کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
عہدِ نبوت میں اقلیتوں کے حقوق
روزنامہ پاکستان، 16 جنوری 2016کالم: سید طاہر حسن زیدی یوسفی
ﷲ تبارک و تعالیٰ کا پسندیدہ دین دین اسلام ہے جو معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل یا کسی بھی مذہب سے ہو جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت فراہم کرتا ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں تمام غیر مسلم اقلیتوں، ذمیوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی ذمہ داری بالعموم تمام مسلمانوں پہ اور بالخصوص اسلامی حکومت پہ فرض ہے ۔ ذمی سے مراد وہ غیر مسلم طبقہ ہے جس نے اسلامی مقبوضہ علاقہ جات میں جزیہ کے عوض امان پائی ہو دورِ حاضر میں جزیہ کی جدید صورت ٹیکس ہے جو کہ حکومتِ وقت کو ادا کیا جاتا ہے۔
’’بخاری شریف‘‘ کی روایت ہے کہ حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں پوری نسل انسانی کو عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
’’بے شک تمھارے خون ، تمھارے مال اور تمھاری عزتیں تم پہ اسی طرح حرام ہیں جیسے تمھارے اس دن کی حرمت تمھارے اس مہینے اوراس شہر میں ہے یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے ‘‘
اسی ضمن میں ’’سورۃ المائدہ‘‘ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین کے قتل کر دیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا‘‘
’’سنن دارمی شریف‘‘ میں
حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب یہ شخص (عبدﷲ بن نواحہ) اور ایک آدمی مسیلمہ (کذاب) کی طرف سے سفارت کار بن کر آئے تو حضور سیدِ عالم خاتم الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو میں ﷲ تعالیٰ کا رسول ہوں۔
انہوں نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ (کذاب) ﷲ کا رسول ہے (معاذ ﷲ ثم معاذ ﷲ۔ نقل کفر کفر ناباشد)۔
حضور خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پہ ایمان رکھتا ہوں اگر میں سفارت کاروں کو قتل کرنے والا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا‘‘
امام احمد بن حنبل نوّر ﷲ مرقدہُ نے نقل کیا اورنسائی شریف میں روایت ہے حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ نے فرمایا
’’اس عمل سے سنت جاری ہو گئی کہ سفارت کاروں کو قتل نہ کیا جائے‘‘
اسی طرح ایک اور جگہ امام احمد بن حنبل رضی ﷲ عنہ حضرت سیدنا عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت سے نقل فرماتے ہیں کہ
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے لشکروں کو روانہ فرماتے تو حکم فرماتے غداری نہ کرنا، دھوکا نہ دینا، نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا، بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا‘‘
اس حدیث مبارکہ سے واضح طور پہ سمجھا جا سکتا ہے کہ حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں اقلیتوں کے حقوق کا کس قدر خیال رکھا جاتا تھا ۔
’’ابن قدامہ اور المغنی‘‘ نے نقل کیا کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا
’’غیر مسلم شہری جزیہ یعنی ٹیکس اس لیے ادا کرتے ہیں کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے اموال کی طرح محفوظ ہو جائیں‘‘۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے اس کے ظلم کا بدلہ کسی اور سے نہیں لیا جا سکتا مثلاً اگر کوئی غیر مسلم کسی بھی انداز میں قرآنِ کریم فرقانِ حمید یا حضور خاتم الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بے مثل وبے مثال و بے مثیل وبے عیب و بے نظیر میں بے ادبی کا مرتکب ہوتا ہے توقرآن و حدیث کی روشنی میں اسی کو سزا دی جائے گی اور قتل کیا جائے گا نہ کہ تمام غیر مسلموں کو اس بد اصل کے جرم میں شریک سمجھا جائے گا۔
حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین تربیت کا اثر ہمیں دورِ صدیقی میں اور پھر اپنے پورے عروج پہ دورِ فاروقی میں نظر آتا ہے چنانچہ حضرت امیر المومنین عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ نے اقلیتوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے جو احکامات جاری فرمائے ان میں سے چیدہ چیدہ پیش خدمت ہیں۔
وہ یہ کہ اگر کسی مسلمان نے کسی ذمی کو ناحق قتل کیا تو فوراً اس کا قصاص یا مقتول کے ورثاء کی رضامندی سے خون بہاء دلوایا جائے۔
ہر صلح نامہ میں جو رعایتیں طے پائیں ان کا پاس رکھا جائے۔
ذمی کی ملکیت کو غصب نہیں کیا جائے۔
ذمی سے کبھی کوئی نیاء ٹیکس وصول نہ کیا جائے۔
تمام شہری مراعات سے ذمی بھی فائدہ حاصل کریں گے۔
ذمیوں سے مال گزاری اور مالیہ کی وصولی میں نرمی کی جائے۔
ملکی معاملات میں اقلیتوں کے سمجھ دار افراد سے مشورہ کیا جائے۔
اس کے علاوہ حضرت امیر المومنین عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ نے اس بات کا سختی سے حکم جاری کر رکھا تھا کہ غیر مسلم اقلیتوں کی عبادت گاہوں میں بے جا مداخلت نہیں کی جائے گی۔
ان کی مذہبی رسومات میں مسلمان مداخلت نہیں کریں گے۔
اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہو گی کسی کو جبراً مسلمان نہیں کیا جائے گا۔
بیت المال میں معذور، نادار، ضعیف اور دیگر مستحق ذمیوں کا حق مسلمانوں کے برابر ہو گا۔
اور بڑی بات یہ تھی کہ جزیہ بھی صرف عاقل، بالغ اور صحت مند افراد سے وصول کیا جاتا ، عورتیں، بچے ، معذور، نادار، اور راہب حضرات جزیہ کی ادائیگی سے مستثنیٰ تھے حالانکہ جزیہ کی رقم فی کس بہت معمولی ہوتی تھی۔
قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ کرام رضوان ﷲ علیہم اجمعین کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کس احسن انداز میں اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے اور انہیں ایک مسلم معاشرے میں کتنی آزادی فراہم کرتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ ہمیں بھی قرآن و حدیث کا مطالعہ کر کے دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ طہارت کی حالت میں باالخیر و بالایمان فرمائے ۔ آمین بجاہِ نبی وَ آلہٖ وَ اصحابہٖ الکریم۔