الطاف الرحمن
رکن
- شمولیت
- جنوری 13، 2013
- پیغامات
- 63
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 64
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علمِ غیب اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا
بجواب
نبی ﷺ عالم غیب تھے
از قلم : الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی
الحمد ﷲ رب العالمین الذی قال ﴿قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الا اﷲ وما یشعرون ایان یبعثون﴾، والصلاۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ أجمعین اما بعد:
یہ مختصر مقالہ در اصل ایک بریلی المسلک شخص کی طرف سے بھیجے گئے ایک رسالہ کا جواب ہے ، جس نے نبی ﷺ کو عالم غیب ثابت کرنے کے لئے اپنی مزعومہ دلائل کے ذریعہ بعض اہل حدیث افراد کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آئیے ہم اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ موصوف کی ساری تحریر ریڈ کلر سے مارک کیا ہوا ہے۔
بسم اﷲ: ان کے یہاں ثانوی درجہ میں
آپ کے وضع کردہ عنوان بالا کی گرفت سے قبل ایک سوال ہے کہ عنوان سے پہلے بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھے جانے کااہتمام نہ کرتے ہوئے بیاض چھوڑ دینے کاسبق آپ کے کس مدرسے میں پڑھایا جاتاہے ؟؟؟۔ اﷲ کرے ایسا نہ ہو ! لیکن اگرآپ کی یہاں یہ جرأت قبیحہ دلائل صحیحہ کہ مخالفت کے لئے رات ودن باطل تاویلات کی تلاش وجستجو یااپنے مخالف کو چھٹ پٹ جو بھی بن پڑے باطل کا سہارا لے کرزیر کرنے کی کوشش میں ہوئی ہے تو بھئی آپ سہوا یا بھول کر ہونے والی غلطوں کے زمرے سے خارج ہیں۔
اﷲ کے نبی ﷺ کے بھیجے گئے خطوط اس بات پر واضح ثبوت ہیں کہ آپ ﷺکے یہاں اس کی بڑی اہمیت تھی یہی وجہ ہے کہ آ پ ﷺ اسے خط کا ایک اہم بلکہ بنیادی جزء سمجھ کر تحریر کرواتے تھے،حتیٰ کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین کے سخت اعتراض کے وقت بھی پورا نہ سہی ’’باسمک تعالیٰ‘‘ ضرورلکھوایا جس پر مشرکین کا بھی اتفاق تھا ۔( دیکھئے عام کتب سیرت ﷺ) اگر آپ کے یہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں توگویاآپ اس مسئلہ میں ان مشرکوں سے بھی گئے گذرے ہیں ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ ۔ واقعہ ایسا ہی ہے ۔ کیونکہ آپ کے یہاں جتنی اہمیت ۷۸۶ وغیرہ کی ہے شاید اس کے با لمقابل بسم اﷲ الرحمن الرحیم ثانوی درجے کی اہمیت کے حامل بھی نہ ہو۔ہداکم اﷲ
اصلی منافق کون؟
اب آپ اپنے وضع کردہ عنوان کاحال سنیں : ’’حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے عطائی علم غیب سے انکا ر منافقین کا شیوہ ہے‘‘
جی ہا ں رب کائنات نے و حی متلواور غیر متلو یا خواب اور معراج کے ذریعہ حضور ﷺ کو ان خبروں کی اطلاع دی جسے آپ نہیں جانتے تھے اسی کی مدد سے جب آپ ﷺ لوگوں میں تبلیغ اسلام کرنے لگے تو ابتداء اکثریت آپ ﷺ کی انکاری ہوگئی، حتی کہ بظاہر کلمہ گو منافقین نے بھی آپ ﷺ سے حسد وبغض میں اس قدر مخالفت کی راہ اپنائی کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے سلسلے میں یہ تک کہہ دیا :﴿ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النارولن تجد لھم نصیرا﴾[النساء:۱۴۵]کہ’ منافق تو یقینا جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں جائیں گے ، ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مدد گارپالے ‘۔ وہ دنیا وی مقاصد کے حصول کے لئے کبھی آپﷺ کا ساتھ دیتے تو کبھی ظالم مشرکوں کے حمایتی بن کر آپ ﷺ پر نازل شدہ اکثر باتوں کو ماننے سے انکارکردیتے تھے ۔﴿واذاقیل لھم اٰمنو ا کما اٰمن الناس قالوا انؤمن کما اٰ من السفھاء ألا انھم ھم السفھاء ولکن لا یعلمون واذالقوالذین اٰمنوا قالوآ اٰمنا واذاخلواالی شیاطینھم قالوآ انا معکم انما نحن مستھزؤن﴾[البقرۃ:۱۳،۱۴] ’اور جب ان سے کہا جاتاہے کہ اور لوگوں (صحابہ کی طرح ) تم بھی ایمان لاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لائے ہیں ،خبر دار ہوجاؤ!یقینا یہی بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں۔ اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم توتمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان سے صرف استہزاء کرتے ہیں‘۔یہاں اﷲ تعالیٰ نے منافقوں کو صحابہ جیسا ایمان لانے کا جب تاکیدی حکم دیا تو وہ سب کو بیوقوف بنا کر خود کوبڑاپارسا سمجھنے لگے۔اور ایمان جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ چھ چیزوں پر مشتمل ہے اس میں دوسرا نمبر رسول پر ایمان لاناہے یعنی اس کی دی گئی جملہ خبر وں کو بلاچوں چرا سچ مانتے ہوئے اس پر سرے تسلیم خم کردیا جائے۔یعنی آپ کی باتوں پر ایمان نہ لانے والوں میں مشرکین ،منافقین اوریہود ونصاریٰ وغیرہ سب شامل ہیں ۔ اسی طرح آپ ﷺکے بارے میں حقیقت سے دور غلو آمیز باتوں کا عقیدہ رکھنا بھی انہیں جیسے لوگوں کا کا م ہے۔ فرمان باری ہے:﴿وقالت الیھود عزیر ابن اﷲ وقلت النصاریٰ المسیح ابن اﷲ ذلک قولھم بافواھھم ﴾[التوبۃ:۳۰] ’یہود کہتے ہیں : عزیر اﷲ کا بیٹاہے اور نصرانی کہتے ہیں : مسیح اﷲ کا بیٹا ہے، یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔‘اور فرمان رسولﷺ ہے: ’’ لاتطرونی کما اطرت النصاریٰٰ ابن مریم فانما انا عبدہ فقولوا عبد اﷲ ورسولہ‘‘[صحیح البخاری:۳۱۸۹]
اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے لئے ذرے ذرے (ماکان ومایکون ) اورکلی علم غیب کو ثابت کر کے اسی کا عقیدہ رکھنا غالی قسم کے منافقین ومشرکین اوریہود ونصاریٰ کا عقیدہ ہے، کیونکہ یہ عقیدہ صریح قراٰنی آیات واحادیث صحیحہ کے خلاف ہے، فرمان باری ہے : ﴿ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر وما مسنی السوء ان انا الانذیر وبشیر لقوم یؤمنون﴾[الاعراف:۱۸۸] ’اور اگر میں غیب کی باتیں جانتاہوتا تواپنے لئے بہت سے منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا ،میں تو محض ڈرانے والااور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان لائیں ‘۔ اس کے علاوہ بے شمار آیات واحادیث ہیں لیکن ان کے ذکر کا یہ محل نہیں کیونکہ یہاں اختصار ملحوظ ہے۔
یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ آپ کے یہاں عطائی کا عقیدہ سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ از ابتدائے آفرینش تاانتہااورکلی(ماکان ومایکون) علم غیب کاعقیدہ ہے ،ذیل کی عبارت آپ کے اس عقیدۂ فاسدہ کی واضح مؤید ہے، نیز آپ اپنے علماء کی لفاظیوں اور طومار سے بھری کتابوں کا مطالعہ کریں گے توجابجا اس کی واضح تائید ملے گی۔اسی لئے دوبارہ یہ عرض کئے دے رہا ہوں کہ اس عقیدے کے حاملین مزید غالی قسم کے منافق ہیں۔کیونکہ یہ باری تعالیٰ کا خاصہ ہے جس کے بارے میں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔فرمان باری ہے: ﴿فقل انما الغیب ﷲ﴾ [یونس :۲۰] ’سو اے نبیﷺ آپ فرمادیجئے کہ غیب کی خبر صرف اﷲ کو ہے‘ ۔ اورفرمایا:﴿قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الا اﷲ وما یشعرون ایان یبعثون﴾[النمل:۶۵] ’کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین والوں میں سے سوائے اﷲ کے کوئی غیب نہیں جانتا ، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کر کھڑے کیے جائیں گے؟‘ ۔ ایک جگہ اورفرمایا :﴿قل اﷲ اعلم بما لبثوا لہ غیب السمٰوات والارض﴾ [الکھف: ۲۶] ’آپ کہہ دیں : اﷲ ہی کو ان کے ٹھہرے رہنے کی مدت کا بخوبی علم ہے، آسمانوں اورزمین کا غیب صرف اسی کو حاصل ہے ‘۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿و ﷲ غیب السمٰوات والارض ﴾ [النحل: ۷۷] ’آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اﷲ ہی کو معلوم ہے ‘۔﴿ان اﷲ عندہ علم الساعۃ وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وماتدری نفس ماذاتکسب غدا وماتدری نفس بای ارض تموت ان اﷲ علیم خبیر﴾[لقمان:۳۴] ’بیشک اﷲ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتاہے ، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا کچھ کرے گا ؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا ۔ یاد رکھو اﷲ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے ‘۔ اور باری تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمہا الا ہو و ویعلم مافی البر والبحر وماتسقط من ورقۃ الا یعلمہا ولا حبۃ فی ظلمات فی الارض ولا رطب ولا یا بس الا فی کتاب مبین﴾[الانعام:۵۹] ’اور ا ﷲ ہی کے پاس ہیں غٰب کی کنجیاں (خزانے) ان کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں اور کو ئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں‘۔
یہ آیت کریمہ بین دلیل ہے کہ نبی ﷺ یا انبیاء علم غیب سے قطعا متصف نہ تھے ، اور آپ کا دعوئے علم غیب نہ تو شرعا درست ہے اور نہ ہی عقلا ، آپ خود فیصلہ کریں کیا کوئی انسان صفت نبی یا اور کوئی اپنی نظر وں سے اوجھل دنیا کے ہر کونے میں گرنے والے پتے، زمین کی تاریکی میں پڑنے والے دانے اورہرگرنے والی خشک وتر چیزکی خبر رکھ سکتاہے ؟؟؟ ہر گز نہیں اور کبھی نہیں ۔ھاتوا برھانکم ان کنتم صا د قین
آنجناب کے مزعومہ دلائل اور ان کا رد
موصوف کی پہلی دلیل : (علم غیب خاصہ نبوت ہے اس کے بغیر نبوت کا تصور ہی مکمل نہیں ، )
آپ نے عنوان بالا میں نبیﷺ کے لئے عطائی علم غیب کا عقیدہ ظاہر کرتے ہوئے اس کے انکاریوں کو منافقیوں کا شیوہ بتلایا تھا جس کے آپ خود مستحق قرار پائے اب یہاں آپ کاعطائی کے عقیدہ سے بے تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے خاصۂ نبوت بتلانا کیا کھلی منافقت نہیں ہے ؟؟؟ اور آپ کی یہ تضاد بیانی چہ معنی دارد؟؟؟
جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر آیے ہیں کہ علم غیب نہ تو کسی نبی کا خاصہ ہے اور نہ ہی زمین وآسمان میں بسنے والی کسی بھی قسم کی مخلوق کا بلکہ یہ تو صر ف باری تعالیٰ خالق ارض وسمٰوات والارض وما فیھا کا خاصہ ہے ، اس کے اس خاصہ کو دوسروں کے لئے ثابت کرنا اﷲ اور اس کے رسول سے کھلی ہوئی بغاوت ہے۔نوح علیہ السلام اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ولا اقول لکم عندی خزا ئن اﷲ ولا اعلم الغیب ولا اقول لکم انی ملک﴾ [ھود : ۳۱] ’میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں، اور میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں‘۔ اسی طرح نبیﷺ کے سلسلے میں ارشادربانی ہے: ﴿قل لا ٓ اقول لکم عندی خزآئن اﷲ ولا اعلم الغیب ولآ اقول لکم انی ملک ان اتبع الا ما یوحیٰٓ الی﴾[الانعام:۵۰]
