیا پور کی نواحی بستی ہے ۔
18۔ الجوینی:۔
جُوین کی طرف نسبت ہے یہ نسیا پور ہی بہت بڑی نواحی بستی ہے۔
19۔ الدارقطنی:۔
دارالقطن بغداد کا ایک محلہ ہے ، یہ اس کی طرف نسبت ہے۔
20۔ الزمخشری:۔
صاحب الکشاف۔ زمخشر کی طرف نسبت ، یہ خوارزم کی بہت بڑی بستی ہے۔
21۔ سحنون:۔
ابو سعید عبدالسلام السحنون۔ "سحنون" دیار مغرب کا ایک فطین پرندہ ہے۔ انھیں بھی ذہانت و فطانت کی بناء پر یہ لقب دیا گیا۔
22۔ سیبُویہ:۔
بصری نحویوں کے امام ہیں۔ ان کا یہ نام اس لیے پڑا کیونکہ ان کے رخسار سیب کی طرح تھے اور انتہائی خوبصورت تھے اور "سیبویہ" کا معنی "سیب کی خوشبو" ہے ۔ یہ بات البَطَلیوس نے شرح الفصیح میں کہی ہے (بحوالہ لقبک ومعناۃ از محمد ابراہیم سلیم) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھیں سیب کی خوشبو سونگھنے کا شوق تھا ، اور یہ بھی کہ ان کے رخسار سیب کی طرح تھے۔ (ابجد العلوم 3/38) یہ لفظ سیب اور ویہ کا مرکب ہے ۔ تفاح کو فارسی میں سیب اور رائحۃ کو ویہ کہتے ہیں۔ (لقبک ومعناہ)
23۔ الشاطبی:۔
شاطبہ، اندلس کا ایک شہر ہے ، یہ اس کی طرف نسبت ہے۔ (اتحاف)
24۔ الشعبی:۔
ابو عمرو عامر بن شراحبیل الشعبی، شَعب کی طرف نسبت ہے (اتحاف) یہ ہمدان کا ایک خاندان ہے۔ اور امام جوہری نے کہا ہے کہ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کی طرف نسبت ہے جو کہ یمن میں ہے ۔ (اتحاف النبلاء)
25۔ الطبرانی:۔
طبریۃ کی طرف نسبت ہے۔ یاد رہے کہ طبرستان کی طرف نسبت کے لیے لفظ طبری بولا جاتا ہے۔ (اتحاف النبلاء)
26۔ العُکۡبَری:۔
عُکبَراء کی طرف نسبت ہے اور یہ دریائے دجلہ پر بغداد سے دس فرسخ کے فاصلہ پر ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ (اتحاف النبلاء)
27۔ الفارابی:۔
فاراب کی طرف نسبت ہے جوکہ ترک میں ہے۔ (اتحاف النبلاء)
28۔ المطین:۔
محمد بن عبداللہ الحضرمی الکوفی (نزھۃ الالباب 2/184) ایک دفعہ گارے میں گر گئےلہٰذا مطین معروف ہوگئے۔ (تفسیر الطبری 16/329)
29۔ فِرَ بۡرِی:۔
فِرَبر کی طرف منسوب ہے جو کہ جیحون کی طرف ایک شہر ہے۔
30۔ الفیروز آبادی:۔
فیروز آباد فارس کا ایک شہر ہے ، اس کی طرف نسبت ہے۔
31۔ القُدُوری:۔
"قُدُور" "قِدر" کی جمع ہے اور ہنڈیا بنانا اور بیچنا اس نسبت کی وجہ ہے۔ (مرآۃ الیقظان للیافعی)
32۔ قسطلانی:۔
قسطیلیۃ کی طرف نسبت ہے جو کہ اندلس کا شہر ہے۔
33۔ الکسائی:۔
قراء السبعہ میں سے ایک ہیں۔ یہ نام اس وجہ سے پڑا کہ وہ کوفہ گئے اور حمزہ بن حبیب کے پاس آئے اس حال میں کہ امام کسائی نے چادر اوڑھ رکھی تھی تو حمزہ نے کہا کہ کون پڑھے گا تو کہا گیا "صاحب الکساء"
اور ایک قول کے مطابق انھوں نے"کساء" (خاص چادر) میں احرام باندھا تو کسائی مشہور ہوگئے۔ (اتحاف النبلاء)
34۔ قُطرُب:۔
سیبویہ کے شاگرد خاص ہیں۔ عموماً رات کے وقت ان کے پاس جاتے ۔ ایک مرتبہ سیبویہ باہر نکلے تو یہ دروازے پر کھڑے تھے تو کہنے لگے "ما انت الا قطرب لیل" اسی وجہ سے قطرب نام مشہور ہوگیا۔ (اتحاف النبلاء) اور قطرب ایک چھوٹا سا جانور ہے جو سارا دن آرام نہیں کرتا۔
35۔ الکیافجی:۔
محی الدین ابوعبداللہ محمد بن سلیمان الکیافجی الحنفی المتوفی 879ھ۔ کافیہ لابن حاجب کو بہت زیادہ پڑھنے اور پڑھانے کی وجہ سے ان کا لقب پڑا ۔
36۔ المروزی:۔
یہ نسبت ہے مرو الشاہجان کی طرف ۔ یہ خراسان کی چار ریاستوں میں سے ایک ہے (مرو، نیسابور، ھراۃ، بلخ۔ یہ چار ریاستیں تھیں) اور شاہجان کا معنی "روح الملک" ہے۔ اور مرو، ری، اصطخر کی طرف نسبت کرتے ہوئے "زای" کا اضافہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے مروزی، رازی، اصطخرزی ، اور یہ اضافہ صرف آدمیوں کے لیے ہی کیا جاتا ہے ، اشیاء کے لیے نہیں۔ (اتحاف النبلاء)
37۔ الکِیاالھرَّاسی:۔
شافعی مذہب کے مشہور فقیہ ہیں اور الکیا کا معنی ہے کبیر القدر۔ (اتحاف النبلاء)
38۔ المازری:۔
صاحب المُعلِم بفوائد کتاب مسلم ۔ مازر جزیرۂ صقلیہ میں ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ (اتحاف النبلاء ببیان تسمیۃ العلماء)
مختصر سے وقت میں یہ چند نام ہی ضبط ہو سکے ہیں۔ اگر مزید ناموں کے بارہ میں طلب کا اظہار ہوا تو ضرور سپر قلب قرطاس کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
وکتبہ
ابوعبدالرحمن محمد رفیق الطاہر
مدرس جامعہ دارالحدیث المحمدیہ
ملتان
مقالہ نگار: محمد رفيق طاہر