اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے دربار میں جادوگروں سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے رسیوں کو سانپوں میں تبدیل کیا ۔ یہ کیسا ہوا کیونکہ کسی چیز میں جان ڈالنے والی ذات تو اللہ کی ہے تو رسیوں کی ہئیت کیسے تبدیلی ہوئی کیا اس میں شیطان کا عمل دخل تھا۔
اس معاملہ کو جاننے کیلئے آپ کو قرآن کریم کے دو مقام پیش کرتا ہوں امید ہے تھوڑی سی توجہ سے بات سمجھ آجائے گی ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا مقام سورۃ الاعراف کا ہے ؛
قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ (111) يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ (112) وَجَاءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ (سورۃ الاعراف113)
ترجمہ :
فرعون کے وزیروں مشیروں نے فرعون سے کہا کہ موسیٰ اور اس کے بھائی کے معاملے کو التواء میں رکھو اور شہروں میں اپنے آدمی بھیج دو
جو ہر ماہر جادوگر کو اکٹھا کرکے تیرے پاس لے آئیں
چناچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے اور کہنے لگے : '' اگر ہم غالب رہے تو ہمیں کچھ صلہ بھی ملے گا ؟ ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جادوگروں کو چونکہ شاہی دربار سے بلاوا آیا تھا لہذا انہوں نے آتے ہی یہ سوال کردیا کہ انہیں ان کے ایسے بڑے مقابلہ کرنے کے عوض کچھ مزدوری بھی ملے گی ؟
اسی ایک بات سے ایک جادوگر اور ایک نبی کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ جادوگر جو کچھ کرتا ہے اپنے پیٹ کی خاطر کرتا ہے اور یہی اس کا پیشہ ہوتا ہے
اگر جادو گر کسی چیز کی حقیقت کو بدل سکتے تو انہیں حکومت سے پیسے مانگنے کی کیا ضرورت تھی ؟
رسیوں کو اگر فی الواقع سانپ بنانے پر قادر ہوتے تو رسیوں کو سونا بھی بنالیتے ؛؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا:
قَالَ أَلْقُوا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ (116(سورۃ الاعراف))
موسیٰ نے کہا '': تم ہی ڈالو۔ پھر جب انہوں نے (اپنی رسیاں وغیرہ) پھینکیں تو انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انہیں دہشت زدہ کردیا اور بڑا زبردست جادو بنا لائے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سورۃ طہ میں فرمایا :
قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى (66)
موسیٰ نے کہا '': تم ہی ڈالو '' پھر ان کے جادو کے اثر سے ایسا معلوم ہوتا تھا ان کی رسیاں اور لاٹھیاں یکدم دوڑنے لگی ہیں۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جادوگروں کا بہت بڑا جادو :۔ جادوگروں نے جب میدان میں اپنی لاتعداد لاٹھیاں اور رسیاں لا پھینکیں اور
جادو کے ذریعے لوگوں کی نظر بندی کردی تو لوگوں کو سارا میدان متحرک سانپوں سے بھرا ہوا نظر آنے لگا لوگ دہشت زدہ ہوگئے کیونکہ اس شاہی دنگل کے لیے جادوگروں نے اتنی تیاریاں کی تھیں کہ اتنے بڑے جادو کی سابقہ ادوار میں نظیر ملنا مشکل تھی۔
معلوم ہوا کہ جادو کسی چیز کی ماہیت کو نہیں بدلتا بلکہ محض فریبِ نظر اور فریبِ خیال ہے جادو گروں کی رسیاں اور لاٹھیاں واقعی سانپ نہیں بن گئی تھیں
بلکہ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ وہ سانپ کی طرح دوڑ رہی ہیں
سورة اعراف میں ہے : فَلَمَّا اَلْقَوْا سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاس۔ (اعراف۔ ١١٦) " پھر جب انہوں نے (اپنی رسیاں اور لاٹھیاں) ڈال دیں تو لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دیں۔ "
اور جہاں تک حضرت موسیٰ کا تعلق ہے قرآن کہتا ہے
یُخَیَّلُ اِلیْہِ ان کو ایسا خیال ہوا کہ جادوگروں کی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑ رہی ہیں۔ اور وہ بھی اس صورت میں کہ وہ پہلے ہی سے جانتے تھے کہ جو کچھ جادو گر پیش کرنے والے ہیں وہ محض جادو ہے نہ کہ حقیقۃً اشیاء کی قلب ماہیت۔ پھر یہ چیز بھی تھوڑی دیر کے لیے تھی اس کے بعد ان کا طلسم ٹوٹ گیا اور جادو کی یہ نظر بندی تھوڑی دیر ہی کے لیے ہوتی ہے اس کے بعد وہ غائب ہوجاتا ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں مقامات سے واضح ہے کہ انہوں نے نہ کچھ بنایا ، نہ کچھ بگاڑا ،،، بس چند لمحوں کیلئے لوگوں کی نظروں اور تخیل کو دھوکا دیا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