نبی کا معنی
دوسری دلیل: ’’کیونکہ نبی کا معنی ہی غیب کی خبریں دینے والاہے۔‘‘
کسی بھی لغت کی کتاب ہمیں نہیں ملاکہ نبی کے معنی غیب کی خبریں دینے والا کے ہوتے ہوں ، بلکہ جو معنی لغت کی کتابوں میں ملتاہے اس میں ایک معنی ’’المخبر عن اﷲ ، المنبیء عن اﷲ‘‘ کا بھی ہے ، یعنی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ باتوں کو لوگوں تک پہونچانے والا ۔دیکھئے معتبر کتب لغت: [معجم مقاییس اللغۃ لابن فارس (المتوفی:۳۹۵ھ):۳؍۳۸۵، الصحاح للجوھری محقق (متوفی : ۳۹۸ھ ) :۶؍۲۵۰۰،لسان العرب لابن منظور(متوفیٰ:۷۱۱ھ):۱؍۱۶۲، القاموس المحیط للفیروزآبادی (متوفیٰ :۸۱۷ھ):۴؍۳۹۳، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر لابن الاثیر(متوفی: ۶۰۶ھ ): ۵؍۳] اگر آپ کے لئے یہ سب حوالے نا کافی ہیں ( کیونکہ باطل پرست کے لئے لاکھوں حوا لے بھی ناکافی ہوتے جب کہ حق پرست کے لئے ایک ہی صحیح حوالہ کافی ہوتاہے) تو لیجئے اپنی مشہور لغت مصباح اللغات سے اس کاحوا لہ جو کہ دراصل یہودیوں کی لکھی گئی لغت منجد کا ترجمہ ہے اور منجد بھی خود مختار لغت نہیں بلکہ مذکورہ کتب لغت سے ایک لمحہ کے لئے بھی مستغتی نہیں ۔ النبیء والنبی : اﷲ تعالیٰ کے الہام سے غیب کی باتیں بتلانے والا ، آئندہ کی پیش گوئی کرنے والا ، خداکی طرف سے پیغامبر۔[مصباح الغات :۸۴۷ ]اورذرا فیروز اللغات بھی دیکھتے چلیں کیونکہ یہ اردو داں کے یہاں ایک معتبر لغت سمجھی جاتی ہے : نبی کے معنیٰ خبر رساں ، خبر پہونچانے والا پیغمبر یعنی بھیجا گیا۔[فیروزالغات:نبی]
ایک کھلا فریب
تیسری دلیل: ﴿وما ھو علی الغیب بضنین﴾[التکویر:۲۴] اور وہ (نبی ﷺ )غیب (بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہے۔
اس آیت میں جو غیب کا لفظ آیا ہے اس سے مراد قرآن ہے جیسا کہ قتادہ وغیرہ نے یہی معنی مراد لیا ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے ذاتی علم غیب سے بغیر بخیلی کیے لوگوں کو آگاہ کرنے والے تھے (جو آپ سمجھ رہے ہیں)بلکہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر وحی کی شکل میں نازل ہوتا تھا آپ فریضہ ٔ رسالت کی ادائیگی میں قطعا بخیل نہیں تھے ۔(یعنی اﷲ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو بعض امور غیب سے مطلع کردیتاہے جویا تو اس کے فرائض رسالت سے ہوتاہے یا وہ اس کی رسالت کی صداقت کی دلیل ہوتے ہیں ، اورظاہر بات ہے کہ اﷲ کے مطلع کرنے سے پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوسکتے ۔آپ کے اس اصول کو ماننے کی صورت میں ہر کوئی عالم اغیب کہے جانے کا حقدار ہے ، اخبارات ٹیلی ویژن وغیرہ سے موصول ہونے والی خبروں پر اگرکوئی عالم الغیب ہونے کا عویٰ کرے تو اسے بے بنیاد پا گل نہیں کہہ سکتے۔ اس صورت میں ہر کوئی عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کرتا پھرے گا اور کرتے بھی جنہیں آپ جیسے نام نہاد بلاچوچراں تسلم بھی کرتے ہیں ۔یہ ہم اس لئے کہہ رہے رہیں کیونکہ اگر پیغمبر عالم الغیب ہوں تو پھر ان پر اﷲ کی طرف سے غیب کے اظہار کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا ، اﷲ تعالیٰ اپنے غیب کا اظہار اسی وقت اور اسی رسول پر کرتاہے جس کو پہلے اس غیب کا علم نہیں ہوتا ، اس لئے عالم الغیب صر ف اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات ہے )۔ اسی طرح ایک معنی مفسرین نے لیا ہے کہ آپ غیب سے متھم نہیں تھے (یعنی آپ کے پاس وہ علم غیب نہیں تھاکہ جس کی مددسے لوگوں کودعوت اسلام دیتے تھے بلکہ ﴿ان ھو الا وحی یوحی ﴾[النجم:۴] وہ تورب کی طرف سے وحی ہوا کرتی تھی ۔) خیرالقرون میں یہی دونوں معنی مروج تھا[دیکھئے : تفسیر طبری ، تفسیر قرطبی ، تفسیر ابن کثیر، اورفتح القدیرللشوکانی وغیرہ مذکورہ آیت کے تحت ]اگر کوئی شخص اس بات کاانکار کرے تو گویا وہ منکرین حدیث سے بھی چار قدم آگے ہے ، کیونکہ وہ تو قرآنی وحی کے علاوہ تمام اقسام وحی کا انکار کرتے ہیں جبکہ آپ جیسے عقیدہ رکھنے والے قرآنی وحی کے بھی انکاری (منکر) ہوجائیں گے اور اتنا بڑاجرم کوئی مسلمان ہرگز نہیں کرسکتا بلکہ یہ کام کوئی غالی قسم کا یہودی ،عیسائی ، مشرک اورمنافق ہی کر سکتاہے۔
بیجاتاویل
﴿وماکان اﷲ لیطلعکم علی الغیب ولکن اﷲ یجتبی من رسلہ من یشاء ﴾[ال عمران:۱۷۹] اور نہ اﷲ ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کردے بلکہ اﷲ اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کرلیتاہے ۔
چوتھی دلیل: اور ان کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس)تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے(غیب کے علم کے لئے) چن لیتاہے۔
اس آیت سے مراد وہ غیبی امور ہیں جن کا تعلق منصب وفرائض رسالت کی ادائیگی سے ہوتا ہے نہ کہ ’’ماکان ومایکون‘‘ جو کچھ ہو چکا اور آئندہ قیامت تک جوہونے والاہے کا علم ۔ جیسا کہ آپ جیسے باطل پرست اس طرح کی علم غیب انبیاء کے لئے اور کچھ لوگ اپنے ائمہ معصومین کے لئے باور کراتے ہیں ۔
صحیح بخاری کی روایت اور ابن حجرکا استدلال اور آپ کی تحریف
پانچوی دلیل: سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں : ایک روز آپ ﷺ ہمارے درمیان قیام فرماہوئے اور ابتدائے خلق سے لے کر روزقیامت اہل جنت کے جنت میں داخل ہوجانے اوراہل جہنم کے جہنم میں داخل ہوجانے تک سب کچھ بتا دیا پس اسی بیان کو جس جس نے جس قدر یا درکھااسے یاد رہااور جس نے جو کچھ بھلا دیاوہ بھول گیا[صحیح بخاری:۱؍۴۵۳رقم :۳۰۲۰ کتاب بدء الخلق ، باب ماجاء فی قول اﷲ تعالی وھوالذی یبدأالخلق ثم یعیدہ وھو اھون علیہ [مشکوۃ المصابیح :۵۰۶]
اس حدیث سے قطعایہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپﷺذاتی علم غیب کے مالک تھے جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے بلکہ آپ ﷺنے جوکچھ لوگوں کے سامنے ابتدائے خلق سے جنت وجہنم میں داخل ہونے تک کی جو بات امت کو بتلائی وہ فریضہ ٔ رسالت تھا جوآپ ﷺنے اداکردیا۔ اور یہ امور غیب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی شکل میں دی گئی تھی ۔ ﴿قل ماکنت بدعا من الرسل وما ادری مایفعل بی ولا بکم ان اتبع الا ما یوحیٰٓ الی ومآانا الا نذیر مبین﴾ [الا حقاف:۹] ’آپ کہہ دیجئے کہ میں کوئی بالکل انوکھا پیغمبر تونہیں ، نہ مجھے معلوم ہے کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا ۔ میں توصرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور میں صرف علی الاعلان آگاہ کردینے والا ہوں‘۔
نوٹ
چھٹی دلیل : نوٹ: امام ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں ’’ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک ہی مجلس میں تمام مخلوقات کے از ابتداء تا انتہاء دوبارہ اٹھائے جانے تک کے تمام احوال کی خبر عطافرمادی پس حضو رﷺ کایہ خبر دینا میداء(پیدائش ) اور معاش(دنوی زندگی)اور معاد (اخروی زندگی )کو شامل تھا ۔فتح الباری:۶؍۲۹۱
یہاں آپ نے علامہ ابن حجر رحمہ اﷲ کی عبارت حذف کرکے ان کے ساتھ بڑی ناانصافی اوردھاندھلی سے کام لی ہے ،اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ﴿یا ایھا الذین آمنوالا تقربوا الصلاۃ ﴾[النساء:۴۳] ’اے ایمان والونماز کے قریب نہ جاؤ ‘۔ کو ترک صلاۃ کے جواز کے لئے بطور دلیل پیش کیا جائے اور ﴿وانتم سکاری حتیٰ تعلمواماتقولون ولاجنباالاعبری سبیلٰ حتی تغتسلوا﴾ [النساء:۴۳] ’جب تم نشے میں مست ہوجب تک کہ تم اپنی بات کو سمجھنے نہ لگواور جنابت کی حالت میں جب تک غسل نہ کرلو‘۔ کو فن مغالطہ وفریب وغیرہ میں کامل مہارت کے سبب حذف کردیا جائے تاکہ سامنے والا ہمارے دام فریب کا شکارباآسانی ہو سکے۔ شاید بلکہ یقینا انہیں بنیادوں پر آپ کی حنفیت +․․․․ قائم ہے ۔ اور بیچاری عوام کو اپنے دام فریب میں پھنساکر انہیں تقلید جیسی اندھی ،تاریک ،محدوداور پراذیت سلا خ کے پیچھے مقید کردیا ہے ، اور عوام بھی اسی کو کوئیں کے میڈھک کی طرح وسیع وعریض آباد دین سمجھتی ہے، کیونکہ عوام ہوتی ہی ہے کالا نعا م ۔ ھداھم اﷲ
آپ نے عوام کو لگی سے گھاس کھلاتے ہوئے ابن حجر کی پوری عبارت نقل کرنے کے بعد حاصل عبارت سے چشم پوشی اختیار کرلی جوسراسر خیانت اور مغالطہ بازی ہے۔تولیجئے ابن حجرکی آپ کے ہاتھوں نذر ہوجانے والی محذوفہ عبارت ’’پس ‘‘سے: ’’فشمل ذلک الاخبار عن المبدا والمعاش والمعاد فی تیسیر ایراد ذلک کلہ فی مجلس واحد من خوارق العادۃ امرعظیم، ویقرب ذلک مع کون معجزاتہ فی کثرتھا لانہ ﷺ اعطی جوامع الکلم‘‘[فتح الباری:۹؍۴۷۳] ۔پس آپ ﷺ کایہ خبر دینا مبدا ، معاش اور معاد کو شامل تھا اسے ایک ہی مجلس میں باآسانی بیان کرناخوارق عادت تھا بلکہ یہ نبی ﷺ کا تقریبا معجزہ تھا کیونکہ آپ ﷺ جوامع الکلم بھی تھے ۔
اب جاکرکے ان کی عبارت کا حق اداہوا جس میں کہیں اس کا ذکر نہیں کہ آپ رحمہ اﷲ نے اس حدیث سے آپ ﷺکے عالم الغیب ہونے پر استدلال کیاہو یہ تو آپ کی مغالطہ تلبیس وتحریف اور دھاندھلی سے بنائی ہوئی زہریلی کھچڑی ہے جسے مفت میں قوت ہاضمہ کے لئے مفید کا نام دے کر تقسیم کررہے ہیں۔
