• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الحیوان میں مسلم ماھرین کی سبقت

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

السلام علیکم۔
دوستو
تاریخ شاہد ہے -کے مشہور عالیمی پہلوان ہرکولیس، گولائتھ اور سینڈورام مورتی کی طاقت کا راز شہد میں تھا شہد کے فوائد پر مسلمان سائنسدانوں نے کئ کتابیں لکھی ہیں استاذ محمد فراز الدقر مصری نے “العمل فی شفاء للناس“ اور “ الاستشفا بالعمل فی امراض جھاز الھضم“ تصنیف کیں حکیم نجم الغنی خان رام پوری نے “خزائن الادویہ“ مین شہد کی مکھی پر ایک جامع مقالہ تحریر کیا ہے امت الطیف طاہرہ نے تحقیق اور تجربات سے ثابت کیا کے شہد، سرکہ اور کھجور کی گٹھلی کی راکھ کا منجن دانتوں کی پیلاہٹ دور کرنے کیلئے بہترین ہے شہد نہ صرف اینٹی بائیوٹک اثر رکھتا ہے بلکہ اینٹی سیپٹک بھی ہے چنانچہ عام نزلہ، زکام، کھانسی، یا گلے کی خرابی کے عارضے میں مبتلا افراد کے لئے ایک نہایت ہی کارگر اور ÷ازمودہ نسخہ شہد اور دارچینی کا آمیزہ ہے پسی ہوئی دارچینی کا ایک چمچہ پانچ شہد کے چمچے اچھی طرح مکس کرلیں اور ہر تین گھنٹے بعد چائے کا آدھا چمچہ لیں۔۔۔ مسلسل استعمال سے ان شاء اللہ ٣ دنوں میں شفاء ہوجائے گا۔۔۔

ڈانمارک کے پروفیسر لُنڈ کی تحقیق کی بنیاد پر جرمنی کی Sanhelions کمپنی نے Nordiske Propolis کے نام سے ایک دوائی تیار کی جس کے انقلابی اثرات ہیں یہ ناک، کان، گلا، نظام تنفس، آلات انہضام اور اعصاب کی ہر قسم کی سوزشوں کا بہترین علاج ہے یہ وائرس کو مادیتی ہے برطانوی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق اس دوا سے سینکڑوں مریض صحت مند ہوگئے ہیں جدید دور میں شہد پر مزید تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کے قرآن نے شہد کی مکھی کے پیٹ میں جن مختلف قسم کی رطوبتوں کا ذکرکیا ہے وہ درحقیقت Enzymes ہیں جو کئی بیماریوں کے علاج میں مفید ہیں جرمن سائنسدانوں نے اس مائع کا نام شاہی جیلی رکھا، وہ اسلئے کے چھتے میں بچوں کو صرف “ملکہ“ ہی جنم دیتی ہے اور اسکے “شہزادے“ جس خوراک سے پلتے ہیں وہ شاہی غذا ٹھہری اس مائع میں اللہ تعالٰی نے افزائش کی بےپناہ طاقت رکھی ہے یہی وجہ ہے کے شہد کی مکھی کا جوانی میں وزن پیدائشی وزن کا ٣٥٠ گناہ زیادہ ہوجاتا ہے جبکہ عام جانداروں میں یہ تناسب اوسطاّّ ٢٠ گنا ہوتا ہے رائل جیلی پر ڈاکٹر خالد غزنوی کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کے یہ عمومی کمزروی، جگر، اور خون کی بیماریوں اور السر میں نہایت مفید ہے جرمنی کی ویلکم کمپنی نے شہد سے ایسے ٹیکے بنائے جو جسمانی کمزوری اور جوڑوں کے درد کا علاج ہے اس کمپنی نے اپنے طبی رسالہ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ شہد کو اس طرح استعمال کرنے کا راستہ انہوں نے قرآن سے حاصل کیا میوہسپتال لاہور کے ڈاکٹر محمد ایوب خان نے یہ طریقہ علاج اپنایا جس سے جوڑوں کی بیماریوں سے معذور افراد اللہ کے فضل سے اپنے پاؤن پر چلنے لگے۔۔۔

اسلام میں حیوانات کے حوالے سے حلال وحرام کی تفریق بھی مسلمان سائنسدانوں کی اس علم کی طرف توجہ کا باعث بنی آج جدید طبی تحقیق سے ثابت ہوا کے جانوروں کے خون میں زہریلے مادے ہوتے ہیں اسلئے اسلام میں جانور ذبح کرنے کا طریقہ بتایاگیا ہے کہ جس سے حیوانی جسم زیریلے خون سے پاک ہوجاتا ہے۔۔۔

