ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 620
- ری ایکشن اسکور
- 193
- پوائنٹ
- 77
عمار کو قتل کرنے والا باغی گروہ خود سیدنا علی کے لشکر میں موجود مالک اشتر جیسے فتنہ پرور افراد کا گروہ تھا
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لَهُ، وَلِعَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: ائْتِيَا أَبَا سَعِيدٍفَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ فَأَتَيْنَاهُ، وَهُوَ وَأَخُوهُ فِي حَائِطٍ لَهُمَا يَسْقِيَانِهِ فَلَمَّا رَآنَا جَاءَ فَاحْتَبَى وَجَلَسَ، فَقَالَ: كُنَّا نَنْقُلُ لَبِنَ الْمَسْجِدِ لَبِنَةً لَبِنَةً، وَكَانَ عَمَّارٌ يَنْقُلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فمر بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسَحَ عَنْ رَأْسِهِ الْغُبَارَ، وَقَالَ:" وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ عَمَّارٌ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی ‘ کہا ہم سے خالد نے بیان کیا عکرمہ سے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے اور (اپنے صاحبزادے) علی بن عبداللہ سے فرمایا تم دونوں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان سے احادیث نبوی سنو۔ چنانچہ ہم حاضر ہوئے ‘ اس وقت ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے (رضاعی) بھائی کے ساتھ باغ میں تھے اور باغ کو پانی دے رہے تھے ‘ جب آپ نے ہمیں دیکھا تو (ہمارے پاس) تشریف لائے اور (چادر اوڑھ کر) گوٹ مار کر بیٹھ گئے ‘ اس کے بعد بیان فرمایا ہم مسجد نبوی کی اینٹیں (ہجرت نبوی کے بعد تعمیر مسجد کیلئے) ایک ایک کر کے ڈھو رہے تھے لیکن عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں لا رہے تھے ‘ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے اور ان کے سر سے غبار کو صاف کیا پھر فرمایا افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی ‘ یہ تو انہیں اللہ کی (اطاعت کی) طرف دعوت دے رہا ہو گا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔
[صحيح البخاري، حدیث نمبر: ۲۸۱۲]
یہ روایت ایک عرصے سے رافضی اور نیم رافضی عناصر کی طرف سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ پر اعتراض کی بنیاد کے طور پر پیش کی جاتی رہی ہے۔ اس غیر صریح، مجمل اور محتمل روایت سے اپنی مرضی کا مفہوم اخذ کر کے رافضی اور نیم رافضی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کو باغی قرار دیتے ہیں۔
حالانکہ:
- اس حدیث کی بنیاد پر کسی صحابی نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کو باغی نہیں کہا۔
- اس حدیث کی بنیاد پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ سمیت آلِ رسول کے کسی فرد نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کو باغی نہیں کہا۔
- اس حدیث کی بنیاد پر کسی تابعی نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کو باغی نہیں کہا۔
- اس حدیث کی بنیاد پر کسی تبع تابعی نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کو باغی نہیں کہا۔
- اس حدیث کی بنیاد پر ائمہ اربعہ میں سے کسی امام نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کو باغی نہیں کہا۔
لیکن اگر اس حدیث کو مکمل سیاق و سباق میں اور تاریخی واقعات کی روشنی میں پرکھا جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ باغی گروہ دراصل وہ تھا جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی اور ان کے قتل کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔
حدیثِ عمار میں باغی گروہ کا ذکر آیا ہے، مگر اس کی صراحت نہیں کی گئی کہ وہ کون ہوگا؟ اس کی تعیین کے لیے تاریخ میں نظر دوڑانا ضروری ہے۔
قال ابو عبد الله: وقال لنا: محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، حدثنا الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن عبيد الله بن عدي بن خيار، انه دخل على عثمان بن عفان رضي الله عنه وهو محصور، فقال: إنك إمام عامة، ونزل بك ما نرى، ويصلي لنا إمام فتنة ونتحرج، فقال:" الصلاة احسن ما يعمل الناس، فإذا احسن الناس فاحسن معهم، وإذا اساءوا فاجتنب إساءتهم"،
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام زہری نے حمید بن عبدالرحمٰن سے نقل کیا۔ انہوں نے عبیداللہ بن عدی بن خیار سے کہ وہ خود عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ جب کہ باغیوں نے ان کو گھیر رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہی عام مسلمانوں کے امام ہیں مگر آپ پر جو مصیبت ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر گنہگار نہ ہو جائیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا نماز تو جو لوگ کام کرتے ہیں ان کاموں میں سب سے بہترین کام ہے۔ تو وہ جب اچھا کام کریں تم بھی اس کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو۔
[صحيح البخاري، حدیث نمبر: ۶۹۵]
دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، اور بعض لوگوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں تردد ظاہر کیا۔
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خُلَيٍّ، ثنا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُبَيْدَ اللهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ، وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُصَلِّي لِلنَّاسِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنِّي أَتَحَرَّجُ فِي الصَّلَاةِ مَعَ هَؤُلَاءِ، وَأَنْتَ مَحْصُورٌ، وَأَنْتَ الْإِمَامُ، فَكَيْفَ تَرَى فِي الصَّلَاةِ مَعَهُمْ؟ فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: " إِنَّ الصَّلَاةَ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ فَإِذَا أَحْسَنُوا فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ، وَإِذَا أَسَاؤُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ "
عبید اللہ بن عدی بن خیار فرماتے ہیں کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اس حال میں کہ وہ محصور تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین ! میں ان لوگوں کے ساتھ نماز میں حرج محسوس کرتا ہوں اور آپ کا گھیرا کیا ہوا ہے حالاں کہ آپ امام ہیں، ان کے ساتھ نماز پڑھنے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: نماز اچھا کام ہے جب تک لوگ کریں۔ جب وہ اچھائی کریں تو آپ بھی ان کے ساتھ مل کر اچھائی کرو اور جب وہ برائی کریں تو آپ ان سے بچ جاؤ۔
[السنن الكبرى البيهقي، حدیث نمبر: ٥٨٥٦]
یہ واضح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کرنے والے اصل باغی تھے جنہوں نے انہیں محصور کیا پھر انہیں شہید کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْغِطْرِيفِيُّ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو خَلِيفَةَ، ثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الْحَوْضِيُّ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ، ثَنَا مُجَالِدٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: لَقِيَ مَسْرُوقٌ الْأَشْتَرَ، فَقَالَ: مَسْرُوقٌ لِلْأَشْتَرِ: «قَتَلْتُمْ عُثْمَانَ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «أَمَا وَاللهِ لَقَدْ قَتَلْتُمُوهُ صَوَّامًا قَوَّامًا»
مسروق رحمہ اللہ کی ملاقات اشتر (مالک بن حارث النخعی) سے ہوئی، تو مسروق نے اشتر سے پوچھا: کیا تم نے عثمان (رضی اللہ عنہ) کو قتل کیا؟ اشتر نے جواب دیا: "ہاں۔"
تو مسروق نے کہا: والله! تم نے انہیں اس حال میں قتل کیا کہ وہ روزہ رکھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج : ١، ص : ٥٧]
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے، اور وہ اسی لشکر کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اگر حدیثِ عمار کے مطابق انہیں قتل کرنے والا ایک باغی گروہ ہوگا، تو پھر یہ لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ باغی گروہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود مالک اشتر جیسے فتنہ پرور افراد تھے جنہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کر انہیں شہید کیا، نہ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا لشکر۔
جب حدیثِ عمار کی غلط تاویل کر کے بعض لوگوں نے کہا کہ اس میں "باغی گروہ" سے مراد اہلِ شام یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ ہے، تو اہل سنت کے ثقہ عالم کا اس تعلق سے جواب ملاحظہ فرمائیں :
١٠١٦ - عبد الرَّحْمَن بن إِبْرَاهِيم الدِّمَشْقِي وَيعرف بدحيم أَبُو سعيد ثِقَة كَانَ يخْتَلف إِلَى بَغْدَاد سمعُوا مِنْهُ فَذكرُوا الفئة الباغية هم أهل الشَّام فَقَالَ من قَالَ هَذَا فَهُوَ بن الفاعلة
عبدالرحمٰن بن ابراہیم الدمشقی، جنہیں دُحَیم کے نام سے جانا جاتا ہے، ابو سعید جو ثقہ راوی تھے وہ بغداد جایا کرتے تھے، اور وہاں کے لوگوں نے ان سے روایت سنی۔ ایک موقع پر جب بعض افراد نے کہا کہ "الفئة الباغية" یعنی باغی گروہ سے مراد اہلِ شام (سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ) ہیں، تو امام دُحَیم نے فرمایا: "جو یہ کہے، وہ فاعلہ (بدکاری کرنے والی فاحشہ عورت) کی اولاد ہے۔"
[الثقات للعجلي، ج : ٢، ص : ٧٢]
یہ الفاظ کسی بھی شخص کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ تاریخ کو درست سیاق میں سمجھے۔ عمار رضی اللہ عنہ کو جس گروہ نے قتل کیا، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل اشتری ٹولا تھا جو وہیں موجود تھے۔
نتیجتاً یہ واضح ہوتا ہے کہ حدیثِ عمار کا درست اطلاق وہی ہے جو تاریخی حقائق سے ثابت ہو، اور وہ یہ ہے کہ باغی گروہ دراصل وہی مالک اشتر منافق اور اس کے ساتھی بلوائیوں کا گروہ تھا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف کھڑا ہوا، انہیں شہید کیا، اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔ لہٰذا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ پر اس حدیث کو لاگو کرنا تاریخی اور علمی طور پر غلط ہے۔
یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے صرف دیانت داری کے ساتھ قرآن و سنت اور تاریخ کے اصل مصادر کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے، نہ کہ رافضی اور نیم رافضی تحریفات کے ذریعے۔