• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عوام سے اربوں روپے لوٹنے کا نیا طریقہ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
عوام سے اربوں روپے لوٹنے کا نیا طریقہ


نسیم شاھد
21 فروری 2015

محترمہ نے پہلے مجھے فیس بک پر ان بکس میسج کیا، پھر فون نمبر مانگا۔ تھوڑی دیر بعد ان کی کال آئی تو کہنے لگیں: ’’کبھی سیاست سے ہٹ کر بھی کسی موضوع پر لکھیں‘‘۔۔۔

مَیں نے کہا پاکستان میں سیاست اور سماج ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو چکے ہیں، ایک کا تانابانا دوسرے سے جا ملتا ہے، اس لئے سیاست کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

فرمانے لگیں: ’’آپ درست کہتے ہیں، مگر عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر بھی نگاہ ڈالیں‘‘۔

مَیں نے پھر ڈھٹائی سے جواب دیا، سیاست پر لکھنے کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اسے ہدف بنایا جائے۔ خیر زچ ہو کر وہ براہ راست اپنے اصل موضوع پر آ گئیں۔

انہوں نے کہا عوام سے آٹھ ارب روپے نکلوانے کی جو سازش ہو رہی ہے، اس پر کبھی آپ نے غور کیا؟۔۔۔

مَیں چونکا، ویسے تو ہر وقت کوئی نہ کوئی حکومتی محکمہ یا ملک میں موجود ڈبل شاہ عوام سے ڈکیتی کے ذریعے مال ہتھیاتا ہی رہتا ہے، مگر مجھے سمجھ نہ آئی کہ محترمہ کس ڈکیتی کی بات کر رہی ہیں۔

مَیں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آج کل موبائل فون سم کی بائیو میٹرک تصدیق کا جو سیاپا جاری ہے، اسے حکومتی شہ پر موبائل کمپنیوں نے اربوں روپے کی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ہر سم کی تصدیق پر 10 روپے کس اصول یا ضابطے کے تحت عوام سے وصول کئے جا رہے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 40 کروڑ سمیں جاری ہو چکی ہیں، تقریباً 10کروڑ موبائل فون کے صارفین ہیں، جنہوں نے ایک سے زائد سمیں لے رکھی ہیں۔ یوں وہ سب تصدیق کے لئے چار ارب روپے ان کمپنیوں کو بھتہ دیں گے، حالانکہ یہ ذمہ داری ان کمپنیوں کی ہے کہ یہ اپنی جاری سمیں تصدیق کریں۔ اس کا بوجھ عوام پر کیوں ڈالا جا رہا ہے؟

محترمہ نے اسی پر بس نہیں کیا، بات نادرا تک لے گئیں، جس کے پاس کروڑوں پاکستانیوں کا بائیومیٹرک ڈیٹا ہی نہیں۔ وہ جب موبائل فون کمپنیوں سے انگوٹھے کی تصدیق کرانے جاتے ہیں تو نادرا کے ریکارڈ میں ان کی موجودگی کا پتہ نہیں چلتا، پھر نادرا والے ان سے فارم کے دس روپے مزید لے کر بائیومیٹرک کرتے ہیں، تب جا کے دوبارہ موبائل فون کمپنی کی فرنچائز پر سم کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہ اتنی اذیت ناک مشق ہے کہ خواتین، بوڑھوں اور ملازمت پیشہ افراد کے لئے اس سے گزرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ گویا بیٹھے بٹھائے عوام پر ایک اور عذاب مسلط کر دیا گیا ہے۔ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے لوگ اکثر اوقات زائد قیمت دے کر تصدیق کرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو بائیومیٹرک تصدیق کا ریٹ 50 روپے سے بھی زائد ہو چکا ہے۔ آپ اس پر بھی لکھیں اور حکومت سے کہیں کہ کمپنیوں نے عوام سے جو اربوں روپے تصدیق کے نام پر لئے ہیں، وہ ہر کنکشن رکھنے والے کو بیلنس کی صورت میں واپس کئے جائیں۔ وہ محترمہ تو یہ بات سنا کر رخصت ہو گئیں، مگر مجھے کئی خیالات کے سپرد کر گئیں۔ مَیں سوچتا رہ گیا کہ اس ملک کے عوام وہ عضوِ ضعیف ہیں،جن پر نزلہ گرتا ہے۔ گھوم پھر کر انہی کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ اگر حکومت بائیومیٹرک تصدیق کرانا ہی چاہتی تھی تو اس کے لئے پہلے ایک نظام وضع کرنا ضروری تھا۔ موبائل کمپنیوں اور نادرا کے درمیان میکنزم بھی بنایا جانا چاہیے تھا، مثلاً اگر کسی کا بائیو میٹرک ڈیٹا نادرا کے پاس نہیں تو موبائل فون کمپنیاں جو تصدیق کر رہی ہیں، اس کو نادرا کے ڈیٹا سے منسلک کر دیا جانا چاہیے تھا، تاکہ مارے مارے پھرنے کی زحمت سے تو بچا جا سکتا۔

