علم سیکھنے اور سکھانے والے کی فضیلت:
ارشاد ربانی ہے:
"وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ'' (آل عمران:۷۹)
بلکہ وہ تو کہےگا تم سب رب کے ہوجاو،اسلیےکہ تم کتاب سکھایا اور پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابو موسی رض سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالی نے علم و ہدایت کی جو باتیں مجھ کو دی ہیں ان کی مثال زور دار بارش کی طرح ہے ،جو کسی زمین پر برسی ،جو زمین عمدہ تھی اس نے پانی چوس لیا،اور اس نے گھاس اور سبزی خوب اگائی اور بعض زمین سخت تھی اس نے پانی تھام لیا ،اللہ تعالی نے لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچایا ،انہوں نے اسے پیا اور جانوروں کو بھی پلایا اور کھیتی باڑی کی ۔اسی زمین کے بعض ایسے حصے میں بارش ہوئی جو صاف چٹیل تھی اس نے نہ تو پانی روکا نہ گھاس اگائی (بلکہ پانی اس پر سے بہہ کر نکل گیا) یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ پیدا کی اور جو اللہ تعالی نے مجھ کو دے کر بھیجا اس سے اسکو فائدہ ہوا ،اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو بھی سیکھایا۔ اور اس شخص کی مثال ہے جس نے اس پر سر ہی نہیں اٹھایا اور اللہ کی ہدایت جو میں دےکر بھیجا گیا ہوں اسے نہ مانا ۔(بخاری۔ ۷۹۔مسلم ۔۲۲۸۲)
اسی طرح دوسری حدیث میں آتا ہے ،عبداللہ بن مسعود رض سے مروی ہے نبی ﷺ نے فرمایا:
رشک صرف دو آدمیوں کی خصلتوں پہ کیا جائَے،ایک وہ آدمی جسے اللہ نے دولت دی اور وہ اسے نیک کاموں میں خرچ کرتا ہو،دوسرے اس پر جو کو اللہ نے قرآن و حدیث کا علم دیا ہو اور وہ اسکے موافق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو سکھاتا ہے،(بخاری،۷۳، مسلم ،۸۱۶)
یہ فضیلت ہے ان لوگوں کی جو دین کا علم حاص کرکے اسے آگے بھی پہنچاتے ہیں خود عمل کرکے دوسروں کو عمل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں ایسے لوگوں پہ رشک کرنا جائز ہے۔حسد نہ کی جائے کیونکہ حسد نیکیوں کو کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔قرب قیامت علم اٹھالیا جائے گا علم کو اٹھائے جانے کی کیفیت کیا ہوگی ؟وہ اس حدیث میں مذکور ہے۔
حضرت انس رض سے روایت ہے رسول اللہّ نے فرمایا ؛
قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ دین کا علم اٹھالیا جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی ،زنا عام ہوجائے گا ،اور لوگ شراب کثرت سے پییں گے ،مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت ہوگی،یہاں تک کی پچاس عورتوں کا نگران ایک مرد ہوگا۔( بخاری ،۸۱ مسلم، ۲۶۷۱)
حضرت عبداللہ بن عمرو رض کہتے ہیں میں نے آپّ کو فرماتے ہوئے سنا کہاکہ
اللہ تعالی [دین] کا علم بندوں سے چھین کر نہیں اٹھاتا بلکہ عالموں کو اٹھا کر علم اٹھاتا ہے ،یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے ،ان سے مسئلہ پوچھا جائے گا تو بغیر علم کے فتوی دیں گے،خود بھی گمراہ ہوں گے اوروں کو بھی گمراہ کریں گے۔(بخاری ۱۰۰۔مسلم۔ ۲۶۷۳)
اس طرح قیامت سے پہلے علم اٹھا لیا جائے گا آپ خود مشاہدہ کرسکتے ہیں کہاجکل کس طرح لوگ بغیر علم کے لوگوں کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور لوگ بھی انکھیں بند کرکے اندھی تقلید کیے جارہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ خود قرآن و حدیث کا مطالعہ کریںتاکہ گمراہ ہونے سے بچ جائے، اللہ کے رسولّ نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں تم ہرگز گمراہ نہ ہوں گے اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھام لیا تو وہ دو چیزیں ،قرآن و حدیث ہیں۔
آج ہماری گمراہی کی بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے قرآن وحدیث کو پس پشت ڈال دیا ہے لہذا ذلت و پسپائی ہمارا مقدر بن گئی ہے۔
حمید بن عبد الرحمن رض فرماتے ہیں انہوں نے معاویہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ا
للہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتاہے،نیز اللہ تعالی دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں اور یہ امت غالب ہی رہے گی ،یہاں تک کہ امر آجائےاور وہ اس وقت بھی غالب رہیں گے ۔( بخاری،۳۱۱۶، مسلم، ۱۰۳۷)
حضرت عثمان رض سے روایت ہے نبیﷺ نے فرمایا :
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔(بخاری ،۵۰۲۷)
دین کے علم حاصل کرنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے یہاں میں نے اختصار کے ساتھ بیان کی ہیں ،جن مجلسوں میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے ان مجلسوں کے بارے میں حدیث میں آتا ہے ۔
حضرت ابو ھریرہ اور ابو سعید خدری رض نے اس بات کی گواہی دی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
جب کچھ لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے ان کو ڈھانپ لیتے ہیں اوراللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ،اور ان پہ سکینت نازل ہوتی ہےاور اللہ تعالی ان کا ذکر ان لوگوں میں کرتا ہے،جو اس کے پاس ہیں (یعنی فرشتوں میں)(مسلم،۲۷۰۰)
علم ایک عبادت ہے اور عبادت کی دو شرطیں ہیں ایک یہ کہ وہ عبادت اللہ کے لیے خاص ہواور دوسری یہوہ سنت کے مطابق ۔علماء انبیاء کے وارث ہیں ،علوم کی کئی اقسام ہے لیکن سب سے افضل علم وہ ہے جو انبیاء و رسل لے کر آئے ۔یعنی اللہ کی ذات،اسکے اسماء و صفات اور افعال اور اس کے دین و شریعت کی معرفت۔
خلاصہ:
مندرجہ بالاا دلائل سے علم کی فضیلت واضح ہوگئی ہیں لیکن اس کو بیان کرنے کو مقصد یہ نہیں کہ دنیا کا علم حاصل نہ کریں نہیں بلکہ وہ علم بھی بے انتہا ضروری ہے ،لیکن دنیا کے علم کے ساتھ دنیاوی علم کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے آجکل کے والدین بچوں کی دنیاوی تعلیم کی طرف تو بہت توجہ دیتے لیکن دینی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ آج کے بچے دین سے دور ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جائے تاکہ ان کی اخلاقی قدریں بہتر ہوں اور وہ ایک اچھے اور با اخلاق انسان بن سکے معاشرے کےلیے بہتر رول ماڈل کا کردار ادا کرسکے۔اللہ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں باعمل مسلمان بنائے اور ہر معاملے میں اللہ اور اسکے رسول کی تعلیمات پر چلنے والا بنائے آمین
(وما علینا الا البلغ المبین۔واللہ اعلم)