اس خوش گمانی میں نہ رہنا کہ ابن حجر بھی آپ کی تائید میں ہیں بلکہ وہ اس اعتقادکے صریح مخالف ہیں ملاحظہ فرمائیں آپ رحمہ اﷲ کی وہ عبارت جو بخاری کی اس حدیث کے شرح میں لکھتے ہیں جس میں نبیﷺ نے ان بچیوں کو منع کیاہے جو یہ کہہ رہی تھیں کہ’’ وفینا نبی یعلم مافی غد ‘‘ ہمارے درمیان ایک ایسے نبی ہیں جو کل کی بابت علم رکھتے ہیں :وسیاق القصۃ یشعر بانھما لواستمرتا علی المراثی لم ینھھما ،وغالب حسن المراثی جد لالھو ، وانما انکر علیھا ما ذکر من الاطراء حیث اطلق علم الغیب لہ وھو صفۃ تخص باﷲ تعالیٰ قال تعالیٰ :﴿قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الا اﷲ ﴾ وقولہ لنیتہ :﴿قل الا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اﷲ ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر﴾وسائر ما کان النبی ﷺ یخبر بہ من الغیوب باعلام اﷲ تعالیٰ ایاہ لانہ لا یستقل بعلم ذالک کما قال تعالیٰ :﴿عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الامن ارتضی من رسول ﴾ [فتح الباری لابن حجر عسقلانی :تحت رقم : ۴۷۵۰۔] یعنی حدیث میں مذکو رقصے کا سیا ق اس با ت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر وہ دونو ں شہداء بدرکے مرثیے پر اکتفاء کرتیں توآپ ا نہیں منع نہیں کرتے ، اور بہترین مرثیہ خوانی کوئی لہو لعب نہیں بلکہ وہ تو ایک عمدہ قسم کی کوشش ہے ، اور نبیﷺ نے جو منع کیا تھا اس کی وجہ یہی تھی (جس کا آپ فضیحت کے باوجود عقیدہ بنائے ہوئے ہیں)کہ وہ آپ ﷺ کی مدح سرائی میں تجاوز حد کا شکار ہوگئی تھی ، بایں طور کہ آپ ﷺ کے حق میں علم غیب کا دعویٰ کردیا گیا تھا حالا نکہ وہ اﷲ رب العالمین کا خاصہ ہے ، اس سلسلے میں اﷲ تعالیٰ کافرمان:’( اے نبیﷺ) کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین والوں میں سے سوائے اﷲ کے کوئی غیب نہیں جانتا ‘۔ اور اﷲ تعالیٰ کا وہ فرمان بھی جو ذات نبیﷺ کے متعلق ہے (کہ آپﷺ خود اپنے سلسلے میں نہ نفع نقصان کے مالک تھے اور نہ ہی علم غیب کے):’ آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اﷲ تعالیٰ چاہے ، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو اپنے لئے بہت سے منافع حاصل کرلیتا ‘۔واضح رہے کہ نبی ﷺ جس چیز کی خبر غیبی امور کے متعلق دیتے ہیں (وہ اپنے تئیں نہیں دیتے ہیں )بلکہ وہ تو اﷲ تعالیٰ کے بتلانے پر ہی آ پ دوسروں کو خبردیتے، کیونکہ آپﷺ کے پاس کوئی ذاتی علم غیب تو تھا نہیں (کہ جس کی مدد سے آپ لوگوں کو آگاہ کرتے) ، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان :وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ، سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے ‘۔
آپ رحمہ اﷲ کی مذکورہ عبارت آپ کے غیر منصفانہ باطل عقیدے اور ان کی عبارت میں تحریف کاری کے ذریعہ بنائے گئے خواب خیال کے وہ محل جو دور سے دیکھنے والوں کی نظر کواپنی عمدگی کے جادو سے خیرہ کردے جب کہ قریب سے دیکھنے والوں کوفریب اور دھوکہ سواکچھ نہ نظر آئے کو پادر ہوا کرنے کے لئے کافی ہے۔
کذب بیانی وکذب پرستی کی انتہا
یہاں آپ کے اس خیانت اور دھاندھلی کا ذکر کیا جارہا ہے جس کے سامنے مذکورہ تمام مغالطات واوہامات پھیکے پڑگئے ہیں ۔
ساتویں دلیل: ٭ امام بدرالدین عینی رحمہ اﷲ (عمدۃ القاری )اورامام قسطلانی (مرقاۃ)جب منافقوں نے نبی ﷺ کے علم غیب کا انکار کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا :
جناب غالی ․․․!! یہ ستارہ کس چیز کا سگنل دے رہا ہے ؟؟؟کہیں ایسا تو نہیں کہ نجوم پرستی آپ کے یہاں بھی در آئی ہے ۔ اﷲ کرے ایسا نہ ہو!! بحر کیف !آپ نے امام بدرالدین عینی رحمہ اﷲ اور امام قسطلانی رحمہ اﷲ کا نام ذکر کے اور عمدۃ القاری نیز مرقاۃ کا حوالہ دے کر شاید یہ ثابت کرنی چاہی ہے کہ حدیث سے پہلے جو اضافہ میں نے کیا ہے وہ میرا نہیں بلکہ وہ انہیں سے منقول ہے اور مذکورہ حوالوں میں موجود ہے جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔یہ عبارت’’جب منافقوں نے نبیﷺ کے علم غیب کا انکار کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا :‘‘ ( کیا فرمایا ؟ ذیل کی وہی حدیث جو سدی سے مروی ہے کہ’’ اخرج یا فلان فانک منافق ‘‘اے فلاں تو نکل جا بیشک تو منافق ہے)یا تو آپ کی جعل سازی سے ثبت قرطاس ہوئی ہے یا آپ ہی کے ہم مزاج وہم عقیدہ کسی اور نے عوام کو مغالطہ یادوسرے لفظوں میں کہہ لیجئے اپنے ہی جیسا گمراہ کرنے کے لئے اتنا پڑاڈھونگ رچا ہے جس کی وجہ سے وہ نبیﷺ کے اس وعید شدید کا بلا شبہ مستحق ہے : ’’من کذب علی متعمدا فا لیتبؤا مقعدہ من النار‘‘[صحیح البخاری:۱۰۴،صحیح مسلم:۴]
یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ مجھے آپ کے مذکورہ محولہ کتابوں میں یہ اضافہ کہیں نہ مل سکا ،اور نہ ہی احادیث کے ذخیروں میں، اس لئے یاتو یہ آپ کی جعل سازی بلکہ نبی ﷺ پر بہتان تراشی ہے یا آپ کے زعمائے بے اعتماد کی مجرمانہ اور نا قابل معافی حرکت ۔کیا اس طرح کی حرکت کرنے والے گستاخان رسول میں سے نہیں ہیں ؟؟؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے توخیر کوئی بات نہیں لیکن اگر نفی میں ہے تو پھرگستاخ رسول کسے کہیں گے اعلی حضرت ؟؟؟
اچھا اب اپنی مستدل حدیث کا حال سنیں
آٹھویں دلیل: حدیث:سدی نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت کیاہے کہ نبی اکرمﷺ جمعہ کے روز خطاب کے لئے کھڑے ہوئے پس فرمایا : اے فلاں! تونکل جابیشک تو منافق ہے، اے فلاں!( تو بھی) نکل جاتو(بھی )منافق ہے پس آپ ﷺ نے (منافق )لوگوں کو مسجد سے رسوا کرکے نکال باہر کیا۔[تفسیر الکبیر :۱۶؍۱۷۳]تفسیر سورہ توبہ [۹؍۱۵۱] امام رازی رحمہ اﷲ
اگر آپ کو نہیں معلوم ہے تو لیجئے معتبر،اصل کتابوں سے اس کی سند جویوں ہے (حدثنا الحسین بن عمرو العنقزی قال: حدثنا ابی قال: حدثنا اسباط بن نصر عن السد ی عن ابی مالک عن ابن عباس قال: ) جسے آپ نے یوں لکھا ہے کہ : ’’سدی نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ــــ‘‘یہ سراسر آپ کی کم علمی ،کم مایگی ،بے ذوقی ، اسنادی تحقیق سے کورے پن بلکہ اس کے الف سے بھی واقف نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے ، کیونکہ عن سدی عن انس بن مالک ہے ہی نہیں جسے جھٹ پٹ لکھ مارا ہے آپ نے ۔ اگر آپ کو نہیں معلوم تھا تو ﴿فا سئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون﴾[الانبیاء :۷] ’پس تم اہل علم(اہل کتاب) سے پوچھ لواگرخود تمہیں علم نہ ہو‘۔ کے حکم کے تحت کسی معتبر صاحب علم سے پوچھ لئے ہوتے تو کیا بہتر ہوتا اور دن دھاڑے نقب زنی وغیرہ جیسی مجرمانہ حرکت کے بدلے جگ ہنسائی کا رسواکن یہ موقع دیکھنے کو نہ ملتا ۔شاید آپ ا س خوش گمانی میں رہے ہوں گے کہ ہماری تلبیس کاری، عیاری ،مکر بازی اور کذب بیانی جیسے بے شمار ہتھکنڈے اتنے عمدہ اور منا سب جگہ پر نصب کئے گئے ہیں کہ عوام اس سے مبہوت ہوکر نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے دام فریب کا شکار ہوجائے گی ۔ شاید آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کی یہ خوش گمانی ایسے ہی ہے جیسے کوئی ناقابل تعبیر خواب ۔رہا امام رازی (ابوعبداﷲ محمد بن عمربن الحسین بن اتیمی الرازی الملقب بفخرالدین [ولادت:۵۴۴ھ ۱۱۵۰ء وفات:۶۰۶ھــ۱۲۱۰ء])کا التفسیر الکبیر المعر وف بمفاتیح الغیب ‘میں روی السدی عن انس بن مالک لکھنا تو یہ ان کا تسامح ہی جاسکتا ہے کیونکہ یہ ایک بے سند کتاب ہے جس میں ہر طرح کے تفسیری اقوال جمع کر دئے گئے ہیں ۔سند کے ساتھ جہاں یہ حدیث آئی ہے وہ عن سدی عن ابی مالک عن ابن عباس مرفوعا ہے غالب گمان ہے کہ آپ نے ابی مالک کو انس بن مالک سمجھ کر لکھ دیا ہے ۔لیکن ان سے تسامح کا صدور آپ کے لئے قابل عذر نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ آپ حدیث نبوی ﷺ نقل فرما رہے تھے ، تقاضہ یہ تھا اصل مراجع کی طرف رجوع کرتے لیکن افسوس ثم افسوس آپ نے اصل مراجع کی طر ف رجوع کئے بغیراپنے مو قف کی تائید میں جو بھی ملااپنا استد لالی قوت مضبوط کرنے لے لئے زیراستعمال لے آیے نہ اسنادی تحقیق کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی صحیح وضعیف کی تمیز ،یہ ہے آپ کا مذہب اور آپ کا مسلک ۔ اس رویے سے واضح طور پریہ معلوم ہو رہا ہے کہ آپ کے یہاں اسناد کی کوئی حیثیت نہیں جبکہ عبدا ﷲ بن مبارک جیسے جلیل القدر محدث کہہ رہے ہیں کہ ’’ الا سناد من الدین لولا الاسناد لقال من شاء ما شاء‘‘۔[مقدمہ صحیح مسلم :۱؍۳۷ وشرح السنۃ للبغوی:۱؍۲۴۴]کہ’ اسناد دین کا ایک حصہ ہے اگر اسناد نہ ہوتی تو جو چاہتا کچھ بھی بکتا‘۔اگر ہوتی ہی تو اس قدر طومار ،اوہامات وخرافات وبدعات کی پلیدگی سے بنا ہوا معجون مذہب حنفیت+․․․․ قطعا استعمال نہ کرتی ۔
اگر آپ کو معلوم نہیں ہے تولیجئے اس کی سند جو کچھ اس طرح ہے: (حدثنا الحسین بن عمرو العنقزی قال: حدثنا ابی قال: حدثنا اسباط بن نصر عن السد ی عن ابی مالک عن ابن عباس قال: مذکورہ حدیث کی یہی سندہے نہ کہ عن السدی عن انس بن مالک جو آپ نے بحوالہ تفسرالکبیر لکھ ماراہے ۔ دیکھئے [تفسیر طبری محقق: رقم: ۱۷۱۲۲ ، المعجم الاوسط للطبرانی: رقم:۸۰۴ ، بحرالعلوم للسمرقندی: ۲؍۲۶۱،تفسیر ابن ابی حاتم الرازی رقم:۱۰۷۴۵ ، تفسیرالبغوی محقق: ۴؍۸۹ ، تفسیر ابن کثیر :۴؍۲۰۵ ، فتح الباری : ۴؍۴۴۳ ،عمدۃ القاری : ۱۳؍۹۸] وغیرہ ۔
ابھی تک آپ سے سرزد ہو جانے والی اسنادی غلطی کاازالہ کیا جارہا تھا ، اب اگرآپ حاضر دماغ اور پر سکون ہیں تو ذرامذکورہ حدیث کی اسنا دی حیثیت بھی دیکھتے چلیں ! تاکہ یہ واضح ہو جائے آپ لوگوں کی دلیلیں کس درجہ کے حامل ہوتی ہیں؟ کچھ دم خم ہوتا ہے یا قوت وحس سے کورے بے جان حیوان ناطق کی صرف لا شیں ہوتی ہیں جنہیں آپ جیسے مردم شمار زندوں میں شمار کرکے اپنی کثرت پر فخریہ ناچ ناچتے ہیں ۔
معذرت کے ساتھ اسنادی حیثیت پیش کیا جارہا ہے ملاحظہ فرمائیں : اس حدیث کی سند نا قابل اعتبار واستدلال ہے کیونکہ الحسین بن عمرو بن محمد العنقزی ایک ایسا راوی ہے جس کی محدثین نے تصدیق کرنے سے اعراض کیا ہے اتنا ہی نہیں بلکہ لین ، متکلم فیہ ،کتبت عنہ و لا أحدث عنہ، جیسے کلمات جرح استعمال کئے ہیں ، ابو کرب نے تویہاں تک کہاہے کہ: وہ ابرہیم بن یوسف بن ابو اسحاق سے حدیثیں روایت کرتا ہے جبکہ (ابرہیم بن یوسف سے اس کی ملاقات ہی نہیں ہے کیونکہ) اس کی پیدائش سے پہلے ہی وہ (ابرہیم)وفات پا چکے تھے ۔(یعنی فن جعل سازی کے ذریعہ اپنی گھڑی ہوئی احادیث سے عوام کو مغالطہ میں رکھنے کے لئے ان سے روایت کرنے کی ان کی ایک عام عادت تھی ) ۔ دیکھئے [ الجرح والتعدیل لابن ا بی حاتم:۳؍۶۱۔۶۲، لسان المیزان لابن حجر :۱؍۳۳۲ ، میزان الاعتدال للذھبی:۱؍۵۴۵ اور الانساب للسمعانی محقق:۴؍۲۵۴ ]
اسی لئے امام ہیثمی رحمہ اﷲ نے اسے ضعیف قرار دیکر مذکورہ حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیاہے [مجمع الزوئد ومنبع الفوائد:۳؍۱۶۶] اور عبدا لرزاق المھدی نے ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزی (م ۵۹۷ھ)کی مشہور کتاب زاد المسیر فی علم التفسیر کی تحقیق میں اس کی سند کوالحسن بن عمرو راوی کی وجہ سے ’’واہ‘‘ کہاہے۔دیکھئے ـ: [زادالمسیر فی علم التفسیر محقق: ۳؍۴۸۴]۔
