شاذ قراء ت سے مراد
شاذ،
شَذَّ الرَّجُلُ شُذُوذًا سے ہے، جس کا معنی ہے کسی قوم اور جماعت سے الگ ہونا۔ ابن منظوررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس لفظ میں بھی (ش ذ ذ) کے حروف ہوں تو اسمیں انفرادیت کا معنی پایا جاتا ہے اور
شَذَّ الرَّجُلُ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص اپنے ساتھیوں سے منفرد ہو جائے اور ہر منفرد کو شاذ کہتے ہیں۔
قراء تِ شاذہ کے بارے میں ہمیں مختلف اصطلاحی تعریفیں ملتی ہیں۔
بعض علما فرماتے ہیں کہ ’شاذ‘ سے مراد وہ قراء ت ہے جو عربی قواعد کے موافق ہو اور اس کی سند صحیح ہو، لیکن وہ رسم عثمانی کے مخالف ہو۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر وہ قراء ت شاذ ہے جو قراء اتِ عشر کے علاوہ ہو۔
اس تعریف پر علماء نے اعتراض کیا ہے۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ قراء ت جو خبرو احد سے منقول ہو، کیا وہ قرآن ہے یا نہیں؟ تو کہا جاتا ہے کہ جو متواتر نہیں وہ قرآن بھی نہیں۔ علمائے اُصول بھی کہتے ہیں کہ قراء اتِ سبعہ وعشرہ ساری کی ساری متواتر ہیں، جبکہ معاملہ ایسا نہیں بلکہ قراء اتِ سبعہ وعشرہ میں سے ہر قراء ت بطور خبر واحد ہی نقل ہوئی ہے (خبر واحد نقل ہونے سے نواب صاحب کی مراد وہ قراء ات ہیں جو آحاد کی طرف منسوب ہو گئی ہیں جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ امام ابن کثیرؒ کی قراء ت، امام ابو عمرو بصریؒ کی قراء ت وغیرہ وغیرہ) اور قرا کی ایک جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان میں سے بعض متواتر ہیں اور بعض آحاد۔ بلکہ قرائے کرام میں سے کوئی بھی تمام کی تمام قراء اتِ سبع کو متواتر نہیں کہتا، کجا یہ کہ قراء اتِ عشرہ کے بارے میں کہا جائے کہ یہ ساری کی ساری متواتر ہیں … المختصر ہر وہ قراء ت جو مصاحف میں موجود ہو اور مشہور قرا نے اس پر اتفاق کیا ہو تو وہ قرآن ہے اور جس میں ان کا اختلاف ہے تو اگر وہ قراء ات رسم عثمانی اور معنی عربی کے موافق ہیں تو قرآن ہیں اور اگر بعض رسم عثمانی کے موافق نہیں تو اگر تو انکی سند صحیح ہے اور وہ معنی عربی کے بھی موافق ہیں تو وہ ’قراء اتِ شاذہ‘ ہیں۔‘‘
نواب صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر وہ قراء ت جو قراء اتِ عشر کے علاوہ ہو، شاذ ہوتی ہے بلکہ قراء اتِ عشر کے علاوہ بھی کچھ قراء ات ایسی ہو سکتی ہیں جو متواتر ہوں ۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر وہ قراء ت جوقراء اتِ عشر میں شامل ہے وہ متواتر ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم
امام سیوطی رحمہ اللہ قراء تِ شاذہ کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں :
’’قراء تِ شاذہ وہ قراء ت ہے جس کی سند صحیح نہ ہو۔‘‘
ابھی تک قراء تِ شاذہ کی تین تعریفیں سامنے آئی ہیں کہ ’قراء تِ شاذہ‘ وہ ہے جس میں معروف تین ارکان میں سے کوئی رُکن رہ جائے یا پھر جو قراء اتِ عشر کے علاوہ ہو یا پھر جس کی سند صحیح نہ ہو۔
جہاں تک دوسری تعریف (یعنی وہ قراء ت جو قراء ات عشر کے علاوہ ہو) کا تعلق ہے تو اس کا ردّ نواب صاحبؒ نے کر دیا ہے۔ جبکہ تیسری تعریف (وہ قراء ت جس کی سند صحیح نہ ہو) بھی صحیح نہیں، اس کا ردّ امام سیوطی رحمہ اللہ نے خود ہی دوسرے مقام پر کر دیا ہے، فرماتے ہیں:
’’شاذ قراء ت وہ ہے جو عربی وجوہ میں سے کسی وجہ سے مخالف ہو یا رسم عثمانی کی مخالف ہو یا اس کی سند صحیح نہ ہو۔‘‘
لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن علما نے قراء اتِ شاذہ ان قراء ات کو کہا ہے جو قرائے عشر کی قراء ات کے علاوہ ہیں یا وہ ہیں جن کی سند صحیح نہیں، تو ان کا قول غیر مسلم ہے۔ اور قراء اتِ شاذہ کی صحیح تعریف یہ ہوگی: ہر وہ قراء ت جس میں قراء تِ صحیحہ کے تینوں معروف اَرکان میں سے کوئی رکن رہ جائے تو وہ ’قراء تِ شاذہ‘ ہے۔ اس کی تائید ائمہ کے درج ذیل اَقوال سے بھی ہوتی ہے:
امام اَبو شامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر کسی قراء ت میں تین ارکان میں کوئی رکن رہ گیا تو وہ قراء تِ شاذہ ہوگی۔ یہی قول ابو محمد مکی بن ابی طالب اور امام سخاوی رحمہما اللہ کا ہے۔‘‘
اَبو شامہؒ فرماتے ہیں:
