صلاح الدین سلفی
رکن
- شمولیت
- فروری 23، 2017
- پیغامات
- 18
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 46
ریفرینس
!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم مسلمان جو اسلام کے داعی ہیں خود قرآن مجید میں خیانت کے مرتکب ہیں۔ یہی نہیں بعض علماء اپنے مسلک کے دفاع کے لیے قرآن مجید کے تراجم میں تبدیلی سے بھی باز نہیں آتے۔ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا اور قرآن مجید پر عمل پیرا رکھ۔ آمین۔
سب سے پہلے یہ بات یاد رکھئے گا کہ قرآن مجید میں کوئی اختلاف نہیں ہے یہ احبار و رعبان ہیں جو قرآن مجید کی آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح سورت یوسف میں بھی آیا ہے
!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم مسلمان جو اسلام کے داعی ہیں خود قرآن مجید میں خیانت کے مرتکب ہیں۔ یہی نہیں بعض علماء اپنے مسلک کے دفاع کے لیے قرآن مجید کے تراجم میں تبدیلی سے بھی باز نہیں آتے۔ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا اور قرآن مجید پر عمل پیرا رکھ۔ آمین۔
سب سے پہلے یہ بات یاد رکھئے گا کہ قرآن مجید میں کوئی اختلاف نہیں ہے یہ احبار و رعبان ہیں جو قرآن مجید کی آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْـرِ اللّـٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْـرًا (82)
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، اور اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے
ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔ (النساء 82)
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، اور اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے
ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔ (النساء 82)
دیکھئے قرآن مجید نے واضع انداز میں فرمایا ہے کہ قرآن میں کوئی اختلاف نہیں۔
اب آتے ہیں اپنے موضوع کی جانب
اب آتے ہیں اپنے موضوع کی جانب
علم غیب سے متعلق قرآنی آیات – (بعض) علماء کی قرآن میں خیانت
قرآن کریم کے کسی مسئلہ سے متعلق بعض آیات کو لینا اور بعض کو ہاتھ ہی نہ لگانا وہ بددیانتی ہے جو تو ریت کے ساتھ یہودی علماء اور انجیل کے ساتھ عیسائی پادری کرتے رہے۔ جسے قرآن کریم میں تحریف اور کتاب اﷲ کا انکار قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے کچھ بعض علماء نے بھی وہی وطیرہ اپنایا ہوا ہے۔ اپنے مطلب کی بات لینا اور جو اپنے خلاف ہو اسے چھوڑ دینا۔ اس جرم کی سزا قرآن میں یہ بتائی گئی ہے۔ کہ ’’دنیا میں ذلت اور آخرت میں سخت تر عذاب ‘‘ (البقرہ، 2 : 85) ایسے علماء کو عبرت پکڑنی چاہیے کہیں یہی انجام ان کا بھی نہ ہو۔ قرآن میں یہ سب کچھ بیان کرنے کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ ہم ایسی حرکت نہ کریں ورنہ انجام ان سے مختلف نہ ہو گا۔
قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام فرشتوں کے بارے میں مختلف آیات آئی ہیں جن میں بتایا گیا کہ اللہ کے علاوہ غیب کوئی نہیں جانتا جن میں سے چند آیات پیش خدمت ہیں۔
قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام فرشتوں کے بارے میں مختلف آیات آئی ہیں جن میں بتایا گیا کہ اللہ کے علاوہ غیب کوئی نہیں جانتا جن میں سے چند آیات پیش خدمت ہیں۔
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّـٰهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ (65)
کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا، اور انہیں اس کی بھی خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کے فرمائیے کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا، اور انہیں اس کی بھی خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِىْ خَزَآئِنُ اللّـٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّـىْ مَلَكٌ ۖ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَىَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْـرُ ۚ اَفَلَا تَتَفَكَّـرُوْنَ (50)
کہہ دو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے، کہہ دو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں، کیا تم غور نہیں کرتے۔
اسی طرح فرشتے بھی غیب نہیں جانتے جیسا کہ قرآن نے آدم علیہ السلام کو کچھ نام سکھائے تو جب فرشتوں سے انکے بارے میں پوچھا تو :کہہ دو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے، کہہ دو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں، کیا تم غور نہیں کرتے۔
