• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عوام کے لیے

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
عوام کے لیے​

یہ ماننا پڑے گا ملک کے 80 فیصد لوگ معاشی دباؤ کا شکار ہیں، آمدنی کم ہے اور اخراجات زیادہ ، مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے، ضروریات زندگی عوام کے ہاتھوں سے نکل چکی ہیں، بیماریاں بڑھ رہی ہیں، بے روزگاری تاریخی سطح کو چھو رہی ہے اور لوگ مر مر کر روح اور بدن کا رشتہ قائم رکھ رہے ہیں، ہمیں یہ حقیقتیں ماننا ہوں گی لیکن سوال یہ ہے، ان مسائل کا حل کیا ہے؟ کیا دنیا کی کوئی حکومت، کوئی حکمران عوام کو ان مسائل سے نکال سکتی ہے۔

کیا علامہ طاہر القادری یا عمران خان بجلی سستی کر سکتے ہیں؟

یہ گیس، پٹرول، آٹا، گھی، چاول اور دالیں سستی کر سکتے ہیں؟

کیا یہ ساڑھے چار کروڑ بے روزگاروں کو سرکاری نوکریاں دے سکتے ہیں؟

کیا یہ دو کروڑ غریبوں اور مسکینوں کو زندگی بھر وظیفہ دے سکتے ہیں؟

کیا یہ خوفناک بیماریوں کے شکار چالیس پچاس لاکھ مریضوں کا مفت علاج کر سکتے ہیں؟

اور کیا یہ مرتے ہوئے سرکاری اداروں میں روح پھونک سکتے ہیں؟

اس کا جواب ہے، نہیں!

عمران خان اور علامہ طاہر القادری تو ایک طرف دنیا کا بڑے سے بڑا لیڈر بھی عوام کے یہ مسئلے حل نہیں کر سکے گا،

آپ خود سوچئے وسائل جب صفر ہوں، ملک سے تیل نکلتا ہو اور نہ ہی سونا، صنعت دم توڑ رہی ہو، عوام کاروبار کے خلاف ہوں، لوگ اس تاجر، اس کاروباری شخص اور اس صنعت کار کو برا سمجھتے ہوں جو عوام کو نوکری بھی دیتا ہے اور حکومت کو ٹیکس بھی۔

آپ خود سوچئے بیس کروڑ لوگوں کا ملک ہو لیکن ٹیکس صرف دس لاکھ لوگ دیتے ہوں،

ملک کی معیشت کا دارومدار قرضے، امداد اور بھیک پر ہو،

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی قسط نہ ملے تو ملک ڈیفالٹ کے دھانے پر پہنچ جاتا ہو۔

آبادی وسائل اور ضرورت سے دس گنا زیادہ ہو، ملک صرف دو کروڑ لوگوں کا بوجھ سہہ سکتا ہو مگر لوگ 20 کروڑ ہوں،

کام کرنے والے لوگ کم ہوں اور کھانے والے زیادہ ہوں اور ایک ایک شخص نے بارہ بارہ لوگوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہو تو ملک کے مسائل کون حل کر سکتا ہے؟

ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی، خام مال مہنگا ہو چکا ہے، آپ جب سویا بین مہنگا خریدیں گے تو آپ سستا گھی کیسے بنائیں گے،

دالیں اور چاول مہنگے ہوں گے تو آپ یہ عوام کو سستا کیسے دیں گے؟

بجلی جب 18 روپے سے 32 روپے یونٹ بنے گی تو آپ یہ عوام کو گیارہ سے 14 روپے یونٹ کیسے دیں گے،

آپ کا بچہ جب صرف ڈگری لے گا، وہ اپنے اندر صلاحیت پیدا نہیں کرے گا تو اسے نوکری کون دے گا؟

لوگ اگر ذاتی کاروبار کے بجائے نوکریوں کے پیچھے بھاگیں گے تو مرتی ہوئی صنعتیں کتنے لوگوں کو ’’اکاموڈیٹ‘‘ کریں گی،

آپ جب بچیوں کو کام نہیں کرنے دیں گے اور آپ جب بچوں کو کام کی عادت نہیں ڈالیں گے تو پھر آپ کی معاشی حالت کیسے بدلے گی؟

ہماری معاشی ابتری ان تلخ سوالوں کے جواب پر لٹک رہی ہے اور ہم جب تک ان کا جواب تلاش نہیں کرتے ہم اس وقت تک اسی طرح درخت پر لٹک کر ہیلپ ہیلپ کی آوازیں لگاتے رہیں گے اور نام نہاد انقلابی ہمیں خوش فہمیوں کے تعویز دیتے رہیں گے۔