لطف تو یہ ہے کہ اس حدیث کو مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے جس میں آپ جیسے عقیدہ رکھنے والوں کی صراحت کے ساتھ نفی کی گئی ہے ، فرمان باری ہے : ﴿وممن حولکم من الاعراب منٰفقون ومن أھل المدینۃ مردوا علی النفاق لا تعلمھم نحن نعلم سنعذبھم مرتین ثم یردون الی عذاب عظیم﴾[التوبہ:۱۰۱] ’اور کچھ تمہارے گرد وپیش والے دیہاتیوں میں اور کچھ مدینے والوں مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ، آپ ان کو نہیں جانتے ہیں ہم ان کو دوہری سزائیں دیں گے، پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے‘۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے نبی ﷺ کے علم غیب کی نفی کی ہے اور اس بات کی طرف واضح اشارہ کیا ہے کہ آپ کواس وقت تک کسی چیز کے بارے میں کوئی علم نہیں ہو تا جب تک اﷲ تعالیٰ انہیں اس کے متعلق کوئی خبرنہ دے دے ،دوسرے لفظوں یہ کہہ لیجئے کہ آپ ﷺمن جملہ مسئلہ دینیہ میں لوگوں کی رہنمائی کے لئے وحی الہی کے ہمیشہ محتاج تھے۔ فرمان باری ہے:﴿قل مایکون لی أن أبدلہ من تلقآء ی نفسی ان اتبع الا ما یوحیٰ الی انیٓ اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم﴾ [یو نس:۱۵] ’آپ کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کردوں بس میں تواسی کا اتباع کر و ں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہونچاہے، اگر میں رب کی نا فرمانی کروں تومیں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں ‘۔
نوٹ
’’نوٹ ‘‘ایک ایسا لفظ ہے جسے سن کر عوامی لوگوں کا ذہن روپئے پیسے ہی کی طرف جاتاہے کیونکہ انسانی زندگی اسی سے عبارت ہے اور اس کی ایسے ہی اہمیت ہے جیسے انسان کو کھڑے ہونے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے۔ معلوم ہو ا کہ لفظ نوٹ کا استعمال کسی ایسے ہی مہم الامور کے لئے ہوتاہے جس کے بغیر کام ہی نہ چلے ۔ اسی طرح کتابو ں یا رسالوں میں ا س کا استعمال بھی کسی اہم بات ہی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ شایداسی لئے آپ نے ایک ہی صفحہ میں دو جگہوں پراس کا استعمال کیا ہے ، ایک توابن حجر رحمہ اﷲ کی عبارت میں تحریف وتلبیس کرتے ہوئے ، دوسرا عوام کواپنا عقیدہ منوانے کے لئے بلا حوالہ ڈھیرساری آیات واحادیث کا باطل دعوہ کرتے ہوئے، جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ عوام کی اکثریت آپ کی منصوبہ بند مغالطہ وتلبس کاری وغیرہ جیسے شکاری جال کے شکارہوتے رہیں اور آپ انہیں چوستے رہیں ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جو زک پہونچانے کے لئے کہی جارہی ہو بلکہ یہ وہ اٹل حقیقت ہے جس کا مشاہدہ آپ خود بارہا کرتے ہوں گے ۔
نوویں دلیل: نوٹ: قرآن شریف اور حدیث شریف کے کئی مقامات سے حضور ﷺ کے عطائی علم غیب ثابت ہے، قرآن (مجید)کوشان نزول و تفسیر کے ساتھ پڑھوجو صدیوں پہلے لکھی گئی،اسی طرح حدیث بھی۔
ہم کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے لئے ذاتی علم غیب کا ثبوت قرآن میں ہے اور نہ کہیں حدیث میں اسی طرح نہ ہی کسی معتبر شان نزول سے اس کا ثبوت ملتا ہے اسی لئے ہمارا اعتقاد ہے کہ آپ ﷺ ’’ما کان وما یکون ‘‘کے قطعا عالم نہیں تھے جسے آپ دوسرے لفظوں میں عطائی علم غیب سے موسوم کرتے ہیں بلکہ جو بھی احوال ماضیہ کی تفصیلی اور اجمالی خبرآپ ﷺنے امت کو بتلائی یا پیش گوئی فرمائی وہ سب وحی کے ذریعہ ہی بیان فرمائی کیونکہ آپ ْﷺ نہ تو رب کے کسی خزانے کے مالک تھے اور نہ ہی کوئی فرشتہ (یا فرشتہ صفت انسان)۔فرمان باری ہے ﴿قل لا اقول لکم عندی خزائن اﷲ ولا اعلم الغیب ولااقول لکم انی ملک ان اتبع الا ما یوحیٰ الی قل ھل یستوی الاعمیٰ والبصیرافلاتتفکرون﴾ [الانعام :۵۰] ’آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتاہوں کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ، میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتاہوں آپ کہہ دیجئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتا ہے ، سو تم غور کیوں نہیں کرتے ؟‘۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ اور آپ کی پارٹی قوت بصارت وسماعت سے محروم ہی نہیں بلکہ بالکل محروم ہے جبھی تو اس طرح کی بہکی بہکی بد عقیدگی کی باتیں کرنا اس کی عام سی عادت بن گئی ہے ۔ فرمان ربانی ہے :﴿قل انما انذرکم با لوحی لایسمع الصم الدعاء اذاما ینذرون ﴾ [ الا نبیاء:۴۵] ’کہہ دیجئے : میں توتمہیں اﷲ کی وحی کے ساتھ آگاہ کررہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہیں سنتے جبکہ انہیں آگاہ کیا جائے‘۔
اس مسئلہ میں مذکورہ قرآنی آیات دلیل راہ فراہم کرنے کے لئے کافی وشافی معلوم ہورہے ہیں ، لیکن اگر آپ اب بھی مطمئن نہیں ہیں اور احادیث صحیحہ کے پڑھنے یا سننے کا اگر شوق اور دلچسپی بھی ہے تو اس مسئلے میں ذیل میں ذکر کی جارہی چند احادیث صحیحہ ضرور پڑھیں کیونکہ اختلافات کے حل کے لئے قرآن کریم اور حدیث رسول ہی طرف کی رجوع و اجب ہے نہ کہ لوگوں کے ڈھکوسلہ بازی ،تحریف کاری ،اور باطل تاویلات وغیرہ کی طرف۔یاد رہے کہ اختلافی صورت حال میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کو ترجیحی نظرسے دیکھنے والے وہی ہو سکتے ہیں جو ایمان باﷲ والیوم الآخر کے میزان پر کھرے اترتے ہوں۔ فرمان باری ہے :﴿یاایھاالذین اٰمنوااطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیٔ فردوہ الی اﷲ والرسول ان کنتم تؤمنون باﷲ والیوم الآخرذلک خیرواحسن تاویلا﴾[النساء:۵۹] لیکن اس اصول سے منہ موڑکر دوسرو ں کی طرف رجوع یاھواء نفس جیسے بت کے پیچھے ہا تھ جوڑے عقل وسجھ کی قوت کومقفل کئے ہوئے بھاگنا منافقوں کا شیوہ ہے ۔ارشاد باری ہے :﴿واذاقیل لھم تعالوا الی ما انزل اﷲ والی الرسول رایت المنا فقین یصدون عنک صدودا﴾ [النساء: ۶۱] ’ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اﷲ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کررکے جاتے ہیں‘۔
احادیث رسول ﷺملاحظہ فرمائیں:
ربیع بنت معوذبن عفراء بیان کرتے ہیں کہ:’’جاء النبی ﷺ فدخل حین بنی علی فجلس علی فراشی کمجلسک منی فجعلت جویریات لنا یضربن بالدف ویندبن من قتل من آبائی یوم بدراذ قالت احداکن وفینا نبی یعلم مافی غد فقال دعی ھذہ وقولی باالذی کنت تقولین‘‘ [صحیح البخاری :۴۷۵۰،ابوداؤد:۴۲۷۶]
[۲] اور جوتم سے یہ کہے کہ نبی ﷺ کل کیا ہونے ولا ہے اس کی خبر رکھتے تھے توگویا اس نے اﷲ پر بہت بڑا بہتان باندھا ، پھر یہ آیت تلاوت کی :﴿ولا تدری ماذاتکسب غدا﴾
[۳] اور جو یہ بیان کرتا پھرے کہ نبی ﷺ نے حق رسالت ادا نہیں کیا اس طور پر کہ کچھ چھپا لیا تواس نے بھی اﷲ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا پھر یہ آیت تلاوت کی :﴿یاایھا الرسل بلغ ما انزل الیک من ربک﴾ہاں البتہ جبرئیل علیہ السلام کو دومرتبہ اصلی صورت میں دیکھاہے۔[ٓصحیح البخاری :۴۴۷۷]
ز حدیث جبریل میں ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے جب آپﷺ سے قیامت کے وقوع کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’ ماالمسؤل عنہا باعلم من السائل ‘‘کہ سائل جواب دینے والے سے زیادہ جانتاہے ، پھر قیامت کی کچھ نشانیاں بتلائی۔ [صحیح مسلم:۱۱]
ستر ، اسی سال قبل لکھی گئی کتب تفاسیر کی حقیقت
دسویں دلیل : ۷۰ ،۸۰ سال میں گمراہ لوگوں نے جوتفاسیر لکھی ہیں ان کو مت دیکھوورنہ آپ بھی گمراہ ہوجائیں گے ۔ اﷲ حفاظت کرے ۔آمین
ہم کہتے ہیں کہ قرآنی آیات واحادیث صحیحہ اور آثار صحابہ آپ کے دعوے کے بطلان کے لئے ذکر کردیا گیاہے جو نہ تو ۷۰،۸۰ سال کے اندر کے اقوال ہیں اور نہ دس بارہ صدی کے لوگوں کی تفاسیر بلکہ چودہ سو صدی پہلے نازل شدہ دور نبوی ﷺ کے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ وآثار صحابہ ہیں جو صراحت کے ساتھ آپ کے باطل عقیدے کی تردید کررہے ہیں ، اگر یہ تمام بنیادی اوراصولی دلائل آپ کے یہاں نا قابل اعتبار واستدلال ہیں تو آپ لوگوں سے بڑھ کر گمراہ بلکہ گمراہ گر کون ہوسکتا ہے ؟ اور آپ کی یہ اعلانیہ جرات قبیحہ اثبات نفاق کی کھلی دلیل ہے ۔فرمان باری ہے :﴿واذاقیل لھم تعالوا الی ما انزل اﷲ والی الرسول رایت المنا فقین یصدون عنک صدودا﴾[النساء:۶۱]’ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اﷲ کے نازل کردہ کلام کی اور اس کے رسول کی طرف آؤ توآپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رک جاتے ہیں‘۔
شائد آپ اپنی تاریخ کا حافظہ کہیں کھو بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کررہیں ،آپ کے نام کے ساتھ لگا لیبل یہود وہنودکے مجموعۂ ملغوبہ سے ماضی قریب جدا میں پیدا ہونے والانوزائدہ مذہب ومسلک ہونے کو بڑے ڈرامائی انداز میں محفوط کئے ہوئے ہے اگر چہ آپ کثرت الغفلہ وسیٔ الحفظ وغیرہ جیسی شدیدبیماریوں مبتلاہونے کی وجہ سے بھول گئے ہیں ۔شرم آنی چاہے لیکن’’ شرم نہیں آتی مگر تم کو ‘‘ کہ وہی چوری بھی کرے اور سینہ زوری کا اسلحہ بھی استعمال کرے ۔ آپ اور آپ کی پارٹی بزعم خویش جب خود کہتی ہے کہ ہمارے امام(امام الدیوبندیہ ہویا امام البریلویہ) کی بات سر آنکھوں پراگر چہ نص صریح اس کے مخالف ہی کیوں نہ ہوتوپھر بے جاشوروغوغاچے معنی دارد؟؟؟۔ حاشاوکلا
ہمارے یہاں ’’ماانا علیہ واصحابی ‘‘ اور﴿ لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ﴾ کے تحت رسول اﷲ ﷺ اور صحابہ کا طریقہ ومنہج ہی واجب الاقتداء ہے نہ کہ ہر ایرے گیرے نتھو کھیر ے کی اقتداء۔ آؤ ! میدا ن بحث وتحقیق میں کیونکہ یہ بہترین دلیل راہ ہے بشرطیہ کہ تقلیدی جمود کی آمیزش سے پاک ہو۔
اﷲ ہم سب کو ہدایت کی توفیق دے ۔(آمین)
وصلی اﷲ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم
۳؍رمضان المبارک۱۴۳۴ھ
مطابق ۱۳؍جولائی ۲۰۱۳ء
(ممبئی)
پی ڈی ایف میں ڈاونلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں:
https://ia601506.us.archive.org/24/items/altafsalafi262_gmail_201602/علم غیب صرف اللہ کے پاس ہے بجواب۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب تھے .pdf
علمِ غیب اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا
بجواب
نبی ﷺ عالم غیب تھے
از قلم : الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی
الحمد ﷲ رب العالمین الذی قال ﴿قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الا اﷲ وما یشعرون ایان یبعثون﴾، والصلاۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ أجمعین اما بعد:
یہ مختصر مقالہ در اصل ایک بریلی المسلک شخص کی طرف سے بھیجے گئے ایک رسالہ کا جواب ہے ، جس نے نبی ﷺ کو عالم غیب ثابت کرنے کے لئے اپنی مزعومہ دلائل کے ذریعہ بعض اہل حدیث افراد کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آئیے ہم اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ موصوف کی ساری تحریر ریڈ کلر سے مارک کیا ہوا ہے۔