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْـمَآءَ كُلَّهَا ثُـمَّ عَرَضَهُـمْ عَلَى الْمَلَآئِكَـةِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِىْ بِاَسْـمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُـمْ صَادِقِيْنَ (31)
اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔
قَالُوْا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِـيْمُ الْحَكِـيْمُ (32)
انہوں نے کہا تو پاک ہے، ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتایاہے، بے شک تو بڑے علم والا حکمت والا ہے۔
اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔
قَالُوْا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِـيْمُ الْحَكِـيْمُ (32)
انہوں نے کہا تو پاک ہے، ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتایاہے، بے شک تو بڑے علم والا حکمت والا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ فرشتے بھی غیب نہیں جانتے اسی طرح بہت سی آیات ہیں جو اگر یہاں بیان کی جائیں تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا۔آج ہم ان آیات پر غور کرینگے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علم غیب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کس طرح قرآن کے معانی و مطالب تبدیل کیے جاتے ہیں۔
پیش ہیں وہ دو آیات جن سے غیب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پیش ہیں وہ دو آیات جن سے غیب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٓ ٖ اَحَدًا (26)
وہ غیب جاننے والا ہے اپنے غائب کی باتوں پر کسی کو واقف نہیں کرتا۔
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٝ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا (27)
مگر اپنے پسندیدہ رسول کو (بتاتا ہے) پھر اس کے آگے اور پیچھے محافظ مقرر کر دیتا ہے۔
(سورت الجن 26،27)
وہ غیب جاننے والا ہے اپنے غائب کی باتوں پر کسی کو واقف نہیں کرتا۔
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٝ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا (27)
مگر اپنے پسندیدہ رسول کو (بتاتا ہے) پھر اس کے آگے اور پیچھے محافظ مقرر کر دیتا ہے۔
(سورت الجن 26،27)
دوسری آیات
وَمَا هُوَ عَلَى الۡغَيۡبِ بِضَنِيۡنٍۚ ﴿۲۴﴾
اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں ﴿۲۴﴾ سورت تکویر24
ان دونوں آیات کو قرآن مجید کے بیسیوں آیات سے ٹکرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔حالانکہ قرآن مجید میں کوئی اختلاف موجود نہیں یہ ہم پہلے پہلے دیکھ چکے ہیں۔
اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں ﴿۲۴﴾ سورت تکویر24
ان دونوں آیات کو قرآن مجید کے بیسیوں آیات سے ٹکرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔حالانکہ قرآن مجید میں کوئی اختلاف موجود نہیں یہ ہم پہلے پہلے دیکھ چکے ہیں۔
بعض علماء کی خیانت
سب سے پہلے یہ بات یاد رکھیں کہ نبی ہوتا ہی وہی ہے جو غیب کی باتیں بتائے۔لیکن
غیب کی باتیں بتانا اور غیب جاننا دو الگ الگ چیزیں ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی غیب کی باتیں بتاتے تھے جیسا کہ
٭ قیامت کی نشانیاں
٭ دجال کا ظہور
٭جنت کا بیان
٭دوزخ کا بیان
٭عذاب قبر کا بیان
٭امام مہدی کا بیان
غرض بہت سی اخبار غیب یعنی غیب کی خبریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں
لیکن مولوی جو دھوکہ عوام الناس کو دیتے ہیں وہ بہت بھیانک ہے۔ ان اوپر بیان کی گئی چیزوں سے جو مطلب لینا چاہیے یعنی( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی باتیں بتاتے تھے) کی بجائے ان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے جو کہ قرآن کی کھلی نفی ہے۔
اب ہم اس پر دلائل عرض کرینگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی خبریں کیسے بتاتے تھے۔
ذٰلِكَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَيۡبِ نُوۡحِيۡهِ اِلَيۡكَؕ وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ اِذۡ يُلۡقُوۡنَ اَقۡلاَمَهُمۡ اَيُّهُمۡ يَكۡفُلُ مَرۡيَمَ وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ اِذۡ يَخۡتَصِمُوۡنَ﴿۴۴﴾