جہاں تک بائیومیٹرک سم کی تصدیق کے لئے 10 روپے فیس مقرر کرنے کا تعلق ہے، تو یہ ایک سیدھی سادی بھتہ خوری ہے۔ موبائل فون صارفین پہلے ہی ہر کارڈ پر سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ کمپنیاں اربوں روپے کما رہی ہیں، سمیں ان کی اپنی ملکیت ہیں، خود انہوں نے پہلے جاری کی ہیں، ایک تو عوام ان کی تصدیق کے لئے قطاروں میں لگیں اور دوسرا 10 روپے بھی دیں۔ سائیکل یا کار پارکنگ کے لئے ٹوکن بھی لیں اور لمبا انتظار بھی کریں۔ کروڑوں صارفین سے اربوں روپے نکلوانے کی منظوری کس نے دی ہے، اس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں۔ پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دس روپے فی سم تصدیق کے نام پر جو کروڑوں روپے روزانہ وصول کئے جا رہے ہیں، ان پر حکومت کو کوئی ٹیکس بھی نہیں مل رہا اور وہ براہ راست کمپنیوں یا ان کے فرنچائزر کی جیبوں میں جا رہے ہیں۔ گویا مفت میں ایک اضافی آمدنی کا دروازہ کھل گیا ہے۔کیا پی ٹی اے کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اس لوٹ مار کو روکتی۔ ایک شخص جس کے پاس چار کمپنیوں کی موبائل سمیں ہیں، چار مختلف جگہوں پر جا کر 40 روپے خرچ کر کے تصدیق کرانے پر مجبور ہے۔ کیا ایسا نظام نہیں بنایا جا سکتا تھا کہ ایک ہی جگہ چاروں سموں کی تصدیق ہو جاتی۔ ایسا شائد اس لئے نہیں کیا گیا کہ چار مختلف جگہوں پر صارفین سے علیحدہ علیحدہ تصدیق کی فیس وصول کی جا سکے۔

ابھی یہ سوال اپنی جگہ حل طلب ہے کہ کیا اتنی بڑی مشق کے بعد دہشت گردی کے حوالے سے جاری مہم پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ کیا دہشت گردی رک جائے گی۔ کیا واقعی دہشت گردی میں سارا کیا دھرا انہی موبائل سموں کا ہے؟ ٹیکنالوجی تو کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے۔ براہ راست سم نمبر سے بات کرنے کی بجائے، اب سکائپ، وائبر اور مسینجر جیسے ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں۔ دہشت گرد اپنے کوڈورڈز کو بھی زیادہ مشکل بنا سکتے ہیں، جنہیں خفیہ ادارے سمجھ ہی نہ سکیں۔ پنجاب حکومت نے دہشت گردوں کے دس سہولت کاروں کی فہرست جاری کر کے ان کے سروں کی قیمت مقرر کر دی ہے۔ ایسے اور نجانے کتنے سہولت کار ہوں گے جو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں، اصل کام تو ان کا کھوج لگانا ہے۔ ہم نے اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط بنانا ہے۔ ذرائع کے مطابق لاہور کے حالیہ دھماکے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خودکش حملہ آور کو ایک شخص موٹرسائیکل پر بٹھا کر یہاں تک لایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کا تعلق لاہور سے ہی ہے، کیونکہ قبائلی علاقے سے یہاں تک تو اس دہشت گرد کو موٹرسائیکل پر نہیں لایا جا سکتا۔ کیا دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ موبائل سموں کی بائیومیٹرک تصدیق ہو رہی ہے، کیا اس کے بعد بھی وہ دہشت گردی کے لئے یہی ذریعہ اختیار کریں گے؟