بسم اﷲ: ان کے یہاں ثانوی درجہ میں
آپ کے وضع کردہ عنوان بالا کی گرفت سے قبل ایک سوال ہے کہ عنوان سے پہلے بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھے جانے کااہتمام نہ کرتے ہوئے بیاض چھوڑ دینے کاسبق آپ کے کس مدرسے میں پڑھایا جاتاہے ؟؟؟۔ اﷲ کرے ایسا نہ ہو ! لیکن اگرآپ کی یہاں یہ جرأت قبیحہ دلائل صحیحہ کہ مخالفت کے لئے رات ودن باطل تاویلات کی تلاش وجستجو یااپنے مخالف کو چھٹ پٹ جو بھی بن پڑے باطل کا سہارا لے کرزیر کرنے کی کوشش میں ہوئی ہے تو بھئی آپ سہوا یا بھول کر ہونے والی غلطوں کے زمرے سے خارج ہیں۔
اﷲ کے نبی ﷺ کے بھیجے گئے خطوط اس بات پر واضح ثبوت ہیں کہ آپ ﷺکے یہاں اس کی بڑی اہمیت تھی یہی وجہ ہے کہ آ پ ﷺ اسے خط کا ایک اہم بلکہ بنیادی جزء سمجھ کر تحریر کرواتے تھے،حتیٰ کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین کے سخت اعتراض کے وقت بھی پورا نہ سہی ’’باسمک تعالیٰ‘‘ ضرورلکھوایا جس پر مشرکین کا بھی اتفاق تھا ۔( دیکھئے عام کتب سیرت ﷺ) اگر آپ کے یہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں توگویاآپ اس مسئلہ میں ان مشرکوں سے بھی گئے گذرے ہیں ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ ۔ واقعہ ایسا ہی ہے ۔ کیونکہ آپ کے یہاں جتنی اہمیت ۷۸۶ وغیرہ کی ہے شاید اس کے با لمقابل بسم اﷲ الرحمن الرحیم ثانوی درجے کی اہمیت کے حامل بھی نہ ہو۔ہداکم اﷲ
اصلی منافق کون؟
اب آپ اپنے وضع کردہ عنوان کاحال سنیں : ’’حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے عطائی علم غیب سے انکا ر منافقین کا شیوہ ہے‘‘
جی ہا ں رب کائنات نے و حی متلواور غیر متلو یا خواب اور معراج کے ذریعہ حضور ﷺ کو ان خبروں کی اطلاع دی جسے آپ نہیں جانتے تھے اسی کی مدد سے جب آپ ﷺ لوگوں میں تبلیغ اسلام کرنے لگے تو ابتداء اکثریت آپ ﷺ کی انکاری ہوگئی، حتی کہ بظاہر کلمہ گو منافقین نے بھی آپ ﷺ سے حسد وبغض میں اس قدر مخالفت کی راہ اپنائی کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے سلسلے میں یہ تک کہہ دیا :﴿ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النارولن تجد لھم نصیرا﴾[النساء:۱۴۵]کہ’ منافق تو یقینا جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں جائیں گے ، ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مدد گارپالے ‘۔ وہ دنیا وی مقاصد کے حصول کے لئے کبھی آپﷺ کا ساتھ دیتے تو کبھی ظالم مشرکوں کے حمایتی بن کر آپ ﷺ پر نازل شدہ اکثر باتوں کو ماننے سے انکارکردیتے تھے ۔﴿واذاقیل لھم اٰمنو ا کما اٰمن الناس قالوا انؤمن کما اٰ من السفھاء ألا انھم ھم السفھاء ولکن لا یعلمون واذالقوالذین اٰمنوا قالوآ اٰمنا واذاخلواالی شیاطینھم قالوآ انا معکم انما نحن مستھزؤن﴾[البقرۃ:۱۳،۱۴] ’اور جب ان سے کہا جاتاہے کہ اور لوگوں (صحابہ کی طرح ) تم بھی ایمان لاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لائے ہیں ،خبر دار ہوجاؤ!یقینا یہی بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں۔ اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم توتمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان سے صرف استہزاء کرتے ہیں‘۔یہاں اﷲ تعالیٰ نے منافقوں کو صحابہ جیسا ایمان لانے کا جب تاکیدی حکم دیا تو وہ سب کو بیوقوف بنا کر خود کوبڑاپارسا سمجھنے لگے۔اور ایمان جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ چھ چیزوں پر مشتمل ہے اس میں دوسرا نمبر رسول پر ایمان لاناہے یعنی اس کی دی گئی جملہ خبر وں کو بلاچوں چرا سچ مانتے ہوئے اس پر سرے تسلیم خم کردیا جائے۔یعنی آپ کی باتوں پر ایمان نہ لانے والوں میں مشرکین ،منافقین اوریہود ونصاریٰ وغیرہ سب شامل ہیں ۔ اسی طرح آپ ﷺکے بارے میں حقیقت سے دور غلو آمیز باتوں کا عقیدہ رکھنا بھی انہیں جیسے لوگوں کا کا م ہے۔ فرمان باری ہے:﴿وقالت الیھود عزیر ابن اﷲ وقلت النصاریٰ المسیح ابن اﷲ ذلک قولھم بافواھھم ﴾[التوبۃ:۳۰] ’یہود کہتے ہیں : عزیر اﷲ کا بیٹاہے اور نصرانی کہتے ہیں : مسیح اﷲ کا بیٹا ہے، یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔‘اور فرمان رسولﷺ ہے: ’’ لاتطرونی کما اطرت النصاریٰٰ ابن مریم فانما انا عبدہ فقولوا عبد اﷲ ورسولہ‘‘[صحیح البخاری:۳۱۸۹]
اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے لئے ذرے ذرے (ماکان ومایکون ) اورکلی علم غیب کو ثابت کر کے اسی کا عقیدہ رکھنا غالی قسم کے منافقین ومشرکین اوریہود ونصاریٰ کا عقیدہ ہے، کیونکہ یہ عقیدہ صریح قراٰنی آیات واحادیث صحیحہ کے خلاف ہے، فرمان باری ہے : ﴿ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر وما مسنی السوء ان انا الانذیر وبشیر لقوم یؤمنون﴾[الاعراف:۱۸۸] ’اور اگر میں غیب کی باتیں جانتاہوتا تواپنے لئے بہت سے منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا ،میں تو محض ڈرانے والااور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان لائیں ‘۔ اس کے علاوہ بے شمار آیات واحادیث ہیں لیکن ان کے ذکر کا یہ محل نہیں کیونکہ یہاں اختصار ملحوظ ہے۔
یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ آپ کے یہاں عطائی کا عقیدہ سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ از ابتدائے آفرینش تاانتہااورکلی(ماکان ومایکون) علم غیب کاعقیدہ ہے ،ذیل کی عبارت آپ کے اس عقیدۂ فاسدہ کی واضح مؤید ہے، نیز آپ اپنے علماء کی لفاظیوں اور طومار سے بھری کتابوں کا مطالعہ کریں گے توجابجا اس کی واضح تائید ملے گی۔اسی لئے دوبارہ یہ عرض کئے دے رہا ہوں کہ اس عقیدے کے حاملین مزید غالی قسم کے منافق ہیں۔کیونکہ یہ باری تعالیٰ کا خاصہ ہے جس کے بارے میں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔فرمان باری ہے: ﴿فقل انما الغیب ﷲ﴾ [یونس :۲۰] ’سو اے نبیﷺ آپ فرمادیجئے کہ غیب کی خبر صرف اﷲ کو ہے‘ ۔ اورفرمایا:﴿قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الا اﷲ وما یشعرون ایان یبعثون﴾[النمل:۶۵] ’کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین والوں میں سے سوائے اﷲ کے کوئی غیب نہیں جانتا ، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کر کھڑے کیے جائیں گے؟‘ ۔ ایک جگہ اورفرمایا :﴿قل اﷲ اعلم بما لبثوا لہ غیب السمٰوات والارض﴾ [الکھف: ۲۶] ’آپ کہہ دیں : اﷲ ہی کو ان کے ٹھہرے رہنے کی مدت کا بخوبی علم ہے، آسمانوں اورزمین کا غیب صرف اسی کو حاصل ہے ‘۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿و ﷲ غیب السمٰوات والارض ﴾ [النحل: ۷۷] ’آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اﷲ ہی کو معلوم ہے ‘۔﴿ان اﷲ عندہ علم الساعۃ وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وماتدری نفس ماذاتکسب غدا وماتدری نفس بای ارض تموت ان اﷲ علیم خبیر﴾[لقمان:۳۴] ’بیشک اﷲ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتاہے ، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا کچھ کرے گا ؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا ۔ یاد رکھو اﷲ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے ‘۔ اور باری تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمہا الا ہو و ویعلم مافی البر والبحر وماتسقط من ورقۃ الا یعلمہا ولا حبۃ فی ظلمات فی الارض ولا رطب ولا یا بس الا فی کتاب مبین﴾[الانعام:۵۹] ’اور ا ﷲ ہی کے پاس ہیں غٰب کی کنجیاں (خزانے) ان کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں اور کو ئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں‘۔
یہ آیت کریمہ بین دلیل ہے کہ نبی ﷺ یا انبیاء علم غیب سے قطعا متصف نہ تھے ، اور آپ کا دعوئے علم غیب نہ تو شرعا درست ہے اور نہ ہی عقلا ، آپ خود فیصلہ کریں کیا کوئی انسان صفت نبی یا اور کوئی اپنی نظر وں سے اوجھل دنیا کے ہر کونے میں گرنے والے پتے، زمین کی تاریکی میں پڑنے والے دانے اورہرگرنے والی خشک وتر چیزکی خبر رکھ سکتاہے ؟؟؟ ہر گز نہیں اور کبھی نہیں ۔ھاتوا برھانکم ان کنتم صا د قین
آنجناب کے مزعومہ دلائل اور ان کا رد
موصوف کی پہلی دلیل : (علم غیب خاصہ نبوت ہے اس کے بغیر نبوت کا تصور ہی مکمل نہیں ، )
آپ نے عنوان بالا میں نبیﷺ کے لئے عطائی علم غیب کا عقیدہ ظاہر کرتے ہوئے اس کے انکاریوں کو منافقیوں کا شیوہ بتلایا تھا جس کے آپ خود مستحق قرار پائے اب یہاں آپ کاعطائی کے عقیدہ سے بے تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے خاصۂ نبوت بتلانا کیا کھلی منافقت نہیں ہے ؟؟؟ اور آپ کی یہ تضاد بیانی چہ معنی دارد؟؟؟
جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر آیے ہیں کہ علم غیب نہ تو کسی نبی کا خاصہ ہے اور نہ ہی زمین وآسمان میں بسنے والی کسی بھی قسم کی مخلوق کا بلکہ یہ تو صر ف باری تعالیٰ خالق ارض وسمٰوات والارض وما فیھا کا خاصہ ہے ، اس کے اس خاصہ کو دوسروں کے لئے ثابت کرنا اﷲ اور اس کے رسول سے کھلی ہوئی بغاوت ہے۔نوح علیہ السلام اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ولا اقول لکم عندی خزا ئن اﷲ ولا اعلم الغیب ولا اقول لکم انی ملک﴾ [ھود : ۳۱] ’میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں، اور میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں‘۔ اسی طرح نبیﷺ کے سلسلے میں ارشادربانی ہے: ﴿قل لا ٓ اقول لکم عندی خزآئن اﷲ ولا اعلم الغیب ولآ اقول لکم انی ملک ان اتبع الا ما یوحیٰٓ الی﴾[الانعام:۵۰]
نبی کا معنی
دوسری دلیل: ’’کیونکہ نبی کا معنی ہی غیب کی خبریں دینے والاہے۔‘‘
کسی بھی لغت کی کتاب ہمیں نہیں ملاکہ نبی کے معنی غیب کی خبریں دینے والا کے ہوتے ہوں ، بلکہ جو معنی لغت کی کتابوں میں ملتاہے اس میں ایک معنی ’’المخبر عن اﷲ ، المنبیء عن اﷲ‘‘ کا بھی ہے ، یعنی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ باتوں کو لوگوں تک پہونچانے والا ۔دیکھئے معتبر کتب لغت: [معجم مقاییس اللغۃ لابن فارس (المتوفی:۳۹۵ھ):۳؍۳۸۵، الصحاح للجوھری محقق (متوفی : ۳۹۸ھ ) :۶؍۲۵۰۰،لسان العرب لابن منظور(متوفیٰ:۷۱۱ھ):۱؍۱۶۲، القاموس المحیط للفیروزآبادی (متوفیٰ :۸۱۷ھ):۴؍۳۹۳، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر لابن الاثیر(متوفی: ۶۰۶ھ ): ۵؍۳] اگر آپ کے لئے یہ سب حوالے نا کافی ہیں ( کیونکہ باطل پرست کے لئے لاکھوں حوا لے بھی ناکافی ہوتے جب کہ حق پرست کے لئے ایک ہی صحیح حوالہ کافی ہوتاہے) تو لیجئے اپنی مشہور لغت مصباح اللغات سے اس کاحوا لہ جو کہ دراصل یہودیوں کی لکھی گئی لغت منجد کا ترجمہ ہے اور منجد بھی خود مختار لغت نہیں بلکہ مذکورہ کتب لغت سے ایک لمحہ کے لئے بھی مستغتی نہیں ۔ النبیء والنبی : اﷲ تعالیٰ کے الہام سے غیب کی باتیں بتلانے والا ، آئندہ کی پیش گوئی کرنے والا ، خداکی طرف سے پیغامبر۔[مصباح الغات :۸۴۷ ]اورذرا فیروز اللغات بھی دیکھتے چلیں کیونکہ یہ اردو داں کے یہاں ایک معتبر لغت سمجھی جاتی ہے : نبی کے معنیٰ خبر رساں ، خبر پہونچانے والا پیغمبر یعنی بھیجا گیا۔[فیروزالغات:نبی]
