عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
علما ء کی قدر و منزلت
الشیخ ھشام العارف حفظہ اللہ
ترجمہ و نظرثانی
الشیخ ابو اسامہ المدنی حفظہ اللہ
الشیخ ھشام العارف حفظہ اللہ
ترجمہ و نظرثانی
الشیخ ابو اسامہ المدنی حفظہ اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمداللہ و الصلاۃ و السلام علی رسول اللہ اما بعد
اللہ تعالی نے( سورۃ الزمر ۹ )میں فرمایا : کہہ دیں کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے ؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کر تے ہیں ۔
آٓیت کا مفہوم و مطلب یہ ہے کہ برابر نہیں ہیں ،ایک قول یہ ہے کہ علم والوں سے مراد مومنین اور بے علم لوگوں سے مراد کفار ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ جاننے والے علماء اور بے علم سے مراد جہلاء ہیں ۔
سنن ترمذی ، کتاب الزھد ( حدیث نمبر 2441) أبو کیش الأ غازی رضی اللہ عنہ سے روائیت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تین چیزوں پر میں قسم اٹھا تا ہوں اور ایک حدیث تمہیں بیان کرتا ہوں ( ایک بات تمھیں بتا تا ہوں ) اسے یاد کر لو ، آپ نے فرمایا : صدقہ کر نے سے بندے کا مال کم نہیں ہوتا ، جس بندے پر ظلم ہو اور وہ صبر کرے تو اللہ تعالی اسکی عزت میں اضافہ فرما دیتا ہے اور کوئی بندہ سوال ( مانگنے ) کا دروازہ نہیں کھو لتا مگر اللہ تعالی اس پر فقر کا دروازہ کھول دیتا ہے یا اس جیسا کوئی اور کلمہ کہا ،اور ایک بات میں تمہیں بتا تا ہوں اسے یاد کر لو ، آپ نے فرمایا : دنیا تو صرف چار قسم کے لوگوں کے لئے ہے
1۔ وہ آدمی ، جسے اللہ تعالی نے مال اور علم دیا ہوا ہے پس وہ اس میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہتا ہے ، اس میں صلہ رحمی کرتا ہے اور اس ( مال و علم ) میں اللہ تعالی کا حق پہنچا نتا ہے یہ شخص سب سے افضل و بہتر مقام والا ہے ۔
2۔ وہ آدمی ، جسے اللہ تعالی نے علم دیا اور مال نہیں دیا ، یہ سچی نیت والا ہے کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں ( سخی ) کی طرح عمل ( خرچ کرتا ) پس اس کی نیت کے مطابق ، ان دونوں کا اجر برابر ہے ۔
3۔ وہ آدمی ، جسے اللہ تعالی نے مال دیا لیکن اسکو علم نہیں دیا ، پس وہ بغیر سوچے سمجھے اپنے مال کو خرچ کرتا ہے اور اس میں اللہ سے نہیں ڈرتا ، مال میں صلہ رحمی نہیں کرتا اور نہ اللہ تعالی کا اس میں حق جانتاہے پس یہ شخص سب سے بری جگہ پر ہے ۔
4۔ وہ آدمی جسے اللہ تعالی نہ مال دیا اور نہ علم دیا ۔ یہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس مال ہوتا تو میں اس میں فلاں کی طرح خرچ کرتا ، یہ آدمی اپنی نیت کے ساتھ ہے پس ان دونوں کا گناہ برابر ہے ۔
ابن مبارک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے : علم حاصل کرنے کے لئے پہلے نیت و ارادہ ، پھر تو جہ سے سننا پھر سمجھنا ، پھر یاد کرنا ، پھر عمل پھر بیان کرنا ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی کتاب الزھد ( ص 441) میں صحیح اسناد کے ساتھ محمد بن نضر الحارثی سے بیان کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں : کہا جاتا ہے کہ علم کے حصول کے لئے پہلے اس کو سننے کے لئے خاموشی اختیا ر کرنا ، پھر غور سے سننا ، پھر اس کو حفظ ( یاد ) کرنا ، پھر اس پر عمل کرنا پھر اس کو آگے پھیلانا ۔
ابن عبدالعزیز رحمہ اللہ ،سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں فرمایا : نیت و ارادہ اچھا ہو تو طلب علم سے بہتر کام کوئی نہیں ، اور فرماتے ہیں : میں نے اپنے اوپر اپنی نیت سے سخت کسی چیز کا علاج نہیں کیا یہ بار بار مجھ پر تبدیل ہو جاتی ہے یزید بن ھارون فرماتے ہیں کہ حدیث میں نیت کی اہمیت و فضیلت اس کی برتر ی کی وجہ سے ہے ۔
امام الذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ سیر أعلام النبلاء‘‘ ( 444/13) میں احمد بن جعفر بن سالم سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ‘‘ الابار ’’ سے سنا ، وہ کہتے تھے ، کہ میں ‘‘ اہوائر ’’ میں تھا وہاں میں نے ایک آدمی دیکھا اس نے اپنی مونچھیں پست کیں ، کچھ کتابیں خرید کر رکھ لیں اور فتوی دینے کے لئے مقرر ہو گیا اس کے سامنے اصحاب الحدیث ( محدثین ) کا ذکر کیا گیا ، کہنے لگا وہ کچھ بھی نہیں ہیں ( یعنی ان کی کوئی حثیت و اہمیت نہیں ) اور وہ کچھ بھی درست نہیں کرتے ، میں نے کہا ! آپ نماز درست نہیں پڑھتے ( اچھی طرح ادا نہیں کرتے ) اس نے پوچھا ! میں ؟ میں نے کہا! ہاں ، جب آپ نماز شروع کرتے اور رفع الیدین کرتے ہیں تو اس موقع پر آپ کو رسول اللہ ﷺ کی کوئی دعا یاد ہے ؟ وہ خاموش رہے ۔ میں نے پوچھا ! جب آپ رکوع میں جاتے ہیں تو وہاں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی کوئی دعا یاد ہے ؟ وہ خاموش رہے ۔ میں نے کہا ، جب آپ سجدے میں جاتے ہیں وہاں آپ کو رسول اللہ ﷺ سے کچھ یاد ہے ؟ وہ پھر خاموش رہے ، میں نے کہا! میں نے آپ کو کہا نہیں تھا کہ آپ نماز درست (اچھی طرح ) نہیں پڑھتے ؟ لہذا آپ محدثین کا ( برُا ) ذکر نہ کیا کریں ۔
درود سلام ہو محمدﷺ اور آپکی آل پر اور رحمتیں ہوں صحابہ و صحابیات پر!