اسی طرح خنزیر کے گوشت کے نقصانات سے دنیا واقفیت حاصل کررہی ہے مشہور جرمن میڈیکل سائنسدان ہنز ہائرک ریگوگ نے سور کے گوشت میں ایک زہریلی پروٹین سوٹوکسن کی نشاندہی کی ہے جو ایگزیما اور دمہ کے دوروں جیسی بیماری کا موجب بنتی ہے دراصل سور ہر قسم کی غلاظت مسلسل کھاتا رہتا ہے اس لئے اس جانور کے رطوبت چھوڑنے والا غدودوں کے نظام میں فرسودگی تیزی سے ہوتی ہے لہذا خود یہ جانور متعدد بیماریوں کا شکار رہتا ہے لہٰذا اس کا گوشت کھانے سے سفید چربی (البومنز) انسانی جسم میں داخل ہوکر اسے نقصان پہنچاتے ہیں آج کون نہیں جانتا کے حیوانی چربی خون اور دل کیلئے سب سے زیادہ خطرناک ہے یہ چربی بکرے کے گوشت سے ١٠ فیصد جبکہ سور کے گوشت سے ٣٥ فیصد ہوتی ہے ایک خطرناک وائرس Shape Virus سور کے پھیپھڑوں کی بیماری لگ جاتی ہے لہذا کئی ممالک میں سور کے پھیپھڑوں کو کھانے پر پابندی ہے سور کا گوشت انسانی پٹھوں میں مرکوز ہوکر خطرناک بیماریوں کو جنم دیتا ہے چوڑے خنزیری کیڑے Tap Warms بھی اسی کا گوشت کھانے سے پیدا ہوتے ہیں۔۔۔

٢٠٠٩ء میں سوائن فلو کے نام سے ایک مہلک بیماری نے جنوبی امریکہ کے ایک سور فارم سے جنم لیا اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا آج تک اس سے ہزاروں افراد مثاتر ہوچکے ہیں۔۔۔

باقی علوم کی طرح مسلمانوں نے علم حیوانیات کی طرف توجہ دی اس میدان میں عراق کے شہر بصرہ میں ٧٧٦ء میں پیدا ہونے والے عمر بن عثمان ابن الجاحظ کا نام قابل ذکر ہے۔۔۔

آپ نے اس سلسلے میں “کتاب الحیوان“ تصنیف کی اس ضخیم کتاب کے ٧ حصے ہیں اس کتاب کا کئی زبانوں میں برجمہ ہوچکا ہے انہوں نے ٣٥٠ جانوروں کا مطالعہ کیا ہے اسی طرح دوڑنے، رینگنے، اور تیرنے والے جانوروں کے بارے میں بھی تفصیلی معلومات فراہم کیں اُن کے خیال سے اللہ تعالٰی نے کوئی مخلوق بے فائدہ نہیں تخلیق کیا اسلئے جو جانور ہمیں ضرر رساں نظر آتے ہیں ہوسکتا ہے وہ دوسری مخلوقات کے لئے فائدہ مند ہوں وہ جانوروں کی اس صلاحیت میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں کے وہ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں آپ نے جانوروں کے ایک دوسرے سے رابطے کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔۔۔

اس میدان میں عبدالمالک اصعمی (م٨٣١ء) نے ٥ کتابیں لکھیں یہ کتابیں “الخیل“ (گھوڑا)، “کتاب الابل“ (اونٹ)، “کتاب النشاہ“ (بھیڑ، بکریاں)، “کتاب الوحوش“ (جنگلی جانور اور پرندے) اور “خلق الانسان“ ہیں یہ اس میدان کی سب سے اولین کتابیں ہیں جو یورپ کے دانشوروں میں بہت مقبول ہوئیں آپ کو علم حیاتیات کو مؤجد مانا جاتا ہے وہ پاکیز ذوق کے مالک ادیب شاعر تھے زندگی کا زیادہ حصہ بصرہ اور بغداد میں گزارا۔۔۔

محمد کمال الدین الدمیری نے علم حیوانات پر ١٣٧١ء میں ایک معلوماتی کتاب “ حیات الحیوانات“ تصنیف کی اس میں ان تمام حیوانات کے متعلق ممکنہ حد تک تفصیلی معلومات موجود ہیں جن کا ذکر قرآن اور عربی ادب میں پایا جاتا ہے اس میں حیوانات کو حروف تہجی کے لحاظ سے رکھا گیا ہے اس میں جانوروں کے ناموں، عادات، اور اُن کی حرام یا حلال ہونے پر معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں حتٰی کہ خواب میں جانور نظر آنے کی تعبیر بھی دی گئی ہے اس کتاب کا فارسی، ترکی، اور انگریزی میں ترجمہ ہوا۔۔۔ یاد رہے کے اُس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی ادبی زبان فارسی ہی تھی الدمیری ایک زاہد اور عابد بزرگ تھے۔۔۔ آپ آخری عمر میں اکثر روزے سے رہتے تھے ١٣٦١ء سے ١٣٩٧ء تک کے عرصے میں ٦ حج کئے آپ تہجد گذار تھے اور زیادہ وقت درس و وعظ وفتاوٰی میں گذارتے تھے آپ نے “سنن ابن ماجہ“ کی تفسیر ٥ جلدوں میں لکھی۔۔۔