ایک کھلا فریب
تیسری دلیل: ﴿وما ھو علی الغیب بضنین﴾[التکویر:۲۴] اور وہ (نبی ﷺ )غیب (بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہے۔
اس آیت میں جو غیب کا لفظ آیا ہے اس سے مراد قرآن ہے جیسا کہ قتادہ وغیرہ نے یہی معنی مراد لیا ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے ذاتی علم غیب سے بغیر بخیلی کیے لوگوں کو آگاہ کرنے والے تھے (جو آپ سمجھ رہے ہیں)بلکہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر وحی کی شکل میں نازل ہوتا تھا آپ فریضہ ٔ رسالت کی ادائیگی میں قطعا بخیل نہیں تھے ۔(یعنی اﷲ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو بعض امور غیب سے مطلع کردیتاہے جویا تو اس کے فرائض رسالت سے ہوتاہے یا وہ اس کی رسالت کی صداقت کی دلیل ہوتے ہیں ، اورظاہر بات ہے کہ اﷲ کے مطلع کرنے سے پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوسکتے ۔آپ کے اس اصول کو ماننے کی صورت میں ہر کوئی عالم اغیب کہے جانے کا حقدار ہے ، اخبارات ٹیلی ویژن وغیرہ سے موصول ہونے والی خبروں پر اگرکوئی عالم الغیب ہونے کا عویٰ کرے تو اسے بے بنیاد پا گل نہیں کہہ سکتے۔ اس صورت میں ہر کوئی عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کرتا پھرے گا اور کرتے بھی جنہیں آپ جیسے نام نہاد بلاچوچراں تسلم بھی کرتے ہیں ۔یہ ہم اس لئے کہہ رہے رہیں کیونکہ اگر پیغمبر عالم الغیب ہوں تو پھر ان پر اﷲ کی طرف سے غیب کے اظہار کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا ، اﷲ تعالیٰ اپنے غیب کا اظہار اسی وقت اور اسی رسول پر کرتاہے جس کو پہلے اس غیب کا علم نہیں ہوتا ، اس لئے عالم الغیب صر ف اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات ہے )۔ اسی طرح ایک معنی مفسرین نے لیا ہے کہ آپ غیب سے متھم نہیں تھے (یعنی آپ کے پاس وہ علم غیب نہیں تھاکہ جس کی مددسے لوگوں کودعوت اسلام دیتے تھے بلکہ ﴿ان ھو الا وحی یوحی ﴾[النجم:۴] وہ تورب کی طرف سے وحی ہوا کرتی تھی ۔) خیرالقرون میں یہی دونوں معنی مروج تھا[دیکھئے : تفسیر طبری ، تفسیر قرطبی ، تفسیر ابن کثیر، اورفتح القدیرللشوکانی وغیرہ مذکورہ آیت کے تحت ]اگر کوئی شخص اس بات کاانکار کرے تو گویا وہ منکرین حدیث سے بھی چار قدم آگے ہے ، کیونکہ وہ تو قرآنی وحی کے علاوہ تمام اقسام وحی کا انکار کرتے ہیں جبکہ آپ جیسے عقیدہ رکھنے والے قرآنی وحی کے بھی انکاری (منکر) ہوجائیں گے اور اتنا بڑاجرم کوئی مسلمان ہرگز نہیں کرسکتا بلکہ یہ کام کوئی غالی قسم کا یہودی ،عیسائی ، مشرک اورمنافق ہی کر سکتاہے۔
بیجاتاویل
﴿وماکان اﷲ لیطلعکم علی الغیب ولکن اﷲ یجتبی من رسلہ من یشاء ﴾[ال عمران:۱۷۹] اور نہ اﷲ ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کردے بلکہ اﷲ اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کرلیتاہے ۔
چوتھی دلیل: اور ان کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس)تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے(غیب کے علم کے لئے) چن لیتاہے۔
اس آیت سے مراد وہ غیبی امور ہیں جن کا تعلق منصب وفرائض رسالت کی ادائیگی سے ہوتا ہے نہ کہ ’’ماکان ومایکون‘‘ جو کچھ ہو چکا اور آئندہ قیامت تک جوہونے والاہے کا علم ۔ جیسا کہ آپ جیسے باطل پرست اس طرح کی علم غیب انبیاء کے لئے اور کچھ لوگ اپنے ائمہ معصومین کے لئے باور کراتے ہیں ۔
صحیح بخاری کی روایت اور ابن حجرکا استدلال اور آپ کی تحریف
پانچوی دلیل: سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں : ایک روز آپ ﷺ ہمارے درمیان قیام فرماہوئے اور ابتدائے خلق سے لے کر روزقیامت اہل جنت کے جنت میں داخل ہوجانے اوراہل جہنم کے جہنم میں داخل ہوجانے تک سب کچھ بتا دیا پس اسی بیان کو جس جس نے جس قدر یا درکھااسے یاد رہااور جس نے جو کچھ بھلا دیاوہ بھول گیا[صحیح بخاری:۱؍۴۵۳رقم :۳۰۲۰ کتاب بدء الخلق ، باب ماجاء فی قول اﷲ تعالی وھوالذی یبدأالخلق ثم یعیدہ وھو اھون علیہ [مشکوۃ المصابیح :۵۰۶]
اس حدیث سے قطعایہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپﷺذاتی علم غیب کے مالک تھے جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے بلکہ آپ ﷺنے جوکچھ لوگوں کے سامنے ابتدائے خلق سے جنت وجہنم میں داخل ہونے تک کی جو بات امت کو بتلائی وہ فریضہ ٔ رسالت تھا جوآپ ﷺنے اداکردیا۔ اور یہ امور غیب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی شکل میں دی گئی تھی ۔ ﴿قل ماکنت بدعا من الرسل وما ادری مایفعل بی ولا بکم ان اتبع الا ما یوحیٰٓ الی ومآانا الا نذیر مبین﴾ [الا حقاف:۹] ’آپ کہہ دیجئے کہ میں کوئی بالکل انوکھا پیغمبر تونہیں ، نہ مجھے معلوم ہے کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا ۔ میں توصرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور میں صرف علی الاعلان آگاہ کردینے والا ہوں‘۔
نوٹ
چھٹی دلیل : نوٹ: امام ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں ’’ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک ہی مجلس میں تمام مخلوقات کے از ابتداء تا انتہاء دوبارہ اٹھائے جانے تک کے تمام احوال کی خبر عطافرمادی پس حضو رﷺ کایہ خبر دینا میداء(پیدائش ) اور معاش(دنوی زندگی)اور معاد (اخروی زندگی )کو شامل تھا ۔فتح الباری:۶؍۲۹۱
یہاں آپ نے علامہ ابن حجر رحمہ اﷲ کی عبارت حذف کرکے ان کے ساتھ بڑی ناانصافی اوردھاندھلی سے کام لی ہے ،اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ﴿یا ایھا الذین آمنوالا تقربوا الصلاۃ ﴾[النساء:۴۳] ’اے ایمان والونماز کے قریب نہ جاؤ ‘۔ کو ترک صلاۃ کے جواز کے لئے بطور دلیل پیش کیا جائے اور ﴿وانتم سکاری حتیٰ تعلمواماتقولون ولاجنباالاعبری سبیلٰ حتی تغتسلوا﴾ [النساء:۴۳] ’جب تم نشے میں مست ہوجب تک کہ تم اپنی بات کو سمجھنے نہ لگواور جنابت کی حالت میں جب تک غسل نہ کرلو‘۔ کو فن مغالطہ وفریب وغیرہ میں کامل مہارت کے سبب حذف کردیا جائے تاکہ سامنے والا ہمارے دام فریب کا شکارباآسانی ہو سکے۔ شاید بلکہ یقینا انہیں بنیادوں پر آپ کی حنفیت +․․․․ قائم ہے ۔ اور بیچاری عوام کو اپنے دام فریب میں پھنساکر انہیں تقلید جیسی اندھی ،تاریک ،محدوداور پراذیت سلا خ کے پیچھے مقید کردیا ہے ، اور عوام بھی اسی کو کوئیں کے میڈھک کی طرح وسیع وعریض آباد دین سمجھتی ہے، کیونکہ عوام ہوتی ہی ہے کالا نعا م ۔ ھداھم اﷲ
آپ نے عوام کو لگی سے گھاس کھلاتے ہوئے ابن حجر کی پوری عبارت نقل کرنے کے بعد حاصل عبارت سے چشم پوشی اختیار کرلی جوسراسر خیانت اور مغالطہ بازی ہے۔تولیجئے ابن حجرکی آپ کے ہاتھوں نذر ہوجانے والی محذوفہ عبارت ’’پس ‘‘سے: ’’فشمل ذلک الاخبار عن المبدا والمعاش والمعاد فی تیسیر ایراد ذلک کلہ فی مجلس واحد من خوارق العادۃ امرعظیم، ویقرب ذلک مع کون معجزاتہ فی کثرتھا لانہ ﷺ اعطی جوامع الکلم‘‘[فتح الباری:۹؍۴۷۳] ۔پس آپ ﷺ کایہ خبر دینا مبدا ، معاش اور معاد کو شامل تھا اسے ایک ہی مجلس میں باآسانی بیان کرناخوارق عادت تھا بلکہ یہ نبی ﷺ کا تقریبا معجزہ تھا کیونکہ آپ ﷺ جوامع الکلم بھی تھے ۔
اب جاکرکے ان کی عبارت کا حق اداہوا جس میں کہیں اس کا ذکر نہیں کہ آپ رحمہ اﷲ نے اس حدیث سے آپ ﷺکے عالم الغیب ہونے پر استدلال کیاہو یہ تو آپ کی مغالطہ تلبیس وتحریف اور دھاندھلی سے بنائی ہوئی زہریلی کھچڑی ہے جسے مفت میں قوت ہاضمہ کے لئے مفید کا نام دے کر تقسیم کررہے ہیں۔
اس خوش گمانی میں نہ رہنا کہ ابن حجر بھی آپ کی تائید میں ہیں بلکہ وہ اس اعتقادکے صریح مخالف ہیں ملاحظہ فرمائیں آپ رحمہ اﷲ کی وہ عبارت جو بخاری کی اس حدیث کے شرح میں لکھتے ہیں جس میں نبیﷺ نے ان بچیوں کو منع کیاہے جو یہ کہہ رہی تھیں کہ’’ وفینا نبی یعلم مافی غد ‘‘ ہمارے درمیان ایک ایسے نبی ہیں جو کل کی بابت علم رکھتے ہیں :وسیاق القصۃ یشعر بانھما لواستمرتا علی المراثی لم ینھھما ،وغالب حسن المراثی جد لالھو ، وانما انکر علیھا ما ذکر من الاطراء حیث اطلق علم الغیب لہ وھو صفۃ تخص باﷲ تعالیٰ قال تعالیٰ :﴿قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الا اﷲ ﴾ وقولہ لنیتہ :﴿قل الا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اﷲ ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر﴾وسائر ما کان النبی ﷺ یخبر بہ من الغیوب باعلام اﷲ تعالیٰ ایاہ لانہ لا یستقل بعلم ذالک کما قال تعالیٰ :﴿عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الامن ارتضی من رسول ﴾ [فتح الباری لابن حجر عسقلانی :تحت رقم : ۴۷۵۰۔] یعنی حدیث میں مذکو رقصے کا سیا ق اس با ت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر وہ دونو ں شہداء بدرکے مرثیے پر اکتفاء کرتیں توآپ ا نہیں منع نہیں کرتے ، اور بہترین مرثیہ خوانی کوئی لہو لعب نہیں بلکہ وہ تو ایک عمدہ قسم کی کوشش ہے ، اور نبیﷺ نے جو منع کیا تھا اس کی وجہ یہی تھی (جس کا آپ فضیحت کے باوجود عقیدہ بنائے ہوئے ہیں)کہ وہ آپ ﷺ کی مدح سرائی میں تجاوز حد کا شکار ہوگئی تھی ، بایں طور کہ آپ ﷺ کے حق میں علم غیب کا دعویٰ کردیا گیا تھا حالا نکہ وہ اﷲ رب العالمین کا خاصہ ہے ، اس سلسلے میں اﷲ تعالیٰ کافرمان:’( اے نبیﷺ) کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین والوں میں سے سوائے اﷲ کے کوئی غیب نہیں جانتا ‘۔ اور اﷲ تعالیٰ کا وہ فرمان بھی جو ذات نبیﷺ کے متعلق ہے (کہ آپﷺ خود اپنے سلسلے میں نہ نفع نقصان کے مالک تھے اور نہ ہی علم غیب کے):’ آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اﷲ تعالیٰ چاہے ، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو اپنے لئے بہت سے منافع حاصل کرلیتا ‘۔واضح رہے کہ نبی ﷺ جس چیز کی خبر غیبی امور کے متعلق دیتے ہیں (وہ اپنے تئیں نہیں دیتے ہیں )بلکہ وہ تو اﷲ تعالیٰ کے بتلانے پر ہی آ پ دوسروں کو خبردیتے، کیونکہ آپﷺ کے پاس کوئی ذاتی علم غیب تو تھا نہیں (کہ جس کی مدد سے آپ لوگوں کو آگاہ کرتے) ، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان :وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ، سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے ‘۔