’’قراء تِ شاذہ وہ ہے جو بطور قرآن مروی ہو لیکن نہ وہ متواتر ہو اور نہ ہی مشہور ہو جسے پوری اُمت قبول کرے۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قراء اتِ صحیحہ مقبولہ صرف وہی ہیں جو قراء اتِ عشرہ میں ہیں یا ان کے علاوہ بھی کوئی قراء ت صحیح ومقبول ہو سکتی ہے؟
امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ممکن ہے کہ صدور اوّل میں کوئی ایسی متواتر قراء ت بھی ہو جو قرائے عشر کی قراء ات کی علاوہ ہو۔‘‘
شیخ زرقانی رحمہ اللہ صاحب مناہل العرفان اس مسئلہ کو تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حسن بصری، ابن محیصن، یحییٰ یزیدی اور اعمش کی قراء توں کے بارے میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض متواتر ہیں، بعض کہتے ہیں کہ وہ صحیح ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ وہ شاذ ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ شخصیات اور عدد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ قراء اتِ صحیحہ کا ایک ضابطہ ہے، پس جس قراء ت میں بھی تین رُکن پورے ہو جائیں وہ قراء ت مقبول ہے اور اگر تین رکن پورے نہیں ہوتے تو وہ مردود ہے، اس معاملہ میں قراء اتِ سبعہ، عشرہ، اربعہ عشر اور ان کے علاوہ قراء ات میں کوئی فرق نہیں ۔ پس ہر قراء ت کیلئے ایک ہی میزان ہے جس کی اتباع کی جانی چاہئے۔ ‘‘
شیخ زرقانی رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ شخصیات اور اعداد کا نہیں یعنی یہ نہیں کہ قراء اتِ سبعہ صحیح ہیں یا قراء اتِ عشرہ صحیح ہیں یا امام نافع، ابن کثیر ، ابن عامر اور امام عاصم وغیرہ کی قراء ت صحیح ہے بلکہ اصل مسئلہ ضابطے کا ہے جو علما نے مقرر کیا ہے یعنی اگر کسی قراء ت میں تینوں ارکان پائے جائیں گے تو وہ قراء ت صحیح ومقبول ہوگی، ورنہ نہیں۔
امام ابن جزریؒ نے مکہ مکرمہ، مدینہ نبویہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے ۲۱ ائمہ کے حوالے سے کہا ہے:
’’قراء ت صحیحہ کا ضابطہ عام ہے جو کسی عدد یا شخصیت کے ساتھ خاص نہیں۔ پس ان قراء میں کسی قاری کی طرف کوئی قراء ت منسوب ہوگی تو ہم دیکھیں گے کہ اس میں قراء تِ صحیحہ کے تین ارکان پائے جاتے ہیں یا نہیں؟ اگر تینوں ارکان پائے جائیں گے تو ہم کہیں گے یہ قراء ت مقبول ہے اور اگر تینوں رُکن یا کوئی ایک رکن نہ پایا گیا تو وہ قراء ت غیر مقبول ہوگی چاہے خواہ سات قرا میں سے کسی کی قراء ت ہو یا دس قرا میں سے یا پھر چودہ قرا میں سے کسی کی۔ ‘‘
ابن جزریؒ امام ابن تیمیہ سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا:
’’جو قراء تیں ائمہ اعمشؒ، یعقوبؒ، خلفؒ، ابو جعفرؒ اور شیبہ بن نصاح وغیرہ سے ثابت ہیں وہ انہی قراء ات کی منزلت میں ہیں جو قرائے سبعہ سے ثابت ہیں اور اس بات میں ان فقہا اور قرا کا اختلاف نہیں ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے‘‘
اگر ہم ان قرا کے ناموں پر غور کریں جن کا امام ابن تیمیہؒ نے نام لیا ہے تو ان میں دو قاری ایسے ہیں جو قرائے سبع وعشر کے علاوہ ہیں اور وہ ہیں اعمش اور شیبہ … اور ابن تیمیہؒ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ فقہا جن کی پیروی کی جاتی ہیں انہوں نے ان کی اور ان کے علاوہ بعض ان قرا کی قراء ات کو بھی قبول کیا ہے جو قرائے سبع وعشر کے علاوہ ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس قسم کی قراء ات شاذ کی قبیل سے نہیں بلکہ وہ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’اکثر وہ علما جنہوں نے حمزہ (قراء سبعہ میں سے مشہور قاری) کا زمانہ پایا ہے جیسا کہ سفیان بن عیینہ اور احمد بن حنبل اور بشر بن حارث وغیرہ ہیں وہ جعفر بن قعقاع، شیبہ بن نصاح اور بصریوں کی قراء ات کو اختیار کرتے تھے۔‘‘
تو سلف صالحین کا قراء اتِ عشر کے علاوہ قراء ات کو اختیار کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قراء اتِ عشر یا ان کے علاوہ قراء ات میں اگر تینوں معروف ارکان جمع ہوجائیں تو وہ قراء ات صحیح اور مقبول ہوں گی، اس بناء پر نہیں کہ وہ قرائے سبع یا عشر کی قراء ات ہیں بلکہ اس بنا پر کہ ان میں قراء اتِ صحیحہ کی تمام شرائط پوری ہو گئی ہیں۔