وہ کانسٹیبل محمد نواز جیسے بے وقوف تو ہرگز نہیں ہو سکتے جو ریلوے ہیڈکوارٹر لاہور سے ملازمین کی تنخواہوں کے چار کروڑ روپے لوٹ کر فرار ہو گیا تھا، لیکن پکڑا اپنی اس بے وقوفی کی وجہ سے گیا کہ اپنی وہی سم استعمال کر رہا تھا، جس کا نمبر محکمے اور جاننے والوں کے پاس ہو گا۔ پکڑے جانے پر جب مَیں نے اس سے پوچھا کہ اس نے یہ بے وقوفی کیوں کی؟ تو اس نے بہت دلچسپ جواب دیا جو اس کی بے وقوفی کے ساتھ ساتھ غربت کی سوچ کو بھی آشکار کر رہا تھا۔ اس نے کہا کہ سم میں چونکہ 75 روپے کا بیلنس موجود تھا، اس لئے مَیں نے سوچا کہ اسے ختم کر لوں، اس لئے وہ سم بند نہیں کی، جس بندے کے پاس 4 کروڑ روپے پڑے ہوں اور صرف 75روپے کا بیلنس استعمال کرنے کے لئے موبائل سم نہ بدلتا ہو، اسے بھولے بادشاہ ہی کہا جائے گا، مگر یہ سفاک دہشت گرد بھولے بادشاہ نہیں ہیں۔ یہ بہت سفاک ہیں اور حالات کے مطابق وار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے اگر ہمارے ادارے صرف سموں کی بائیومیٹرک تصدیق تک محدود رہتے ہیں اور زمینی سطح پر اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو شاندار نہیں بناتے تو پھر کامیابی ایک خواب کے سوا اور کچھ نہیں۔

درجہ بدرجہ قائم کئے جانے والے قومی ادارے اس لئے بنائے گئے ہیں کہ وہ عوام کے مفادات کا تحفظ کریں، مگر دیکھا یہی گیا ہے کہ عوام کسی سرکاری ادارے کے لئے پہلی ترجیح نہیں ہیں۔ وزارت داخلہ نے پی ٹی اے کو حکم جاری کیا کہ تمام موبائل سموں کی بائیومیٹرک تصدیق کرائی جائے۔ پی ٹی اے نے آگے موبائل کمپنیوں کو ہدایات جاری کر دیں اور کمپنیوں نے نادرا کے ساتھ مل کر سارا بوجھ اپنے صارفین پر ڈال دیا۔ گویا اصل قصور وار یہی لوگ تھے، جنہیں موبائل کمپنیوں نے بغیر تصدیق کئے کروڑوں سمیں جاری کیں اور کھربوں روپے ان کی جیبوں سے نکلوائے،حالانکہ پی ٹی اے کو ہدایت جاری کرنی چاہیے تھی کہ تمام کمپنیاں مختلف ٹیمیں تیار کر کے گھر گھر سموں کی بائیو میٹرک تصدیق کے لئے خود جائیں اور یہ سہولت مفت فراہم کریں۔ پاکستانی عوام جیسے اللہ لوک قسم کے شہری چونکہ پوری دنیا میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتے ، اس لئے ہر کوئی انہیں بے وقوف بنا کر لوٹنا اپنا فرضِ اولین سمجھتا ہے۔

ح

موبائل فون سمز کی تصدیق ، نیا مسئلہ درپیش
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سننے میں یہ آیا ہے کہ :
ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں نے تصدیق کے آلات ملک بھر میں موجود شاخوں کو مفت تقسیم کیے ہیں ، کمپنی کی طرف سے ایک روپیہ بھی تصدیق کے لیے مقرر نہیں کیا گیا ، البتہ مشین استعمال کرکے تصدیق کرکے دینے والے شاخوں کےمالکان ، حسب منشا 10 ، 20 یا اس سے زائد روپے اپنی محنت مزدوری کے عوض میں لیتے ہیں ۔
 
Top