آپ رحمہ اﷲ کی مذکورہ عبارت آپ کے غیر منصفانہ باطل عقیدے اور ان کی عبارت میں تحریف کاری کے ذریعہ بنائے گئے خواب خیال کے وہ محل جو دور سے دیکھنے والوں کی نظر کواپنی عمدگی کے جادو سے خیرہ کردے جب کہ قریب سے دیکھنے والوں کوفریب اور دھوکہ سواکچھ نہ نظر آئے کو پادر ہوا کرنے کے لئے کافی ہے۔
کذب بیانی وکذب پرستی کی انتہا
یہاں آپ کے اس خیانت اور دھاندھلی کا ذکر کیا جارہا ہے جس کے سامنے مذکورہ تمام مغالطات واوہامات پھیکے پڑگئے ہیں ۔
ساتویں دلیل: ٭ امام بدرالدین عینی رحمہ اﷲ (عمدۃ القاری )اورامام قسطلانی (مرقاۃ)جب منافقوں نے نبی ﷺ کے علم غیب کا انکار کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا :
جناب غالی ․․․!! یہ ستارہ کس چیز کا سگنل دے رہا ہے ؟؟؟کہیں ایسا تو نہیں کہ نجوم پرستی آپ کے یہاں بھی در آئی ہے ۔ اﷲ کرے ایسا نہ ہو!! بحر کیف !آپ نے امام بدرالدین عینی رحمہ اﷲ اور امام قسطلانی رحمہ اﷲ کا نام ذکر کے اور عمدۃ القاری نیز مرقاۃ کا حوالہ دے کر شاید یہ ثابت کرنی چاہی ہے کہ حدیث سے پہلے جو اضافہ میں نے کیا ہے وہ میرا نہیں بلکہ وہ انہیں سے منقول ہے اور مذکورہ حوالوں میں موجود ہے جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔یہ عبارت’’جب منافقوں نے نبیﷺ کے علم غیب کا انکار کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا :‘‘ ( کیا فرمایا ؟ ذیل کی وہی حدیث جو سدی سے مروی ہے کہ’’ اخرج یا فلان فانک منافق ‘‘اے فلاں تو نکل جا بیشک تو منافق ہے)یا تو آپ کی جعل سازی سے ثبت قرطاس ہوئی ہے یا آپ ہی کے ہم مزاج وہم عقیدہ کسی اور نے عوام کو مغالطہ یادوسرے لفظوں میں کہہ لیجئے اپنے ہی جیسا گمراہ کرنے کے لئے اتنا پڑاڈھونگ رچا ہے جس کی وجہ سے وہ نبیﷺ کے اس وعید شدید کا بلا شبہ مستحق ہے : ’’من کذب علی متعمدا فا لیتبؤا مقعدہ من النار‘‘[صحیح البخاری:۱۰۴،صحیح مسلم:۴]
یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ مجھے آپ کے مذکورہ محولہ کتابوں میں یہ اضافہ کہیں نہ مل سکا ،اور نہ ہی احادیث کے ذخیروں میں، اس لئے یاتو یہ آپ کی جعل سازی بلکہ نبی ﷺ پر بہتان تراشی ہے یا آپ کے زعمائے بے اعتماد کی مجرمانہ اور نا قابل معافی حرکت ۔کیا اس طرح کی حرکت کرنے والے گستاخان رسول میں سے نہیں ہیں ؟؟؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے توخیر کوئی بات نہیں لیکن اگر نفی میں ہے تو پھرگستاخ رسول کسے کہیں گے اعلی حضرت ؟؟؟
اچھا اب اپنی مستدل حدیث کا حال سنیں
آٹھویں دلیل: حدیث:سدی نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت کیاہے کہ نبی اکرمﷺ جمعہ کے روز خطاب کے لئے کھڑے ہوئے پس فرمایا : اے فلاں! تونکل جابیشک تو منافق ہے، اے فلاں!( تو بھی) نکل جاتو(بھی )منافق ہے پس آپ ﷺ نے (منافق )لوگوں کو مسجد سے رسوا کرکے نکال باہر کیا۔[تفسیر الکبیر :۱۶؍۱۷۳]تفسیر سورہ توبہ [۹؍۱۵۱] امام رازی رحمہ اﷲ
اگر آپ کو نہیں معلوم ہے تو لیجئے معتبر،اصل کتابوں سے اس کی سند جویوں ہے (حدثنا الحسین بن عمرو العنقزی قال: حدثنا ابی قال: حدثنا اسباط بن نصر عن السد ی عن ابی مالک عن ابن عباس قال: ) جسے آپ نے یوں لکھا ہے کہ : ’’سدی نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ــــ‘‘یہ سراسر آپ کی کم علمی ،کم مایگی ،بے ذوقی ، اسنادی تحقیق سے کورے پن بلکہ اس کے الف سے بھی واقف نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے ، کیونکہ عن سدی عن انس بن مالک ہے ہی نہیں جسے جھٹ پٹ لکھ مارا ہے آپ نے ۔ اگر آپ کو نہیں معلوم تھا تو ﴿فا سئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون﴾[الانبیاء :۷] ’پس تم اہل علم(اہل کتاب) سے پوچھ لواگرخود تمہیں علم نہ ہو‘۔ کے حکم کے تحت کسی معتبر صاحب علم سے پوچھ لئے ہوتے تو کیا بہتر ہوتا اور دن دھاڑے نقب زنی وغیرہ جیسی مجرمانہ حرکت کے بدلے جگ ہنسائی کا رسواکن یہ موقع دیکھنے کو نہ ملتا ۔شاید آپ ا س خوش گمانی میں رہے ہوں گے کہ ہماری تلبیس کاری، عیاری ،مکر بازی اور کذب بیانی جیسے بے شمار ہتھکنڈے اتنے عمدہ اور منا سب جگہ پر نصب کئے گئے ہیں کہ عوام اس سے مبہوت ہوکر نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے دام فریب کا شکار ہوجائے گی ۔ شاید آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کی یہ خوش گمانی ایسے ہی ہے جیسے کوئی ناقابل تعبیر خواب ۔رہا امام رازی (ابوعبداﷲ محمد بن عمربن الحسین بن اتیمی الرازی الملقب بفخرالدین [ولادت:۵۴۴ھ ۱۱۵۰ء وفات:۶۰۶ھــ۱۲۱۰ء])کا التفسیر الکبیر المعر وف بمفاتیح الغیب ‘میں روی السدی عن انس بن مالک لکھنا تو یہ ان کا تسامح ہی جاسکتا ہے کیونکہ یہ ایک بے سند کتاب ہے جس میں ہر طرح کے تفسیری اقوال جمع کر دئے گئے ہیں ۔سند کے ساتھ جہاں یہ حدیث آئی ہے وہ عن سدی عن ابی مالک عن ابن عباس مرفوعا ہے غالب گمان ہے کہ آپ نے ابی مالک کو انس بن مالک سمجھ کر لکھ دیا ہے ۔لیکن ان سے تسامح کا صدور آپ کے لئے قابل عذر نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ آپ حدیث نبوی ﷺ نقل فرما رہے تھے ، تقاضہ یہ تھا اصل مراجع کی طرف رجوع کرتے لیکن افسوس ثم افسوس آپ نے اصل مراجع کی طر ف رجوع کئے بغیراپنے مو قف کی تائید میں جو بھی ملااپنا استد لالی قوت مضبوط کرنے لے لئے زیراستعمال لے آیے نہ اسنادی تحقیق کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی صحیح وضعیف کی تمیز ،یہ ہے آپ کا مذہب اور آپ کا مسلک ۔ اس رویے سے واضح طور پریہ معلوم ہو رہا ہے کہ آپ کے یہاں اسناد کی کوئی حیثیت نہیں جبکہ عبدا ﷲ بن مبارک جیسے جلیل القدر محدث کہہ رہے ہیں کہ ’’ الا سناد من الدین لولا الاسناد لقال من شاء ما شاء‘‘۔[مقدمہ صحیح مسلم :۱؍۳۷ وشرح السنۃ للبغوی:۱؍۲۴۴]کہ’ اسناد دین کا ایک حصہ ہے اگر اسناد نہ ہوتی تو جو چاہتا کچھ بھی بکتا‘۔اگر ہوتی ہی تو اس قدر طومار ،اوہامات وخرافات وبدعات کی پلیدگی سے بنا ہوا معجون مذہب حنفیت+․․․․ قطعا استعمال نہ کرتی ۔
اگر آپ کو معلوم نہیں ہے تولیجئے اس کی سند جو کچھ اس طرح ہے: (حدثنا الحسین بن عمرو العنقزی قال: حدثنا ابی قال: حدثنا اسباط بن نصر عن السد ی عن ابی مالک عن ابن عباس قال: مذکورہ حدیث کی یہی سندہے نہ کہ عن السدی عن انس بن مالک جو آپ نے بحوالہ تفسرالکبیر لکھ ماراہے ۔ دیکھئے [تفسیر طبری محقق: رقم: ۱۷۱۲۲ ، المعجم الاوسط للطبرانی: رقم:۸۰۴ ، بحرالعلوم للسمرقندی: ۲؍۲۶۱،تفسیر ابن ابی حاتم الرازی رقم:۱۰۷۴۵ ، تفسیرالبغوی محقق: ۴؍۸۹ ، تفسیر ابن کثیر :۴؍۲۰۵ ، فتح الباری : ۴؍۴۴۳ ،عمدۃ القاری : ۱۳؍۹۸] وغیرہ ۔
ابھی تک آپ سے سرزد ہو جانے والی اسنادی غلطی کاازالہ کیا جارہا تھا ، اب اگرآپ حاضر دماغ اور پر سکون ہیں تو ذرامذکورہ حدیث کی اسنا دی حیثیت بھی دیکھتے چلیں ! تاکہ یہ واضح ہو جائے آپ لوگوں کی دلیلیں کس درجہ کے حامل ہوتی ہیں؟ کچھ دم خم ہوتا ہے یا قوت وحس سے کورے بے جان حیوان ناطق کی صرف لا شیں ہوتی ہیں جنہیں آپ جیسے مردم شمار زندوں میں شمار کرکے اپنی کثرت پر فخریہ ناچ ناچتے ہیں ۔
معذرت کے ساتھ اسنادی حیثیت پیش کیا جارہا ہے ملاحظہ فرمائیں : اس حدیث کی سند نا قابل اعتبار واستدلال ہے کیونکہ الحسین بن عمرو بن محمد العنقزی ایک ایسا راوی ہے جس کی محدثین نے تصدیق کرنے سے اعراض کیا ہے اتنا ہی نہیں بلکہ لین ، متکلم فیہ ،کتبت عنہ و لا أحدث عنہ، جیسے کلمات جرح استعمال کئے ہیں ، ابو کرب نے تویہاں تک کہاہے کہ: وہ ابرہیم بن یوسف بن ابو اسحاق سے حدیثیں روایت کرتا ہے جبکہ (ابرہیم بن یوسف سے اس کی ملاقات ہی نہیں ہے کیونکہ) اس کی پیدائش سے پہلے ہی وہ (ابرہیم)وفات پا چکے تھے ۔(یعنی فن جعل سازی کے ذریعہ اپنی گھڑی ہوئی احادیث سے عوام کو مغالطہ میں رکھنے کے لئے ان سے روایت کرنے کی ان کی ایک عام عادت تھی ) ۔ دیکھئے [ الجرح والتعدیل لابن ا بی حاتم:۳؍۶۱۔۶۲، لسان المیزان لابن حجر :۱؍۳۳۲ ، میزان الاعتدال للذھبی:۱؍۵۴۵ اور الانساب للسمعانی محقق:۴؍۲۵۴ ]
اسی لئے امام ہیثمی رحمہ اﷲ نے اسے ضعیف قرار دیکر مذکورہ حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیاہے [مجمع الزوئد ومنبع الفوائد:۳؍۱۶۶] اور عبدا لرزاق المھدی نے ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزی (م ۵۹۷ھ)کی مشہور کتاب زاد المسیر فی علم التفسیر کی تحقیق میں اس کی سند کوالحسن بن عمرو راوی کی وجہ سے ’’واہ‘‘ کہاہے۔دیکھئے ـ: [زادالمسیر فی علم التفسیر محقق: ۳؍۴۸۴]۔
لطف تو یہ ہے کہ اس حدیث کو مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے جس میں آپ جیسے عقیدہ رکھنے والوں کی صراحت کے ساتھ نفی کی گئی ہے ، فرمان باری ہے : ﴿وممن حولکم من الاعراب منٰفقون ومن أھل المدینۃ مردوا علی النفاق لا تعلمھم نحن نعلم سنعذبھم مرتین ثم یردون الی عذاب عظیم﴾[التوبہ:۱۰۱] ’اور کچھ تمہارے گرد وپیش والے دیہاتیوں میں اور کچھ مدینے والوں مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ، آپ ان کو نہیں جانتے ہیں ہم ان کو دوہری سزائیں دیں گے، پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے‘۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے نبی ﷺ کے علم غیب کی نفی کی ہے اور اس بات کی طرف واضح اشارہ کیا ہے کہ آپ کواس وقت تک کسی چیز کے بارے میں کوئی علم نہیں ہو تا جب تک اﷲ تعالیٰ انہیں اس کے متعلق کوئی خبرنہ دے دے ،دوسرے لفظوں یہ کہہ لیجئے کہ آپ ﷺمن جملہ مسئلہ دینیہ میں لوگوں کی رہنمائی کے لئے وحی الہی کے ہمیشہ محتاج تھے۔ فرمان باری ہے:﴿قل مایکون لی أن أبدلہ من تلقآء ی نفسی ان اتبع الا ما یوحیٰ الی انیٓ اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم﴾ [یو نس:۱۵] ’آپ کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کردوں بس میں تواسی کا اتباع کر و ں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہونچاہے، اگر میں رب کی نا فرمانی کروں تومیں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں ‘۔
نوٹ
’’نوٹ ‘‘ایک ایسا لفظ ہے جسے سن کر عوامی لوگوں کا ذہن روپئے پیسے ہی کی طرف جاتاہے کیونکہ انسانی زندگی اسی سے عبارت ہے اور اس کی ایسے ہی اہمیت ہے جیسے انسان کو کھڑے ہونے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے۔ معلوم ہو ا کہ لفظ نوٹ کا استعمال کسی ایسے ہی مہم الامور کے لئے ہوتاہے جس کے بغیر کام ہی نہ چلے ۔ اسی طرح کتابو ں یا رسالوں میں ا س کا استعمال بھی کسی اہم بات ہی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ شایداسی لئے آپ نے ایک ہی صفحہ میں دو جگہوں پراس کا استعمال کیا ہے ، ایک توابن حجر رحمہ اﷲ کی عبارت میں تحریف وتلبیس کرتے ہوئے ، دوسرا عوام کواپنا عقیدہ منوانے کے لئے بلا حوالہ ڈھیرساری آیات واحادیث کا باطل دعوہ کرتے ہوئے، جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ عوام کی اکثریت آپ کی منصوبہ بند مغالطہ وتلبس کاری وغیرہ جیسے شکاری جال کے شکارہوتے رہیں اور آپ انہیں چوستے رہیں ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جو زک پہونچانے کے لئے کہی جارہی ہو بلکہ یہ وہ اٹل حقیقت ہے جس کا مشاہدہ آپ خود بارہا کرتے ہوں گے ۔
نوویں دلیل: نوٹ: قرآن شریف اور حدیث شریف کے کئی مقامات سے حضور ﷺ کے عطائی علم غیب ثابت ہے، قرآن (مجید)کوشان نزول و تفسیر کے ساتھ پڑھوجو صدیوں پہلے لکھی گئی،اسی طرح حدیث بھی۔
ہم کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے لئے ذاتی علم غیب کا ثبوت قرآن میں ہے اور نہ کہیں حدیث میں اسی طرح نہ ہی کسی معتبر شان نزول سے اس کا ثبوت ملتا ہے اسی لئے ہمارا اعتقاد ہے کہ آپ ﷺ ’’ما کان وما یکون ‘‘کے قطعا عالم نہیں تھے جسے آپ دوسرے لفظوں میں عطائی علم غیب سے موسوم کرتے ہیں بلکہ جو بھی احوال ماضیہ کی تفصیلی اور اجمالی خبرآپ ﷺنے امت کو بتلائی یا پیش گوئی فرمائی وہ سب وحی کے ذریعہ ہی بیان فرمائی کیونکہ آپ ْﷺ نہ تو رب کے کسی خزانے کے مالک تھے اور نہ ہی کوئی فرشتہ (یا فرشتہ صفت انسان)۔فرمان باری ہے ﴿قل لا اقول لکم عندی خزائن اﷲ ولا اعلم الغیب ولااقول لکم انی ملک ان اتبع الا ما یوحیٰ الی قل ھل یستوی الاعمیٰ والبصیرافلاتتفکرون﴾ [الانعام :۵۰] ’آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتاہوں کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ، میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتاہوں آپ کہہ دیجئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتا ہے ، سو تم غور کیوں نہیں کرتے ؟‘۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ اور آپ کی پارٹی قوت بصارت وسماعت سے محروم ہی نہیں بلکہ بالکل محروم ہے جبھی تو اس طرح کی بہکی بہکی بد عقیدگی کی باتیں کرنا اس کی عام سی عادت بن گئی ہے ۔ فرمان ربانی ہے :﴿قل انما انذرکم با لوحی لایسمع الصم الدعاء اذاما ینذرون ﴾ [ الا نبیاء:۴۵] ’کہہ دیجئے : میں توتمہیں اﷲ کی وحی کے ساتھ آگاہ کررہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہیں سنتے جبکہ انہیں آگاہ کیا جائے‘۔
اس مسئلہ میں مذکورہ قرآنی آیات دلیل راہ فراہم کرنے کے لئے کافی وشافی معلوم ہورہے ہیں ، لیکن اگر آپ اب بھی مطمئن نہیں ہیں اور احادیث صحیحہ کے پڑھنے یا سننے کا اگر شوق اور دلچسپی بھی ہے تو اس مسئلے میں ذیل میں ذکر کی جارہی چند احادیث صحیحہ ضرور پڑھیں کیونکہ اختلافات کے حل کے لئے قرآن کریم اور حدیث رسول ہی طرف کی رجوع و اجب ہے نہ کہ لوگوں کے ڈھکوسلہ بازی ،تحریف کاری ،اور باطل تاویلات وغیرہ کی طرف۔یاد رہے کہ اختلافی صورت حال میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کو ترجیحی نظرسے دیکھنے والے وہی ہو سکتے ہیں جو ایمان باﷲ والیوم الآخر کے میزان پر کھرے اترتے ہوں۔ فرمان باری ہے :﴿یاایھاالذین اٰمنوااطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیٔ فردوہ الی اﷲ والرسول ان کنتم تؤمنون باﷲ والیوم الآخرذلک خیرواحسن تاویلا﴾[النساء:۵۹] لیکن اس اصول سے منہ موڑکر دوسرو ں کی طرف رجوع یاھواء نفس جیسے بت کے پیچھے ہا تھ جوڑے عقل وسجھ کی قوت کومقفل کئے ہوئے بھاگنا منافقوں کا شیوہ ہے ۔ارشاد باری ہے :﴿واذاقیل لھم تعالوا الی ما انزل اﷲ والی الرسول رایت المنا فقین یصدون عنک صدودا﴾ [النساء: ۶۱] ’ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اﷲ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کررکے جاتے ہیں‘۔
احادیث رسول ﷺملاحظہ فرمائیں:
ربیع بنت معوذبن عفراء بیان کرتے ہیں کہ:’’جاء النبی ﷺ فدخل حین بنی علی فجلس علی فراشی کمجلسک منی فجعلت جویریات لنا یضربن بالدف ویندبن من قتل من آبائی یوم بدراذ قالت احداکن وفینا نبی یعلم مافی غد فقال دعی ھذہ وقولی باالذی کنت تقولین‘‘ [صحیح البخاری :۴۷۵۰،ابوداؤد:۴۲۷۶]
- ابن عمررضی اﷲ عنھما سے روایت :’’ ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال مفاتیح الغیب خمس لایعلمھا الا اﷲ لا یعلم ما فی غد الا اﷲ ولا یعلم ماتغیض الارحام الا اﷲ ولا یعلم متی یاتی المطر احد الااﷲ ولاتدری نفس بای ارض تموت ولا یعلم متی تقوم الساعۃ الا اﷲ ‘‘ [صحیح البخاری :۴۳۲۸]
- مسروق رحمہ اﷲ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا اے ماں کیا نبیﷺ نے رب کو دیکھا ہے؟ تو ٓجواباآپ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں کہ تیرے اس سوال نے میرے رونگٹے کھڑے کردئے ، کیاتمہیں ان تین چیزوں کے بارے میں نہیں معلوم کہ جسے اگر کوئی کہے توگویا وہ اﷲ پر بہت بڑا بہتان باندھنے والا ہے:
[۲] اور جوتم سے یہ کہے کہ نبی ﷺ کل کیا ہونے ولا ہے اس کی خبر رکھتے تھے توگویا اس نے اﷲ پر بہت بڑا بہتان باندھا ، پھر یہ آیت تلاوت کی :﴿ولا تدری ماذاتکسب غدا﴾
[۳] اور جو یہ بیان کرتا پھرے کہ نبی ﷺ نے حق رسالت ادا نہیں کیا اس طور پر کہ کچھ چھپا لیا تواس نے بھی اﷲ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا پھر یہ آیت تلاوت کی :﴿یاایھا الرسل بلغ ما انزل الیک من ربک﴾ہاں البتہ جبرئیل علیہ السلام کو دومرتبہ اصلی صورت میں دیکھاہے۔[ٓصحیح البخاری :۴۴۷۷]
ز حدیث جبریل میں ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے جب آپﷺ سے قیامت کے وقوع کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’ ماالمسؤل عنہا باعلم من السائل ‘‘کہ سائل جواب دینے والے سے زیادہ جانتاہے ، پھر قیامت کی کچھ نشانیاں بتلائی۔ [صحیح مسلم:۱۱]
- ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :’’ماادری أتبع لعین ام لا وماادری وأعزیر نبی ھو ام لا ‘‘[سنن ابوداود :۴۰۵۴ وصححہ الالبانی ]
- ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ انکم تختصمون الی ولعل بعضکم الحن بحجتہ من بعض فمن قضیت لہ بحق اخیہ شیئا بقولہ فانما اقطع لہ قطعۃ من النار فلا یاخذھا ‘‘ [صحیح البخاری :۲۴۸۲وصحیح مسلم:۳۲۳۱]
- ام الؤمنین پر لگائی گئی تہمت زنا اور آپﷺ کو حقیقت معلوم نہ ہونا ۔
- جنگ احد میں آپ کے دانت کا شہید ہونا اور پیشانی کا زخمی ہونا اسی طرح مسلمانوں کے جانی اور مالی نقصان۔
- عبد اﷲ ابن مکتوم کوبسبب عذر اذان سننے کے باوجود مسجد نہ آنے کی اجازت دینے کے بعد بخبر وحی مسجد میں حاضری کوواجب بتلانا ۔
- انشاء اﷲ نہ کہنے کی وجہ سے وحی الہی کا کچھ دنوں منقطع ہوجانا وغیرہ سیکڑوں دلائل اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ آپﷺ قطعا ماکان ومایکون اور کلی علم غیب سے واقف نہ تھے ۔﴿افلاتعقلون﴾
ستر ، اسی سال قبل لکھی گئی کتب تفاسیر کی حقیقت
دسویں دلیل : ۷۰ ،۸۰ سال میں گمراہ لوگوں نے جوتفاسیر لکھی ہیں ان کو مت دیکھوورنہ آپ بھی گمراہ ہوجائیں گے ۔ اﷲ حفاظت کرے ۔آمین
ہم کہتے ہیں کہ قرآنی آیات واحادیث صحیحہ اور آثار صحابہ آپ کے دعوے کے بطلان کے لئے ذکر کردیا گیاہے جو نہ تو ۷۰،۸۰ سال کے اندر کے اقوال ہیں اور نہ دس بارہ صدی کے لوگوں کی تفاسیر بلکہ چودہ سو صدی پہلے نازل شدہ دور نبوی ﷺ کے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ وآثار صحابہ ہیں جو صراحت کے ساتھ آپ کے باطل عقیدے کی تردید کررہے ہیں ، اگر یہ تمام بنیادی اوراصولی دلائل آپ کے یہاں نا قابل اعتبار واستدلال ہیں تو آپ لوگوں سے بڑھ کر گمراہ بلکہ گمراہ گر کون ہوسکتا ہے ؟ اور آپ کی یہ اعلانیہ جرات قبیحہ اثبات نفاق کی کھلی دلیل ہے ۔فرمان باری ہے :﴿واذاقیل لھم تعالوا الی ما انزل اﷲ والی الرسول رایت المنا فقین یصدون عنک صدودا﴾[النساء:۶۱]’ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اﷲ کے نازل کردہ کلام کی اور اس کے رسول کی طرف آؤ توآپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رک جاتے ہیں‘۔
شائد آپ اپنی تاریخ کا حافظہ کہیں کھو بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کررہیں ،آپ کے نام کے ساتھ لگا لیبل یہود وہنودکے مجموعۂ ملغوبہ سے ماضی قریب جدا میں پیدا ہونے والانوزائدہ مذہب ومسلک ہونے کو بڑے ڈرامائی انداز میں محفوط کئے ہوئے ہے اگر چہ آپ کثرت الغفلہ وسیٔ الحفظ وغیرہ جیسی شدیدبیماریوں مبتلاہونے کی وجہ سے بھول گئے ہیں ۔شرم آنی چاہے لیکن’’ شرم نہیں آتی مگر تم کو ‘‘ کہ وہی چوری بھی کرے اور سینہ زوری کا اسلحہ بھی استعمال کرے ۔ آپ اور آپ کی پارٹی بزعم خویش جب خود کہتی ہے کہ ہمارے امام(امام الدیوبندیہ ہویا امام البریلویہ) کی بات سر آنکھوں پراگر چہ نص صریح اس کے مخالف ہی کیوں نہ ہوتوپھر بے جاشوروغوغاچے معنی دارد؟؟؟۔ حاشاوکلا
ہمارے یہاں ’’ماانا علیہ واصحابی ‘‘ اور﴿ لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ﴾ کے تحت رسول اﷲ ﷺ اور صحابہ کا طریقہ ومنہج ہی واجب الاقتداء ہے نہ کہ ہر ایرے گیرے نتھو کھیر ے کی اقتداء۔ آؤ ! میدا ن بحث وتحقیق میں کیونکہ یہ بہترین دلیل راہ ہے بشرطیہ کہ تقلیدی جمود کی آمیزش سے پاک ہو۔
اﷲ ہم سب کو ہدایت کی توفیق دے ۔(آمین)
وصلی اﷲ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم
۳؍رمضان المبارک۱۴۳۴ھ
مطابق ۱۳؍جولائی ۲۰۱۳ء
(ممبئی)
پی ڈی ایف میں ڈاونلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں:
https://ia601506.us.archive.org/24/items/altafsalafi262_gmail_201602/علم غیب صرف اللہ کے پاس ہے بجواب۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب تھے .pdf