ہمارے عوام کو چند حقیقتیں سمجھنا ہوں گی، یہ جب تک یہ حقیقتیں نہیں سمجھیں گے، یہ اس وقت تک بحرانوں کے کیچڑ سے باہر نہیں نکل سکیں گے،

ہمارے عوام یہ بات پلے باندھ لیں، دنیا میں آج تک کوئی ملک، کوئی ریاست اور کوئی حکومت کسی غریب شخص کو امیر نہیں بنا سکی، انسان خود امیر بنتا ہے،

دنیا میں آج تک مہنگائی کم نہیں ہو سکی، چیز اگر ایک بار مہنگی ہو گئی تو پھر یہ کبھی سستی نہیں ہو سکتی

اور دنیا میں چیزیں مہنگی یا سستی نہیں ہوتیں، یہ افورڈ ایبل یا نان افورڈ ایبل ہوتی ہیں،

آپ اگر خرید نہیں سکتے تو چیز خواہ کتنی ہی سستی کیوں نہ ہو جائے آپ نہیں خرید سکیں گے

اور آپ اگر ’’افورڈ‘‘ کر سکتے ہیں تو نرخ کتنے ہی کیوں نہ بڑھ جائیں، آپ خرید لیں گے۔

چنانچہ آپ کو چیزوں کے سستے ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، آپ کو اپنی قوت خرید پر توجہ دینی چاہیے

اور دنیا میں 245 ممالک ہیں، ان میں سے صرف سات ممالک ویلفیئر اسٹیٹس ہیں اور ان ممالک میں بھی آبادی کم ہے، نوے فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں، آبادی کے 75 فیصد بالغ لوگ کام کرتے ہیں اور یہ تمام ممالک قدرتی اور انسانی وسائل سے بھی مالا مال ہیں، یہ ممالک صنعتی بھی ہیں، کاروباری بھی ہیں اور سرمایہ کار بھی ہیں لیکن ہم لوگ موجودہ حالات میں رہ کر پاکستان کو ویلفیئر اسٹیٹ دیکھنا چاہتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟

ہمیں اپنے زمینی حقائق میں رہ کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا اور یہ حل زیادہ مشکل نہیں ہیں۔

آپ سب سے پہلے کام کرنے والے لوگوں اور اداروں کی قدر کرنا شروع کریں،

آپ خود غور کیجیے آپ کے خاندان میں اٹھارہ افراد ہوں، ان 18 افراد میں سے صرف ایک شخص کما رہا ہو، باقی سترہ کھا بھی رہے ہوں اور ساتھ ساتھ اس شخص کو جوتے بھی مار رہے ہوں اور اسے زہر بھی دے رہے ہوں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

وہ شخص ہمت ہار جائے گا، وہ فوت ہو جائے گا یا پھر کام کرنا بند کر دے گا اور اس کے بعد باقی 17 لوگ بھی بھوکے مر جائیں گے،

ہمارے تاجر، بزنس مین، صنعت کار اور سرمایہ کار وہ اکیلا شخص ہیں جو پورے ملک کو پال رہے ہیں چنانچہ ہمیں ان کی قدر بھی کرنی چاہیے، ان کی حوصلہ افزائی بھی اور ان کا ہاتھ بھی بٹانا چاہیے،

فائیو اسٹار ہوٹل میں جب ایک نیا کمرہ بنتا ہے تو 127 لوگوں کی معیشت بہتر ہوتی ہے، انڈے دینے والی ایک مرغی 22 لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے

اور محلے کی ایک دکان چار سو لوگوں کے لیے منفعت بخش ہوتی ہے، آپ اگر انھیں بچائیں گے تو فائدہ بہرحال آپ کی ذات کو ہو گا، آپ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھائیں۔

ملک کے تمام کالج ڈرائیونگ اسکول بنائیں، اٹھارہ سال کے تمام بچوں کو ڈرائیونگ اسکول میں ڈرائیونگ کی تربیت دیں، ڈرائیونگ لائسنس اپلائی کرائیں اور یہ بچے ایف اے کے سر ٹیفکیٹ کے ساتھ کالج سے ڈرائیونگ لائسنس بھی لے کر نکلیں، ملک کے کسی نوجوان کو اس وقت تک بی اے کی ڈگری نہ دی جائے جب تک وہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہ کر لے، اس سے سرکاری ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا، نوجوان بھی باقاعدہ ڈرائیونگ سیکھیں گے اور حادثات میں بھی کمی آئے گی، ملک کے تمام کالجوں کو ایک ایک ’’ٹریڈ‘‘ دے دیا جائے، کالج کے نوجوان وہ ہنر سیکھ کر باہر نکلیں، آپ اگر والدین ہیں تو آپ بچوں کو عملی شعبوں میں اعلیٰ تعلیم دلائیں، آپ کا بچہ ڈگری لینے کے بعد نوکری تلاش کرنے کے بجائے اپنا کام شروع کرے۔

یہ یاد رکھیں تیسری دنیا میں کوئی شخص صرف نوکری سے امیر نہیں ہو سکتا، آپ کو خوش حالی کے لیے بہر حال کاروبار کرنا پڑتا ہے، آپ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھائیں، انسان کا بچہ چودہ سال کی عمر میں ’’اسٹیبل‘‘ ہو جاتا ہے، آپ چودہ سال کے بچوں کو اسکول کے بعد دو گھنٹے کے لیے کسی دکان، فیکٹری، اسٹور یا دفتر میں کام کروائیں، یہ دو گھنٹے بچے کو عملی بنا دیں گے، یہ اس کے اعتماد میں بھی اضافہ کریں گے، آپ خاندان پر بھی بوجھ ڈالیں، خواتین اور بچیاں گھروں میں بیٹھ کر درجنوں ایسے کام کر سکتی ہیں جن کی آمدنی سے کم از کم گھر کے بل ادا ہو سکتے ہیں، میں ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں جس کی خواتیں گھر میں کچے سموسے بناتی تھیں، بچے یہ سموسے دکانداروں کو سپلائی کرتے تھے، خواتین نے سموسوں کی کمائی سے بچے بھی پڑھائے اور گھر بھی چلائے۔

آپ کیرئیر پلاننگ بھی کریں، یہ باقاعدہ سائنس ہے۔ آپ جب بھی کوئی کام شروع کریں تو آپ اپنی کیرئیر فائل بنائیں، آپ اپنی زندگی کو ریٹائرمنٹ سے شروع کریں اور اس دن تک آئیں جس دن آپ نے کام شروع کیا، آپ فائل میں اپنی پروموشن، اپنی ترقی کے سال لکھیں اور ان کے سامنے ترقی کی کوالیفکیشن لکھیں اور پھر اس فائل کے مطابق زندگی گزاریں، آپ کے لیے زندگی آسان ہو جائے گی، دنیا میں صرف ایکسرسائز، متوازن خوراک، مثبت سوچ اورمحنت کے ذریعے اسی فیصد بیماریاں ختم ہو سکتی ہیں، آپ پورے خاندان کو یہ پانچ عادتیں ڈال دیں، آپ کے گھر کا ہیلتھ بجٹ کم ہو جائے گا، آپ جس طرح زکوٰۃ روک کر اپنی آخرت اکارت کر لیتے ہیں آپ بالکل اسی طرح ٹیکس نہ دے کر اپنی دنیا خراب کر لیتے ہیں، آپ اپنی آمدنی پر معقول ٹیکس دیں اور یہ ٹیکس خود جا کر ادا کریں، آپ کا ملک بھی بچ جائے گا اور آپ بھی ٹینشن سے نکل جائیں گے۔

یہ یاد رکھیں ہم دنیا میں جو اضافی دولت کماتے ہیں وہ بہر حال دنیا میں رہ جاتی ہے، ہم اگر خود اپنے ہاتھ سے اس میں سے کچھ حصہ ملک کو دے دیں گے تو ملک بھی ترقی کرے گا اور ہم بھی امن میں چلے جائیں گے اور آخری بات بچت انسان کے اعتماد میں اضافہ کرتی ہے، دنیا کے تمام ممالک شاید اس لیے زرمبادلہ کے ذخائر جمع کرتے ہیں، آپ بھی اگر اپنی آمدنی کا 25 فیصد حصہ جمع کر لیں اور پورے خاندان کو بچت کی عادت ڈال دیں تو آپ کے اعتماد میں اضافہ ہو جائے گا، ورنہ دوسری صورت میں آپ بھی ایک ایسے انقلاب کا انتظار کرتے رہیں جو آج تک دنیا میں آیا اور نہ ہی آئے گا، اللہ تعالیٰ انسان کو خالی ہاتھ زمین پر بھجواتا ہے اور خالی ہاتھ واپس لے جاتا ہے، ہمیں قدرت امیر یا غریب نہیں بناتی، ہم خود بنتے ہیں، ہم چاہیں تو بن جاتے ہیں اور نہ چاہیں تو نہیں بنتے خواہ ہم دنیا کے امیر ترین ملک میں کیوں نہ پیدا ہوں، لہٰذا محنت کریں اور اللہ سے اس محنت پر پھل لگانے کی دعا کریں، آپ انقلابوں کی دھند سے باہر آ جائیں گے۔

جاوید چودھری: منگل 14 ذیعقدہ 1435هـ - 9 ستمبر 2014م
 
Top