• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت کا مسجد میں نماز کے لیے جانا مکروہ ہے ۔ فقہ حنفی کی جھوٹی دلیل

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ لوگ کس طرح اپنے امام کی پوجا کرتے ہیں خود دیکھ لیں
اس پجاری نے یہ پیج پیش کیا
این اصل پیج دیکھتے ہیں
یہ لوگ کیسے لوگوں کو دھوکہ دیتے ھیں آپ خود دیکھ سکتے ہیں
یہ کسی ایک حدیث سے بھی ثابت نہیں کر سکتے کہ عورتوں کا مسجد نماز کے لیے جانا مکروہ ہے
اور ظلم یہ ہے کہ ایک طرف مکروہ کہتے ہیں اور دوسری طرف اجازت بھی دیتے ہیں
فیصلہ آپ کا اپنا

لنک
۔​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

یہ بھی دیکھ لیں کہ ان دھوکہ بازوں نے اپنے اوپر بھیجی گئی لعنت کو دوسروں پر منتقل کر دیا
مگر اب کو بھول گیا کہ امام عبدللہ بن مبارک کیا کہتے ہیں ام ابو حنیفہ کے بارے میں​
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ الحَنَّائِيُّ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الشَّافِعِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ السُّلَمِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبة الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : مَنْ نَّظَرَ فِي کِتَابِ الْحِیَلِ لِأَبِي حَنِیفَة أَحَلَّ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ، وَحَرَّمَ مَا أَحَلَّ اللّٰہُ .
(تاریخ بغداد : 13/426)​
''ہمیں محمد بن عبیداللہ حنائی نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں محمد بن عبد اللہ شافعی نے خبر دی، انہوں نے کہا : ہمیں محمدبن اسماعیل سلمی نے بیان کیا ، وہ بیان کرتے ہیں : ہمیں ابوتوبہ ربیع بن نافع نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے یہ بات بتائی کہ: جو شخص امام ابوحنیفہ کی
کتاب الحیل کا مطالعہ کرے گا ، وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کوحلال کہنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے لگے گا۔
اس روایت کی سند کے راویوں کے بارے میں ملاحظہ فرمائیے !​
1

امام ابوبکر احمد بن علی، المعروف خطیب بغدادی رحمہ اللہ ثقہ
امام ہیں۔
ان کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ یوں رقمطراز ہیں :
أَحَدُ الْحُفَّاظِ الْـأَعْلَامِ، وَمَنْ خَتَمَ بَہِ اتْقَانُ ہٰذَا الشَّأْنِ، وَصَاحِبُ التَّصَانِیفِ الْمُنْتَشِرَۃِ فِي الْبُلْدَانِ .