(اے محمدﷺ) یہ باتیں اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اور جب وہ لوگ اپنے قلم (بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ مریم کا
(متکفل کون بنے تو تم ان کے پاس نہیں تھے اور نہ اس وقت ہی ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے﴿
آل عمران 44
قرآن واضع کتاب ہے ،قرآن نور ہے قرآن ھدایت ہے یہ اللہ کا کلام ہے ہر ذہن کی سازش کو بے نقاب کر دیتا ہے۔
قرآن نے واضع طور پر فرما دیا کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جو اے نبی کریم ﷺ آپ کی طرف وحی کی جاتی ہیں۔ لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غیب کی خبریں وحی کی جاتی تھیں۔جیسا کہ قرآن میں آیا ہے۔
غیب کی باتیں بتانا اور غیب جاننا دو الگ الگ چیزیں ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی غیب کی باتیں بتاتے تھے جیسا کہ
٭ قیامت کی نشانیاں
٭ دجال کا ظہور
٭جنت کا بیان
٭دوزخ کا بیان
٭عذاب قبر کا بیان
٭امام مہدی کا بیان
غرض بہت سی اخبار غیب یعنی غیب کی خبریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں
لیکن مولوی جو دھوکہ عوام الناس کو دیتے ہیں وہ بہت بھیانک ہے۔ ان اوپر بیان کی گئی چیزوں سے جو مطلب لینا چاہیے یعنی( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی باتیں بتاتے تھے) کی بجائے ان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے جو کہ قرآن کی کھلی نفی ہے۔
اب ہم اس پر دلائل عرض کرینگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی خبریں کیسے بتاتے تھے۔
ذٰلِكَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَيۡبِ نُوۡحِيۡهِ اِلَيۡكَؕ وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ اِذۡ يُلۡقُوۡنَ اَقۡلاَمَهُمۡ اَيُّهُمۡ يَكۡفُلُ مَرۡيَمَ وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ اِذۡ يَخۡتَصِمُوۡنَ﴿۴۴﴾
(اے محمدﷺ) یہ باتیں اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اور جب وہ لوگ اپنے قلم (بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ مریم کا
(متکفل کون بنے تو تم ان کے پاس نہیں تھے اور نہ اس وقت ہی ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے﴿
آل عمران 44
قرآن واضع کتاب ہے ،قرآن نور ہے قرآن ھدایت ہے یہ اللہ کا کلام ہے ہر ذہن کی سازش کو بے نقاب کر دیتا ہے۔
قرآن نے واضع طور پر فرما دیا کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جو اے نبی کریم ﷺ آپ کی طرف وحی کی جاتی ہیں۔ لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غیب کی خبریں وحی کی جاتی تھیں۔جیسا کہ قرآن میں آیا ہے۔
وَالنَّجْـمِ اِذَا هَوٰى (1)
ستارے کی قسم ہے جب وہ ڈوبنے لگے۔
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى (2)
تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى (3)
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے۔
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى (4)
یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔(سورت النجم)
ستارے کی قسم ہے جب وہ ڈوبنے لگے۔
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى (2)
تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى (3)
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے۔
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى (4)
یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔(سورت النجم)
اسی طرح سورت یوسف میں بھی آیا ہے
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَـآ اِلَيْكَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ ۖ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِـهٖ لَمِنَ الْغَافِلِيْنَ (3)
ہم تیرے پاس بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں اس واسطے کہ ہم نے تیری طرف یہ قرآن بھیجا ہے، اور تو اس سے پہلے البتہ بے خبروں میں سے تھا۔
ہم تیرے پاس بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں اس واسطے کہ ہم نے تیری طرف یہ قرآن بھیجا ہے، اور تو اس سے پہلے البتہ بے خبروں میں سے تھا۔
یعنی غیب جاننے والا اکیلا اللہ ہے۔
اور وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے غیب پر مطلع کرتا ہے یعنی وحی کے ذریعے غیب کی خبریں بتاتا ہے۔
جیسا کے قرآن میں آیا ہے
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٓ ٖ اَحَدًا (26)