ابن سینا نے علم الحیوان پر ارسطو کے ١٩ کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا جس کے بعد اس میدان میں مزید تحقیق کے دروازے کھلے۔۔۔ حقیقت میں ابن سینا نے ہی سائنس کی اس شاخ کی بنیاد رکھی ابن سینا نے “الشفاء“ میں حیوانات کی نفسیاتی اور فعالیات پر ایک مکمل رسالہ تحریر کیا ہے جس کا مائیکل اسکاٹ نے ایک مکمل کتاب کی شکل میں لاطینی زبان میں ترجمہ کیا۔۔۔

حمد اللہ ابن ابی بکر نے “نزھہ القلوب“ میں ٢٢٨ جانوروں کے حالات بیان کئے ہیں اور ان کی ایک سو کے قریب بیماریوں کی نشاندہی کی ہے۔۔۔

المالک مجاہد الرسولی نے “کتاب الاقوال الکافیہ و الفصول الشافیہ فی علم البیطرہ“
تصنیف کی جس پر پالتوں جانوروں کی پرورش، ونشوونما سدھار نے اور علاج کے طریقے بیان کئے ہیں۔۔۔

ابوبکر بدر الدین ابن المنذر کی کتاب “ناصری“ جس کا اصل نام "علم الخیل وعلم البیطارہ" ہے قرون وسطٰی کی اس علم کی مکمل ترین کتاب کا درجہ رکھتی ہے یعقوب بن اخی حزام نے ٩٠٢ء میں گھوڑے کے اعضاء پر مکمل تحقیقات کیں اُن کی کتاب “علم الحیوانات“ برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔۔۔

زندگی کی ارتقاء کے بارے میں مشہور سائنسدان ابونصر محمد بن فارابی (م ٨٥٢ء) نے سب سے پہلے قلم اٹھایا انہوں نے جانداروں کی زندگیوں پر غور وخوض کیا اور بتایا کے انسان اشرف المخلوقات اس لئے ہے کے یہ عقل رکھتا ہے اور سعادت کے ذریعے رضائے الٰہی کا حصول اس کی زندگی کا مقصد ہے انسان کے اندر دماغی ارتقا جاری ہے قدرت نے اس میں ایسی صلاحتیں رکھی ہیں کہ یہ غور وفکر کرے گا اور آگے بڑھے گا اس نظریے پر مزید تحقیق احمد بن محمد علی ابن سکویہ نے کی، انہوں نے بتایا کے انسان کے اخلاقی ارتقا اُسے “اعلٰی“ درجے پر لے جاتی ہے جبکہ مادہ پرستی اُسے “اسفل“ بنادے گی یہاں انسان حیوانوں کی لذت جسمانی کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیتا ہے اعلٰی درجے کی طرف ترقی کے کے ہم اعلٰی اخلاقی قدروں کو پالیتے ہیں جو سعادت کادرجہ ہے ۔۔۔ ڈارون کا نظریہ ارتقاء ابن سکویہ کے نظریات کا چربہ ہے ڈراون نے انسانوں کو بندر ثابت کرنے کے علاوہ کچھ اضافہ نہیں کیا۔۔۔

١٠ء میں بزرگ بن شہریار نے “عجائب الھند“ کے نام سے ہندوستان کے جانوروں کے بارے میں پہلی کتاب تصنیف کی عین اسی وقت اخوان الصفا نے اس موضوع پر قلم اٹھایا انہوں نے انسان اور عالم حیوانات کے درمیان تنازعہ پر ایک دلچسپ بحث کا آغاز کیا ہے جس میں انسان حیوانات کو اپنے استعمال میں لانے اور حتٰی کہ ان کی نسلوں کو مثانے کے حق میں دلائل پیش کرتا ہے بحث کے آخر میں حیوانات انسان کے اس حق کو صرف اس صؤرت میں تسلیم کرتے ہیں جبکہ انسان “خلیفہ اللہ“ ہونے کی وجہ سے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور عالم حیوانات کی حفاظت اور بقاء کا خیال رکھے جدید دور کے فطری بحران یہ بحث انسان کے لئے دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہے۔۔۔

١٤ء میں اس میدان میں تفصیلی معلومات قلمبند کرنے کا رواج عام ہوا۔۔۔ جانداروں پر انسائیکلوپیڈیا لکھے جانے لگے اس میدان میں القزوینی کا کام قابل ذکر ہے اسکے بعد کے ادوار میں ہندوستان کے مسلمانوں نے اس میدان میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا تزک جہانگیری میں کئی جانوروں کا تفصیلی ذکر ہے اس میں منصور نامی نقاش نے جانوروں کی انتہائی خوبصورت تصاویر بنائیں جو آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔۔۔

واللہ تعالٰی اعلم۔
انجینیئر الطاف حسین اعوان
 
Top