''آپ رحمہ اللہ ان علمائے کرام میں سے تھے جو حافظ الحدیث اور علامہ تھے۔ان پر علم کی پختگی ختم ہو گئی۔آپ کی بہت ساری تصانیف ہیں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔''
(تاریخ الإسلام للذہبي : 10/175)
2
محمد بن عبیداللہ بن یوسف حنائی کے بارے میں امام خطیب فرماتے ہیں
کَتَبْنَا عَنْہُ، وَکَانَ ثِقَۃً مَّأْمُونًا، زَاہِدًا، مُلَازِمًا لِّبَیْتِہٖ
ہم نے ان سے احادیث لکھی ہیں۔ وہ ثقہ مامون ، عابد و زاہد تھے اور اپنے گھر میں ہی مقیم رہتے تھے۔
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 3/336)
3
امام ابوبکر محمد بن عبد اللہ بن ابراہیم شافعی کے بارے میں ناقد رجال حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اَلْإِمَامُ، الْمُحَدِّثُ، الْمُتْقِنُ، الْحُجَّۃُ، الْفَقِیہُ، مُسْنِدُ الْعِرَاقِ . ''آپ امام ، محدث، راسخ فی العلم ، حجت ، فقیہ اور عراق کے محدث تھے۔''
(سیر أعلام النبلاء للذہبي : 16/40,39)
4
محمد بن اسماعیل سلمی ثقہ حافظ ہیں۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 5738)
5
ابو توبہ ربیع بن نافع ثقہ حجت ہیں۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 1902)
6
امام عبد اللہ بن مبارک ثقہ ، ثبت ، فقیہ ، عالم ، جواد اور مجاہد ہیں۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 3570)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ الحَنَّائِيُّ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الشَّافِعِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ السُّلَمِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبة الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : مَنْ نَّظَرَ فِي کِتَابِ الْحِیَلِ لِأَبِي حَنِیفَة أَحَلَّ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ، وَحَرَّمَ مَا أَحَلَّ اللّٰہُ .
(تاریخ بغداد : 13/426)
''ہمیں محمد بن عبیداللہ حنائی نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں محمد بن عبد اللہ شافعی نے خبر دی، انہوں نے کہا : ہمیں محمدبن اسماعیل سلمی نے بیان کیا ، وہ بیان کرتے ہیں : ہمیں ابوتوبہ ربیع بن نافع نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے یہ بات بتائی کہ: جو شخص امام ابوحنیفہ کی کتاب الحیل کا مطالعہ کرے گا ، وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کوحلال کہنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے لگے گا۔''
اس روایت کی سند کے راویوں کے بارے میں ملاحظہ فرمائیے !
1
امام ابوبکر احمد بن علی، المعروف خطیب بغدادی رحمہ اللہ ثقہ
امام ہیں۔ان کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ یوں رقمطراز ہیں : أَحَدُ الْحُفَّاظِ الْـأَعْلَامِ، وَمَنْ خَتَمَ بَہِ اتْقَانُ ہٰذَا الشَّأْنِ، وَصَاحِبُ التَّصَانِیفِ الْمُنْتَشِرَۃِ فِي الْبُلْدَانِ .
''آپ رحمہ اللہ ان علمائے کرام میں سے تھے جو حافظ الحدیث اور علامہ تھے۔ان پر علم کی پختگی ختم ہو گئی۔آپ کی بہت ساری تصانیف ہیں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔''
(تاریخ الإسلام للذہبي : 10/175)
2
محمد بن عبیداللہ بن یوسف حنائی کے بارے میں امام خطیب فرماتے ہیں
کَتَبْنَا عَنْہُ، وَکَانَ ثِقَۃً مَّأْمُونًا، زَاہِدًا، مُلَازِمًا لِّبَیْتِہٖ
ہم نے ان سے احادیث لکھی ہیں۔ وہ ثقہ مامون ، عابد و زاہد تھے اور اپنے گھر میں ہی مقیم رہتے تھے۔
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 3/336)
3
امام ابوبکر محمد بن عبد اللہ بن ابراہیم شافعی کے بارے میں ناقد رجال حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اَلْإِمَامُ، الْمُحَدِّثُ، الْمُتْقِنُ، الْحُجَّۃُ، الْفَقِیہُ، مُسْنِدُ الْعِرَاقِ . ''آپ امام ، محدث، راسخ فی العلم ، حجت ، فقیہ اور عراق کے محدث تھے۔''
(سیر أعلام النبلاء للذہبي : 16/40,39)
4
محمد بن اسماعیل سلمی ثقہ حافظ ہیں۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 5738)
5
ابو توبہ ربیع بن نافع ثقہ حجت ہیں۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 1902)
6
امام عبد اللہ بن مبارک ثقہ ، ثبت ، فقیہ ، عالم ، جواد اور مجاہد ہیں۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 3570)



لنک
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کاش کوئی سچا حنفی یہاں بھی جواب دیتا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اچھا ایک امتی نے ابوحنیفہ کے قول کو چھوڑنے والے پر لعنت کی تو حنفی اس لعنت کے خوف سے چمٹے ہوئے ہیں، حالانکہ وہ امتی ہیں۔

جبکہ قرآن مجید جو سب سے زیادہ سچی کتاب ہے اس میں شریعت کی مخالفت کرنے والے کے لئے جہنم کے عذاب کی وعید ہے۔ وہاں ڈر نہیں لگتا؟

اشماریہ
محمد یوسف
 
شمولیت
نومبر 14، 2013
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
43
ایک جگہ یہ مضمون دیکھاتو مطالعہ کے لئے پیش کررہاہو ں
عن أمّ سلمة رضي اللہ عنھا عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: خیر مساجد النساء قعر بیوتھن(رواہ أحمد وبیہقي وکذا في کنز العمال) ترجمہ: حضرت ام سلمہ -رضی اللہ عنہا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کی کوٹھریوں کا اندرونی مکان ہے۔
عن أم حمید امرأة أبي حمید الساعدي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال لھا: قد علمتُ أنّکِ تحبّین الصلاة معي، وصلاتُکِ في بیتکِ خیر من صلاتِکِ في حجرتِکِ، وصلاتُکِ في حجرتکِ خیر من صلاتِکِ في دارکِ، وصلاتکِ في دارکِ خیر من صلاتکِ في مسجد قومکِ، وصلاتکِ في مسجد قومِکِ خیر من صلاتکِ في مسجدي (رواہ الإمام أحمد وابن حبان، کذا في کنز العمال)
ترجمہ: ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حمید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ: میں جانتا ہوں کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو، مگر تمہاری وہ نماز جو گھر کی اندرونی کوٹھری میں ہو، وہ بیرونی کمرہ کی نماز سے بہتر ہے، اور بیرونی کمرہ کی نماز، گھر کے صحن کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے صحن کی نماز محلہ کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے، اور مسجد محلہ کی نماز میری مسجد کی نماز سے بہتر ہے۔
وأوردہ الھیثمي في مجمع الزوائد وزاد: فأمرتْ فبُنِيَ لھا مسجدٌ في أقصی بیت في بیتھا وأظلَمِہ فکانت تُصلي فیہ حتی لقیتْ اللّٰہَ عز وجل، قال الہیثمي: رجالہ رجال الصحیح غیر عبد اللہ بن سوید الأنصاري ووثقہ ابن حبان۔
ترجمہ: اوراس حدیث کو ہیثمی، مجمع الزوائد میں لائے ہیں، اوراس میں اتنی زیادتی ہے کہ ام حمید رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر اپنے گھروالوں کو حکم دیا، ان کے لیے ان کے گھر کی ایک اندرونی کوٹھری میں جو نہایت تاریکی میں تھی، نماز کی جگہ بنادی گئی، اور یہ اس میں نماز پڑھتی رہیں، یہاں تک کہ خدا سے جاملیں۔ حافظ ہیثمی نے کہا کہ اس روایت کے راوی صحیح کے راوی ہیں، سوائے عبداللہ بن سوید انصاری کے اور ابن حبان نے ان کو معتبر بتایا ہے۔
عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلاة المرأة في بیتھا أفضلُ من صلاتھا في حجرتھا، وصلاتھا في مِخدعھا أفضل من صلاتھا فی بیتھا۔ (أبوداوٴد شریف) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کی نماز کوٹھری میں بیرونی کمرہ کی نماز سے بہتر ہے۔ اور کوٹھری کے اندر کی نماز، کوٹھری کی نماز سے بہتر ہے۔
وعنہ: ما صلت امرأة من صلاتہ أحب إلی اللہ من أشد مکان في بیتھا ظلمة (مجمع الزوائد) ترجمہ: اورابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورت کی کوئی نماز، خدا کو اس نماز سے زیادہ محبوب نہیں، جو اس کی تاریک تر کوٹھری میں ہو۔
عن أبي ہریرة -رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: لولا ما في البیوت من النساء والذریة، أقمت صلاة العشاء وأمرتُ فتیاني یحرقون ما في البیوت بالنار (رواہ أحمد، مشکاة) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے، تو میں نماز عشاء قائم کرتا، اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ گھروں میں آگ لگادیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: لو أدرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما أحدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بني اسرائیل۔ یعنی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حرکات کو دیکھتے جو آج کل کی عورتوں نے ایجاد کرلی ہیں تو ان کو مسجد میں جانے سے روک دیتے، جس طرح کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔
ان تمام حدیثوں سے صراحةً ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جماعتوں میں حاضر ہونا، محض رخصت واباحت کی بنا پر تھا، کسی تاکید یا فضیلت واستحباب کی بنا پر نہیں، اس رخصت واباحت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور ارشاد، ان کے لیے یہی تھا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں، اور اسی کی ترغیب دیتے تھے اور فضیلت بیان فرماتے تھے۔
حدیث نمبر 6 میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں کو جو جماعت عشاء میں حاضر نہ ہوتے تھے، آگ سے جلادینے کا ارادہ فرمایا مگر عورتوں، بچوں کا گھروں میں ہونا اس کی تکمیل سے مانع آیا، عورتوں کا اس حدیث میں ذکر فرمانا اس کی دلیل ہے کہ وہ جماعت میں حاضر ہونے کی مکلف نہ تھیں، اور جماعت ان کے ذمے موٴکد نہ تھی، ورنہ وہ بھی اسی جرم کی مجرم اوراسی سزا کی مستوجب ہوتیں۔ اور حدیث نمبر 4،3،2،1، میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کی کوٹھری کے اندر کی نماز، دالان کی نماز سے افضل او ردالان کی نماز، صحن کی نماز سے افضل اور صحن کی نماز محلہ کی نماز سے افضل ہے، پس اس میں کیا شبہ رہا کہ عورتوں کو جماعت میں اورمسجد نبوی میں حاضر ہونا کسی استحباب وفضیلت کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ محض مباح تھا۔ پس کس قدر افسوس ہے ان لوگوں کے حال پر جو عورتوں کو مسجد میں بلاتے اورجماعتوں میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں، اورغضب یہ کہ اسے سنت بتاتے ہیں اوراپنے اس فعل کو احیائے سنت سمجھتے ہیں۔ اگر عورتوں کے لیے جماعتوں میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد کی نماز سے مسجد محلہ کی نماز کو اور مسجد محلہ کی نماز سے گھر کی نماز کو افضل کیوں فرماتے۔ کیوں کہ اس صورت میں گھر میں تنہا نماز پڑھنا عورتوں کے لیے ترک سنت ہوتا تو کیا ترک سنت میں ثواب زیادہ تھا، اور سنت پر عمل کرنے میں ثواب کم؟ اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب دے کر گویا ترک سنت کی ترغیب دیتے تھے؟ شاید یہ لوگ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ سے زیادہ بزرگ اور اپنی مسجدوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد شریف سے افضل سمجھتے ہیں۔ جن حدیثوں میں خاوندوں کو عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کی ممانعت ہے، ان حدیثوں سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کو مسجد میں جانا، مستحب یا سنت موٴکدہ ہے، عورتوں کو چونکہ آپ کے زمانہ میں مسجدوں میں جانا مباح تھا، تو اس اباحت ورخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق انھیں حاصل تھا؛ اس لیے مردوں کو ان کے روکنے سے منع فرمایا کہ ان کا یہ حق زائل نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس وقت عورتوں کے مسجد میں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ عورتوں کو تعلیم کی بہت حاجت تھی، اور اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ مسجد میں حاضر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال نماز کو دیکھیں اور سیکھیں۔ کوئی بات پوچھنی ہو تو خود پوچھ لیں۔ تیسرے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک زمانہ فتنہ وفساد سے مامون تھا۔ وغیرہ وغیرہ
پس ان حدیثوں سے عورتوں کے لیے جماعتوں کی حاضری کا سنت یا مستحب ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کتاب الحیل کیا ابو حنیفہؒ سے ثابت بهی ہے؟ نہ تو کتابوں میں اس کا ذکر آتا ہے اور نہ ابو حنیفہؒ کے عام اصحاب اس کا ذکر کرتے ہیں۔ جبکہ خطیب اس کے بارے میں عبد اللہ بن مبارکؒ سے یہ روایت نقل کر رہے ہیں۔
یہ کون سے ابو حنیفہ ہیں جن کے شاگردوں میں سے صرف عبد اللہ بن مبارکؒ کو یہ کتاب پتا چلی اور اس پر فرماتے ہیں کہ جو اس سے فتوی دے اس کا حج باطل بیوی حرام۔
اگر ایسی ہی خفیہ کتاب تھی تو کسی کے گھر میں کیسے ہو سکتی ہے؟
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
آہ جناب یوسف دلائل دیتے وقت دوسری احادیث کو بالکل نظر انداز کر گئے
 
Top