وہ غیب جاننے والا ہے اپنے غائب کی باتوں پر کسی کو واقف نہیں کرتا۔
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٝ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا (27)
مگر اپنے پسندیدہ رسول کو (بتاتا ہے) پھر اس کے آگے اور پیچھے محافظ مقرر کر دیتا ہے۔
یہ آیات قرآن کی کسی دوسری آیت سے نہیں ٹکراتے بلکہ تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ پیغمبر چنتا ہے اپنے بندوں میں سے اور پھر انکی طرف غیب کی خبریں بھیجی جاتی ہیں اللہ کی طرف سے اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نبی غیب جانتا ہے بلکہ نبی کو غیب کی خبریں بذریعہ وحی بھیجی جاتی ہیں۔
اگر نبی غیب جانتے ہوتے تو وحی کی ضرورت نہ پڑتی۔
اور وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے غیب پر مطلع کرتا ہے یعنی وحی کے ذریعے غیب کی خبریں بتاتا ہے۔
جیسا کے قرآن میں آیا ہے
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٓ ٖ اَحَدًا (26)
وہ غیب جاننے والا ہے اپنے غائب کی باتوں پر کسی کو واقف نہیں کرتا۔
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٝ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا (27)
مگر اپنے پسندیدہ رسول کو (بتاتا ہے) پھر اس کے آگے اور پیچھے محافظ مقرر کر دیتا ہے۔
یہ آیات قرآن کی کسی دوسری آیت سے نہیں ٹکراتے بلکہ تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ پیغمبر چنتا ہے اپنے بندوں میں سے اور پھر انکی طرف غیب کی خبریں بھیجی جاتی ہیں اللہ کی طرف سے اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نبی غیب جانتا ہے بلکہ نبی کو غیب کی خبریں بذریعہ وحی بھیجی جاتی ہیں۔
اگر نبی غیب جانتے ہوتے تو وحی کی ضرورت نہ پڑتی۔
ایک بہت بڑا دھوکا
ایک بہت بڑا دھوکا عوام الناس کو اس آیات سے دیا جاتا ہے جس کی معنوی تحریف کی جاتی ہے
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ﴿24
اور وہ غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں ہے۔ (24)
یہ آیت مبارکہ اپنی تفسیر خود ہے اگر اسے غور سے پڑھا جائے تو اس آیت سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت میں غیب جاننے کا کوئی لفظ موجود نہیں بلکہ یہ ہے کہ غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں۔
تو یہ ہم سب کا ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو بھی وحی کی جاتی آپ اسے اپنی امت تک پنہچا دیتے۔حتی کہ قرآن بھی اسکا شاھد ہے کہ اللہ تعالی نے دین مکمل کر دیا اور یہ تکمیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہوئی۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو غیب کی خبریں وحی کی جاتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو چھپاتے نہیں تھے بلکہ لوگوں کو بیان کر دیتے تھے۔ اس آیت مبارکہ کا یہی مطلب ہے جس میں تحریف کر کے اسکا غلط مطلب لیا جاتا ہے۔
اللہ ہم سب کو قرآن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ﴿24
اور وہ غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں ہے۔ (24)
یہ آیت مبارکہ اپنی تفسیر خود ہے اگر اسے غور سے پڑھا جائے تو اس آیت سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت میں غیب جاننے کا کوئی لفظ موجود نہیں بلکہ یہ ہے کہ غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں۔
تو یہ ہم سب کا ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو بھی وحی کی جاتی آپ اسے اپنی امت تک پنہچا دیتے۔حتی کہ قرآن بھی اسکا شاھد ہے کہ اللہ تعالی نے دین مکمل کر دیا اور یہ تکمیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہوئی۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو غیب کی خبریں وحی کی جاتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو چھپاتے نہیں تھے بلکہ لوگوں کو بیان کر دیتے تھے۔ اس آیت مبارکہ کا یہی مطلب ہے جس میں تحریف کر کے اسکا غلط مطلب لیا جاتا ہے۔
اللہ ہم سب کو قرآن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
مزید دلائل کے لیے اس لنک پر کلک کریں
https://www.scribd.com/document/371632567/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%BA%DB%8C%D8%A8-%DA%A9%D9%88%D9%86
https://www.scribd.com/document/371632567/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%BA%DB%8C%D8%A8-%DA%A9%D9%88%D9%86
Last edited by a moderator: